Thursday, May 5, 2022

پھرتیاں


پھرتیاں

یہ اس وقت کی باتیں ھیں جب چھوٹے شھروں میں شادی حال نہ تھے اور لوگ شادی کی تقریبات کے لئے گلی محلے میں ٹینٹ لگا لیا کرتےتھے۔۔ یہ بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکر چھتوں پر چڑھنے کے ساتھ گانے اونچی آواز میں ایک ھفتہ پھلے ھی چلنا شروع ھوجاتے تھے۔۔محلے بھر کے لڑکے رات کو دیر تک ڈانس وغیرہ کرنے پھنج جاتے تھے۔۔ ایسے میں دولھا کے باپ کے دوست بڑے بھائی کے دوست تو انتظامات کو ڈسکس کرتے تھے۔۔ لیکن دولھا کہ کچھ خاص دوست بھی ھوتے تھے ۔جو اس کو دوسروں کی شادی رات کے سچے جھوٹے واقعات سنا سنا کر ۔بوسٹ آپ کرتے رھتے تھے۔۔۔ میرا تجربہ رھا ھے کہ دولھا اس طرح کی باتوں سے حوصلہ کے بجائے کم ھمتی کا شکار ھوجاتا ھے۔۔۔ اور شب زفاف آتے آتے ۔۔اپنی ھمت وطاقت کے بجائے ۔۔ ٹائمنگ بڑھانے والی گولی اپنے خاص دوست کے ذریعے منگوانے کے ساتھ ھاتھ باندھ کر کسی کونہ بتانے کی قسم بھی دیتے ھیں۔۔ اور میرے جیسے ھر دوست کو یہی باور کراتے ھیں ۔تو تو اپنا جگری یار ھے  بس رات کی پوری کھانی بس سب سے پھلےمجھے ھی سنانا ۔۔ رات کو آخری جملے ھوتے کہ 👃 نہ کٹوا دینا۔۔۔ دراصل اس طرف اشارہ ھوتا تھا کہ جب تیری کھانی کسی اور دولھا کو سنائی جائیگی تو کم گول کرنے کی وجہ سے سنگت کی ناک کٹ جائے گی ۔۔اور صبح ملتے ھی پھلا سوال یار سچ بتانا کتنے چھکے مارے۔۔۔ یعنی کتنی باری لی۔۔ کیا کیا کچھ کیا ۔۔اسکی چیخ نکلوائ خون کتنا نکلا وغیرہ۔۔۔بھر حال میں شروعات کرتا ھوں۔۔ کھانی نمبر 1..

ایسے بھی دوست ھوتے ھیں کیا۔۔؟

ناصر۔۔ شاکر ۔۔۔ ذاکر۔۔ یہ تینوں دولھا میاں رشید کے ان خاص دوستوں میں سے تھے جن کا اوپر  ذکر کیا گیا ھے۔۔۔مھندی والی رات ان کو پتہ  بیٹھک میں بٹھا کر انتظار کرو میں آتا ھوں اکیلا ھی ۔۔لڑکیوں کے درمیاں  بیٹھ کر مھندی لگوا آیا۔۔۔جبکہ دوستوں کا خیال تھا کہ ھم بھی مٹک مٹک کر ناچنے والیوں کے دیدار سے آنکھیں سینکیں گے ۔۔بڑے بھائ کی تنبیہ پر اس نے یہ کام کیا جس پر یہ دوست ناراضگی کا اظہار کرنے لگے ۔۔لیکن پھر کچھ دیر بعد کھانا کھانے کے بعد بظاھر خوش وخرم اٹھ کر صبح جلدی آنے اور بارات کے ساتھ جانے کا وعدہ کر گئے۔ لیکن شاکر اور ناصر نے اس بات کا بدلہ لینے کی ٹھان لی اور صبح ذاکر کے ساتھ  مل کر پلان بنایا۔۔۔ بھر حال شادی ھوئ رخصتی  کرکہ دلھن کو کمرے میں پھنچا دیا گیا ۔اب ان لوگوں نے جو دولھا کو میچ میں زیادہ سے زیادہ چھکےمارنے کی ترغیب دی تھی اسکے پیش نظر۔۔۔ شاکر نے دولھا کو کھا کہ یار یہ تو تجھ سےموٹی ھے زیادہ صحت مند ھے۔بھت زور لگانا پڑے گا۔۔ تجھے ھمت نا ھارنا باھر تک چیخیں انی چاھیئے۔۔۔سالے اسکی درد کی پرواہ نہ کرنا بس دے دھما دھم۔۔دے دھنا دھن شروع ھوجانا۔۔ جب آدھی  رات کے وقت جب اندر جانے میں تھوڑی سی دیر باقی ھوتی ھے تو آدمی ایکسائٹمنٹ میں سارے زور آج ھی آزمانے کے چکر میں اجاتا ھے۔۔۔ بھر حال گولی منگوائی گئی۔۔ سو پچاس نہی پورےپانچ سو جس میں منہ بند رکھنے کی مٹھائ بھی شامل تھی۔۔۔ اب اصل گیم شروع ھوئ ۔۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں کمرے تک جانے کا راستہ کلئر کرتی ھیں اور بھابی یا بڑی بھن اندر جانے کے واسطے بلاتی ھیں ۔۔ یہاں ایک بات اور بھی مشاہدے میں آئی ھے کہ دولھا سائڈ کی وہ خواتین جو ابھی پچھلے سال دو میں یہ رات گذار چکی ھوتی ھیں ۔۔ وہ بھی اندر کی کھٹ پٹ پر کان لگا کر کچھ نیا سننے یا چیخ مارنے کی منتظر ھوتی ھیں ۔۔۔یا اگر گھر چھوٹا ھو تو کھڑکی ئ قریب کی چارپائی پر قابض ھوتی ھیں کہ دیکھو پھلے کون باھر آتا ھے۔۔اور اسکے چھرے سے کیا عیاں ھوتا ھے۔۔۔ اچھا جی تو راستہ کلئر کا کاشن دولھا بھائ کو مل چکا ھے لیکن یہ گولی آجانے کے انتظارِ میں بار بار شاکر کو فون کرتا ھے وہ کھتا کہ بھائ موٹر سائیکل پر ھوں ڈھونڈ ڈرھا ھوں ۔۔۔تیرے کو بھی آدھی رات کو یاد آیا کنجر اب صبر کر میں آرھا ھوں۔۔۔ ایسے میں رات کے دو بج گئے آخر بڑی بھن اور بھابھی کے اصرار پر دولھا کو زبردستی کمرے میں داخل کردیا جاتاہے۔۔ یہ بھی پریشان کہ بغیر ھتیار کے مس فایئر نہ ھوجائےابھی یہ انگوٹھی پھنس کر گھونگٹ اٹھاتا ھے کہ شاکر کا فون اجاتا ھے جو گھبراھٹ کا اظہار کرتا ھے کہ یار ناصر کے ابے کو ایمرجنسی میں اسپتال لے گئے ھیں اور تجھے اپنی گولی کی پڑی ھوئ ھے ۔۔چل جلدی باھر آ ھم تینوں اس کو پوچھنے جارھے ھیں۔۔۔ یہ بھانے بنانے کی کوشش کرتا ھے تو ناصر کا بھی فون اجاتا ھے کہ یار جلدی کر۔۔ اتنے میں ذاکر بھی فون پر بتاتا ھے کہ یار میں تو پیاز چھل وارھا تھا تیرے ماموں کے ساتھ صبح دیکھوں میں ڈالنے کے لیئے کہ۔مجھے ابو کے اٹیک کا فون آیا اب میں تو جا رھا ھوں تم دیکھ لو کیا کرنا۔۔۔اور فون کاٹ دیتا ھے۔۔ یہ جلدی جلدی باھر آتا ھے ۔۔تو ناصر اس کو ساتھ بٹھا کر نکل جاتا ھے ۔۔ مان جی اسپتال حیدرآباد وھاں پر بھاگ بھاگ کر معلوم کرتے ھیں تو کھیں نہی ملتے ۔۔اب دولھا کو خیال آتاھے کہ ذاکر کو فون ھی کرکہ پوچھ لے تو وہ کھتا ھے کہ یار میں تو شاکر کہ ساتھ میمن اسپتال میں خود ڈھونڈ رھا ھوں۔  روھانسی آواز بنا کرفوں کاٹ دیتا ھے۔۔اب جب ناصر کو بتاتا ھے کہ وہ میمن اسپتال گیا ھے تو یہ اس کی طرف موٹر سائیکل پر روانہ ھوجاتے ھیں ۔۔۔میمن اسپتال کے باھر یہ چاروں ملتے ھیں ۔۔اور راجپوتانہ کی طرف چاروں روانہ ھوجاتے ھیں ۔۔۔ وھاں پر بھی مریض ھو تو ملے ۔۔۔ ٹھنڈ سردی کے مارے یہ ایک ڈھابے پر چائے پینے بیٹھ جاتے ھیں۔۔ اب رشید کی حالت دیکھنے والی ھوتی ھے۔۔ دولھا والا لال سوٹ  پھنے چائے پیتے ھیں تو ساڈے چار بج چکے ھیں اور فجر کی اذان ھو رھی ھیں ۔۔ تب یہ کھتے یار شاکر تو اسکو گھر چھوڑ ھم دیکھ لیتے ھیں ۔۔۔تو دولھا کے بولنے پھلے شاکر بولتا یار اسی طرف چلتے ھیں ھلال احمر پر دیکھ لیں گے۔۔ چل ٹھیک ھے اب رشید بولتا کہ نہی میں بھی ساتھ چلوں گا تو ذاکر بڑی مشکل سے ھنسی ضبط کرتے ھوئے کھتا نہی یار تونے  چھکے بھی مارنے تو جا۔۔۔جب یہ اسکو گلی نکڑ پر اتار کر بھاگتے ھیں تو سامنے سے ذاکر کےا با نماز پڑھنے جارھے ھوتے ھیں۔

جاری ھے۔۔ دوسری قسط فائنل۔۔

 

پرائی شادی میں۔۔۔ دیوانہ

کھانی نمبر 1 کا آ خری  حصہ۔

ذاکر کے باپ نے اسکو تعریفی نظروں سے دیکھ کر کھا کہ دولھا میاں نماز پڑھنے اٹھ گئے ۔ بڑی بات ھے۔ رشید نے جل کر کھا گھر سے تو میں جنازہ پڑھنے نکلا تھا۔۔ لیکن مردہ ہی زندہ ھوگیا۔۔ یہ بھاگتا ہوا گھر میں داخل ھوا تو بڑی باجی نے حیرت سے پوچھا کیا تو کھڑکی سے کود گیا تھا۔۔ میں تو تجھے کمرے میں دھکیل کر پھر ھی سونے گئی تھی اس نے کھا باجی باتیں چھوڑ مجھے دودھ زرا گرم کرکےدے ۔۔ اس نے کھا رات رکھا تو تھا ٹیبل پر وہ پی گیا کیا تو۔۔اس نے چڑ کر کھا دینا ھے تو ٹھیک ورنہ باتیں مت سنا۔۔دودھ کے ساتھ جلدی سے گولی منہ میں ڈال کر کمرے میں داخل ھوا تو بیگم نماز پڑھنے میں مصروف تھی ۔اب کیا کیا جاسکتا تھا سوائے انتظار کے۔ اسکے فارغ ھونے کے انتظار میں دولھا رشید صاحب سوگئے تھے۔بیگم نے کب آکر جوتےاتارے اسے پتہ ھی نہ چلا۔۔۔ مزہ تو تب آیا جب دس بجےکےقریب آنکھ ابو کے شور مچانے پر کھلی کہ مھمان پھنچ رھے ھیں اور نواب صاحب سو رھے ھیں۔۔دلھن کی تو جرات نہ ھوئی اماں نے ھی کھینچ کر اٹھایا۔۔ڈبل مزہ تو تب آیا دوستو جب نہا دھو کر دولھا رشید اسٹیج پر براجمان ھوئے ۔اور گولی کے اثر سے لن کھمبا بن گیا۔۔ دیھاتی لوگ ھار بھی پھناتے اور تین دفعہ گلے بھی ملتے ھیں۔ اب ھر آنے جانے والے کو گلے ملنے پر ۔کھمبا دوسروں سے ٹکراتا تو عجیب فیلنگ ھر ایک ھوتی۔۔ اور تینوں دوست دور سے ھی مزہ لے رھے تھے اس کے بلانے پر بھی کام کابھانہ کرنے لگے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس نے گالیاں ھی دینی تھیں۔۔زرا تصور کریں جب اسکے سسرالی بس بھر کے تو اس کی حالت کیا ھوئی ھوگی ھاروں کی تعداد جب زیادہ ھوگئی۔تو تھوڑی سی آ ڑ بن گئی۔۔ لیکن سسرالیوں نے کھا کہ یہ سب اتارو ۔۔تب ھم اپنے لائے ھوئے ھار پھنایئں گے۔۔ ھم لوگوں کا تو ھنس ھنس کر پیٹ میں درد ھوگیا۔۔ آخر ایک دوست نے املی کا پانی بھیجا تو اس کو کچھ راحت ملی۔۔اب شام کو سب کے سونے کے بعد جب کمرے میں گئے تو سالی صاحبہ پلنگ پر بھن سے باتیں کرتے کرتے سوگئی تھی۔۔۔ایک نئی افتاد کچھ بیگم اور کچھ باجی کے تعاون سے کمرہ خالی کروالیا گیا۔۔ اب جب میچ کا وقت شروع ھوا تو گولی توتھی نہی آخر اسنے بانھوں میں بھر کر نئی نویلی دلھن کو چومنا چاٹنا شروع کردیا  کہ اتنے میں پھر موبائیل کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی  اس نے نمبر پھچان کر گالیاں دینا شروع کردیں انھوں نےتو معذرت کرنےکے واسطے فون کیا۔۔لیکن اسکی گالیاں ھی بند نہ ھوں تو دولھن ھی شرما کر کمرے سے نکل گئی بھر حال قصہ مختصر کہ بعد ازاں  چائے پی کر سیکس کا مرحلہ شروع ھوا تو دولھا  دو ھی گول کرکے سوگئے۔۔

یہ ریئل واقعہ ھے اس میں اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں ڈالا طوالت کی وجہ سے شاٹ کردیا میں نے۔۔۔ کل جو واقعہ بتاؤ ں گا ۔۔ اس میں تو خود راقم کو دو تھپڑ ایک مکہ دولھا سے کھانا پڑا۔۔ ملتے ھیں آپکے کمنٹس میں ۔ھنسے تے وسدے رھو۔۔۔۔اپکا بارانی ۔  ۔


