Wednesday, April 13, 2022

ادھوری محبت

 




ادھوری محبت
سب سے پہلے تو آپ مجھ سے مل لیں۔
میرا نام وقاص ہے۔ شکل سے خوبصورت اور قد کاٹھ درمیانہ ہے۔ میں کراچی کا رہائشی ہوں۔


ہماری گلی میں ایک آنٹی ہوا کرتی تھیں۔ جن کا نام کنول تھا ۔
کنول آنٹی ویسے تو شادی شدہ اور بچوں والی عورت تھیں۔لیکن خوبصوتی میں اُن کے آگے جوان لڑکی بھی پھیکی پر جائے۔
آنٹی کا جسم بلکل کسی جوان لڑکی کی طرح کا تھا۔کوئی بھی انکو دیکھے تو دھوکہ کہا جائے کہ یہ عورت شادی شدہ ہے۔
کنول آنٹی کے تین بچے تھے اور تینوں بیٹیاں۔ آنٹی کے شوہر فیکٹری میں ملازم تھے۔ کنول آنٹی کے بہنوئی رحمت بھی ہماری ہی گلی میں رہتے تھے کرائے کے گھر میں۔
آنٹی کا ہمارے گھر اور ہمارا آنٹی کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔
مجھے آنٹی اتنی اچھی لگتی تھیں کے میں اپنے گھر سے زیادہ وقت اُن کے گھر میں گزارتا تھا۔
آنٹی بھی مُجھسے بہت پیار کرتی تھیں۔میں آنٹی کے گھر کے چھوٹے موٹے کام جیسے بازار سے سامان لے انا۔ٹینکی کی صفائی کر دینا وغیرہ کر دیا کرتا تھا۔
آنٹی k بہنوئی بھی اپنے بیوی بچوں کو گھر میں چھوڑ کر اکثر آنٹی کے گھر ہے ہوتے تھے۔ کبھی لڈو تو کبھی شطرنج کھیلتے رہتے تھے۔ میں جب جاتا تو میں بھی کھیل میں شامل ہو جاتا۔ رحمت انکل کو میں رحمت بھائی کہتا تھا حالانکہ ہماری عمروں میں اچھا خاصا فرق تھا۔وجہ یہ تھی k رحمت انکل بہت فرینک تھے کسی بھی بات کا بڑا نہیں مانتے تھے اور سیکس کے حوالے سے بھی بات چیت کرتے تھے۔
مجھے آنٹی بہت پسند تھیں اور میں انہیں چودنا چاہتا تھا۔
لیکن ڈر بھی لگتا تھا کہ اگر آنٹی برا مان گئیں اور میرے گھر میں بتا دیا تو میرے ابو مجھے جان سے مار دینگے۔
ایک دن آنٹی کی چھوٹی بیٹی کے ساتھ کھیل رہا تھا اور اسے گُدگُدی کر رہا تھا کہ وہ بھاگ کر آنٹی کے پاس چھپ گئی میں بھی بھاگ کے آنٹی کے پاس گیا اور اس کی پکڑنے لگا کے میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا اور میں نے جان بوجھ کے آنٹی کی بیٹی کے ہاتھ کے بجائے اونٹنی کا دایاں تھن پکڑ لیا اور زور سے دبا کے چھوڑ دیا۔ اور ایسا بن گیا کے یہ غلطی سے ہوا ہے۔
آنٹی نے مجھے گھور کر دیکھا تو میں نے نظریں نیچے کر لیں۔ اور پھر گھر آ گیا۔
ایک دن میں اسکول سے آ کے اپنے معمول k مطابق آنٹی کے گھر پہنچا اور دروازے پر دستک دی تو میں عادت کے مطابق دروازے کی جھرری سے اندر جھانکنے لگا۔اور مجھے یہ دیکھ کر ایک جھٹکا سا لگا کے رحمت اُنکل اپنی شلوار کا ناڑا باندھتے ہوئے دروازہ کھولنے کا رہے تھے۔
پھر انکل نے دروازہ کھولا اور میں اندر گیا تو گھر میں انکل اور آنٹی کے علاوہ کوئی نہیں تھا یعنی آنٹی کی بیٹیاں کہیں گئی ہوئی تھیں۔اب میں اتنا بچہ بھی نہیں تھا جو یہ نہ سمجھ سکوں کہ میرے آنے سے پہلے یہاں کیا چل رہا تھا۔
خیر میں نے یہ بات اپنے تک ہی رکھی اور انکل اور آنٹی پر کچھ بھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔
کچھ دیں ایسے ہی گذرے اور رحمت انکل نے اپنا گھر تبدیل کر لیا اور ہمارے علاقے سے دور چلے گئے۔
انکل کو گئے ابھی دو ہی دن ہوئے تھے کے میں اسی طرح آنٹی کے گھر میں بیٹھا آنٹی کے ساتھ لڈو کھیل رہا تھا۔آنٹی کی بیٹیاں میرے گھر پر تھیں۔
میں: آنٹی ایک بات کہوں؟
آنٹی: ہاں بول
میں: رہنے دیں آپ برا ماں جائینگی
آنٹی: ارے آج تک تیری کسی بات کا برا مانا ہے میں نے؟
میں: آنٹی آپ رحمت انکل کے ساتھ اکیلے میں کیا کرتی تھیں؟
آنٹی کے چہرے کا رنگ اچانک سے اُڈ گیا۔
آنٹی:کیا مطلب؟
میں: مُجھے سب پتہ ہے آنٹی،آپ فکر نہ کریں میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤنگا۔
آنٹی کچھ دیر کے لیے چپ ہو گئیں۔
آنٹی: وعدہ کر کے کسی کو نہیں بتائیگا۔
میں: پکہ وعدہ آنٹی۔
آنٹی نے میرے گال پر ایک کس کی۔
آنٹی: لیکن تُجھے پتہ کیسے چلا؟
میں نے آنٹی کو چند دیں پہلے کی ساری بات بتا دی۔
آنٹی: یار یہ رحمت بھی چُوتیہ ہے ایک نمبر کا۔
میں: آنٹی ایک اور بات پوچھوں؟
انٹی: ہاں وہ بھی پوچھ لے۔
میں: اونٹنی آپ نے ایسا کام کیوں کیا؟
آنٹی: تُجھے تو پتہ ہے تیرے انکل کا صبح سویرے كام پر جاتے ہے تو رات کو دیر سے آتے ہیں۔ اور تھکن کی وجہ سے آتے ہی سو جاتے ہیں۔
میں: تو آنٹی اب آپ کیا کرینگی؟ اب تو رحمت انکل بھی چلے گئے۔
آنٹی: کرینگے کچھ یہ ایسے ہی رہ لینگے۔
میرا دل کر رہا تھا کہ کاش آنٹی مجھے کہہ دیں کہ اب سے تو مجھے چود لیا کرنا۔لیکن آنٹی نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
میں بھجی دِل کا ساتھ اپنے گھر واپس آ گیا .
لیکن میرے ذہن میں بس یہی چل رہا تھا کے کیسے آنٹی کو اپنے ساتھ سیکس کے لیے رضی کروں .
اگلے دن پِھر میں آنٹی کے گھر لڈو کھیل رہا تھا کے آنٹی جیت گئیں اور مجھے کہنے لگیں .
آنٹی : تو مجھ سے کبھی نہیں جیت سکتا ، تو ابھی بچہ ہے .
میں : آپ شرط لگائیں پِھر دیکھیں کے آپکو کیسے ہراتا ہوں .
آنٹی : تو پِھر بھی نہیں جیت سکتا
میں : تو پِھر لگا لیں شرط
آنٹی : ٹھیک ہے لیکن شرط کس چیز کی ؟
میں : ( کچھ سوچتے ہوئے ) ابھی تو کچھ ذہن میں نہیں آ رہا ، ایسا کرتے ہیں کے جیتنے والا ہارنے والے سے کوئی بھی بات منوا سکتا ہے
آنٹی نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور کچھ سوچتے ہوئے بولیں کے ٹھیک ہے .
اس کے بعد ہمارا گیم شروع ہوا اور میں نے اپنی پوری گانڈ کا زور لگا دیا جیتنے کے لیے اور بالآخر جیت ہی گیا .
جیتنے کا بعد میں نے آنٹی کو کہا کے اب میری شرط پوری کریں میں جیت گیا ہوں .
آنٹی : ہاں بول کیا بات منوانی ہے تجھے .
پہلے تو میں نے سوچا کے سیدھا بول دوں کے چوت چاہیے آپکی لیکن تھا تو میں بچہ ہی گانڈ میں اتنا دو نہیں تھا اس وقت .
اِس لیے سوچا کے پہلے چیک کروں کے لائن کلیئر ہے کے نہیں
کسی ماہان آدمی نے کہا ہے کے شروعات ہمیشہ چھوٹی کرو اور خواب بڑے رکھو
میں نے یہی سوچتے ہوئے اک فیصلہ کیا اور آنٹی کو کہا
میں : آنٹی مجھے آپ سے اک کس چائیے
اور سیدھا آنٹی کے چہرے کو دیکھا تو نا مجھے آنٹی کے چہرے پر حیرانی نظر آئی اور نا ہی غصہ بلکہ آنٹی نے اک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ میرے گال پر ہلکا تھپڑ لگایا اور کہا کے
آنٹی : بہت شیطان ہو گیا ہے تو ، اب مذاق چھوڑ اور بتا کیا چاہیے
میں : ( ڈرتے ہوئے ) آنٹی ابھی تو بتایا ، میں مذاق نہیں کر رہا
آنٹی : چل نکل یہاں سے میں کوئی کس نہیں دونگی تجھے
آنٹی کے چہرے پر ذرا بھی غصہ نہیں تھا جس سے میری ہمت اور بڑھ رہی تھی
میں : لیکن آنٹی یہ غلط بات ہے آپ شرط ہاری ہیں
آنٹی : اچھا ٹھیک ہے لیکن گال پر
میں نے سوچا کے اگر ابھی ہمت نہیں کی تو کبھی نہیں کر پاؤنگا .
میں : نہیں مجھے آپ کے ہونٹوں پر کس چاہیے
آنٹی نے 2 سیکنڈ کے لیے مجھے دیکھا اور کہا
آنٹی : اچھا اپنی آنکھیں بند کر
میرا تو دِل خوشی سے ناچنے لگا کے آنٹی کس کے لیے مان گئیں
میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لین .
کچھ دیر کے انتظار کے بعد مجھے اپنے ہونٹوں پر کچھ محسوس ہوا اور فوراً ہی واپس ہٹ گیا .
یہ کس شاید دُنیا کی سب سے چھوٹی کس تھی جو اک سیکنڈ کے ہزار حصوں میں سے کسی اک حصے میں ہوئی تھی
آنٹی : اب خوش ؟
میں : آپ اسے کس کہتی ہیں ؟
آنٹی : تو ؟
میں : اپنے شوہر کو بھی ایسی ہی کس کرتی ہیں کیا ؟
آنٹی : بس اب . . تجھے کس چاہیے تھی میں نے دے دی