اس زمانے میں اتنا عقلمند۔۔۔۔ ھاھا۔۔

میرے دوست ناصرکی شادی اپنے خاندان میں نہی ھوئ تھی  ھم۔نے ایم اے ۔۔ایم ایڈ ایک ساتھ کیا تھا ۔۔تھوڑا کھلاتا بھی تھا۔اور کم گو قسم کا تھا۔ لیکن میرے سےکافی حد تک فرینکنیس بھی تھی ۔ دور کے ایک شھر سے بارات لیکر جب ھم واپس اپنے شھر پھنچے تو ابھی سورج غروب ھونے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ تھے سارا انتظام ٹھیکے پر دے رکھا تھا۔۔ میں زرا سستانے گھر پھنچا تو مغرب کے بعد اسکے چھوٹے بھائ نے مجھے فون کیا کہ دولھا صاحب کو کمپنی دو ۔۔۔ ھم بھی اپنے تجربات کی گٹھڑی سر پر لئے پھنچ گئے ۔۔۔مھمانوں کے اندر ھی اس نے مجھے بلوا کر کان میں باتیں پوچھنے لگا تو میں نے کھا کہ باھر چلتے ھیں کھل کر باتیں کرنے میں تجھے جھجھک نہ ھوگی۔۔بھر حال قصہ مختصر کہ اس نے پوچھ اکہ پھلے کیا کرنا ھے اسٹیج بائے سب بتاؤ آپ کو تو بھت تجربات ھے۔۔ ھم نے اپنے بیسٹ نالج کو انڈیلا کہ پھلے سلام دعا پھر گھونگٹ اٹھایا جاتا ھے گفٹ پیش کرو اس نے کھا کہ سونے کی انگوٹھی دے دوں گا ۔میں نے کھا کہ خود ھاتھ پکڑ کر خود پڑھنا دیں تاکہ آگے کے مراحل میں آسانی ھو۔۔۔پھر منی دیکھ کر تعریف وتوصیف کے پل باندھنا۔۔۔ پھر والدین کی خدمت کا درس دینا ۔۔ اسکے بعد اسے بوس وکنار والے مرحلے میں داخل ھو کر اس سے اسکے گھر والوں بیسٹ فرینڈ وغیرہ کی معلومات لیتے رھنا تاکہ فرینک نیس پیدا ھو۔۔ پھر بستر پر لٹانے سے پھلے کپڑے اتروائے جانے کی تلقین کرتے ھوئے ممے پکڑنے اور اسکی سسکاریاں نکلنے پر اندازہ لگانا ھے کہ کیا سے زیادہ اچھا لگتا ھے۔ اس مرحلے پر اس نے مجھے کھا کہ یہ میرے رشتہِ دار دوست کھتے ھیں کہ چھکے مارنے واسطے تیار ھوجا۔ اسکا کیا مطلب دوست جب میں نے اسے چھکے مارنے کی وضاحت کی تو وہ کافی دیر تک ھنستا رھا پھرحسب توقع کیپسول  لاکر دینے کی زمہ داری پر مجھ ڈال گیا۔۔  قصہ مختصر رات کو دو بجے اسے کمرے میں گھس جانے کے بعد میں بھی   اپنے گھر چلا گیا۔۔۔ لیکن تعجب میں جب صبح نماز کے فوراً بعد اس کےبھائ کا فون مجھے آیا اور مجھے ایمرجنسی میں بلوایا ھے بھر حال۔میں صبح چھ بجے اس کی بیٹھک میں تھا۔ اسنے دروازہ بند کرکے مجھے ایک زور دار قسم کے تھپڑ اور ایک مکہ بھی مارا میں نے کھا کہ خیر تو ھے۔۔ کھوکھر صاحب ملکانی نے دی تجھے نہی اور تو غصہ مجھ پر اتار رھا ھے۔اس نے کھا پھلے ایک تھپڑ اور مارنے دو پھر بتاؤں گا۔ میں نے کھا پھلے بات بتائیں پھر ایک کے دومار لینا۔۔

پھر جو اس نے بات بتائی تو میں ھنس ھنس کر دھرا ھوگیا۔ اس نے کھا کہ جب میں تیرے بتائے مراحل پر گامزن تھا۔میں نے کپڑے اتروائے پھر ممے چوسنے کے بعد اسکے ھونٹوں پر کس کیا ۔۔پھر سلوار اتروائی کے بعد جب اندر گھسا یا تو اس نے زور دار چیخ ماری اور مجھے لات مارکر دور گرادیا۔۔۔ میں گھبرا گیا کہ اب کیا کروں  میں نے سوچا کہ شاید ایکدم۔جھٹکا مارنے کی وجہ سے اسےدرد ھوا ھوگا ۔۔

پھر میں نے اھستہ اھستہ اسکے پیٹ پر ھاتھ پھیرنا شروع کیا پپیاں شپیاں لینے مموں کو چوسنے کے بعد جب دوبارہ اندر ڈالا تو اس نے مجھے ایک زوردار  تھپڑ مار دیا ۔اور گردن سے پکڑ کر ملکانی نے گالیاں دیں کہ ۔۔۔۔توں کنجرا بووے نو چھڈ کے کھڑکی چہ کیوں پانڈیاں اے۔ھاھا۔ ۔میں نے کھا تو اس میں میرا کیا قصور جو تونے مجھے مارا ۔۔تو بولا کہ آپ نے بتا یا کیوں نہی کہ کونسے سوراخ میں اندر ڈالنا ھے ۔ھاھا ۔۔۔۔ میں تو ھنس ھنس کر پاگل ھوگیا کہ یار اس زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود ھیں کہ جنھیں پھدی اور گانڈ کا بھی صحیح استعمال کا نہی پتہ ۔۔ میں نے پوچھا پھیر کی ھویا۔۔ تو اسنے بتایا کہ پھر اس نے خود ھاتھ سے پکڑ کر اندر ڈلوایا تو واقعی بڑا مزہ آیا ۔۔۔ گولی کے اثر سے  تین  دفعہ چھکے مارے۔ میں نے کھا کہ پھر تو تیسرا تھپڑ کیوں مارنا چاھتا ھے تو بولاکہ تیسری دفعہ کرتے ھوئے ٹانگیں اٹھا کر جوش میں جھٹکے مارتے ھوئے پھر چھوٹے سوراخ میں گھس جانے پر مجھے بھی تھپڑ پڑا تھا۔۔۔ اس کا بھی تجھ سے بدلہ لینا تھا۔۔۔ اوکے دوستو ۔۔اج کچھ طبیعت ناساز ھے ۔۔۔دعافرمادیں ۔۔۔ملتے ھیں آپکے کمنٹس میں۔۔۔ ے


پرائی شادی میں ۔۔۔۔دیوانہ۔۔کھانی نمبر 3

مادھوری سے کھائ لات۔۔ھںاھا

یہ مرے دوست طارق کی شادی کادلچسپ واقع ھے یہ صاحب ھماری کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی تھے اور دلچسپ بات یہ ھے کہ جیسے اپنے کلب میں تحریر کو اپروول ملنے کے بعد ھی دوستوں کو پڑھنے کو دکھتی ھے۔۔ اسی طرح ھمارے اس دوست کی منگنی بھی اٹکی ھوئ تھی ۔۔کیوں کہ اپنے سے بڑے گھرانے میں(مالی پوزیشن) کے حساب سے تو اس میں بھی کرکٹ کے میچ جیتنے نے کردار ادا کیا۔۔۔ ھمارے علاقے میں گلی میں نائٹ میچوں کا رواج ھم نے ڈالا تھا۔۔۔ھاھا۔۔۔ کیوں کہ کچھ لڑکے میچ تو کھیلنا چاہتے تھے مگر نالیوں میں سے بال نکالنے کو تیار نہیں ھوتے تھے۔۔ ما بدولت نے اس کا ایسا انتظام کردیا کہ نازک اندام کاٹن مارکہ بچے بھی بڑی خوشی سے کھیلنے پر تیار ھوگئے۔۔۔پتہ کیسے۔۔۔۔ چلو کمنٹس میں بتانا۔۔۔ تو آتے ھیں کھانی کی طرف باپ کی طرف سے تو ھاں ھوگئی تھی لیکن ماں اور بیٹی اسٹیٹس کو پسند کرتی تھیں۔۔ عجیب ماں تھی ایک طرف تو لڑکی کو بھیج دیتی تھیں سب کی شادیوں میں ڈانس کرنے کو ظاھر ھے جب لڑکوں کو پتہ چلتا کہ روبینہ آئ ھے شادی والے گھر تو سب انتظار میں ھوتے تھے کہ کب ڈانس شروع ھوگا تو گھر کے لونڈے تو سر عام اور ھم جیسے دولھا کے یار خاص چھپ چھپ کر دیکھتے تھے۔۔۔ جیسے دولھا اکا کمرہ سجانے کے بھانے اندر پھنچ جاتے تھے۔۔۔ ٹھمکے دیکھنے۔۔۔بھرحال ھماری کرکٹ ٹیم کا ایک ٹورنامنٹ کے فائنل میں ایک بڑی ٹیم سے میچ پڑگیا۔۔۔جس میں دوسرے شھروں کے لڑکے بھی شامل کیئے گئے تھے۔۔ اس میچ کو لائیو دکھانے کا شھر کے کیبل والے نے پھلی دفعہ اعلان کیا تھا ۔۔جبکہ سارا دن شھر بھر میں سوزوکی پر ایکو ساؤنڈ کے ذریعے اعلان بھی کیا جاتا رھا۔۔ قصہ مختصر کے میچ پھنس گیا اور انکا مستند بیٹسمین کریز پر تھا کہ اس کو بولنگ پر بلایا گیا تو اس نے سلو بال پھینکا جس پر اس نے زبردست چھکا۔مارا تو تماشائیوں نے کون ہوں شروع کردیا تو میں جو لانگ آف باؤنڈری فیلڈ کر رھا تھا نے ایک دم اس کے کان میں کہ دیا کہ کنجر لائیو چل رھا ھے اور مادھوری دیکھ رھی ھے۔۔۔تیرا کام آج بن سکتا ھے۔۔۔اس نے بڑی لمبی ھوں ں ں ں۔ کی اور کھا دیکھ پھر تو۔۔۔۔ اگلے بال پر اس نے اسکو بولڈ مار دیا ۔۔۔سب نے خوشی منائی لیکن میچ تو ابھی بھی پھنسا ھواتھا۔ آخری اؤر میں انکو بیس رنز درکار تھے۔۔ اسکو پھر بلایا گیا۔۔ اس نے پھلی بال تو وکٹ اڑادی لیکن انگلی دو بالوں پر چھکے لگے پھر میں نے مووی کیمرہ دکھا کر غیرت دلائی تو پھر لمبی شاٹ لیکن ھمارے کھلاڑی سے کیچ مس ھوگیا پراب دو بال۔پر چار رنز درکار تھے۔۔ اس نے سلو ڈیلیوری پھینکی اونچی شاٹ لیکن کملا ھوگیا کہ اس نے بھاگ کر خود ھی کیچ پکڑا۔۔۔ جس پر تماشائیوں نے اس کو انعام بھی دیا کیوں کہ اپنے شھر کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ کولے کولے چٹے

پٹھان نوں جپھی پان دا موقع۔وی تہ لب دا سی منڈیاں نوں۔۔تہ اخیر چہ ۔۔۔کیھویا پتہ ۔۔ لاسٹ بال۔پر پھیر کیچ نکلا جو سیدھا اس کے ھاتھوں ۔۔میں اب مین آف دی میچ بھی اسی کو ملا جس کی خوب وڈیو بھری گئی تھی  اس وقت تک کیمرے والے فون ابھی نہی تھے۔۔۔ بھرحال وہ مووی حاصل کرکہ ھم نے ان کے گھر بھیجی جس میں اسکی پزیرائی دیکھ کر ۔۔۔ھاں  ھاں کردی ۔۔۔ھم نے بھی خوب اودھم مچایا کہ  مادھوری نے ھاں کردی   بڑے بوڑھے تو کیا سمجھتے جو قریبی دوست تھے سب کو پتہ تھا کہ ھم اسکو چڑانے کو اسکی ھونے والی کو مادھوری کھتے تھے۔۔۔ شاٹ کٹ میں آتے ھیں اسکی شادی والی رات ۔۔۔ حسب سابق ھم نے تفصیلات فراھم کیں جسے مجھے پورا پتہ تھا کہ اس نے زیادہ غور سے نہی سنا گولی منگوا کر پاکولا دودھ کے ساتھ کھا لیاسکے بعد تو گھنٹے بھر ادھر ادھر گھومنے کے بعد تو گولی آر کو چڑھ گئی غصے میں مجھے کھنے لگا کہ یار ان عورتوں کو باھر نکالو ۔۔میں جاکر چھکے ماروں ۔دولھا کا کمرہ اوپر کی۔منزل پر تھا جو کہ ایک ھی تھا۔۔لیکن اس کی سالیاں ۔۔ ڈالیاں گانے لگیں اب انکو کون نکالے وہ بھی اسی دولھا والے کمرے میں سے۔۔ رات کو کوئ تین بجے صاحب کو انٹری ملی کمرے میں جانے کی ۔۔اس نے تعریف وتوصیف کے پل۔باندھے اسکی ستواں ناک کہ تعریف کی ممے چوسنے کے مرحلے تک سب ٹھیک تھا۔۔۔ لیکن جب اندر ڈالنے کی باری آئی تو دیکھا کہ وھاں تو پیریڈز آ ئیے ھوے ھیں۔۔اب کیا کروں ۔۔۔ لیکن وھی بات کہ آج رعب نہ ڈالا تو ھمیشہ تجھ پر زور آور   ھوجائیگی اب لن مانگے اور اور گولی بولے کچھ تو کھول کھول۔۔۔ اس نے پیٹ پر چساڑے کرنے شروع کردیے اور موقع دیکھ کر زبردست جھٹکا مار کر لن گانڈ میں گھسا دیا ۔۔ پھر جو چیخ نکلی تو گھر بھرمیں آواز پھیلی ھوگی لیکن اس کے فوراً بعد جو چیخ نکلی تو وہ آس پڑوس کے گھروں تک آواز گئی ھوگی۔۔۔ یہ ھمارا دوست تھوڑا سا سلم۔باڈی تھا۔۔ وہ قد اور بھی تھی ۔۔ اسکی گانڈ جاتے ھی اس نے جو غصے میں لات ماری وہ دولھا کے ٹٹوں میں پڑی اور یہ پیچھے کو گرے ان کا سر کھڑکی سے ٹکرایا جس میں شیشہ لگاتھا وہ ٹوٹ کے باھر گرا ۔۔۔ ھم سب دوست جو وھاں دیگ والے کے ساتھ گوشت کہ سیٹنگ کروارھے تھے نے اس کے لھو لھان۔چھرے کو بخوبی پھچان لیا تھا۔۔بھرحال پھر دونوں کو احساس ھوا کہ یہ کیا کردیا ھم نے تو دوبارہ سے ریلیکس ھوئے دودھ کا گلاس پیا پلایا ۔۔ اور گولی کی وجہ سے لن تو مینار پاکستان بنا ھواتھا۔۔ اس نے بھرحال اب احتیاط کے ساتھ اسی لیسدار چوت میں ڈالا ۔۔۔زیادہ مزہ تو نہی آیا مگر زوری بھی کر ھی دیا کہ صبح سھیلیاں اور دوست پوچھیں گے تو کیاکھیں گے ۔  لات کھانے کے بعد اس نے فوزبردست قسم کے چھکے مارے۔۔ جس کی بعد میں ھم نے سرزنش کی جب حیض کا خون جاری تھا تو صبر کرنا چاھیئے تھا ۔۔۔جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے  دن سے دولھا میاں کو خارش ھونے کے علاؤہ دوستی کئی بیماریاں لاحق ھوگیئں اور دو ماھ تک علاج کروانے کے بعد اصل سھاگ رات منائی۔۔۔لیکن دوستوں میں مشھور ھوگیا کہ مادھوری نے لات ماری ۔۔۔ھاھا  ۔

۔ل ن کمائ اور کھائ۔۔  کی اپڈیٹ 5 بھی آج ھی سینڈ کردی ھے۔۔۔ اوکے بائے ملتے ھیں آپکے کمنٹس میں۔۔۔۔۔۔۔اپکا بارانی         ہ

 


کھانی 4

دولھن انتظار میں۔۔۔۔ دولھا  زلف یار میں

یہ ایک سچاواقعہ ھے ھمارے شھر میں کوئی دو تین سال پھلے کا ھے ھمارے دوست خالد کی ایک گھر میں سیٹنگ تھی کبھی میں اور کبھی اقبال اسکے لئیے  رات کی چوکیداری کرتے تھے۔کہ اگر کھیں اس کا شوھر یا بھنوئ گھر آیئں تو اس کو فون کرکے یا دیوار پر اینٹیں مار کر خبر دار کردیں اور یہ چھت پر چڑھ اپنی چھت کی طرف کود جائے۔۔۔ اب ھمیں تو نہی تھا پتہ کہ یہ اس سے کس قسم کا وعدہ کر بیٹھا ھے ۔۔ بھر حال آتے ھیں شادی والی رات پر جو اپنا ٹاپک ھے دلھن خیر خیریت سے حجلہ عروسی میں پھنچ گئی ھے اور یہ صاحب ان۔معاملات میں ھمارے بھی استاد تھے تو ھم نے انکو کیا بتانا تھا ۔۔۔ گولیاں اس نے دو منگوالی تھیں جس پر زر احیرت تو ھوئی مگر ایک دوست نے کھا کہ بھائ صبح تو نے اسٹیج پر براجمان رھنا ھے ایسے نہ ھو کہ ساری رات چودائی میں گزارے اور صبح کو جورو اسپتال میں پھنچادے اور خود سوتا رہ جائے حاجی صاحب نہی چھوڑتا تجھے ھاں۔۔۔ جس پر اس نے کھا کہ تم اپنا کام سنبھالنے کا سوچو میں تمھیں اسٹیج پر ھی نظر آ وں گا۔۔ اور میرے کاندھے پر ھاتھ رکھ کر بولا بس۔ اس کو میرے ساتھ رھنے دو۔۔۔ ایک دوست نے ٹوک ماری کہ اسکو بھی اندر لیکر جائگا کیا مووی بنانے۔۔۔۔اس ہر سب دوست ھنس پڑے۔۔ لیکن اس نے سنجیدگی سے بولا کہ مجھے پتہ تم سب کو صبح صبح جو رپورٹ چاھیئے ھوتی ھے۔۔۔ ھم نے کھا کہ تو گروو ھے ھمارا اس معاملے میں۔۔۔۔ لیکن کھانی تو ھم تیری بھی سنیں گے اس نے کھا کہ تبھی تو بول رھا ھوں کہ یہ تمھیں بے چین نہی رھنے دےگا اور ھیڈ لائنز تمھیں سنادے گا ۔۔تفصیلی خبریں شام کی بلیٹن میں مجھ سے سن لینا۔۔ اب گھر کی یہ حالت تھی کہ مھمانوں سے کھچا کھچ بھرا ھوا تھا دولھا کو بیٹھک میں مجھ سمیت بڑے بوڑھوں کے ساتھ بٹھا دیا گیا تھا۔۔ رات کا کھانا مھمانوں کو کھلا کر اب ایک بےبے ٹائپ عورت نے اعلانیہ کھنا شروع کردیا کہ چلو چلو بھئی اپنے اپنے گھروں کو آرام کرو صبح دعوت بھی ھے گھر والوں کو بھی آرام کرنے دو۔۔ کچھ دیر بعد وہ لڑکیاں بالیاں جو ایسے موقع پر تنگ کرنے کے لیے گانے غیرہ گاتی ھیں ان کو اس بے بے نےگھر روانہ کردیا ۔سردی کی راتیں لمبی ھوتی ھیں ھمارے علاقے میں رات کو نو بجے کے قریب دولھا نے مجھے کھا کہ چل چھت پر چلتے ھیں میں نے کھا یار تو پاگل ھو گیا ھے اتنی سردی چھت پر مٹ مائٹ کیا کھیں گے ۔ اور مجھے اس کوڈ کا بھی پتہ تھا کہ چھت پر جانے کا مطلب ھوتا تھا کہ اس  نےاپنی معشوقہ سے ملنے جانا ھوتا ھے۔ میں پھلے بھی کئی دفعہ اس کی چوکیداری کر چکا تھا۔۔( اسکی تفصیل بھت جلد ایک اور کھانی میں لکھنے والا ھوں اس میں بھی اسکا تفصیلی ذکر کرونگا اس کے سارے معاشقے کا۔)۔۔مگر اس وقت ھم چونکہ شادی کی پہلی رات کی کھانی سننا یا پڑھنا چاہ رھے ھیںتو اسی پر توجہ مرکوز کرتے ھیں۔ قصہ مختصر کے مجھے چارپائی پر چادر اوڑھ کر سو نے کی تلقین کرتے یہ اپنی معشوقہ کے مخصوص کردہ کوڈ  تین دفعہ ٹارچ کی روشنی مارنے پر اس کے گھر کود گیا۔۔۔ایک گھنٹے تک تو خیریت رھی اب اسکی بڑی بھن و چاچی نے آوازیں دینا شروع کردیں۔ آخر کسی نے بتا دیا کہ وہ تو فلاں دوست کے ساتھ چھت پر جاتے دیکھا گیا تھا۔ اب اسکے نام کے ساتھ میرے نام کی بھی آوازیں دی جانے لگی۔۔ اب میں کیا کروں میں ے سوچا کہ یہ کنجر اپنے ساتھ مجھے بھی مر وائے گا ۔۔ اوپر سے کام یہ خراب تھا کہ فون بھی بند جا رھا تھا ۔۔۔ اسکی معشوقہ کا نمبر میرے پاس نہی تھا۔۔۔ کہ انکو خبردار کروں ۔۔ ایک گھنٹہ اور گذر گیا ۔۔پھر اس کا بڑا بھائی غصے میں چھت پر چڑھ کر آیا کہ تو ادھر سو رھا ھے اور ادھر لوگ تجھے ڈھونڈ رھے ھیں۔۔۔ یقین کریں میرے تو ٹٹے شاٹ ھوگئے اب اگر اس نے چادر اٹھا لی تو میں کیا جواب دوں گا۔۔۔ لیکن زرا سی دیر میں اسکے بڑے بھائی کو قصائیوں نے بلوالیا کہ جانور کدھر گرانا ھے اور گوشت کس کمرے میں کاٹنا ھے۔۔۔ وہ وھیں سے آوازیں دے دو کر چلے گئے ۔۔مگر یہ خبر نیچے پھنچ گئی کہ دولھا صاحب تو چادر اوڑھ کراوپر سو رھے ھیں۔۔۔ اب کچھ دیر کو خاموشی ھوئی تو میں نے انکی چھت پر روڑے وٹے پھینکنے شروع کردئیے کہ۔کنجرتواپنی نئی نویلی دلھن کو چھوڑ کر پرانے پیپے بجانے چلا گیا ھے ۔۔۔گیا سو گیا پر مجھے کس مصیبت میں گرفتار کراگیا ھے۔  اگر میں نیچے جاتا ھوں تو بھی سب مجھ سے پوچھیں گے کہ دولھا تمھارے ساتھ تھا اب کھاں ھے ۔۔۔ اور تو اتنی رات کو اس کو چھت پر کیوں لے گیا تھا ۔۔۔اوہر سے اسکا ابو بھی سخت گیر قسم کا پٹھان تھا اس نے تو سیدھی سیدھی گولیاں مارنی تھیں کہ ھمارا بچہ کو اغوا کرادیا ھے۔۔۔ اب نہ جائے ماندن ۔۔۔ نا پائے رفتن ۔۔۔ نہ میں اب اس چارپائی پر زیادہ دیر چھپا رہ سکتا تھا نہ میں بھاگ کر اپنے گھر جا سکتا تھا ۔۔دو راستے تھے اترنے کے یا تو سیڑھی سے اتروں اور اسکے باپ کا سامنا کروں۔۔ یا چھت پر سے کودوں مگر وھاں پر دیگوں کے سامان اور پکوائی والے بیٹھے صبح کی تیاری کر رھے تھے ۔۔ اب۔میں نے کھا کہ بیٹا صبح کی تازہ خبریں لینے کے چکر میں کدھر آکر پھنس گیا  ھے تو ۔۔۔مجبور ھوکر اس کی بڑی بھن نے جو سب لائن کلیئر کر آئی تھی سیڑھیوں پر کھڑے ھوکر کنکر مارتے ہوئے آوازیں دیں خالد خالد خالد ۔۔۔لیکن خالد ھو تو جواب دیے۔اخر اس نے نیچے جا کر چاچی کو بھیج دیا جس نے ایک آواز دی اور پھر گالی دی کہ کنجر کمرے میں کوئ تیرا منتظر ہے اور تو ادھر ۔۔تب تک اس نے چادر اٹھا لی تھی اور میں نے خوف سے آنکھیں ھی بند کرلیں تو اسنے کھا ھائے رے ھائے تو یہاں کیا کر رھا ھے اور خالد کھاں ھے۔۔ اتنے میں اسکی پیچھے سے آواز آئی کہ۔چاچی میں یہاں ھو کیا جلدی ھے میں آتا ھوں۔۔۔ میں نے شکر ادا کیا کہ عین موقعے پر تو آگیا ہے ورنہ میری تو آج خیر نہی تھی۔۔ چاچی کو گڑ بڑ کی سن گن مل گئی تھی لیکن وہ خاموشی سے جلدی نیچے اتر گئیں۔۔۔ یہ صاحب قمیص ان کے سامنے پھن رھے تھے کہ وھاں جاتے یہ اپنی قمیض اپنی ھی چھت پر چھپا گئے تھے کہ نشان نہ پڑھ جائیں۔۔ یہ نیچے جانے لگا تو میں نے بازو سے پکڑا کہ استاد ھمیں تو ابھی کھانی بتا کہ تو نے اس وقت کیا اسکی جانٹھیں اتارنی تھیں جو گیا کیا ایمرجنسی تھی بتا تو زرا۔  اس نے آنا کانی کرنی شروع کی تو میں نے کھا کہ میں بھی نیچے جاکر تیرے گھر والوں کو بتاتا ھوں کہ جس کو تم نے کنکر مارے وہ تو میں تھا یہ تو نائیلہ کے گھر اترا ھوا تھا  ۔ عورتوں نے ابی جاکر تصدیق کرلینی ھاں۔۔۔میری یہ دھمکی کام کر گئی اور بولا یار تو تو اپنی پرانی معشوقہ ھے ایک  کچھ دن پہلےھی میں نے گانڈ میں انگلی کی بولا۔کہ یہاں کرنے دو تو اسنے مجھ سے وعدہ لے لیا کہ تو شادی والی رات اگر میرے پاس آیا تو میں گانڈ میں کرنے دوں گی ورنہ نہی اور تیری میری یاری بھی ختم ۔۔۔وہ سالی لن بڑا پیارا چوستی ھے۔۔اب اپنی تواپنی ھے نا   نئی نویلی دلہن کو تو لن چوس نے کا  نہی بول سکتے نا یار سمجھاکر۔۔میں نے کھا بیٹا اب تو رات کے دو بجے ھیں میری جان چھوڑ اور اپنی والے کے پاس جانے سے پھلے اپنی بھن کو سمجھا لینا وہ آئی تھی تجھے بلانے ۔۔کنکر بھی مارے اور تو نواب صاحب معشوقہ کی گانڈ میں ڈال کر بیٹھا تھا اسنے کھا یار گولی کھالی تھی تو چھوٹنے کا نام نہی لے رھا تھا لن اب کیا کرتا۔۔۔ ایسے ھی اجاتا تو بھی سبکی ھوتی پر اسکی بھی گانڈ میں نے صحیح کی بجائی ھے ۔۔۔چلنے جیسی نہی رھی ۔ چوسنے کے بعد اس نے پھدی سامنے کی تو میں نے کھا کہ نہی اپنا وعدہ پورا کر ۔ آج بنڈ ھی مارنی ھے بس اس نے بڑی منتیں کی پر میں نے کھا نہی میں اتنا رسک لیکر آیا ھی بنڈ مارنے ھوںم۔میں نے اسکی چٹی چٹی موٹی موٹی گانڈ پر ھاتھ پھیرے بڑے نرم یار ایسا لگتا ایسے روئی اسکو تھوڑا ممے دبا دبا کر راضی کیا ۔پھر تھوک۔لگا کر جو اندر کرنے لگا تو مجھے کھا کہ۔میرے منہ پر ھاتھ رکھ لے اگر چیخوں تو منہ بند کرلینا۔ اور اھستہ اھستہ اندر کرنا ورنہ میں آئندہ نہی بلاؤں گی۔پھر جب میں نے ٹوپی اندر کی تو بولی درد ھورھا ھے نکال نکال میں نے بھاری نکالا تو کھل کی آواز آ ئی ۔۔اس نے جلدی سے تیل کی شیشی اٹھاکر میرے لن پر مل دیا اور مجھے دیا کہ گانڈ کی موری پر ڈالوں جب یہ سارا کام۔میں نے کردیا تو اب اس نے کھا کہ تھوڑا سا اندر ڈال کر رک جانا پھر تھوڑا اور اندر کرنا اس طرح قسطوں میں اندر کرنا میں نے کھا تو نیچے ھو میں دیکھتا ھوں ۔۔۔جب اس نے پھر میری طرف گانڈ کرلی تو میں نے تیل کے باوجود تھوک پھینکا اور اھستہ سے ٹوپی اندر کردی پھر رک گیا تو میں نے زرا دیر رک کر پھر مزید اندر کیا تو بولی بس بس اور نہی مجھ سے برداشت ھوتا  باھر نکالو ۔۔میں نے کھا کہ۔کنجری نخرے کرنے لگی ھے میں نے پھر پوڑیشن بنائ اور تھوڑا پیچھے ھوکر ایک زور دار جھٹکا مار اتو سارے ک آسارام لن اندر چلا گیا اور میںنے اسکے منہ ہر ھاتھ رکھ دیا اور اسکو نیچے گرا دیا کہ اسکی کمر پر چڑھ کر قابو کیا ۔۔اس نے کچھ دیر تو  ھلنا جاری رکھا تھالیکن پھر سنبھل گئی ۔۔۔ پھر تونے لگ پڑی کہ۔لالہ تو نے مارفیا اتن ظالم جھٹکا ۔۔لیکن میں نے بھی اھستہ سے پھر حرکت کرنی شروع کردی اور پھر تو گاڑی رواں ھوگئی جھٹکے ہے جھٹکا اب تو اسے بھی مزہ آنے لگا۔۔۔ لیکن دیر پتہ کیوں ھوئ اس کنجری نے کھا کہ اب تونے مجھے ایک دفعہ آگے سے بھی چودنا ھے اب تو میں پھنس گیا آدھے میں عورتوں کو پتہ کب بات منوائی جاسکتی ھے۔ اب اسکی تفصیل پھر اس کھانی میں ۔۔۔ قصہ مختصر یہ کہ اب اسنے اپنی کی اس رات دو دفعہ ھی لے سکا ۔۔۔اور پھر صبح اسکو دوسروں نے جاکر اٹھایا ۔۔۔ دولھن والے قریب کے تھے تو اس کی بھی سھیلیاں ھماری طرح رات کی رپورٹ لینے صبح ھی صبح پھنچ گئیں۔۔۔ باقی سب حسب معمول تھا ۔۔۔اسکی چاچی نے بعد میں اس رات کی تفتیش کی تھی اور وہ بھی مجھے بلیک   میل کرکہ اسکی تفصیل میری نئی طویل۔کھانی میں سناؤ گا۔۔۔ اپنا اور اپنے کا خیال رکھیئے گا ۔۔۔ سکھا دوستو ملتے ھیں آپکے کمنٹس میں ۔۔۔اتنی تھرل والی کھانی پر بھی اگر کوئ دوست کمنٹ نہ کرے تو۔۔۔۔۔ وہ کنجوس ھی ھوگا۔۔۔ کمنٹس ضرور دو چاھے ایک لائین ھو ۔۔۔ تنقید کو میں ویلکم کرتا ھوں۔۔ فقط آپکا بارانی  ر