میں : یہ کس نہیں تھی یہ تو کس کے نام پر دھبہ تھا
آنٹی میری بات سن کر ہنسنے لگیں .
مجھ میں پتہ نہیں کہاں سے ہمت آئی اور میں نے آنٹی کو ہنستے ہوئے دیکھا تو لائن کلیئر سمجھ کر آنٹی کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ ڈائی .
آنٹی کو میرے اِس حملے پر ذرا بھی بچنے کا موقع نہیں ملا اور جب تک ان کو سمجھ آیا کے کیا ہوا ہے میں آنٹی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے چکا تھا
آنٹی نے اپنے دونوں ہاتھ میرے سینے پر رکھے اور مجھے خود سے دور کرنے لگیں
میں نے پِھر پورا زور لگا کے آنٹی کے سر کو پکڑ کے رکھا اور کس جاری رکھی . آنٹی کا نیچے والا ہونٹ میرے ہونٹوں میں تھا اور میں مستقل اپنی زبان کو آنٹی کے منہ میں ڈال نے کی کوشش کر رہا تھا لیکن آنٹی نے اپنے دانتوں کو مضبوطی سے بند کیا ہوا تھا .
کچھ دیر تک یہی کھیل جاری رہی رہا .
آنٹی مجھ سے الگ ہونے کی کوشش میں لگی رہیں اور میں آنٹی کے نیچے والے ہونٹ کو چوسنے میں لگا رہا
اور پِھر جب آنٹی نے دیکھا کے اب کوئی رستہ نہیں تو انہوں نے بھی میرا ساتھ دینا شروع کر دیا اور اپنا منہ کھول کے میری زبان کو اندر جانے کا موقع دے دیا
اب ہماری کس زور و شور سے جاری تھی
کچھ دیر ایسی ہی کس کے بعد ہم دونوں کی سانس پھولنے لگی اور ہم سانس لینے کے لیے الگ ہو گئے
میں نے آنٹی کی چیریی کو دیکھا تو شرم سے سرخ ہو رہا تھا
جب مجھے اپنی سانس بحال ہوتی محسوس ہوئی تو میں نے پِھر سے آنٹی کو پکڑا پِھر سے کس شروع کر دی اور کس شروع کرتے ہی اپنی زبان اپنی کے منہ میں ڈال دی
اِس بار آنٹی نے کسی قسم کی مخالفت نہیں کی اور اپنی زبان کو میری زبان سے گھیسنے لگیں
میں نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے اپنا سیدھا ہاتھ آنٹی کے اک ممے پر رکھ دیا
اور قمیض اور بریزر کے اوپر سی ہی دبانے لگا
آنٹی نے پِھر کوئی مخالفت نہیں کی
یہ دیکھتے ہوئے میں نے کچھ کے بعد اپنا اُلٹا ہاتھ آنٹی کی قمیض اور شلوار کے اوپر سے انکی گند پر رکھ دیا
آنٹی نے پِھر کسی بات پر دھیان نا دیتے ہوئے کس جاری رکھی اور میں نے اب آنٹی کی گانڈ کو دھیرے دھیرے دبانا شروع کر دیا


یہ میرا پہلا سیکس ایکسپیرینس تھا
اِس لیے اب مجھ سے اور زیادہ صبر نہیں ہو رہا تھا
اور آگے بڑھتے ہوئے دَر بھی لگ رہا تھا کے کہیں سارا کام ہی نا بگڑ جائے
میرا لنڈ کسی روڈ کی طرح کھڑا تھا
اور آنٹی کی ٹانگوں کے بیچ پھنسا ہوا تھا
میں نے اب اپنے لنڈ کو آنٹی کی ٹانگوں کے بیچ سے آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا
آنٹی اب اپنی ٹانگوں کو کبھی ڈھیلا چھوڑ دیتیں اور کبھی ٹائیٹ کر لیتین
اب بار میرے برداشت سے باہر ہو گئی تھی
لنڈ کی حالت ایسی تھی کے اگر مجھے کوئی دیوار ملتی تو اس میں بھی سوراخ کر دیتا
میں نے اپنے ہاتھ آنٹی کے مموں اور گند سے ھٹائے اور آنٹی کی قمیض کے اندر ڈال دیئے
اور آنٹی کے پیٹ پر تھوڑی دیر ہاتھ پھیرنے کے بعد اک ہاتھ مموں پر لے گیا جہاں آنٹی کے برا میں قید ممے میرے ہاتھوں کا انتظار کر رہے تھے اور اک آنٹی کی لاسٹک والی شلوار کے اندر ڈال دیا اور دھیرے دھیرے نیچے کرنے لگا
شلوار میں ہاتھ ڈالتے ہی میری انگلیاں آنٹی کے چھوٹے چھوٹے بالوں سے ٹکرائیں
میں نے کچھ دیر بالوں پر ہاتھ پھیرنے کے بعد ہاتھوں کو مزید نیچے آنٹی کی چوت کے پاس لے گیا
جب میں نے آنٹی کی چوت پر ہاتھ رکھا تو کچھ گیلا محسوس ہوا
مجھے اس وقت یہ نہیں پتہ تھا کے لڑکی جب گرم ہوتی ہے تو اس کی چوت سے پانی نکلتا ہے
اِس لیے مجھے لگا کے آنٹی کا شاید پیشاب نکل گیا ہے
خیر میں نے اِس بات پر زیادہ دھیان نہیں دیا اور تھوڑی دیر آنٹی کی چوت کو نرم ہاتھوں سے مساج کرنے کے بعد آنٹی کی شلوار نیچے کر دی
آنٹی کی لاسٹک والی شلوار ان کے گھٹنوں تک آ گئی
آنٹی نے اِس بار بھی کوئی مزاحمت نہیں کی
بلکہ اُلٹا اپنے ہاتھوں سے میری شلوار کا زارباند کھول نے لگیں
آنٹی کی اِس حرکت کو دیکھ کر اب میرا سارا دَر ختم ہو گیا تھا
میں نے آنٹی کی قمیض کو اتارنے کے لیے اوپر کیا تو آنٹی نے بھی ہاتھ اوپر اٹھا ڈائی
ابھی میں آنٹی کی قمیض اوپر کر ہی رہا تھا کے آنٹی کے گھر کے دروازے پر کسی نے دستک دی
آنٹی نے فوراً اپنے ہاتھ نیچے کیے اور اپنی شلوار کھینچ کر اوپر کر لی
میں نے بھی فوراً اپنے کپڑے ٹھیک کیے اور اپنی قسمت کو گلیاں دیتا ہوا دروازے کے پاس چلا گیا
جب دروازہ کھولا تو آنٹی کی بڑی بیٹی تھی جو میرے گھر سے اپنے گھر آئی تھی
جب وہ اندر آ گئی تو میں اس کے ساتھ اندر جانے کے بجائے سیدھا اپنے گھر چلا
لنڈ تو میرا پہلے ہی مُرجھا چکا تھا لیکن چین اب بھی کسی کروٹ نہیں مل رہا تھا
میں نے گھر جاتے ہی باتھ روم میں جا کر مٹھ ماری
مٹھ مرنے کے بعد کچھ سکون ہوا تو میں آج کی ادھوری چدائی کے بڑے میں سوچنے لگا اور کل کے بارے میں پلان بنانے لگا
اب مجھے کل ہر حال میں آنٹی کو چھوڑنا تھا
میں سونے کے لیا لیتا لیکن نیند آنے کا نام ہی کہاں لے
بار بار ذہن میں آنٹی کو کس اور ان کے ساتھ ہوئی ادھوری چدائی کے خیالات ذہن آ رہے تھے
خیر کسی طرح سے رات کٹی
اور اب اگلے دن میرا پِھر سے آنٹی کے گھر جانے کا وقت آ ہی گیا
کل کی نسبت آج میری زیادہ گند پھٹ رہی تھی کے آنٹی پتہ نہیں کیا بولیں کل جو ہوا اس کا بارے میں
اک طرف سے یہ تسلّی بھی تھی کے آنٹی کل خود بھی تو میرا ساتھ دے رہی تھیں
لیکن جب دِل میں چور ہو تو دَر تو لگتا ہی ہے
میں ان ہی سوچوں کے ساتھ آنٹی کے گھر پوحچا اور دروازے پر دستک دی
آنٹی نے فوراً ہی دروازہ کھول دیا
اور مجھے دیکھ کر دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر چلی گئیں
آنٹی کے چہرے پر ہمیشہ اک پیاری سی مسکراہٹ رہتی تھی جو آج غائب تھی
میں بھی اندر چلا گیا اور جاتے وقت دروازہ بند کر دیا
جب آنٹی کے کمرے میں پہنچا تو آنٹی اپنے بیڈ پر لیتی ہوئی تھیں
میں بیڈ پر آنٹی کے پاس ہی بیٹھ گیا
اور سوچنے لگا کے کیا بولوں
ابھی میں کچھ بولنے ہی والا تھا کے آنٹی اچانک سے اٹھیں اور اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے سَر کو پکڑ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ ڈائی
اور میرے نیچلے ہونٹ کو چوسنا شروع کر دیا
مجھے بھی اب سمجھ آ گیا تھا کے لائن کلیئر ہے اور میں کل کی طرح دیر نہیں کرنا چاہتا تھا اِس لیے میں نے فوراً آنٹی کی شلوار میں ہاتھ ڈالا اور آنٹی کی چوت کو زور زور سے اپنی انگلیوں سے مسلنے لگا
آنٹی کی چوت آج بھی پانی چور رہی تھی اور میں آج بھی یہی سمجھ رہا تھا کے آنٹی کا پیشاب نکل گیا ہے
میں نے اب دیر نا کرتے ہوئے آنٹی کی شلوار نیچے کر دی اور آنٹی نے اپنی ٹانگوں کو اٹھتے ہوئے اک اک کر کے اپنے دونوں پاؤں شلوار سے نکل ڈائی میں نے آنٹی کی قمیض کو اٹھایا تو آنٹی نے ہاتھ اوپر اٹھا ڈائی اور میں نے آنٹی کی قمیض بھی ان کا جسم سے الگ کر دی
اب آنٹی صرف برا میں میرے سامنے کھڑی تھیں
کل کی نسبت آج آنٹی کی چوت پر اک بھی بال نہیں تھا
میں نے آنٹی کے مموں کو آنٹی کے اسکن کلر کے برا کے اوپر سے کچھ دیر دبایا
اور پِھر برا بھی اُتَر دیا
آنٹی کے بارے بارے ممے بالکل ننگی حالت میں میرے سامنے تھے
جس عورت کو میں صرف خیالوں میں سوچ کر مٹھ مارا کرتا تھا آج میرے سامنے ننگی کھڑی تھی
آنٹی کے مموں پر لائٹ برائون کلر کے نپلز دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے فوراً آنٹی کا اک نپل منہ میں لیا اور دوسرا اک ہاتھ سے دابانے لگا
آنٹی پیار سے میرے سَر کے بالوں میں انگلیاں پھر رہی تھیں
آنٹی کے دونوں مموں سے انصاف کرنے کے بعد میں نے اپنے کپڑے اترے اور آنٹی کو بیڈ پر لٹا کر انکی ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا
اور اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے آنٹی کو چوت کے ہونٹوں کو کھول کر دیکھنے لگا
آنٹی آنکھیں بند کیے لیتی رہیں
میں نے چوت کے اندر دیکھا تو انکی ملائم سفید بے داغ چوت کے اندر لال رنگی کی اک جھلی نظر آئی اس کے اوپر اک دانہ جیسا کچھ تھا
میں نے دیر نا کرتے ہوئے اپنے لنڈ کو آنٹی کی چوت پر سیٹ کیا اور پوری جان سے دھکہ لگا دیا
آنٹی کے منہ سے اک زوردار آہ نکلی اور میں مزے کی انتہا تک پھنچ گیا
آنٹی کی چوت کافی گیلی تھی جس کی وجہ سے میرا پورا لنڈ اک ہی بار میں آنٹی کی چوت میں گھاس گیا تھا
اِس کے بعد میں نے بغیر رکے زور زور سے آنٹی کی چوت مارنی شروع کر دی اور اور آنٹی نے آہیں بھرنا شروع کر دن
مجھے اپنا لنڈ کسی گرم بھٹی میں محسوس ہو رہا تھا
میں بنا رکے آنٹی کی چوت مرتا رہا
لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے اپنی رانوں میں درد ہوتا محسوس ہوا
مستقل اک ہی پوزیشن سے چودتے ہوئے میری رانوں میں درد ہو گیا تھا
میں رک گیا تو آنٹی نے آنکھیں کھول کے میری طرف دیکھا اور سمجھ گئیں کے میں کیوں رکا ہواں
آنٹی فوراً اٹھیں اور میرے سامنے گھوڑی بن گئیں
میں نے بھی دیر نا کرتے ہوئے فوراً اپنا لنڈ آنٹی کی چوت میں ڈال دیا
اور چھوڑنا شروع کر دیا
اِس اسٹائل میں مجھے کچھ زیادہ ہی مزہ آ رہا تھا کیوں کے آنٹی کی چوت پہلے سے زیادہ ٹائیٹ لگ رہی تھی اور انکی گند کا سوراخ بھی میرے آنکھوں کے سامنے تھا
میں زیادہ دیر تک خود کو روک نہیں پایا اور آنٹی کے چوت میں فارغ ہو گیا
فارغ ہوتا ہی میں بیڈ پر لیٹ گیا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا
ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا ہو
آنٹی کی حالت بھی مجھ سے مختلف نہیں تھی
کچھ دیر یوں ہی لیتا رہنے کے بعد میں اپنے کپڑے پہن کر اپنے گھر چلا گیا
میں نے آنٹی کو چود دیا تھا اور اِس چُدائی کی دوران ہم دونوں نے کوئی بات نہیں کی تھی۔۔۔