پرائی شادی میں ۔۔۔۔ دیوانہ

کھانی نمبر 5

برداشت سے زیادہ۔۔۔۔ پینے کا انجام

 

یہ واقعہ ھمارے ایک ایسے پڑوسی کا ھے جو بیچارے کمپنی کی گاڑی میں ڈرائیور تھا ۔۔اور کبھی کبھی ڈرنک کر لیاکرتا تھا۔۔ اسکی شادی کی رات ھم خاص دوستوں کو بھی بتائے بغیر دولھا طارق رات کا کھانا کھا کر غائب ہوگئے ۔ رات ایک بجے تک تو ھم بھی اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ گھر سے پیغام آیا کہ لائن کلیئر ھے دولھا جو بھیجو۔ انکا گھر چھوٹا تھا تو کچھ مرد حضرات جو دور سے آئے ھوئے تھے اس پڑوس کے گھروں کے بیٹھکوں میں ایڈجسٹ کر کے سلایا ھوا تھا۔۔ کہ اس بات پر سب دوستوں نے اسے تلاش کرناشروع کردیا۔۔۔

اب جس کو نہی پتہ تھا چھوٹے دوستوں بچوں کو وہ بھی بیٹھک بیٹھک پوچھ رھے تھے کہ طارق آپکے پاس تو نہی سو رھا ۔۔۔اسکو گھر پر بلارھے ھیں۔۔۔

ایک تماشہ تشویشناک صورتحال اختیار کر جاتا اگر وہ جھومتا جھومتا بازار کی طرف سے آتا ایک دوست نظر نہ آجاتا ۔۔

وہ سمجھ گیا کہ جناب ٹن ھو کر آ ئیے ھیں۔۔۔ قسمت کی خرابی دیکھیں کہ اس کے چھوٹے سالے نے پوچھا کہ کدھر تھے آپ ۔۔۔ ھم جب سے ڈھونڈ رھے ھیں تو اس نے جھومتے جواب دیا کہ میں آگیا ھوں نا تیری بھن چودنے۔۔۔ سب ھنس پڑے تو چھوٹے نے غصے میں اسکو گالی دے دی۔۔۔ ظاھر ھے کہ سب کے سامنے ایسا جواب تو نہی دین چاھئے تھا۔۔۔ اب تو ایک تماشہ بن گیا ۔۔اس نے ٹن موشن میں ھی کھا کہ اور کس لیئے مجھے بلا رھے ھیں ۔۔تیری۔بھن چودوں گا آ ج۔۔۔۔ اب سب نے اس کے چھوٹے کو سمجھا بجھا کر وھاں سے ھٹایا ۔۔ کسی اسکو سیٹ کرنے کی خاطر ٹھنڈا پانی پیش کردیا تو پانی پینے کے بعد تو وہ زیادہ ھوا میں اڑنے لگا۔۔۔ لیکن اب عورتوں نے کھا کہ تم ھی دوست اب اس کو کمرے تک پھنچاو ۔۔۔ھم سے تو یہ نہی سنبھالا جائیگا۔۔۔

اب جو اسکو بولے کہ چل گھر چلتے ھیں تو بولتا صبر کر یار ۔۔بھن چودوں گا آج ۔۔۔ پھر آخر قربانی کا بکرا سمجھو یا

پرائ شادی میں ۔۔۔۔دیوانہ ۔۔۔ نے ھی اسکی گالیاں برداشت کرتے اسے زوری کھینچ کھانچ کے کمرے میں داخل کیا اور دروازہ بھی پیچھے سے بند کردیا۔۔ ۔ھاھا ھا

جب صبح سویرے ھم کام کرانے واپس پھنچے تب دیکھا کہ دولھا میاں کو اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔۔۔ کیوں کہ جب یہ پلنگ کے پاس پھنچے تو کسی چیز سے ٹکرا کر  پلنگ کے پائنتی والی نکڑ سے ٹکرا کر ماتھا پھڑوا بیٹھے اور دلھن کی شور وغل پر پھلے سب یہی سمجھے جو سمجھنا چاہیے تھا ۔۔۔ لیکن پھر جب دلھن نے باقاعدہ باھر والوں کے نام لیکر پکارا تب لوگوں نے دروازہ باھر سے کھول کر بے ھوش دولھا کو اسپتال روانہ کیا ۔۔جو ڈاکٹر کے آنے اور پٹی وغیرہ ھونے تک صبح ھی ھوگئی ۔۔۔اور اس طرح زیادہ پیکر زیادہ چودنے کے چکر میں۔۔۔ سب کچھ سے گئے اور پھر پٹی کو چھپانے کی خاطر پٹکا بھی باندر کو پھنا کر بٹھایا گیا ۔۔۔اور اب جو ھار پھنانے آتے انکو بھی اسکے ھاتھ پر پھنانے کو کھا جاتا ۔۔اب ھر ایک میں چہ میگوئیاں ھونے لگیں کہ کیا ھوا۔۔۔ پٹکا تو کل پھننا تھا آج کیوں۔۔۔۔ تو اب ھر ایک کو کیا جواب دیا جاتا۔۔ میں نے تو ھر ایک کو یہی جواب دیا کہ انھوں نے رات کو ھی عالم کورس مکمل کرلیا تو ۔۔۔۔پٹکا بھی اسی پھنایا گیا نا۔۔۔  اوکے دوستوں ملتے کل ایک اور بھی اچھی اسٹوری کے ساتھ۔ ۔۔ اور آپ لوگ  بھی میرا ساتھ دیں ۔۔۔کھانی نمبر لکھ کر اسی ٹاپک کے تحت آپ بھی اپنی کوئی چلبلی سی کھانی شیئر کرسکتے ہیں۔ آپکا  بارانی


کھانی نمبر 6

گلگتوں کا عجیب رواج۔۔۔

یہ ھمارے دوست شفیق کی شادی کا واقعہ ھے کہ ھم برات میں تو اتنا دور نہ جاسکے تھے ۔لیکن شادی ولیمے کے انتظامات میں کلیدی کردار ادا کر رھے تھے۔ جیسے ٹینٹ وغیرہ کا انتظام دیگیں پکوا نے کا سارا سامان وغیرہ شام کے قریب وہ لوگ دلھن کو لیکر گھر پھنچے تو ھمیں بھی اپنے یار سے ملنا کا اشتیاق ھوا۔ اس نے رات کو اپنی تھکاوٹ کے باجود چودائی کا پروگرام بنا رکھا تھا ۔اس سے پتہ چلا کہ ان کے خاندان میں ایک عجیب رواج ھے کہ دلھن شلوار کے ناڑے کو بھت سارے وٹ یا گانٹھیں دیتی ھیں اور کھولنا دولھا کو خود ھوتا ھے اب وہ چاھے انگلیوں سے کھولے  دانتوں سے یا کسی اور چیز سے ۔ اور یہ کام اسکی سھیلی یا دیگر رشتہ دار کے تعاون سے ھی ممکن ھوتا ھے۔۔۔ اب اگر دولھا کا نیٹ ورک اچھا اھو تو وہ جانے سے پھلے ھی جان جاتا ھے کہ کس قسم کی گانٹھیں دی گئیں ھیں۔ورنہ پھر جانے ۔۔۔۔ بھلے ساری رات ناڑہ کھولتے ھی گزر جائے۔

اسلیئے اسنے یہ پلان سوچا تھا کہ چوں کہ اس طرف کے مھمان تھکاوٹ کی وجہ سے جلدی سوجائیں گے تو وہ دیر سے کمرے میں جاکر افتتاح کا فیتہ آسانی سے کھول کاٹ ائیگا۔۔۔

بھر حال اب ھم بقایا میچ کا آنکھوں دیکھا احوال سنانے کے لیئے حجلہء عروسی لیے چلتے ھیں ۔

رات کو تقریباً بارہ بجے ھماری مخبر بھابھی نے ھمیں اطلاع دی کہ مھمان سب سو چکے ھیں آپ میچ کھیلنے میدان میں جاسکتے ھیں۔ ھم بھی لمبا چوڑا صحن آرام کے ساتھ پار کرتے ہوئے اپنے کمرے میں پھنچے آرام سے کمرے کی کنڈی لگائی پانی کا گلاس پیا اور سوتی دلھن کی کمر پر ھاتھ پھیرا کہ جاگ جائیں دو دن رات کے مسلسل سفر نے سب کو تھکا مارا تھا لیکن ھم بھی تو  آج ھی افتتاح کرنا چاھ رھے تھے کہ اتنے سالوں کے انتظار کے بعد تو یہ رات میسر آ ئی تھی کہ ھم اپنی الاٹمنٹ شدہ چوت کے حقدار قرار پائے تھے ۔۔ جب بیگم نے کوئی حرکت نہ کی تو ھم بھی پرواہ نہ کرتے ھوئے ان کے ساتھ ھی لیٹ گئے اور ان کی ھپس پر ھاتھ پھیرتے کبھی پیٹ پر ھاتھ پھیرتے انکے مموں تک جا پھنچے جس پر انکے جسم نے کسمسا کر اپنے جاگنے کا اعلان کردیا تو ھم نے انکی لپس پر کس کردیا اور پھر ان کے حال احوال دریافت کرنے پر دھیان لگاتے انکی قمیض اتروادی اب ممے بریزر میں تھے تو ان پر انگلیوں کے جادو چلانے کا کام شروع کردیا۔زتا سی دیر میں ھم نے انکو اپنے اوپر کرلیا اور پھر انکی پیٹھ پر ھاتھ پھیرتے پھیرتے اپنی منزل۔مقصود کی طرف ھاتھ بڑھا نے لگے تو ھم پر انکشاف ھوا کہ کام اتنا آسان نہیں جتنا ھم سمجھے تھے۔ اتنا سخت نالا باندھ آگیا تھا کہ ھماری انگلیاں بھی اندر پوری طرح نہ جاسکی ۔مگر ھم نے خفگی سے بچنے کے لئیے واپسی کی راہ لی اور اھستہ سے واپس بریزر کی طرف ھاتھ لے آ ئیے اور پھر بریزر کا ھک کھول کر انپر اپنے جذبات کو مرکوز کردیا ۔۔۔

کچھ دیر بعد ھم انکو نیچے لٹا کر اوپر خود تشریف فرما ھوئے کہ ممے چوسنے کا شرف حاصل ھو۔۔ کافی دیر اپنے اپکو بھلایا کہ شاید اسکو گرم کرنے پر خود ھی سارے راستے آسان کردے لیکن کچھ اثر نہ ھوا۔۔۔ کیوں کہ۔میں نے اپنے رشتہ داروں سے سن اتھا کہ اگر پھلی رات ناڑا نہ کھولا جاسکا تو پھر زندگی بھر اسکی طعنہ سننے کو مل سکتا ھے۔ اب اگر میں نے بغیر اجازت و اطلاع شروعات کر ھی دی ھے تو اب یہ پل۔پار کرنا ھی ھوگا۔ ورنہ کل پھر نئے سرے سے کوئی نیا انداز اپنایا جاسکتا ھے۔۔ جس میں ڈبل سلوار تک کا آپشن موجود ھوتاھے۔ تو  پھر میں نے ایک۔سائیڈ پر ان کو لٹا کر انکی شلوار کے اوپر سے ھی اندام انھدانی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی ۔پھلے تو انھوں نے ھنستے ھوئے کھا کے گدگدی ھوتی نہ کریں۔ لیکن جب مسلسل ھم نے اپنی نادانی جاری رکھی تو اس کے اچھے اثرات محسوس ھونے لگے ۔۔ اور انھوں نے بھی ھمیں اپنے ساتھ کس لیا ۔ مگر کچھ دیر بعد پھر ھم جب سلوار کی ناڑے کو کھولنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اس کو تو بے شمار گانٹھیں دی ھوئی ھیں۔۔ آخر کار ھم نے پوچھ ھی لیا کہ یہ کب کیا تو بولیں کہ صرف آپ لوگ ھی گندم ک آٹا نہی کھاتے ھاں۔۔۔۔ اور کھلکھلا کر ھنس پڑیں ۔۔۔کہ۔ھ

کو بھی اندازہ تھا کہ آپ یہ شرارت کر سکتے ھیں۔۔۔ اور کھینچ کر ھمارے گالوں پر کس کردیا ۔۔ ھم نے بھی لپس چومتے ھوئے اپنی مخبر کی بتائی ھوئی جگہ یعنی پلنگ کے سرھانے کی طرف رکھا گیا ۔ تیز دھار آلے کی تلاش شروع کردی مگر کچھ ھاتھ نہ آیا۔

پھر ھم نے ایک اور پینترا بدلہ کے ھم پیٹ پر کس کرنے لگے کہ اس بھانے  دانتوں سے ناڑا کھول یا کاٹ دیں گے ۔اب ھم نے پیٹ کا سفر جو شروع کیا مموں سے وھاں تک پہنچتے کتنی دیر لگتی یارو۔   مگر وھاں پر ھم یہ دیکھ کر حیران ھوگئیے کہ واھا۔ تو دو نالے بندھے ھوئے تھے ۔ اب آنکھوں سے دیکھ کر یقین نہ ھوا تو ھاتھ لگا لگا کر دیکھا۔ اب انکی ھنسنے کی باری تھی ۔ھم جو اپنے تئیں یہ سمجھ رھے تھے کہ ھم نے انکو چوماچاٹی کے ذریعے سیکس میں مبتلا کیا ھوا ھے سب عبث ثابت ھوا۔۔۔

وہ بھی سب کچھ انجوائے کر رھی تھیں لیکن یہ ایک امتحان تھا کہ ھم کونسا طریقہ اختیار کرتے ھیں اس موت کے کوئیں تم رسائی کے لئیے ۔۔یہ الفاظ غصے کی وجہ سے اس وقت ھمارے ذھن میں تھے۔۔ بھر حال اب تو ھم کھلے عام اس ث قریب پھنچ چکے تھے اب یا  تو کھولنا تھا یا ناکام ونا مراد سونا تھا۔ تیسرا آپشن منتیں کرنا تھیں جو کہ ھم فی الحال کرنا نہی چاھتے تھے۔۔ ھم ایک اور پینترا یہ بدلہ کہ اس کو انگلیوں سے کھولنے کے بجائے دانتوں سے کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس دوران ھم مسلسل پلنگ کے چاروں کونوں پر فون کے نیچے ھاتھ مار مار کر دیکھ چکے تھے کہ چھوٹا چاقو رکھ اھوگا مگر بے کار ۔۔۔۔ اگلوں نے بھی اچھی طرح تلاشی لینے کے بعد ھی کمرہ خالی کیا تھا ۔۔۔مجھے کوئی ایسی نوکدار چیز کمرے ث نظر نہی آرھی تھی جس سے میں ناڑے کو یکدم کاٹ سکوں ۔۔ اور ناڑے بھی کو ھلکے پھلکے نہ تھے۔۔۔وھاں کے خالص سوتی دھاگے کے یہ موٹے موٹے تھے۔۔۔ اب ھم  نےبامر مجبوری  نے دانتوں سے کھولنے کا فیصلہ کیا مگر وہ بھی اتنا اسان۔ کام۔نہ۔تھا۔۔۔۔ جاری ھے

 

پرائی شادی میں۔۔۔۔ دیوانہ

کھانی نمبر 6 پارٹ 2

یار میرےدماغ آیا تو تھا کہ کھیں ھمارا سھولت کار ھی تو کھیں اگلی پارٹی سے نہی مل گیا۔ آخر عورت زات تھی۔

اب ھم نے سوچا کہ ایک دفعہ پھر ٹرائی کرتے ھیں۔ کیا پتہ ھم نے صحیح جگہ پر ھاتھ نہ مارا ھو تو ھم نے پھر نانگا پربت  کی پھاڑیوں پر حملہ کردیا اور کبھی ایک کو چوستے دوسرے کو چھیڑتے پھردوسرے کو چوستے۔۔۔ اور یہ سلسلہ بھی کچھ دیر چلا لیکن دماغ میں فوری طور پر اس بات کو لیکر جنگ برپا تھی کہ لن صاحب نے ایک سگنل بھیجا کہ ھمارا رگڑا بھی لگا کر دیکھو ۔۔کیا پتہ واسنا سے سرشار ھو کر خود ھی کوئی شارٹ کٹ بتا دے۔۔۔

ھم نے یہ والا حربہ بھی آزمانے کی خاطر اپنا وجود ان کے نرم و نازک بدن پر سوار کردیا ۔۔۔اور پھر اپنے سوٹے سے سلوار کے اوپر سے ھی اندام انھدانی پر اھستہ اھستہ سے گھمانا ٹکرانا ۔۔یا دراصل رگڑنا شروع کردیا۔۔۔اور اس درمیان۔ ھم نے دوبارہ سے فوم کے گدے کے نیچے دور دور تک ھاتھ گھمایا لیکن نتیجہ۔ ٹائیں  ٹائیں  فش۔ کچھ دیر میں اپکو  یقین نھی ھوگا کہ میرے اندازے سے کوئ سات آٹھ منٹ بعد بیگم نےھمیں کس کے جپھی ڈالی اور کچھ  دیر بعد پھر شانتی چھاگئی۔۔۔۔

یعنی وہ تو ھوگئیے خلاص تو پرسکون ھوگئے لیکن ھمارا لن صاحب تو ان کے  اس طرز محبت پر سیخ پا ھوئے ۔اور اندرونی طرف سے گالیوں کی سدائیں آنے پر  ڈھارس دی کہ یارا زرا صبر۔

ستاروں سے آگے جھاں اور بھی ھیں ۔

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ھیں۔

آخر ھم نے سو سو کر کے آنے کا بھانا کرکے سلوار زیب تن کی اور واشروم کی راہ لی۔۔۔ جھاں سے ھمیں قوی امید تھی کہ کوئی نا کوئی ھتھیار  ناڑا کاٹنے کے لئے میسر آجائے گا۔۔

لیکن خدا گواہ ھے کہ جو سیفٹی ریزر ھم نے تین دن پھلے ھی نیا نکور لاکر اووووپر کرکہ اپنے تئیں چھپا کر رکھا تھا وہ بھی غائب تھا۔

ھم نے اب کہ سوچا کہ  نئے سرے سے شروعات کرنے میں کیا حرج ھے ۔۔دوسری ٹرائی میں شاید کچھ بات بن جائے ۔۔ جب ما بدولت چارپائی پر آن وارد ھوئے۔۔ تب بیگم کی ھلکی ھلکی مسکان ھماری انسلٹ کے لیئے کافی تھی۔۔۔ ھم نے لپ کسنگ شروع کردی زرا سی دیر میں ھم پھر پھاڑیوں پر چڑھ کر واپس گھاٹیوں میں پھنچ گئے اور ترچھی نگاہوں سے ناڑے والی رکاوٹ پر غور کرنے لگے کہ یار کیا ٹرک استعمال کی گئی ھے کہ دونوں ناڑے آپس میں گڈ مڈ نظر آتے ہیں۔

ھم نے ایک لاسٹ ٹرائی کے طور پر ایک چال چلی کہ ان سے بولا کہ اگر آپکا آج چدوانےکا موڈ  نہی تو خیر ھے ۔کل سہی ۔۔ھمیں کون سا جلدی ھے۔۔۔ توھنس کر بولی کہ کل ھوسکتا کہ اس سے بھی سخت رکاوٹ ھو ۔۔اور  دل تو ھمارا بھی ہے ۔لیکن آپ دروازہ کھولوگے تو مھمان اندر جاسکے گا ۔۔۔ ھاھاھا

میں سمجھتا ھوں یہ تو بڑی سی نکی جئیےبیثتی سی نہی ھوگئی۔۔۔اب  ھم نے آخر کھل کر ناڑے میں ھاتھ ڈال کر اسے کھینچا تو وہ بھی ساتھ ھی اوپر آگئیں۔۔۔ ھم نے تینوں بلب جلا کر اپنی خود کی آنکھوں کو فل زوم کرکےبھی دیکھ لیا مگر کوئی رستہ دکھائی نہ دیا ۔۔۔ اور انکی ھلکی ھلکی مسکان اب باقاعدہ ھلکی موسیقی والے قھقھوں میں بدل گئی۔۔

چاروناچار ھم نے اپنے ٹنگی ھوئی قمیض سے بیگم سے چھپا کر موبائیل نکالا اور ایک دفعہ پھر واشروم میں جاکر ۔۔۔۔ راقم کو فون ملایا تو اس نے کافی دیر بعد نیند بھری آواز سے پوچھا کیا ھوا۔۔۔ چھکے مارنے پر تاڑیاں مارنے والے نہیں ملرھے کیا ۔۔میں نے تپ کر کھا تجھے سے ایک کام پڑگیا ھے ایمرجنسی میں تو اس نے بولا کہ خیر ھے یار۔۔۔ حکم کر ۔۔۔ جب میں نے کھا کہ مجھے بلیڈ یا چاقو لادے  بھائی۔۔۔ تو اسنے کھا  کیا کھا پھر سے بول ۔۔۔ جب میں نے اپنی بات دھرائی تو بولا پاگل ھوگیا کیا ۔۔۔ اس وقت کھاں سے لاؤں اور تو کیا خودکشی کرنے لگا ھے۔۔۔یا اگلی پارٹی سے  کوئی سخت قسم کی گستاخی سرزد ہوگئی ھے۔۔ اور تو یہ اھستہ اھستہ آواز میں  کیوں بات کر رھا ھے ۔۔۔۔ چود ۔۔ کیوں ٹینشن دے رھا مجھےرات کے چار بجے

۔۔۔تب میں نے اس کو۔مختصر احوال دیا ۔۔ وہ آگے سے مجھے مختلف ھربےبتانے لگا ۔۔میں نے کھا یار جو ےوبتارھا ھے میں وہ سب آزما چکا ھوں۔۔ اور بیگم اب ھماری ناکامی پر کھل کر ھنس رھی ھے۔

اس نے کھا کہ چلو میں ٹرائی کرتا ھوں بلیڈ چلا ھوا شاید واشروم میں مل جائے۔۔۔ چلے گا نا ۔۔۔ میں نے کھا کہ یار کچھ بھی چلے گا۔۔۔

وہ بیچارہ اٹھ کر میری خاطر واشروم میں بلیڈ ڈھونڈنے میں مصروف ھوگیا اور یہاں مجھ سے ٹائم نہ پاس ھو۔۔ کچھ دیر بعد اسکی آواز آئی کہ یار بلیڈ تو مل گیا ھے پر چلا ھوا ھے۔ جراثیم نہ لگ جائیں میں نے کھا یار تو مزاق مت کر میں نے اس سے زیر ناف بال یا کچے نہی کاٹنے۔ ناڑا کاٹنا ھے یار۔۔ تو وہ بولا یہ تو ٹھیک پر میں یہ تجھ تک پہنچاؤں گا کیسے۔۔۔ اب تو بولتی ھی بند ہوگئی میری۔۔۔ اگر وہ دوازہ بجا کر بھی آتاھے تو مجھ سے کیسے مل سکتا ھے ۔۔۔اور اگر وہ کسی کو دیتا ھےکہ شفیق نے منگوایا ھے تو بھی بات کھل سکتی ھے رات کو چار بجے دولھا کو اسکی کیا ضرث پڑھ گئی۔۔۔

آخر اس نے ایک تجویز دی کہ میں تمھارے چھت سے روشن دان میں چپکےسے رکھ دیتا ھوں تو تھوڑی دیر کہ بعد جا کر اٹھالینا۔ تو میں نے تپ کر بتایا کہ گدھے میں واشروم سے ھی بول رھاھوں تو

اسکا قھقھہ کافی دیر تک سنائی دیتا رھا۔۔۔ اسے گالی دی کہ میری عزت کا سوال ھے اور تجھے ھنسنے کی لگی پڑی ھے۔۔تو وہ بولا کہ تیری سالی بڑی تیز نکلی کہ واشروم کی بھی صفائی کی اور بیڈ کے نیچے بھی کوئی چیز نہیں رھنے دی تو میں کیا کروں۔۔

۔ اور تو کنجر ۔۔۔۔ساتھ لے جاتا خنجر۔

اب تو مجھ پر کیوں رعب جھاڑنے لگاھے۔۔تیں جامیں نہی لاتا کچھ۔۔۔۔ اب میں پھر اسکی منتین کرنے لگا یار ایسا نہ کر میں  تیری شادی پر  تیرے ساتھ مکمل تعاون کروں گا۔۔۔تو  آگے سے بولتا کہ نا بابا نا ۔۔میں تیری سالی یا تیرے خاندان میں شادی نہی کروانےکا۔۔

اب میں اپنے

یھی باتوں میں پھنس رھا تھا تو میں نے پھر منت کی کہ یار ایک دفعہ ھیلپ کردے  بھائی۔۔ تو اس نے کہا کہ ٹھیک اب میں چھت پر پھنچ گیا ھوں ۔ ادھر تو دو تین باتھ رومز میں لائٹس جل رھی ھیں اب تو بتا کہ کیسے تجھ تک پھنچوں۔ میں نے کھا یار یہ کیا ھورھا ھے میرے ساتھ آج کیا چوت کی چدائی نصیب میں نہی ھے کیا ۔۔۔تو بولا اب کیا ھوا کنجر میں چھت پر چوروں کی طرح تیری خاطر بیٹھا ھوں اور اب تو مایوسی والی باتیں کر رھا ھے ۔۔۔تو میں نے کھا کہ بھائی ۔واشروم کے بلب کا بٹن تو باھر لگا ھوا ھے۔۔ تو اس نے کھا کہ پھر کیا ھوا  میں نے بتایا کہ وھاں سے تو بیگم۔بھی دیکھے گی۔۔ تو چڑ کر بولاکہ یار ھمت کر یا پھر میں نیچے اتر رھا ھوں۔۔۔