جب میں گھر آیا تو دماغ میں زور زور سے گھانتیان بج رہی تھیں
کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا
آج تک جس چدائی کے بارے میں صرف سوچتا تھا ، وہ میں کر کے آ گیا تھا
بار بار آنٹی کی مست گول گول گانڈ اور آنٹی کی بالوں سے پاک چوت نظروں کے سامنے آ رہی تھی
یہی سوچتے ہوئے اک بار پِھر میرا لنڈ کھڑا ہو گیا
آج تو مٹھ مارنے کا بھی دِل نہیں کر رہا تھا
کیوں کے جب اک بار بریانی کا ذائقہ مل جائے تو ڈال روتی کس کو اچھی لگتی ہے
یہی سوچتے ہوئے ذہن میں خیال آیا کے کیوں نا دوبارہ آنٹی کے گھر جا کر اک بار پِھر ان کی چوت ماری جائے
لیکن پِھر ٹائم دیکھا تو خود اپنا اِرادَہ ترک کر دیا کیوں کے اب آنٹی کی بیتیان ان کے گھر پر ہونگی
خیر كھانا وغیرہ کھا کے کسی طرح میں سو گیا
اور صبح اسکول چلا گیا
اسکول سے واپس آ کر جلدی سے كھانا زہر مار کیا اور اور کپڑے بَدَل کر سیدھا آنٹی کے گھر پوچھ گیا
دروازے پر دستک دی تو آنٹی کی بھانجی نے دروازہ کھولا
جس سے مجھے پتہ چلا کے آنٹی کے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں
آنٹی کی بہن پاس کے ہی علاقے میں رہتی تھیں اور ماحینیی میں اک بار ان کے گھر ٹپک پڑتی تھیں
اور 2 3 دن رک کر واپس جاتی تھیں
میں دِل ہی دِل میں آنٹی کی بہن کو گالیاں دیتا ہوا گھر کی طرف واپس چل دیا
گھر آ کر اپنے پلنگ پر لیٹ گیا
حالت ایسی تھی کے سامنے اگر بکری بھی آجائے تو اسے بھی چھوڑ دوں
تھوڑی دیر ایسی ہی لیتا رہا پِھر اکتا کر اٹھ گیا اور گھر سے باہر نکل گیا
ابھی گلی میں ہی تھا کے مجھے مہوش باجی مسکراتی ہوئی اپنے دروازے پر کھڑی نظر آئیں
مہوش باجی کا گھر ہمارے برابر سے برابر والا تھا
مہوش باجی کو ملا کر ٹوٹل 3 بیحنین تھیں
سب سے بڑی مہرین
اس سے چھوٹی نوشین
اور سب سے چھوٹی مہوش
مہوش باجی کے ابو کی فیکٹری میں میلازیم تھے وہ صبح کام پر جاتے اور شام کو گھر آتے
مہوش باجی اور انکی دونوں بہنوں کی عمریں کافی زیادہ ہونے کے باوجود ان کی شادی نہیں ہو پا رہی تھی
ابھی حال ہی میں کسی طرح انکی سب سے بڑی بہن مہرین کی شادی ہوئی تھی
مہرین باجی تھوڑی غصے کی تیز ٹائپ کی تھیں
لیکن باقی دونوں بیحنین ان کی اُلٹ
بچہ ہونے کی وجہ سے میرا ان کے گھر بھی انا جانا لگا رہتا تھا
اکثر میری موجودگی میں نوشین اور مہوش دوپٹہ بھی نہیں لیتی تھیں
ان کے گھر بیٹھ کر میرا اچھا ٹائم پاس ہو جاتا تھا
نوشین یا مہوش دونوں میں سے جب بھی کوئی مجھ سے بات کرتی تو انکی بات دھیرے دھیرے اک ہی طرف آ جاتی جو کے یہ ہوتی کے فلاں کا فلاں کے ساتھ چکر چل رہا ہے
وہ دونوں ہی شادی نا ہونے کی وجہ سے اپنے اندر کے طوفان کو دبا کے بیٹھی تھیں
ایسا نہیں تھا کے وہ خوبصورت نہیں تھیں
خوسورتی میں تو ان دونوں بہنوں کا کوئی جواب نہیں تھا
لیکن انکی شادی میں دیر ہونے کی وجہ انکی بڑی بہن مہرین تھی جو شکل صورت بہت معمولی سی تھی رنگ صاف تھا لیکن کشش ذرا بھی نہیں تھی اور عمر کافی زیادہ تھی
جس کی وجہ سے جب بھی ان کے گھر رشتے والے آتے تو مہرین کے بجائے نوشین یا مہوش کو پسند کر کے چلے جاتے
ان کا امی ابو کی ضد تھی کے پہلے بڑی کی شادی ہوگی پِھر چھوٹی کی
جیسے تیسی کر ان کی شادی ہو گئی
جب مہرین باجی شادی ہو رہی تھی تو ان کے گھر کے کافی سارے کام میں کر دیا کرتا تھا
کیوں کے ان کا کوئی بھائی نہیں تھا
اکثر تینوں بہنوں میں سے کسی کو مارکیٹ لے جانا
یا مارکیٹ سے سامان لا کر دینا
انکل کے پاس اک بائیک تھی لیکن وہ اپنی فیکٹری کی بس سے کام پر جاتے تھے اِس لیے بائیک زیادہ تر گھر پر ہی رہتی تھی
اور اسی بائیک پر میں ان کے گھر کے کام کیا کرتا تھا
اکثر نوشین یا مہوش میرے ساتھ بائیک پر مارکیٹ جایا کرتی تھیں
میں اکثر نوٹ کرتا تھا کے نوشین بائیک پر بیٹھ کر مجھ سے دور ہو کر بیٹھی تھی لیکن جب ہم گھر سے دور نکل جاتے تو وہ مجھ سے چپک جاتی
اور اپنے بوبس میری پیٹھ پر دبا دیتی
اسی طرح اکثر جان بوجھ کر میں نوشین کی گند پر ہاتھ پھیر دیتا تھا اور انجان بن جاتا تھا
نوشین بھی اِس بات کا کوئی رد عمل نہیں دیتی تھی
جس دن مہرین باجی کی شادی کی تاریخ فکس ہوئی تھی اس دن نوشین نے مجھ سے کہا کے گلی میں سب کے گھر مٹھائی بانتنی ہے تم میرے ساتھ چلو
اور مجھے لے کر اک اک کر کے سب کے گھر مٹھائی دینے لگی
مجھے اسی طرح اک بات ذہن میں آئی اور جب بھی نوشین کسی کے گھر مٹھائی کے لیے دروازے پر دستک دے کر داوازا کھلنے کا انتظار کر رہی ہوتی تو میں اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیر دیتا
ہماری گلی ٹوٹل 13 یا 14 گھر تھے . ہر دروازے کے آگے جب نوشین داسکتاک دیتی تو جب تک دروازہ نہیں کھلتا میں اس کی گند پر ہاتھ پھایرتا رہتا
لیکن ہاتھ اتنا ہلکا رکھتا کے نوشین کو محسوس نا ہو کے میں ایسا جان بوجھ کے کر رہا ہوں بلکہ ایسا لگے کے قریب کھڑا ہونے کی وجہ سے میرے ہاتھ ٹچ ہو رہا ہے
یہ تو تھے مہوش کے گھر کا سابقہ احوال ، اب آج کے دن میں واپس آتے ہیں جب مہوش دروازے پر کھڑی مسکرا رہی ہے
میں اس پاس پوحچا اور سلام کیا تو اس نے جواب دے کر کہا کے کہاں جا رہا ہے ؟
میں : کہیں نہیں بس بور ہو رہا تھا تو سوچا کہیں باہر وقت ضائع کر لوں
مہوش : اچھا تو گھر میں آ ہم لوگ باتیں کرتے ہیں
میں : ٹھیک ہے
اور ان کے گھر میں چلا گیا
گھر میں جا کر پتہ چلا کے آنٹی مارکیٹ گئی ہوئی ہیں اور نوشین اور مہوش گھر میں اکیلی ہیں
میں نے اس وقت نیا چائنا کا موبائل لیا تھا جس پر میسیج کی ٹون باجی تو میں نے موبائل نکالا
میسیج تو سم کی کمپنی کی طرف سے تھا لیکن موبائل دیکھ کر مہوش بولی کے تو نے یہ موبائل کب لیا اور میرے ہاتھ سے موبائل لے کر دیکھنے لگی
اب میرے گانڈ پھٹنے لگی تھی کیوں کے میں نے 3 دن پہلے اپنا 2 گب کا میموری بلو فلموں سے بحاروایا تھا
مجھے دَر تھا کے مہوش نے اگر وہ فلم چلا دی تو پتہ نہیں کیا ہو گا