میں نے کافی دیر بعد ڈر ڈر کر اھستہ سے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ بیگم سلمیٰ کی آنکھیں بند ھیں ۔میں نے جلدی سے تین چار دفعہ بٹن بند چالو کرکہ اسے لوکیشن بتا ئی تو  پھر اس نے کھا کہ ٹھیک ھے اب تو روشن دان کے پاس آجا میں دیتا ھوں تجھے۔۔۔ میں نے جلدی سے واشروم کا دروازہ بند کیا اور بالٹی الٹا رکھ کر اس پر اونچا ھوکر واشروم کے روشن دان میں ھاتھ پھنچا دیا تو اس نے کاغذ میں لپٹا ھوا بلیڈ مجھ تک پھنچا دیا۔۔۔ اس کے بعد میں بڑے فخر سے واشروم سے باھر نکلا اور خاموشی سے  پلنگ کے پاس جاکر سلمی بیگم کی ناڑے پر بلیڈ چلا نا شروع کردیا ایک بات بڑی اچھی ھوئی کہ بلیڈ نیو تھا جو اس نے مزاقا پرانا کہ دیا تھا ورنہ۔۔۔ ۔بلیڈ نے جلدی سے ایک ناڑے کو کاٹ دیا اور دوسرے کو زرا ھاتھ سے اونچا کرنا پڑا ۔۔۔ تو ھاتھ ٹچ ھونے سے بیگم جاگ پڑی اور جب تک وہ صورتحال سمجھتی ھم۔نے۔ماھت جیب کتروں کی طرح ناڑے کاٹ ڈالے تھے جب اس نے ناڑے پر ھاتھ ڈالا تو وہ کٹے پڑے تھے جبکہ اس درمیاں ھم نے جیب کتروں کی طرح بلیڈ کو انگلیوں میں چھپا لیا تھا۔۔۔ اس نے کھا کہ یہ آپ نے کیسے کرلیا ۔۔۔ اب ھنسنے کی باری میری تھی۔۔۔ میں نے کھا کہ ھم۔بھی شھری لوگ ھیں کچھ تو عقل مند ھوں گے نا۔او۔۔۔ تو وہ لاجواب ھوکر مسکرا دی اور ھم نے ان پر حملہ بول دیا کہ ایسے نہ ھو کہ اب کوئی اور رکاوٹ نہ کھڑی کردی جائے۔۔۔ اس کے بعد تو ھم نے چند چساڑوں کے بعد جو۔ چدائی شروع کی تو صبح تک تین لمبے لمبے چھکے مارے

لیکن انٹا غفیل ھونے سے پھلے ھم نے بلیڈ کو توڑ تاڑ کر واشروم میں بھا دیا تاکہ ھمارا راز نہ کھل سکے کہ ھم نے یہ قلعہ بیرونی امداد سے فتح کیا ۔۔۔۔ طولاے کے ڈر سے مصالحہ زرا کم شامل کیا ھے ورنہ تو ھم بتا سکتے تھے کہ پھلا چھکہ آن لائن باؤ نڈری سے کتنی دور گرا تھا اور دوسرا۔۔۔۔۔۔  پر چلو اگر کسی کو چھکوں کی تفصیلات درکار ھوں تو baranithundar@gmail.comپر میسیج کرکہ پوچھ سکتا ھے۔ اوکے دوستو ملتے ھیں آپکے کمنٹس میں۔بارانی تھنڈرایٹ جی


پرائی شادی میں ۔۔۔ دیوانہ

کھانی نمبر 7 پارٹ ون

آج کی کھانی آدھی نکاح والے مولبی کی زبانی

میں اپنے مدرسہ میں بیٹھا کچھ مطالعہ کر رھاتھا کہ دو بندے میرا نام لیکر مجھے پوچھنے آگئے ۔جب میں نے کہا کہ میں ھی ھوں

مولبی عاشق تو کھنے لگے کہ سائیں نکاح پڑھانے جانا ھے

میں نے کھا کہ چلے چلیں گے آپ بتائیں کہ کس وقت جانا ھے اور کون مجھے لینے آ ئیگا۔ ان میں ایک نے کھا کہ سائیں لڑکا ھمارا تھوڑا اڑیل قسم کا ھے ۔نخرے کرتا ھے ۔ می نے کھا کہ تم لوگ راضی خوشی نہی کروارھے کیا۔۔ تو کھا گیا کہ ھے تو راضی خوشی مگر مسئلہ ھے میںنے کھا کہ پھلے مسئلے حل کرو پھر نکاح کروالینا۔۔مگر وہ دیھاتی قسم کے لوگ تھے ضدی ٹائپ انھوں نے کھا کہ اب ھم لوگوں کو دعوت دے چکے ھیں ۔اور کل کے دن میں نکاح ھوگا رات کوپھر جو ھوگا ھم سنبھال لینگے ۔سب صرف نکاح پکا پڑھا دینا باقی اسکی ماں سب سنبھال لیگی۔ اور ساتھ ھی دھمکی بھی دی کہ آپ پکا نکاح نہی پڑھاسکتے تو ھم کسی دوسرے مولبی کو دیکھ لیں گے۔ اب جاتے گاھک کو دیکھ کر میں نے کھا کہ میرا نکاح ایسا ھوتا ھے کہ جن چھوڑے بھوت چھوڑے پر میرے نکاح والے کاغذ نہ چھوڑیں۔ یہ سرکاری ھیں۔ اب تمھارا چھوکرا ایک دفعہ اس پر سائین کردے پھر اسکا باپ بھی نہی چھڑا سکتا۔ ان کو یہ دلاسہ دیکر ٹائم فکس کرکہ میں نے ان کو روانہ کیا۔ خود سوچنے لگا کہ کیا زمانہ آگیا ھے لوگ شادی کے لیے پریشان ھیں اور انکا لڑکا راضی نہی ۔۔۔

خیر اگلے دن وقت مقرر پر ایک بندے نے مجھے موٹر سائیکل پر سوار کیا اور ھم روانہ ھوگئے ۔کوئی دو گھنٹے کے سفر میں میرا تو انجر پنجر ھل کہ رہ گیا۔ کچے راستوں پر جھمپ۔ کھا کھا کہ میر اسر درد کرنے لگا ۔۔جب انکے دور دراز گھر پھنچے جھاں پر کچھ لوگ نکاح کی محفل میں شریک ہونے آئے تھے تو انکے ساتھ مجھے بھی بٹھا دیا گیا۔۔۔ کوئی گھنٹہ گزر گیا تو میں نے کھا کہ بھائی کھاں ھے دولھا لیکر آ ؤ تو نکاح پڑھایئں میں واپس بھی جاناھے توپتہ چلا کہ صاحب نھانے نھرپر گیئے ھیں ابھی آتے ھیں۔ مجھے پھر حیرت ھوئی کہ واہ یار کیا زمانہ آگیا ھے۔۔ خیر جب دولھا آیا تو اس کے ساتھ ڈھول بجانے والے بھی آگئے اور بجانا شروع ہوگئے میں نےکھابھی کہ پھلےمجھے نکاح پڑھالیں نے دو ۔ پھرتم نے جو تماشہ کرنا وہ کرتے رھنا ۔۔۔مگر انھوں ڈھول بجانے والے نے مجھے کھا کہ ھمیں بھی دھاڑی بنا لینے دو ۔ پھر یہ مانےیا نہ مانے۔ سندھیوں کا ماحول تھا خیر کوئ آدھا گھنٹہ وہ سمع خراشی کرتے رھے میں سوائے انتظار کے کچھ نہی کر سکتا تھا۔ جب وہ اپنے رواج ھلکے کر چکے تو پھر انھوں نے کھا کہ اب اسکو دو رکعت نفل نماز بھی آپ پڑھاؤ۔میں نے کھا کہ اس میں کون سی مشکل ھے نھا کہ آیا ھوا ھے مسجد جاکر دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرلے۔ بڑھے بوڑھےکھنے لگے کہ نہی جی ھم میں رواج ھے کہ مولبی ھی پڑھتا ہے۔۔ میں نے کھا کہ شاباش تم کو ھو یار۔۔۔ شادی تمھارے لڑکے کی تو نفل میں پڑھوں ۔۔۔ پھر ایک لڑکے نے جو تھوڑا سلجھا ھو لگتا تھا کھنے لگا کہ سائیں چلیں مسجد ۔۔۔ میں اپکو سمجھاتا ہوں طوعاً و کرہاً میں چلا دولھا کے ساتھ ۔جب مسجد پھنچے تو کھا گیا کہ آپ بھی وضو کریں تو آپکی دیکھا دیکھی لڑکا بھی وضو کرلے گا۔ میں نے بھی سمجھا کہ شاید وڈیرے کا لڑکا ھے کبھی وضو نہی کیاھوگا۔ تبھی یہ چاھتے ھیں کہ مولبی وضو کرے تو وہ بھی نقل کرلے گا۔ اب نفل کی باری آئی تو اس میں بھی جیسا میں کرتا گیا۔ دولھا بھی ویسا ھی کرتا گیا۔ اب واپس آ گئے کہ اب تو نکاح پڑھایئں تو کھا گیا کہ دولھا والدہ کے پاؤں پڑنے گیا ھےہ  اجازت لینے مجھے بھت کوفت ہوئی کہ عجیب لوگ ھیں سارے کام ابھی یاد آرھے ھیں۔ مجھے دو گھنٹے واپس سفر کر کے واپس بھی جانا ھے۔ خیر ھوئی کہ زرا دیر بعد دولھا صاحب ھار شارپھن کے ھمارے سامنے آموجود ھوئے۔ ھم نے دیر نہ۔کرتے ھوئے جلدی سے فارم بھرا گواہ اور وکیل کو اندر بھیجا کہ دولھن سے پوچھ آئیں اور دستخط بھی لے آئیں۔ ان لوگوں کو روانہ کرکہ۔ھم نے دولھا کو اللھمینی پڑھانی شروع کی تو وہ تو بھت تیز نکلا مجھ سے آگے آگے کلمے پڑھ کر سنانے لگا ۔۔ پاس بیٹھے لوگ واہ واہ کرنے۔لگے۔ مجھے حیرت تو ھوئ کہ کھا۔ تودورکعت نماز نہی آتی تھی اور کھاں سارے کلمے فر فر سنادئیے بھر حال اب جو اندر فام لے گئے تو مایوس واپس آئے تو مجھے شک ھوا کہ اندر ھی اندر مسئلہ کوئی اور ھے تو بیٹا پھنس گیا ھے ان لوگوں میں آکر ۔۔ میںن روڈ بڑا دور گاڑی بھی کوئی نہی اب انھی کی رحم وکرم پر ھے سب کچھ خیر جب وہ لوگ

قریب پھنچے تو انھوں نے انکشاف کیا کہ دلھن اپنی نانی کے گھر چھپ کر چلی گئی ھے اور نانی راضی نھی۔ اس شادی سے اب کیا کیا جائے ۔ پھر فیصلہ ھواکہ دوتین بڑے جائیں اور اسے منائیں اب کل لوگوں کو دعوتیں دے رکھی ھیں۔ اب تو وڈیرے کی عزت کا مسئلہ بن جائیگا۔ میں نے بھی کھا کہ جاؤ یارجلدی کرو بات کو ایک طرف کرو۔۔ انھوں نے کھا کہ تم سائیں کو چائے پلاو ھم زرا نانی کو منا کر آتے ھیں۔جب میں نے معلوم کرایا کہ نانی کا گھر کھاں ھے تو پتہ چلا کہ وہ تو دس کلومیٹر میٹر دور کے ایک گاؤں میں ھے۔ وھی ایک گاڈی  تھی اس گاؤں میں جس پر وہ لوگ وھاں چلے گئے تھے ۔ خداخدا کرکہ وہ لوگ واپس آ ئے ۔انگوٹھالگواکر جب ھم نے دوسرے گواھوں سے سائن لیئے تب تک دولھا صاحب غائب ہوگئے تھے ۔ مجھے بڑا غصہ آ یا کہ عجیب لوگوں میں پھنس گیا ھوں ۔ دولھا میاں جھاڑیوں میں جاکر چھپ گئیے تھے کہ میرے فلاں ماموں کو نھی بلایا گیا تو میں ھاں نہی کروں گا۔ کوئی گھنٹہ بھر اس نے ضایع کیا ماموں صاحب نے آکر شرط شرائط میں سب کو الجھا دیا۔۔۔ قصہ مختصر کہ دولھا کے دوستوں نے بیچ میں پڑھ کر نکاح نامے پر دستخط کروائے اور ایک دوست کو اس نے پابند کیا کہ یہ آج رات میرے ساتھ ٹھرے گا مجھے کچھ کام ھے اس سے تو دوستو کھانی کا اگلا حصہ بھی پڑا مضحکہ خیز ھے ۔۔۔ ملتے ھیں آ پ سے اگلی قسط میں۔

فقط بارانی تھنڈر

 

 


پرائی شادی میں ۔۔۔ دیوانہ

کھانی نمبر 7 پارٹ ٹو

میں کاسو کا دوست راجو جب میں مولبی کو واپس چھوڑنے جا رھا تھا تو اسپیشل گولیاں منگوانے کے لیئے کچھ پیسے دے بتا یا کہ لازمی لے کر آناتب تک شام ھوچکی تھی۔

میں نے اس کو دیتے ھوئے کھا کہ کھانے کے گھنٹے بعد کھانا اور میچ کھیلنے سے کم ازکم گھنٹہ پھلے کھا لینا۔ اب میں چلتا ھوں تو اسں نے کہا کہ میں تیرے والد سے چھٹی لے چکا ھوں تم آج ساری رات میرے ساتھ ھو۔

اس نےکھاکہ میرے ساتھ رھنا یار مجھے ڈرلگ رھا ھے کھیں ایسا نہ ھو کہ لن کام ھی نہ کرے اور میں کچھ بھی نہ کر پاؤں صبح وہ اپنے گاؤں کی لڑکیوں کو بتائیگی کہ رات کچھ بھی نہ ھوسکا

اب یہ نیا کام ھوگیا کہ مھمان عورتوں نے کمرے میں جو کہ گھر کا واحد جھگی کمرہ تھا میں بیٹھ کر گانے گانے شروع کردئیے۔