مہوش موبائل دیکھ ہی رہی تھی کے نوشین کچن سے نکل کر آ گئی اور مجھ سے باتیں کرنے لگی


نوشین سے باتوں کے دوران مجھے پتہ ہی نہیں چلا کے مہوش کب ہم سے تھوڑا دور جا کے دیوار سے ٹیک لگا کے ایسے بیٹھ گئی تھی کے اس کا چہرہ ہماری طرف تھا .


مہوش اب ہم سے دور جا کے میرا موبائل چلا رہی تھی اور نوشین مجھ سے باتیں کر رہی تھی .


نوشین سے باتوں کے دوران میرا ذہن بار بار مہوش کی طرف جا رہا تھا کے کہیں وہ بلو فلم نا دیکھ لے جو میرے موبائل کے میموری کارڈ میں ہیں


مہوش زمین پر بیٹھی ہوئی تھی اور اِس طرح بیٹھنے سے اس کی دونوں ٹانگین اور گانڈ زمین پر تھے لیکن ٹانگوں کے بیچ میں گیپ تھا جس اس کی شلوار کی رومالی والا حصہ صاف دِکھ رہا تھا کیوں کے اس کی قمیض اس کے گھٹنوں پر تھی .


مہوش نے اورنج کلر کی شلوار اور وائٹ کلر کی قمیض پہنی ہوئی تھی جس پر اورنج کلر کے خوبصورت پھول بنے ہوئے تھے .


ابھی میں نوشین سے باتیں ہی کر رہا تھا کے کچھ ایسا ہوا جس سے میرے ہوش ہی اڑ گئے


ہوا یہ کے نوشین سے باتیں کرنے کے دوران ہی جب میری نظر مہوش پر پری تو اسکی شلوار کا رومالی والا حصہ تھوڑا سا گیلا ہو رہا تھا


اب تک تو مجھے بھی سمجھ آ چکی تھی کے لڑکیوں کی چوت سے پانی آنے کا مطلب ہوتا ہے کے وہ کافی گرم ہو گئی ہے


اور یہ منظر دیکھتے ہی مجھے سمجھ آ گیا کے ضرور مہوش میرے موبائل میں بلو فلم دیکھ رہی ہے


یہ منظر دیکھ کر ڈر بھی لگا اور ساتھ ساتھ لنڈ نے بھی شلوار میں حرکت شروع کر دی


مہوش اِس بات سے بے خبر کے اس کی ساری پول کھل چکی ہے مزے سے بلو فلم دیکھنے میں مگن تھی


نوشین اِس وقت ایسی کھڑی تھی کے اس کا چہرہ میری طرف تھا اور پیٹھ مہوش کی طرف


اِس لیے اسے مہوش کی حرکت کا پتہ نہیں تھا


میری نظر بار بار مہوش کی طرف جا رہی تھی کبھی میں اس کے چہرے کو دیکھتا


اور کبھی اسکی رومالی کو جس کا گیلاپن اب دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا


اور میرا لنڈ اب شلوار کے اندر ہی جھٹکے مار رہا تھا


اورنج کلر کی باریک شلوار جیسے جیسے گیلی ہو رہی تھی ویسی ویسی مہوش کی چوت واضح ہو رہی تھی


ایسی میں میری نظر اسکی چوت پر ٹک گئی اور لاکھ کوشش کے بعد بھی میں اپنی نظر وہاں سے ہٹا نہیں سکا اور شاید یہی میری غلطی تھی نوشین نے باتیں کرنے کے دوران مجھے دیکھا تو میری نظروں کو اک ہی جگہ دیکھا تو اس نے بھی میری نظر کی سمت میں دیکھا اور اک ہی سیکنڈ میں اسے سمجھ آ گیا کے میں کیوں اتنی دلچسپی سے مہوش کی طرف دیکھ رہا ہوں


نوشین نے فوراً مہوش کو آواز لگائی


مہوش نے اس کی طرف دیکھا تو نوشین نے آنکھوں کا اشارہ اسکی شلوار کی رومالی کی طرف کیا


مہوش کے کچھ سمجھ نہیں آیا اور اس نے نوشین کی بات کو سمجھنے کے لیے اپنا سیدھا ہاتھ اپنی چوت والی جگہ پر رکھا تو وہاں کا گیلاپن محسوس ہوتے ہی مہوش کو ساری بات سمجھ آ گئی


اور وہ ویسی ہی موبائل زمین پر رکھ کر کمرے میں بھاگی اور دروازہ بند کر لیا


میں اور نوشین دونوں چھپ کھڑے تھے شاید ہم دونوں ہی یہی سوچ رہے تھے کے کیا بولیں


ایسی میں نوشین کو میرے موبائل کا خیال آیا اور اس نے جا کر میرا موبائل اٹھا لیا


یہاں بھی میرے نصیب میں برائی تھی کے مہوش کو موبائل پر ویڈیو بند کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا جلدی میں


اور وہ ویڈیو ابھی تک فون میں چل رہی تھی


نوشین نے فون اٹھا کر دیکھا اور دیکھتے ہی پہلے تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا اور پِھر اسکی آنکھیں وہی جم گئیں اور 2 3 سیکنڈ کے بعد شاید اسے میری موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے فوراً موبائل مجھے پکڑا دیا میں نے ویڈیو بند کی اور موبائل جیب میں ڈال لیا


ہم دونوں پِھر سے چُپ چاپ کھڑے ہو گئے


میری گانڈ کسی ڈھول کی طرح پھٹی ہوئی تھی


نوشین سے تو میں کافی بار الٹی سیدھی حرکتیں کر چکا تھا جیسے گانڈ پر ہاتھ پھیرنا اور اس کے بوبس کو بائیک چلاتے وقت اپنی پیٹھ پر محسوس کرنا جس میں نوشین بھی میرا برابر کا ساتھ دیتی تھی


لیکن یہاں ڈر اِس بات کا تھا مہوش نے آج تک مجھ سے کوئی غلط بات نہیں کی تھی


لیکن اِس ڈر کے ساتھ ہی اک بات کی تسلّی بھی تھی کے مہوش خود بھی اِس جرم میں میرے ساتھ برابر کی شریک تھی


اگر میرے موبائل میں بلو فلم تھی تو مزے لے کر تو وہ بھی دیکھ رہی تھی


اور اسکو کتنا مزہ آ رہا تھا اِس بات کا ثبوت اسکی گیلی شلوار کی رومالی تھی


اب کافی دیر ہو چکی تھی اور مہوش کمرے کا دروازہ نہیں کھول رہی تھی


شاید اب اسے ہمارا سامنا کرنے میں شرم آ رہی تھی


نوشین نے جب دیکھا کے کافی دیر ہو گئی ہے تو اس نے جا کر کمرے کے دروازے پر دستک دی


دستک کے کچھ دیر کے بعد مہوش نے دروازہ کھول دیا


نوشین اندر جانے کے بجائے میرے پاس آئی اور مجھے کہا کے وقاص ابھی تم جاؤ بعد میں آ جانا


میں نے بھی سر ہلایا اور ان کے گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔


میں نے ٹھوڑی دیر دوستوں میں وقت گزارا اور گھر آ گیا۔


اُس کے بعد کچھ خاص نہیں ہوا


اگلے دن اسکول سے آ کر میں سوچ رہا تھا کہ کیا کریں اب کیونکہ آنٹی کے گھر تو انکی بہن نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا۔


اور مہوش اور نوشین سے مجھے سامنا کرتے ڈر لگ رہا تھا۔


خیر میں نے سوچا کہ باہر نکل کر دیکھتا ہوں۔


جب میں گھر سے باہر نکلا تو نوشین اپنے گھر k دروازے پر ہی کھڑی تھی۔


مجھے دیکھ کر اس نے گلی میں آگے پیچھے دیکھا اور مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔


مجھے آج نوشین کا اس طرح گلی میں دیکھنا کچھ عجیب سا لگا کیونکہ آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔


خیر میں نوشین کے پاس پہنچا تو اس نے فوراً دروازے سے دور ہو کر مجھے اندر آنے کی جگہ دی۔


میں بنا کوئی سوال کیا اندر داخل ہو گیا۔


اندر داخل ہو کر مجھے مہوش کچن میں برتن دھوتی نظر آئی۔


چند ہی لمحوں کے بعد مہوش کی نظر بھی مجھ پر پڑ گئی۔


اس نے دو سیکنڈز کے لیے میری طرف دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں لگ گئی۔


مجھے اُس کی آنکھوں میں غصّہ تو نہیں البتہ شرم ضرور نظر آئی۔


میں نے نوشین سے آنٹی (نوشین کی امی) کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ مہرین کے سسرال گئی ہیں اور رات تک آئینگی۔


میں اور نوشین کچن کی دیوار کے ساتھ لگے لکڑی کے تخت پر بیٹھ گئے۔اس تخت پر بیٹھنے سے مہوش بھی ہماری ساری باتیں بہ آسانی سن سکتی تھی۔


پہلے کچھ دیر میں اور نوشین اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے اور مہوش بھی ہماری باتیں سنتے سنتے اپنے کام میں لگی رہی۔


جب باتیں ختم ہوئیں تو مہوش نے ہلکے سے کھانسی کی آواز نکالی تو نوشین نے اس کی طرف دیکھا اور مُجھسے کہا کہ وقاص تم نے کل والی بات کسی کو بتائی تو نہیں۔


مجھے پتہ تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہی ہے لیکن میں نے پھر بھی کہا کہ کونسی بات؟


نوشین: وہی جو کل ہوا تھا مہوش کے ساتھ۔


میں: نہیں میں کیوں بتاؤنگا کسی کو؟


نوشین نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے سر پر رکھ دیا اور بولی کہ میری قسم کھا کے بولو کہ تم نے کسی کی نہیں بتایا۔


میں: ہاں تمہاری قسم میں نے کسی کو نہیں بتایا۔


یہ سن کر مہوش اور نوشین دونوں کے چہرے پر خوشی دیکھنے لگی۔


نوشین: وقاص تم تو جانتے ہو کہ ہم لڑکیاں ہیں اور ایسی بات اگر کسی کی بھی پتہ چلی تو کوئی بھی ہم سے شادی نہیں کریگا۔


میں: میں جانتا ہوں یہ بات اور آپ بے فکر رہیں آپکا راز ہمیشہ میرے سینے میں قید رہیگا۔


نوشین نے آگے بڑھ کر میرے بائیں گال کو چوم لیا۔


اب مہوش کا کام بھی ختم ہو گیا تھا وہ کچن سے باہر نکلی اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور کہا کہ میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔


میں: اس میں احسان کی کوئی بات نہیں لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی کے کل آپکو ہوا کیا تھا۔


مہوش:تُجھے نہیں پتہ کہ مجھے کیا ہوا تھا؟


میں: نہیں


حالانکہ مجھے ھر بات کا علم تھا لیکن نے اُن دونوں کو سکس کے موضوع پر لانا چاہتا تھا اور اِس کے لیے مجھے اس سے زیادہ اچھی ترکیب سوجھ نہیں رہی تھی۔


مہوش:اب زیادہ بچا نہ بن۔


میں: مجھے سچ میں نہیں پتہ۔


نوشین: اسے سب پتہ ہے یہ ہم دونوں کو بیوقوف بنا رہا ہے اگر اسے نہیں پتہ تو اس کے موبائل میں وہ والی ویڈیوز کیا کر رہی تھیں۔


میں: وہ تو میرے دوست کا میموری کارڈ ہے۔میں نے اس موبائل خرید تے وقت چیک کرنے کے لئے لیا تھا لیکن غلطی سے میرے ہی موبائل میں لگا رہ گیا۔


نوشین: ابھی کہاں ہے وہ میموری کارڈ؟


میں: میرے پاس ہی ہے کیوں؟


نوشین نے ایک نظر مہوش کی طرف دیکھا اور مُجھسے کہا کہ دکھا مجھے


میں نے موبائل نکال کر اس کو دے دیا اور کہا کہ اس ہی میں لگا ہوا ہے ابھی۔


نوشین نے مجھسے موبائل لے کر اپنے پاس رکھا اور کہا کہ جب لڑکی گرم ہو جاتی ہے تو اس کی پیشاب کی جگہ سے پانی آنے لگتا ہے۔


میں: تو یعنی مہوش باجی کل گرم ہو گئی تھیں۔


مہوش نے نظر اٹھا کہ میری طرح دیکھا اور ہاں میں سر ہلا دیا۔


میں: اچھا تو آپ وہ ویڈیوز دیکھ کر گرم ہو گئی تھیں۔


مہوش نے ایک بار پھر سر کو ہاں میں ہلایا۔


میں:تو مطلب اگر کوئی بھی لڑکی ایسی ویڈیوز دیکھ لے تو اس کے پانی آنے لگے گا۔


نوشین:ہاں کچھ ایسا ہی سمجھ لو۔


یہ سن کر میں چپ ہو گیا کیوں کہ ابھی ذہن میں اور کوئی بات نہیں آ رہی تھی۔


مجھے چپ ہوتے دیکھ کر نوشین نے کہا کہ ایک وعدہ کریگا ہم سے؟


میں: کیسا وعدہ؟


نوشین: ہماری کوئی بھی بات کسی کو بھی نہیں بتائیگا


میں: ویسے اس کی ضرورت نہیں لیکن میں پھیر بھی وعدہ کرتا ہوں۔


نوشین: میں تیرے موبائل میں ویڈیو دیکھ لوں؟


نوشین کی بات پر میں اور مہوش دونوں نے ایک ساتھ اُسے بے یقینی سے دیکھا۔


ہمارا اس طرح کا ریکشن دیکھ کر کر نوشین نے مہوش کی طرف دیکھا اور کہا کہ اس نے وعدہ کیا ہے کہ یہ اب کسی کو بھی نہیں بتائیگا۔


نوشین کی بات سن کر مہوش خاموش ہو گئی تو نوشین نے فوراً میرا موبائل اٹھایا اور ایک ویڈیو چلا دی۔


ویڈیو کی آواز تھوڑی زیادہ تھی تھی اس لیے میں نے فوراً اس k ہاتھ سے موبائل لے کر آواز کو بند کر دیا اور موبائل اسے واپس کر دیا۔


نوشین نے ویڈیو کو فل سکرین پر کیا اور موبائل کو ٹیڑھا کر کے مہوش کی طرف کر دیا تا کہ وہ دونوں آرام سے دیکھ سکیں۔


اب وہ دونوں ویڈیو دیکھ رہی تھی اور میں ان دونوں کے سامنے چوتیوں کی طرح بیٹھا تھا۔


تبھی شاید نوشین کو میرا احساس ہوا اور اس نے مہوش سے تھوڑا دور ہو کر بیچ میں میرے لیے جگہ بنا دی۔


میں اُن دونوں کے بیچ میں جا کے بیٹھ گیا۔


ویڈیو میں ایک کالا حبشی ایک خوبصورت حسینہ کو بہت بے دردی سے چود رہا تھا۔


تھوڑی دیر کے بعد نوشین بولی کے پتہ نہیں کیا کھاتے ہیں یہ حبشی لوگ۔


میں: کیوں؟


میرا سوال سن کر نوشین اور مہوش نے میری طرف دیکھا اور پھیر ایک دوسرے کو دیکھا اور زور زور سے ہنسنے لگیں۔


اُن دونوں کے اس طرح ہنسنے پر مجھے بھی سمجھ آ گیا کہ میں نے کیا بونگی ماری ہے لیکن میں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ آپ اس کے لن کی لمبائی کی وجہ سے کہہ رہی ہیں؟


میرے منہ سے لن کا لفظ سن کر دونوں کو سانپ سونگھ گیا۔


مہوش فوراً بولی یہ کتنی گندی باتیں کر رہا ہے۔


میں: تو لن کو لن نہ بولوں تو اور کیا بولوں؟


نوشین:ہم لوگ تو اسے ڈنڈا کہتے ہیں۔


میں:اچھا اور چوت کو کیا کہتے ہیں؟


نوشین: رانی


میں: اچھا اور گانڈ کو؟


نوشین: اس کو کچھ نہیں بس کولہے کہتے ہیں


میں: اور مموں کو؟


نوشین: دودھ،اور اب بس سب کچھ آج ہی پوچھ لیگا کیا اب ویڈیو دیکھنے دے۔


اور پھر سے ہم تینوں ویڈیو دیکھنے لگے


اب حبشی حسینہ کو گھوڑی بنا کر چود رہا تھا۔


اور حسینہ کو چوت حمبشی کے موٹے لن سے چد چد کر کافی کھل گئی تھی۔


مہوش: یار کتنی بے دردی سے کر رہا ہے مجھے تو اس کو دیکھ کر ہی تکلیف ہو رہی ہے


میں: لیکن اس کو مزہ بھی کتنا آ رہا ہے۔


میں نے یہ کہتے ہوئے مہوش کی طرف دیکھا تو اس کا ہاتھ اُسکی چُوت پر تھا میرے دیکھتے ہی اُسنے فوراً اپنا ہاتھ ہٹا لیا تو میں نے مسکرا کر اسکو آنکھ ماری اور آہستہ سے کہا کہ کر لیں


اور دوبارہ ویڈیو دیکھنے لگا اور تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ مہوش کا ہاتھ دوبارہ اُسکی چُوت پر آ گیا ہے۔


اب میں نے نوشین کی طرف دیکھا تو اس کی حالت بھی مہوش جیسی ہی تھی۔ لیکن اس نے اب تک اپنے ہاتھ کو قابو میں رکھا ہوا تھا۔


میں نے اسے دیکھا تو اس نے بھی میری طرف دیکھا تو میں نے اسے آنکھ کے اشارے سے مہوش کو دیکھنے کا کہا


اس نے مہوش کی طرف دیکھا جس کا سارا دہان ویڈیو کی طرف تھا اور اُسکا ہاتھ شلوار کے اندر گھسا ہوا تھا اور شلوار کے اوپر سے ہی مسلسل اس کے ہاتھ حرکت محسوس ہو رہی تھی۔صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ اپنی چوت کو رگڑ رہی ہے۔