ادھر کاسو گولی کھا آچکا تھا اور ایک دوست نے چرس کی بھری سگریٹ بھی اسے پلادی تھی۔ یعنی اثر گولی کا ڈبل ھوچکا تھا۔ لن اسکا کھڑا ھوگیا تھاخود بخود اب وہ بولے کہ تو جا ان پوڑھیو کو اٹھا ورنہ میں نے آ کےانکے سامنے ھی شروع ھوجانا۔

جب میں اسکی ماں کے پاس گیاکہ اب بس کرو دولھا کو نیند آرھی ھے اسے سونا ھے تو اسکی خالہ بولی کہ سوجائے باھر ھی میری تو ابھی واری ھی نہی آئ گانے سنانے کی میں تو ضرورگاونگی۔ایک اور عورت بھی بولی کہ ھاں میں بھی رھتی ھوں۔

کاسو نے دو بار جاکر پیشاب کیا کہ اسی بھانے سے عورتیں سمجھ جائیں۔

خیر آدھی رات کے بعدانکی مجلس ٹوٹی اور جھگی نما کمرہ خالی کردیا گیا۔

تب تک دولھا دولھے کی ماں اسکی بیگم اور میں جاگ رھے تھے باقی سب سوگئیے تھے۔ دولھے نے خود مجھے کھا کہ اب سب سے پھلے کیاکام کرنا چاھیے

میں تو خود غیر شادی شدہ تھا مجھے تو ادھر ادھر کی سنگتوں سے جو معلوم تھا یا جب اپنے یار سے ملنے کے سین فلموں میں دیکھے تھے بتا دئیے اسے۔

اس نے جاتے ھی کپڑے اتارے مائی کے سامنے اپنے کن کو مٹھ مارتے بولا جلدی کپڑے اتار میں نے اندر ڈالنا ھے بیگم بھی اسکی کوئ مزاج تھی نیچے اتری یہ سمجھا کہ کپڑے اتارنے کے لئے نیچے اتری ھے ہر جب تک یہ سمجھتا اس نے جوتی اتار کر سیدھے اسکے لن پر ماردی اس نے درد کے مارے منہ پھیر لیا تو دوسری جوتی گانڈ پر پڑی ۔ھائے گھوڑا ھائے گھوڑا کی آواز میں نے باھر بھی سن لی تھی۔

اسکی ماں نے آواز دے کر پوچھا کہ کیا ھوا تو دولھا۔ بولی اماں تو چپ رہ یہ ھم میاں بیوی کا مسئلہ ھے۔اور ایک اور جوتی مارنے کی آواز سنائی دی۔

پھر اسکی دولھن کی آواز آ ئی بھن چود پھلے گفٹ دی جاتی ھے پھر مائی کو منت شنت کرتے ھیں پھر جپھی شپھی ڈالی جاتی ھے اس کے کپڑے خود اتارے جاتے ھیں۔ آخر میں گھوٹ اپنے کپڑے اتارتا ھے ۔ اور تو اپنے کپڑے پھلے اتار بیٹھا ھے۔ بے شرم

تو نے کیا اپنی ھارن سمجھا ھوا ھے جس کو جھاں دل ھو اپکڑ کر لٹا دیا۔ میرے ساتھ شادی ھوئی ھے تیری رئیسانی کے ساتھ ۔یں تیرے سارے کس بل نکال دوںگی ھاں۔۔ اور جو تو ۔۔۔ کرمی۔ نگھی۔ ڈولی۔ ھرمن کو کھیتوں میں پکڑا کر کھڑا ھوجاتا ھے نا اب وہ سب نہی چلی گا۔۔ میں تیرا لن ھر روز سونگھا کروں گی ھاں۔۔ خبردار جو اب سے کسی اور کی گانڈ یاچوت ماری تو نے۔

اس نے کھا کہ ابھی ابھی کپڑے پھن اور جا کر دودھ کاگلاس لیکر آ ۔ کاسو اتنا ڈرو تھا یہ مجھے اس رات پتہ چلا۔ وہ مسکین صورت بنا کر باھر نکلا تو اسکی ایک ھاتھ لن پر تھا ۔جھاں ابھی بھی درد ھو رھاتھا۔ ماں کو بولا کہ دودھ کا گلاس مانگ رھی ھے اب آدھی رات کو تیرے پسند کی کرادی نا تو نے ۔۔۔ بڑے گھر کی لڑکی کرادی تو نے اب ھر فرمائش پوری کرنی پڑے گی ورنہ سارے گاؤں میں بےعزتی کراتی پھریگی۔ اب آدھی رات کو اور تو کچھ نہ بن سکا ایک بکری کے تھنوں پر ھاتھ مارا ۔۔۔ کچھ دیر بعد اسکا دودھ اترا۔۔۔ یعنی دوسرے لفظوں میں بکری کی منتیں شنتے کیئے پھر اس نے دودھ نیچے اتارا۔۔ دودھ اندر کیکر ھمارا دولھا ندر گیا تب تک وہ کچھ ٹھنڈی ھوگئی تھی اس نے کھا کہ میں چرس کے نشے میں تھا ۔۔ اب غصہ چھوڑ اور کام کا راستہ بنا ۔۔ جو تیرے خون والے کپڑے دکھا کر میری اماں اپنے رشتے داروں کو فخر سے دکھاسکے کہ میرے پٹ نے بھی جنگ لڑی ھے۔۔

پھر صبح تک اس نے ایک ھی میچ کھیلا لیکن اس نے بھی چیخیں نکلوادی تھیں۔ بقول اس کے۔ فقط آپکا بارانی تھنڈر۔

 


پرائی شادی میں ۔۔۔ دیوانہ

کھانی نمبر 8 پارٹ ون

خالہ ھو تو ایسی۔۔۔ دو سھاگ راتیں

 

اس چلبلے دوست کو ھم رئیس کم نوھانی پپو سے زیادہ مخاطب کرتےتھے۔ پتلی سی ناک اور ڈمپل پڑتے گال پر تو دوست مزاق مزاق میں چمیاں دیتے رھتے تھے لیکن کچھ ۔۔۔۔۔۔ آج اسکی شادی ھے یار لیکن گانڈو کی قسمت گانڈو نہی تھی۔۔۔ ھاھا

ھمیں ولیمے میں کام کرتے سارا دن گزر گیا اور ھمارا پسندیدہ مشغلہ پہلی رات کی کھانی سب سے پھلے سننے کا بھی موقعہ مھمانوں کی زیادتی کی وجہ سے میسر نہی ھوسکا تھا ۔ جس کی بڑی وجہ کا اندازہ بھی اپکو کھانی پڑھنے سے ھوجائیگا۔

جب شام کے پانچ بجے تو ھمیں حیرانگی ھوئی جب اسکا باپ ایک دفعہ۔پھر دولھا کی۔گاڑی سجائے ڈھول۔باجے والوں کو لیکر ھمارے پاس آیا ۔اور بولا کہ چلو بارات تیار ھے ۔ ھم نے کھا کہ اگر یہ بارت ھے تو کل کیا تھی۔ وہ ھنس پڑے اور پپو کو ھماری طرف بھیج دیا۔ ھم ھکا بکا کھڑے تھے کہ اس نے کھا کہ آج بھی کل کی طرح نہی ناچے تومیں تمھیں رات کی کھانی نہی سناؤ گا یہ دھمکی تو ھمارے لئیے پرانی تھی کہ ھر دوست کام نکلوانے کی خاطر کھتا رھا ھے ۔مگر پھر خود ھی پیٹ درد کے مارے سنا ھی دیتا تھا۔بھرحال آتےھیں پھلی رات کے احوال پر ھمارے اس دوست کی بیوٹی خوب صورتی خاندان بھر میں مشھور تھی نازک اندام سا پتلا۔ ستواں ناک لال لال پتلے ھونٹ آواز میں لوچ پن اوپر سے غضب اسکی چال جیسے لڑکی چل رھی ھو۔ موٹی سی گانڈ لیکن شھر بھر کا شھزادہ تھا ۔اچھا اوپر سے پٹواری کا بیٹا تھا۔ کنجوس بھی نہی تھا ۔ کسی بھی دکان پر جاتا دوستوں کے ساتھ تو بل اسی نے دینا ھوتا اگر کوئی اور دوست دیتا تو کھتا ماں رئیس اھیاں ۔تو وری چھو دیندے پیسہ ۔۔۔ ایسا چلبلہ تھا ھمارا دوست17 سال کی عمر میں بھی اسکے ھاتھ بڑے نرم۔ونازک ملانے والے کوایسالگتا جیسے کسی لڑکی سے ھاتھ ملالیا

بیمار پڑی دادای کی خواھش پر اسکی شادی رکھی گئی۔ پیسے والی پارٹی تھی کوئی پرواہ نہ تھی شادی سے ایکدن پھلے مھندی والی رات مردوں کی بھی ایک محفل رکھی گئی تھی جسمیں ناچو لڑکے کراچی سے اسکے ایک رشتہ دار نے منگالیئے تھے۔ جب انھوں نے ٹھمکے لگائے تو ادھر کے ٹھرکی وڈیرے شراب پی کر غل غپاڑہ کرتے رھے۔ کچھ نے آخر میں کھلم کھلا اپنی اپنی پسند کے لڑکے کو زوری ھاتھ سے پکڑا اور اپنی گاڑی میں بیٹھا بھی لیا۔ ۔لیکن ان سب کی اگلے دن شادی میں ناچنے والی پوزیشن نہی رھی۔۔۔ھاھا۔۔۔

بھر حال جب برات روانہ ھوئی تو ھمی دوست ان کے کام آئے دولھا کے سامنے ٹھمکے لگانا اور جیسے تیسے ناچنا انڈین گانوں پر ۔۔ رات کو جب سب تھک تھک کے اپنے گھروں کو روانہ ھوئے تو میوا نے۔مجھے بلاکر اندر بیٹھک میں بٹھا لیا اور دیگر رشتہ دار دوستوں کو رخصت کرنے کے بعد اس نے بڑا سیریس ھو کر کھا کہ یار گانڈ مارنا اور بات ھے اور آج تو مامے کی بیٹی ھے یہ تو گھر کی عزت کا مسئلہ ھے اسکی کیسے لوں تو کوئی مشورہ دےگا تو ھم نے وھی کھانی سنائی کہ جس پر مجھے تھپڑ پڑے تھے یاد ھے نا اپکو۔۔۔ ھاھا

اس نے آخر کار ھمی سے گولی منگوائی دودھ منگوایا مجھے بھی پلایا اور خود بھی گولی کھا لی اب مجھے کھا کہ اب یہ گھنٹہ میرے ساتھ بیٹھے رھو کچھری کرتے ھیں ۔میں نے کئی بھانے کئیے کہ جانا ھے لیکن پپو اس وقت میرے ساتھ اکیلا بیٹھا آگے کے پلان پر مشورے لے رھا تھا جبکہ۔ھم دونوں کو خبر نہی تھی کہ کل کیا ھونے جارھاھے۔ اسکی آواز بھی لڑکیوں جیسی تھی

میں نے کھا کہ موٹی آواز بنا جس سے تیرا رعب تو بنے ایسا نہ ھو کہ وہ تجھے کھدڑا ھی نہ سمجھنے لگے آگے کی کھانی اسی کی زبانی۔

رات کو دو بجے کے لگ بھگ اماں نے ھی مجھے بیٹھک سے بلا کر کمرے میں انگوٹھی والی ڈبیا پکڑا کر روانہ کیا ۔ میں نے اندر داخل ھوکر سلام کیا کوئی جواب نہ ملا لیکن ھم نے بھی ڈھٹائی سے زور سے دوبارہ سلام کیا ۔جس پر ھلکے سے جواب ملا ھم نے گھونگٹ اٹھا کر جب انگوٹھی پہنائی تو ھم اپنے سے بھی کم عمر لڑکی کو دیکھ کر اپنی اماں کی پسند پر بھت خوش ھوئے ۔ اماں نے بھائ کی لڑکیوں میں سے جو مجھے پسند تھی وہ کرواکر دی تھی۔ چھوئی موئی سی بن کر بیٹھی تھی جب ھم نے ھاتھ پکڑلیا اور اپنی طرف کھینچا تو نخرے کرنے لگی ھم نے بھی ریئسانی دب دی کہ میرے طرف آتی ھے تو ٹھیک ورنہ میں اماں کو بلا تا ھوں ۔ کیوں کہ مجھے پتہ تھا کہ وہ میری اماں سے میری طرح بھت ڈرتی ھے۔ ھم نے پھر اسکو بانھوں میں بھرا پپیاں شپیاں لیں بارانی کے بتائے ھوئے اسٹیپ پر عمل کرتے جب ھم لپ کسنگ پر آئے تو اس نے کھاکہ ھم نے یہ کبھی کیا نھی ھم کو نہی کرنا۔ میں نے کھا کہ پرواہ نہ کر میں نے بھی کسی سے سیکھا ھے۔۔(یہ سکھانے والا میں نہی تھا) ھاھا۔ تو بھی سیکھ جائیگی اھستہ اھستہ پھر ھم نے اسکے چھوٹے چھوٹے مموں پر ھاتھ پھیرا اس سے کپڑے اتروائے اپنے بھی جب اس نے ھمارے کھڑےلن کو دیکھا تو معصومیت سے بولتی اپکو پیشاب لگا ھے جلدی سے کر آؤ۔ میں نے کھاکہ تم کو کیسے پتہ کہ مجھے پیشاب لگا ھے تو بولتی کہ ھم نے دیکھا جب چھوٹے بچے کو پیشاب لگتا تھا اتو اماں بولتی جا اسکو پیشاب کرا لاو ۔ ھم نے ھنس کر اسے جپھی ڈالی اسکے چھوٹے ممے کو منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔ پھر ھم اسکی پیٹ کی طرف پپیاں لیتے پھنچ گئے اس کی ناف میں جب زبان لگائی تو اس نے چھی چھی کرتے ھمیں ھٹایا کہ گندی جگہ کومت چومو ریئس کامنہ خراب ھوجائیگا۔