نوشین نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا تو میں نے کہا آپ بھی کر لو کیوں برداشت کر رہی ہو


میری بات سن کر نوشین نے مجھے مسکرا کر دیکھا اور جلدی سے اپنا ہاتھ اپنی شلوار میں ڈال دیا۔


اب میرا لنڈ بھی مجھے آوازیں دے رہا تھا کہ اُس کے بارے میں بھی کچھ سوچ جائے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں نے جینز کی پینٹ پہنی تھی جس کے نیچے انڈرویئر بھی تھا تو میرے پاس نوشین اور مہوش کی طرح شلوار میں ہاتھ ڈال کر مجھے لینے والا آپشن نہیں تھا۔


میں ابھی اسی پریشانی میں تھا کہ نشین نے میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھوں کے اشارے میں پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔


میں نے اپنی نظریں اپنے لن کی طرف کر لیں جس سے اس نے بھی میرے لن کی جانب دیکھا اور سمجھ گئی کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔


نوشین میری حالت دیکھ کر مسکرانے لگی۔


اور اگلے ہی لمحے اس نے کچھ ایسا کیا جس کا شاید میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔


نوشین نے اپنا ہاتھ جو شلوار کے اندر تھا و نکالا اور دوسرا ہاتھ شلوار میں ڈال لیا اور جو ہاتھ شلوار سے نکالا تھا اس سے پینٹ کے اوپر سے میرے لن کو سہلانے لگی۔


شاید اس نے میرے اشارے کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ میں اسے اپنا لن سہلانے کا کہہ رہا ہوں۔


لیکن جب تک مجھے سمجھ اتی میں مزے کی وادیوں میں گم ہو چکا تھا۔


اب مجھمے کافی ہمت آچکی تھی۔ایک ہاتھ سے میں نے موبائل پکڑا ہوا تھا اور میرا ایک ہاتھ فارغ تھا تو میں نے بھی ہمت کر کے اپنا ہاتھ نوشین کی شلوار کی طرف لے گیا۔


نوشین میرے ہاتھ کی حرکت کی دیکھتے ہوئے میرے اگلے لائحہ عمل کو سمجھ گئی تھی اس لئےاس نے اپنے ہاتھ شلوار کی الاسٹک والی جگہ کو کھینچ کر میرے ہاتھ کو اندر جانے کا راستہ دے دیا۔


جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ نوشین کی شلوار کے اندر ڈالا تو مجھے اس کی چُوت کے اوپر باریک باریک بال محسوس ہوئے۔ میں ہاتھ کو اور نیچے لے گیا اب میرے ہاتھ ٹھیک اس کی چُوت کے اوپر تھا۔ اور اس کی چُوت کا دانہ میری بیچ والی انگلی پر ٹچ ہو رہا تھا۔ میں نے دانے کو زور سے دبایا تو نوشین کے منہ سے سسکی نکل گئی جو مہوش نی بھی سن لی اس نوشین کی طرف دیکھا تو نوشین کی سسکی کی وجہ سمجھ آ گئی۔


مہوش نے فوراً اپنا ہاتھ شلوار سے نکال کر میرے ہاتھ سے موبائل اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ میں اسے بھی وہی مزہ دوں جو اُسکی بڑی بہن کو دے رہا ہوں۔


میں نے اپنا دوسرا ہاتھ جو اب مہوش کے موبائل لے لینے سے فارغ ہوگیا تھا فوراً مہوش کی شلوار میں ڈال دیا۔


اب حالت یہ تھی کہ میرے دونوں ہاتھ شلوار کے اندر سے دونوں بہنوں کی چوتوں کو مسل رہے تھے۔


نوشین کا ایک ہاتھ میرے لن کو پینٹ کے اوپر سے سہلا رہا تھا اور دوسرا ہاتھ فارغ تھا۔


مہوش نے ایک ہاتھ سے میرا موبائل پکڑا ہوا تھا اور اُسکا بھی دوسرا ہاتھ فارغ تھا۔


میں پانی دونوں ہاتھوں کی بیچ والی انگلیوں سے دونوں بہنوں کی چُوت k دانوں کو رگڑ رہا تھا۔ اور اُن دونوں کا مزے سے برا حال تھا اور دونوں کے من سے لگا تار سسکیاں جاری تھیں۔


مجھے نوشین سے اپنا لن مسلوانے میں زیادہ مزہ نہیں کا رہ تھا کیوں کہ میں نے تنگ جینز پہنی ہوئی تھی اور اس وقت کو کوس رہا تھا جب نے نے آج یہ پہنی تھی۔


ابھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ نوشین نے اپنا ہاتھ میرے لن سے ہٹا کر میری بیلٹ کھولنے لگی۔


اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔


میں نے بھی اپنی گانڈ پینٹ نیچے کرنے میں اس کا مکمل ساتھ دیا۔


اس نے میری پینٹ اور انڈرویئر نیچے کر دیا اور میرا کھڑا لن ننگا آن دونوں بہنوں کی آنکھوں کے سامنے آ گیا نوشین نے بغیر کسی دیر کے میرا لن پکڑ لیا اور زور زور سے اوپر نیچے کرنے لگی۔ مجھے بہت مزا آ رہا تھا اور اسی مزے میں میں بھی دونوں بہنوں کی چُوت رگڑ رہا تھا۔


پھر میں نے اپنی دونوں ہاتھوں کی بیچ والی انگلی کا رخ دونوں بہنوں کی چوتوں کے سوراخ کی جانب کیا اور تھوڑی دیر سوراخوں پر اُنگلیاں پھیر کر انگلیوں کو اندر ڈالنے لگا۔دونوں کی چُوت بہُت زیادہ گیلی ہو رہی تھی اس لیے انگلی کے اندر جانے میں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی۔


اُنگلیاں اندر ڈالنے کے بعد دونوں بہنوں کی سسکیاں مزید تیز ہو گئی تھیں۔


اور اب وہ دونوں خود خود ہی اپنی چوت کو میری انگلی کے گرد حرکت دے کر مزہ لے رہی تھیں۔


میں نے اپنی انگلیوں کی ان کی چُوت سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا پہلے سپیڈ سلو رکھی لیکن دھیرے دھیرے بڑھادی۔


اب ایک مسئلہ تھا وہ یہ کہ میرا ہاتھ شلوار اندر ہونے کی وجہ سے اٹک رہا تھا اور میں مزید سپیڈ میں اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا۔


میں نے سوچا k موقع اچھا ہے تو میں نے دونوں بہنوں کی شلوار سے ہاتھ نکالا اور پہلے نوشین کی طرف دونوں ہاتھ لے جا کر اسکی شلوار نیچے کرنے لگا نوشین نے پہلے تو میرا ساتھ نہیں دیا لیکن میں پوری جان سے اسکی شلوار نیچے کر رہا تھا تو آخرکار نوشین نے اپنی گانڈ کو اوپر اٹھایا میں نے اسکی شلوار جلدی سے نیچے کر کے اس کے گھٹنوں تک کر دی۔


لیکن مجھے ابھی تک اسکی چوت کا دیدار نہیں ہوا تھا کیوں اُسکی قمیض نے اسکی چوت کو ڈھنکا ہوا تھا۔


میں نے اس بات پر توجہ نہ دیتے ہوئے اپنا رخ مہوش کی جانب کیا وہی عمل اُس کے ساتھ بھی دہرایا جو اُسکی بہن کے ساتھ کیا تھا۔


تھوڑی سی مشقت کے بعد اس نے بھی مجھے اپنی شلوار اتارنے دی کیونکہ اس نے نوشین کو بھی ننگی حالات میں دیکھ لیا تھا تو اسے بھی ہوسلا ہو گیا تھا۔


اب میں نے دوبارہ اپنے ہاتھ اُن کی چُوت کی جانب کیے اور دونوں کی قمیض چوت کے اوپر سے ہٹا دی۔


دونوں کی پیاری پیاری چوت میری نظروں کے سامنے آ گئی۔


نوشین کی چوت پر ہلکے ہلکے بال تھے لیکن مہوش کی چوت بلکل صاف تھی۔


میرے ہاتھوں کو اپنی چُوت کی جانب بڑھتے دیکھ کر دونوں نے اپنی ٹانگیں کھول دیں جس سے انکی چوت مزید واضح ہو گئی۔


میں نے پھر سے اپنی انگلیاں دونوں کی چوت میں ڈال دیں۔


ویڈیو کب ختم ہوئی ہم میں سے کسی کو بھی نہیں پتہ چلا تھا۔


اب میں اُن دونوں بہنوں کی چُوت نے زور زور سے انگلی کر رہا تھا اور اور نوشین میرے لن کو پکڑ کے زور زور سے ہلا رہی تھی۔


ہم تینوں ایک الگ ہی دنیا میں تھے۔


اب مہوش نے بھی میرے لن کو پکڑ لیا تھا اور دونوں بہنیں مل کر میرے لن کی زور زور سے مٹھ مار رہی تھیں۔


ایسے ہی کرتے کرتے پہلے مہوش نے زوردار چیخ ماری اور اس k جسم میں جھٹکے لگنے لگے اور اس نے میرے لن کو چھوڑ دیا اور اپنی چوت جس کے اندر پہلے سے میری انگلی تیزی سے اندر باہر ہو رہی تھی کے دانے کو اپنے ہاتھ سے زور زور سے مسلنے لگی۔ اس کے جسم میں جھٹکے لگنے لگے۔


اور وہ ایسے ہی فارغ ہو گئی اور اس کی چُوت سے ایک فووارا چھوٹا اور وہ تخت پر ہی لے کر کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔میرے ہاتھ کی انگلیوں بھی اب اسکی چوت سے نکل گئی تھی۔ابھی مہوش اپنی سانسیں بحال کر رہی تھی کہ نوشین کو بھی جھٹکے لگنے لگے اور اس نے میرے لن کو زور سے دبایا اور مزید تیزی سے مٹھ مارنے لگی۔


میں بھی قریب تھا تو میں بھی اس کے ساتھ ہی فارغ ہو گیا میرے لن سے اور نوشین کی چُوت سے ایک ساتھ فوّوارا چھوٹا۔ اور ہم دونوں ایک دوسرے کو چھوڑ کر تخت پر ڈھے گئے۔


مہوش اب سانس بحال کر کے ہم دونوں کو دیکھ رہی تھی اور ہم دونوں تیز تیز سانسیں لے رہے تھے۔


مہوش اب پوری طرح ہوش میں آ چکی تھی۔ اس لیے اس نے فوراً اپنی شلوار اوپر کر لی۔


میرے دماغ پر پہلے تو منی چڑھی ہوئی تھی اب تھوڑا ہوش بحال ہونے شروع ہوئے تو میری نظر نوشین کے ادھ ننگے جسم پر پڑی۔


نوشین کی جسم کا پیٹ سے لے کر گھٹنوں تک کہ حصہ ننگا تھا۔


اُس کی ٹانگیں کھلی ہوئی تھیں جس سے اسکی چھوٹے چھوٹے بالوں کے بیچ چوت کی لکیر تھی۔


اُس کی چُوت کے ہونٹ موٹے موٹے تھے۔ لکیر کے بیچ و بیچ اُسکی چوت کا دانہ کسی بادشاہ کے سر کے تاج کی طرح سر اٹھائے کھڑا تھا۔


دانے کے ٹھیک نیچے اُسکی چُوت کا سوراخ تھا جو بہت چھوٹا تھا۔اُسکی چُوت کے اَندر کی جھلی سرخ تھی جیسے اندر بہت سارا خون جمع ہو۔


پیٹ سے لے کر گھٹنوں تک اس کا جسم بالکل بے داغ تھا۔


کہیں کسی تل کا نشان بھی نہیں تھا۔تیز تیز سانسیں لینے کی وجہ سے نوشین کے مممے اوپر نیچے ہو رہے تھے۔


نوشین کے مممے درمیانے سائز کے تھے۔


اور مہوش کے مممے کافی چھوٹے تھے۔ اُسے کوئی بیماری تھی جس کی وجہ سے اس کے ممّوں کا سائز بڑھتا نہیں تھا۔(اس نے مجھے بعد میں بتایا تھا اس بارے میں)۔


خیر میں نوشین کی چوت کو بارے غور سے دیکھ رہا تھا تبھی نوشین کے کچھ ہوش بحال ہوئے تو اسے سمجھ آیا کہ میں اسکی چوت کو بہت غور سے دیکھ رہا ہوں۔ تو وہ بجلی کی رفتار سے اٹھی اور اپنی شلوار اوپر کر لی۔لکڑی کا تخت ہمارے کارناموں سے گندا ہو رہا تھا۔میں بھی جلدی سے اٹھا اور اپنی پینٹ ٹھیک کی۔


مہوش چپ چاپ کھڑی سارا منظر دیکھ رہی تھی۔


جب میں نے اور نوشین نے بھی کپڑے ٹھیک کر لیے تو مہوش واش روم چلو گئی۔نوشین اور میں وہیں چپ چاپ کھڑے تھے۔ دونوں میں سے کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر بولیں تو کیا بولیں۔


مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آیا تو میں نے خاموشی توڑنے کے لیے نوشین کی کپڑوں کے اوپر سے چوت کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ دیا کہ آپ بہت پیاری ہو نوشین آپی۔ نوشین نے میری طرف دیکھا اور میر نظروں کی جانب دیکھا تو اسے سمجھ آ گیا کے میں اسکی ٹانگوں کے بیچ چھپے خزانے کی بات کر رہا ہوں۔ نوشین نے پہلے مجھے دیکھا اور پھر ہلکا سا مسکراتے ہوئے اپنی آنکھوں کو نیچے کر لیا۔ اور آہستہ آواز میں کہا "کمینہ"۔


خیر میں نے اب اُن کے گھر میں زیادہ دیر رُکنا مناسب نہیں سمجھا اور نوشین سے دروازہ بند کرنے کا کہہ کر اُن کے گھر سے نکل گیا۔


پورا دن بس اسی سوچ میں گزار گیا کے اگر قسمت مہربان ہو تو بندے کو بیٹھے بٹھائے دو خوبورت بہنوں کی چُوت ایک ساتھ بھی مل سکتی ہے۔ کہاں میں ایک آنٹی کی پھٹی ہوئی چوت کے پیچھے پاپڑ بیل رہا تھا اور کہاں بغیر کسی کوشش کے دو دو کنواری چوتیں وہ بھی ایک ساتھ مل گئی تھیں۔


میں رات کا کھانا کھانے کے بعد اپنے بستر پر لیٹا اپنی سوچ میں گم تھا کہ میرے موبائل کے میسج ٹیون بجی۔


میں نے فون اٹھا کر دیکھا تو نوشین کا میسج تھا۔


نوشین: سنو


میں: سناؤ


نوشین: آج جو ہوا وہ ٹھیک نہیں ہوا


میں: ایسا کیوں کہ رہی ہیں آپ؟


نوشین: وقاص تم تو لڑکے ہو تمہارا کچھ نہیں جائےگا لیکن ہم لڑکیاں ہیں اگر کسی کو یہ بات پتہ چلی تو ہمارے اپنے ماں باپ ہمیں جان سے مار دینگے۔


مجھے دونوں پھدیاں ہاتھ سے نکلتی دکھائی دیں۔


میں: یار آپ بلاوجہ ڈر رہی ہیں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ نہ آپ دونوں میں سے کوئی کسی کو بتائیگا اور نہ میں۔تو کسی کو پتہ چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


نوشین: نہیں یار گناہ زیادہ دن چھپا نہیں رہتا۔ تم سمجھ نہیں رہے۔ برا وقت کبھی بتا کے نہیں آتا۔


نوشین ٹھیک کہہ رہی تھی لیکن میرے دماغ پر تو پھدیاں سوار تھیں۔ وہ بھی دو دو خوبصرت اور کنواری۔


میں: یار تم فکر نہ کرو میں وعدہ کرتا ہوں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلےگا۔


بڑی مشکل سے اُسے منایا لیکن وہ بھی پکّی تھی۔ اس شرط پر مانی کے میں اس وقت تک اس کے گھر نہیں آؤنگا جب جب تک وہ خود نہ بلائے۔


خیر کل کے دن دو دیں پورے ہو رہے تھے اور اس بات کے کافی امکان تھے کے کنول آنٹی کی بہن اب اپنے گھر جا چکی ہونگی یہ کل چلی جائینگی۔ تو میرے لیے چوت کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔


یہی ساری سوچیں ذہن میں رکھئے میں سو گیا۔۔۔


اگلے دن اسکول سے واپس آ کر میں سیدھا کنول آنٹی کے گھر کے لیے نکل پڑا۔ دروازے پر دستک دی تو دروازہ آنٹی نے ہی کھولا۔اور مجھے دیکھ کر ایک پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ دروازے سے ہٹ گئیں اور مجھے اندر آنے کا راستہ دیا۔


اس دن کے سیکس کے بعد سے اب تک ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔آنٹی نے ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑا ہوا تھا۔ میں سیدھا آنٹی کے بیڈروم میں جا کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد آنٹی بھی آ گئیں اور اب اُنکے ہاتھ میں دو کپ تھے۔جس میں سے ایک اُنہوں نے میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے کپ پکڑا اور چائے پینے لگا۔ لیکن مجھے مجھے جلدی تھی کے کب ہم دونوں اپنے کپڑے اتار کر ننگا ناچ شروع کریں۔ مینے جلدی سے چائے ختم کی تب تک آنٹی بھی اپنی چائے ختم کر چکی تھیں۔میں نے اپنا کپ پلنگ کے نیچے رکھا اور جھٹ سے آنٹی کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔ اور کسنگ شروع کر دی۔ آنٹی بھی برابر کا ساتھ دے رہی تھیں۔میرے ہاتھ آنٹی کے جسم پر رینگ رہے تھے۔میں آنٹی کی پیٹھ کو سہلا رہا تھا اور ساتھ ساتھ آنٹی کو اپنی بانہوں میں دبا رہا تھا جس سے آنٹی کے ممّے میرے سینے میں گڑھ رہے تھے۔میں اپنے ہاتھ نیچے کر آنٹی کی گانڈ کو پکڑ لیا اور زور زور سے دبانے لگا لیکن مجھے تھوڑی ہی دیر میں احساس ہوا کہ آنٹی نے شلوار کے اندر پینٹی پہنی ہوئی ہے۔ میرے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ کہیں آنٹی منسس میں تو نہیں۔یہ سوچ میں اپنا ہاتھ آگے لے آیا اور آنٹی کی چُوت کی جگہ کو چیک کیا تو واقعی میرے نصیب میں رنڈی ناچ رہی تھی۔آنٹی کے پیریڈز چل رہے تھے۔اور مجھے ہاتھ سے آنٹی کا پیڈ صاف محسوس ہو رہا تھا۔


آنٹی بھی میری اس حرکت سے سمجھ گئیں کے میں جان چکا ہوں کے دال نہیں گلے گی آج۔ اور میرے چہرے پر مایوسی بھی چھا گئی تھی جو آنٹی نے نوٹ کر لی تھی۔


آنٹی نے پھیر سے مجھے دیکھ کر سمائل پاس کی۔اور جھک کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں اور میری بیلٹ کھولنے لگیں۔


آنٹی نے پہلے بیلٹ پھیر میری جینز کا بٹن اور اور پھر زپ کھول کر میری پینٹ نیچے کر دی اور میرے انڈرویئر کے اوپر سے میرے لن کو سہلانے لگی میرا لںڈ جو کسنگ کے دوران فل کھڑا تھا اور پیریڈز کا پتہ چل کے اب نیم کھڑا ہو گیا تھا و پھیر سے اپنی فل پاور میں آنے لگا۔


آنٹی نے میرا انڈرویئر نیچے کیا اور میرے لن کو ہاتھ میں لے کر مٹھ لگانی شروع کر دی۔مجھے بہت مزا آ رہا تھا۔میری آنکھیں مزے سے بند ہو گئیں۔تھوڑی دیر بعد مجھے اپنے لن پر کچھ گیلا محسوس ہوا میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو آنٹی میرا لن زبان سے چاٹ رہی تھیں۔یہ دیکھتے ہی مجھ پر شہوت کا ایک زبردست وار ہوا اور میرے لن نے زور کا جھٹکا لیا اور آنٹی میرے لن کو ایسے جھٹکے لیتے دیکھ کر مسکرانے لگیں۔ آنٹی نے دیر نہ کرتے ہوئے اپنا من کھولا اور لن منہ میں لے لیا۔زندگی میں پہلی بار کوئی عورت میرے لن کو چوس رہی تھی۔ عورت اس لیے لکھا کیوں کے اس سے پہلے بھی ایک بار میں گلی کے بچے کو دس روپے کا لالچ دے کر اپنا لن چسوا چکا تھا۔ مزا تو اس وقت بھی آیا تھا لیکن آنٹی کے چوسنے کی بات هی کچھ اور تھی۔ آنٹی مزے سے میرا آدھا لن منہ میں کے کر اندر باہر کر رہی تھیں اور میں کسی اور ہی دنیا کی سیر کرنے رہا تھا۔اسی مزے میں مینے آنٹی کے سر کو پکڑ لیا اور خود لن کو اندر باہر کرنے لگا۔آنٹی نے یہ دیکھ کر اپنے منہ کو ڈھیلا چھوڑ دیا تا کہ میں آرام سے اُن کے منہ کو چود سکون۔ میں نے بھی تیزی سے آنٹی کے من کو چودنا شروع کر دیا۔ جب میرا آدھے سے زیادہ لن آنٹی کے منہ میں چلا جاتا تو آنٹی کو کھانسی آجاتی۔آنٹی نے اپنا ایک ہاتھ میرے پیٹ پر رکھ دیا تا کہ میں اپنا لن آدھے سے زیادہ اُنکے منہ میں نہ ڈال سکوں۔ میں دس منٹ تک ایسے ہی آنٹی کے من کو چودتا رہا۔اور فارغ ہونے کے قریب آ گیا۔میری سسکیاں نکلنے لگیں جسے سن کر آنٹی سمجھ گئیں کے میں اب جھڑنے والا ہوں تو آنٹی نے میرے لن کو منہ سے نکالا اور زور زور سے ہلانے لگیں۔ میرا لن بھی یہ وار برداشت نہ کر سکا اور میں فارغ ہو گیا۔ آنٹی میرے سامنے سے ہٹ گئیں تھیں اس وجہ سے میرے لن سے نکلنے والی منی کی دھار زمین پر جا گری ورنہ آنٹی اگر سامنے سے نہ ہٹی ہوتیں تو میری منی آنٹی کے منہ پر ہی گرتی۔


فارغ ہونے کے بعد آنٹی اٹھیں اور سیدھا واشروم چلی گئیں اور ہاتھ منہ دھو کر اور کلی کر کے آ گئیں۔واپس آتے وقت اُنکے ہاتھ میں ایک گندا کپڑا تھا جس سے اُنہوں نے زمین پر گری میری منی کی صاف کر دیا۔ میں پلنگ پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا اور میری پینٹ اب بھی میرے گھٹنوں پر تھی اور لن مرجھایا ہوا تھا۔ آنٹی نے میری طرف دیکھا اور مجھے واشروم جانے کا کہا میں اٹھ کو واشروم گیا اور اپنی حالت درست کر کے واپس آ گیا اور پلنگ پر بیٹھ گیا۔ آنٹی پہلے سے ہی پلنگ پر بیٹھ کر اپنا موبائل دیکھ رہیں تھیں۔


میری طرف دیکھ کر آنٹی نے پیاری سی مسکراہٹ دی اور کہا۔


آنٹی: مزا آیا؟


میں: ہاں بہت لیکن پہلے جیسا نہیں۔


آنٹی مسکرائیں اور کہ وہ مزا بھی جلد مل جائیگا۔


میں تھوڑی دیر آنٹی کے گھر بیٹھ کر واپس اپنے گھر آ گیا اور اپنا اسکول کا ہوم ورک کرنے لگا۔۔۔


ہوم ورک کرنے کے بعد میں تھوڑی دیر سو گیا۔ شاید دو یا تین گھنٹے ہی سویا ہونگا کہ مجھے کچھ شور کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے بستر سے اٹھ کر آواز پر غور کیا تا کہ سمجھ سکوں کے اس شور کی وجہ کیا ہے۔لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ صرف اتنا پتہ چل رہا تھا کہ جس کی بھی ی آواز ہے وہ رو رہی ہے۔ میں نے آٹھ کے منہ دھویا اور اور اپنے کمرے سے باہر آگیا۔


میرا گھر دو منزلہ عمارت پر مشتمل ہے جس میں نیچے میرے والدین اور بہن بھائیوں کا کمرہ ہے اور اوپر صرف دو کمرے ہیں جس میں سے ایک میں اس گناہ گار شخص نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اور ایک کمرہ خالی ہے جسے ہم عموماً سٹور روم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔


خیر میں منہ دھو کر نیچے پہنچا تو ہماری گلی کی ہی ایک خاتون ہمارے گھر میں رو رہی تھیں اور ان کے ساتھ بیٹھی میری امی کے بھی آنسو رواں تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ھوا کیا ہے۔


امی کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئیں اور میرے گلے لگ کے اور زور سے رونے لگیں۔اب تک مجھے سمجھ آ گیا تھا کہ بات کوئی معمولی نہیں ہے۔ میں نے فوراً امی کو اپنے آپ سے الگ کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا ہوا آپ لوگ رو کیوں رہی ہیں؟


امی: بیٹا جب تو سو رہا تھا تو کنول تُجھے بلانے ائی تھی۔


میں کنول آنٹی کا نام سن کر اور زیادہ تشویش میں پڑ گیا۔


میں: کیوں بلانے آئیں تھیں کنول آنٹی؟


امی: اسے اپنے گھر کے لیے آٹا منگوانا تھا۔


میں: پھر؟


امی: میں تیرے کمرے میں آئی تو تو سو رہا تھا۔ میں نے اس سے کہہ دیا کے تو سو رہا ہے ابھی۔


میں: یار امی اٹھا دیتیں نہ مجھ کو۔ خیر پھر کیا ہوا؟


امی: بیٹا مجھے تھوڑی پتہ تھا کہ ایسا ہو جائیگا۔


میں: کیسا ہو جائیگا؟ کیا ہو گیا امی بتائیں۔


امی میری یہ بات سن کر اور زور سے رونے لگیں۔


میں: اف امی کچھ تو بتائیں کہ آخر ہوا کیا ہے۔


امی: بیٹا وہ شاید خود ہی آٹا لینے چلی گئی تھی اور راستے میں روڈ کراس کرتے وقت ایک ٹرک اسکو۔۔۔۔


اتنا کہہ کر امی پھر سے رونے لگیں اور یہ سننے کے بعد میرے بھی اعصاب جواب دے گئی اور دماغ بلکل سن سا ہو گیا۔


میں اسے ہی جلدی نے گھر سے باہر نکلا تو گلی میں کافی رش تھا تقریباً ہر کوئی ہی اپنے گھر سے باہر نکلا ہوا کنول آنٹی کے گھر کے باہر بھی بھیڑ جمع تھی۔میں بھی تیز قدموں سے چلتے ہوئے اسی بھیڑ کا حصہ بن گیا۔


ایسے میں مجھے میری گلی کا دوست ارسلان نظر آیا تو میںنے اُسے آواز دی اس نے میری طرف دیکھا اور آہستہ قدموں سے چلتا ہوا میری طرف آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آنٹی کہاں ہیں ابھی؟


ارسلان نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور کہا تُجھے نہیں پتہ اُنکا انتقال ہو گیا ہے۔


مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے ہتھوڑا کھینچ کر میرے سر پر مار دیا ہو۔


تھوڑی دیر میں خاموشی سے ارسلان کی شکل دیکھتا رہا۔ شاید میں بولنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہا تھا۔لیکن الفاظ کا چناؤ تو دماغ کرتا ہے اور میرا دماغ تو جیسے سکتے کی حالت میں تھا۔


کچھ دیر خاموشی کے بعد میں ارسلان سے پوچھا کہ کب ہوا انتقال۔


ارسلان: ابھی پندرہ منٹ پہلے ہی گلی کے آدمی کے پاس کنول آنٹی کے شوہر کا فون آیا تھا۔ تب ہی پتہ چلا سبکو۔


میں: ایکسڈنٹ کہاں ہوا؟


ارسلان: مین روڈ پر


میں: مجھے لے کر چل وہاں۔


ارسلان: ہاں چل


میں اور ارسلان حادثے کی جگہ پر پہنچے۔ ہمارے سامنے ایک ٹرک کھڑا تھا جس میں آگ لگی ہوئی تھی۔ غالباً وہاں موجود عوام نے ٹرک کو جلا دیا تھا۔ ارسلان نے مجھے بتایا کہ ڈرائیور ٹرک سے کود کر فوراً بھاگ گیا تھا۔اور کچھ لوگوں نے یہ بھی بتایا دو ٹرکوں کی آپس میں ریس لگی ہوئی تھی جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔


خیر میں اُداس دیو اور نم آنکھوں کے ساتھ ٹرک کو دیکھنے لگا۔ٹرک کے نیچے بیچ و بیچ بہت سارا خون پڑا تھا۔ یہ خون بھی آنٹی ہی کا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر اور بھی رونا آنے لگا۔


ارسلان نے بتایا کہ حادثے کے فوراً بعد ایک امبولنس بلوائی گئی جس میں ڈال کر آنٹی کی قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر نے انکی موت کی تصدیق کر دی۔ ابھی آنٹی کو ایدھی سینٹر لے جایا گیا ہے۔ اس کے بعد عشا کے بعد انکی تدفین ہے۔


میں یہ ساری باتیں سن کر اپنا سر پکڑ کر فوٹ پاتھ پر ہی بیٹھ گیا۔ یقین ہے نہیں ہو رہا تھا کے تین گھنٹے کی نیند میں اتنا سب کچھ ہو گیا۔


کسی طرح سے وقت گزرا اور آنٹی کی تدفین کر دی گئی۔ سب اپنے گھر واپس آ گئے اور سب کے لیے کنول آنٹی ماضی کا حصّہ ہو گئیں سوائے میرے۔ میرے دل میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ میں رات کو اپنے بستر پر لیٹا نم آنکھوں سے بس یہی سوچ رہا تھا کہ شاید اب آنکھ کھل جائے اور یہ سب ایک خواب ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہوا میں اسے ہی آنسو بہاتے بہاتے سو گیا۔ دل میں ایک غم تھا تو صرف ایک بات کا کہ آنٹی کو اپنے گناہوں کی توبہ کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔۔

No comments:

Post a Comment

Contact Us

Name

Email *

Message *