بھر حال ھم نے اسے اپنے اوپر لٹایا اس کے منہ اور مموں کو پھر سے چوسا اسے گرم کیا اور پھر اسے اپنے نیچے کر کہ اسکی چوت پر ھاتھ پھیرا جس سے اسے سخت گدگدی محسوس ھوئی اور اس کی ھنسی نہ بند ھو مجھے بارانی پر سخت غصہ آرھا تھا کہ یہ اسنے ھمیں کس کام پر لگادیا تھا جسکی ھماری بیگم کو خبر ھی نہ تھی ۔ ھم۔نے اپنے لن کو ھاتھ میں لیکر اسکی چوت پر رکھا اوپر اوپر سے رگڑنے لگا پھر ایک دم جوش میں آکر جو زوردار جھٹکا مارا تو اسکے منہ کو بند رکھنے والا اسٹیپ تو ھم کو یاد ھی نہ تھا تھا۔ زبردست چیخ کے ساتھ وہ تڑپ کر ھمارے نیچے سے نکل گئی اور ھم ھکا بکا اسے دیکھنے لگے کہ یہ کیا ظلم ھوگیا ھم سے کیوں کہ اسکی چوت سے خون نکل رھا تھا۔ سچی بات ھے کہ ھم نے اسی وقت بارانی کو دس گالیاں بکیں کہ یہ تو اس نے بتایا ہی نہیں تھا کہ خون بھی نکلے گا لڑکی کا اور خون نظر آ ئے تو کیا کرناھوگا۔

بھر حال وہ بھی رئیس کی لڑکی تھی روتی بھی تھی اور منہ پر ھاتھ بھی خود ھی رکھ لیتی تھی۔ کچھ دیر ایسی ھی گزری تو ھم نے پھر دل۔میں سوچا کہ کا اگر آج نہی چودا تو اسپر رعب کیسے بیٹھے گا اور دوسرے اماں والے صبح چادر کو چیک کرتے تھے کہ کچھ ھو ابھی یا لڑکے میں ھی دم نہی۔۔۔

ھم نے پھر اسے پٹایا کہ یہ ایک دفعہ کا درد ھوتا ھے پھر مزے ھی مزے لیکن اس کے نخرے تھے کہ نہی بھت درد ھوتا ھے ھم نہی کروانا۔ اب ھم نے پینترا بدلہ کہ چلو نھی کرتے آؤ جپھی ڈال کر سوجاتے ھیں ۔ وہ اسپر راضی ہوگئی اور ھم نے اسے اپنے ساتھ لٹالیا پھر کوئی آدھ گھنٹے بعد اس کی کمر پر ھاتھ پھیرتے گانڈ کے ساتھ جب اپنا لن ٹچ کیا تو اس نے کچھ نہ کھا تو ھم نے پھر سے مستی شروع کردی اب ھم باھر باھر سے لن رگڑ رھے تھے ۔ میں نے اسے کھا کہ دیکھ تو اپنے ریئس کا دل نہ دکھانا سب کام پیار محبت و برداشت سے ھی ھوتے ھیں اس نے وعدہ کیاوہ اب برداشت کرلےگی۔ھم نے باھر سے رگڑائی کے عمل میں ایک دم سے اندر کی طرف جب لن کو آرچ کردیا تو اس بار بھی اسکی ھلکی چیخ نکلی مگر پھر اس نے دانت بھینچ لیئے اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ اب ھمارا تولڑکوں والاتجربہ تھا ڈالنے کے بعد رک جانے کا سبق تو ھم نے سیکھا ھی نہ تھا ۔ دے مار ساڈے چار۔ کام کھینچ رکھا ۔ کچھ دیر تک تو وہ ضبط کرتی رھی لیکن آخر کب تک اس نے ھمارے ایک زبردست گھسے پر پھر مشتعل ھوکر چیخ ماری ۔ اور ھمیں کھا کہ رئس زرا سکون کر گانڈ پھاڑے گا کیا۔ ھم نے جلدی سے نیچے دیکھا کہ کھیں ھم گانڈ میں تونھی مشین چلا رھے ۔ لیکن لن تو ھمارا چوت میں ھی تھا۔ زرا سکون لینے کے بعد جب ھم نے دوبارہ دھکے لگانے شروع کیئے تو کمرے سے باھر ھمیں کچھ زور زور سے باتیں کرنے اور لڑائی جیسی صورتحال محسوس ھوئی مگر ھم نے اپنا کام جاری رکھا ۔ کچھ دیر۔ بعد ھماری بیگم نے بھی ھمارا ساتھ دیتے ھوئے نیچے سے گھسے لگانے شروع کر دی اور ھم دونوں ایک ساتھ منی نکال کر فارغ ھوئے ھی تھے کہ ھمیں دروازہ بجانے کی آواز آ ئی ھم نے کھا زرا صبر بابا۔۔۔

بھرحال جب ھم کپڑے پھنے باھر کی صورتحال کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ ھماری خالہ نے ھنگامہ مچایا ھوا ھے کہ تم نے میری بیٹی کا رشتہ بچپن میں مجھ سے کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اب اپنی گھروالی کی باتوں میں آکر اسکے بھائی کے گھر سے رشتہ کرلیا ھے ۔جس پر اس نے احتجاجاً صبح سے کچھ نہی کھایا اور اب ابا سے کھنے لگی کہ مجھے زھر دے دے یا میری لڑکی کو بھی بیاہ لے آ۔ جس پرمیری ماں بضد تھیں کہ جو ھوناتھا سو ھوگیا۔ لیکن میرے ابو نے مجھ پر سارا ملبا ڈال دیا تھا کہ اگر اس نے ھاں کردی تو میں یہ بھی کرلوں گا میری بھن کی بیٹی ھے آخر۔ تازہ تازہ ایک پھدی مارے بیٹھا تھا اور اب ایک اور پھدی کے ملنے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے مجھے اب خاندان کی روایت کے مطابق نا تو کرنی نھی تھی ۔ لیکن خالہ کھتی تھی کہ ابھی اسی وقت چلو میں لڑکی دیتی ھوں میرے ھاں کرنے پر اماں کو غصہ تو بھت آیا مجھ پر لیکن دوسرے لوگوں کے سامنے مجھے اب وہ پٹیاں بھی نہی پڑھا سکتی تھیں۔ان سے اور کچھ نہ ھوا تو اندر جاکر چادر اٹھا لائی اورایک طرح سے اشارا دیا کہ دیکھنا ایسی چادر اگر مجھے دوبارہ نہی ملی تو میں تیرا جینا حرام کر دوں گی۔۔ میرا ابا بھی بات کی تہہ تک پھنچ کر بولا صرف تیرے سائڈ والے ھی پاکباز ھیں کیا۔۔ ھمارا خاندان بھی کچھ ایسا ویسا نھی ھاں۔۔۔ انکی تو ضد پڑگئی جبکہ میں سوچ رھا تھا کہ بیٹا تیری اب خیر نہی اگر کل بھی رڑیاں باھر نہی گیئں تو پھر سمجھ لے ۔۔۔۔ تیری اماں ھی تیری دشمن ۔۔ خیر خالہ کو تسلی دی کہ صبح ولیمہ ھوتے ھی شام کو تیرے گھر ھم پھنچ جائینگے۔ تب کھیں ماحول ٹھنڈا ھوا اور ھمیں پھر کمرے میں دھکیل دیا گیا اس نے پوچھا کہ۔کہا۔باتیں ھوئیں ھم۔نے ساری اسٹوری سنائی۔اس دوران بیگم ھماری سوگئی تھی اور ھم نئی چوت کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کے قریب ھوگئے اور جپھی ڈال کے سوگئے۔۔صبح سویرے خالہ میری نے تو فردا فردا سب کو بتایا کہ آج تم نے جانانہی شام کو میری لڑکی کی بھی شادی ھے۔ اور با با میرا ولیمے کے انتظامات کے ساتھ میرے لیئے اپنا کمرہ خالی کرکہ اسکی سجاوٹ میں لگ گئیے مجھے بھی کام میں لگا دیا گیا۔۔ پلنگ ارجنٹ میں بڑے شھر سے لانے کے لیئے الگ پارٹی روانہ کردی گئی۔ نئی دولھن لانے کے چکر میں اسکی رسومات کی اکسی کو خیال ھی نہ آیا جس پر اماں والی پارٹی نے ھلہ گلہ شروع کردیا۔۔۔ تھا  کھنے لگیں کہ ایک۔تو سنبھالی نہی جاتی  چلیں ھیدوسری

غیبت کو گلے لگانےاور اس طرح  نئے آنے والے مھمانوں کو بھی  یہ  چک چک سے پتہ چلتا جارھا تھا کہ۔مابدولت کو دوسری دفعہ سھاگ رات کے مزے لوٹنے کا موقع آج ھی میسر آرھاھے کئی رشتہ دریاؤں کو یہ مسرت آمیز خوشخبری سنائی گئی۔ میں نے دو دفعہ کمرے کا چکر لگایا کہ رات وہ بات پوری سننے سے پھلے ھی سوگئی تھیں۔ اسکو مطمئن کرسکوں۔لیکن اسکی سھیلیاں اسے گھیرے ھوئے تھیں۔ لیکن ایک ایسی بھی تو تھی  جو سب سے الگ مجھے تاڑ رھی تھی۔ مجھے رشک بھری نظروں سے دیکھتے ھوئے۔۔۔۔۔۔۔ جاری ھے ۔

 


پرائی شادی میں ۔۔۔ دیوانہ

کھانی نمبر 8 پارٹ ٹو

سلام۔دوستو ۔۔ اس دفعہ لگتا ھے کھانی پسند نہی آ ئی لیکن یہ حقیقت پر مبنی ھے مصالحہ تو میں ویسے بھی کم کھاتا ھوتا ھوں۔

آ تے ھیں کھانی کی طرف

ھم دوستوں نے نآجانے کے کئی بھانے کیے کہ کپڑے میلے ھوگئیے  ھیں تھکاوٹ ھے وغیرہ ۔لیکن اسکے ابو نے کھا کہ ان لوگوں کی ڈیمانڈ ھے کہ کل والی بارات کی طرح سب کچھ ھونا چاھیئے تو تھوڑی سی قربانی کی ضرورت ھے ۔ باقی آپ دوستوں کی اسپیشل دعوت دی جائیگی۔ ھم نے کھا کہ یہ بات اگر میوا خاں خود کردے تو ھم۔مان جائیگیں کیوں کہ اسے پتہ ھے ھماری دعوت کا اب تو میوا خاں ھم۔میں پھنس گیا تھا اسے پتہ تھا کہ میرے یہ دوست تو پرانے عاشق ھیں۔ اب وہ ابآکے سامنے کیسے نہ کرسکتا اور ھمارے سامنے ھاں کرکہ اس نے بنڈ پھڑوانی تھی کیا ؟ کچھ لیت ولعل کے بعد ھم سب دوست مان ھی گئے

تو دوستو ھم چلے اپنے پپو یار کی دوسری دلھن لینے جو کہ  گاؤں سے لیکر آ نی تھی

بھر حال ھم نے چائے پی اور ڈاٹسن گاڑی میں سوار ہوگئے تاکہ ڈھول کے ساتھ ٹھمکے شمکے لگانے کو کھلی جگہ مل سکے۔ باقی گاڑیاں بھی کل جتنی پوری کرنے کے واسطے چاچا نے بڑی محنت کی دوستوں کو۔ویسے ھر ایک کی یہی آواز ھوتی تھی کہ کاش ایسی خالہ ھمیں بھی مل جاتی۔۔۔

خیر سلامتی کے ساتھ دولھن کو گھر لایا گیا۔ اور پھر وھی سندھی ھمارے چند رواج ھوئے آدھی رات کو جب دولھا صاحب کے اندر جانے کی باری آئی تو پھلے والی ناراض تھی کہ تم نے مجھے نھی  بتایا دولھا نے بولا کہ میں نے جب  رات کو تمھارے کھنے پرساری باھر ھونے والی کھانی سنائی تھی واپسی پر اس میں اس بات کا ذکر تھا مگر تم سوگئی تھیں۔

وہ بولے کہ نا با با میں تو نہی جانے دوں گی اندر تم میرے ساتھ چل کر سو گے آج کی رات پھر تو ایک ھنگامہ کھڑا ھوگیا کل کی طرح آج بھی گھر بھرا ھوا تھا مھمانوں سے کہ کل والی دلھن راستہ بند کر کے بیٹھی ھے نئی دلھن کے کمرے کا۔

آ خر کار ابا کے آجانے اور امی کو بلا کر اکیلے میں  ڈانٹ پلائی کہ یہ کیا تماشہ بنا لیاھے تم نے اگر تم اس سب میں شامل۔نہی ھو تو اس کو کمرے میں بھیجو یا پھر ابھی کہ ابھی طلاق لےلو لڑکے نے کل بھی چادر رنگین کردی تھی تو آج بھی تجھے چادر رنگین ملے گی ھاں۔۔

یہ کارگر دھمکی تھی جس نے اثر دکھایا۔ اب ایک طرف اماں پارٹی تھی تو دوسری طرف ابا پارٹی۔۔ بیچ میں ھوگئے ۔ھمارے پپو کے مزے۔

آگے کی کھانی دلھا کی زبانی

کل کی طرح جب میں انگوٹھی لیکر اندر گیا تو ماحول تھوڑا ساکشیدہ لگا تھا مجھے لیکن دروازے کے پاس کل والی لڑکی نظر آ ئی تھی مجھے ۔۔ بھر حال اب میں نے کل کی طرح انگوٹھی پھنائی پھر ھاتھ پکڑ کر قریب کیا تو وہ سیدھا میرے گلے ھی لگ گئی۔باتیں بھی کرنے لگی کہ۔مجھے پتہ ھے کہ کل والی دلھن میرے آنے سے خو ش نہی مگر یہ تو بڑوں کے فیصلے ھیں۔ اب تم بتاؤ اس میں میرا کیا قصور۔ میں نے بولا تم بریک پکڑو  بات کرنے دوگی تو میں جواب دینے جیسا رھوں گا۔ اس نے پھر کچھ کھنا چاھا تو میں نے ایک پینترا مارا کہ بھائی جو زیادہ اچھی طرح چدوائے گی میں تواس کو زیادہ لفٹ کراؤ ں گا۔ اسنے کھا کہ اچھا تو یہ بات ھے تو پھر تم ایمانداری سے بتانا مجھے کل کہ کس نے زیادہ مزہ دیا۔۔۔ میں نے کھا کہ کل کیوں میں ابھی آزما لوں گا۔ اس نےلمبا سا اچھھھا کھا اور اپنی قمیض اتار کر میری بھی شلوار اتار دی وہ تو بھت بولڈ۔نکلی مجھے لٹایا اور میرے اوپر آکر خود ھی مجھے اپنے بوبز تھما دئیے کہ کو کھیلواب۔۔۔۔۔۔ جتنا دم ھے اتناچوسو ۔۔۔۔۔۔ میرے تو وھم وگمان میں بھی نہ تھا کہ پھلی ھی رات یہ اتنا بولڈ ھوجائیگی ابھی میں ممے چوسنے میں مگن تھاکہ اس نے ھاتھ آگے بڑھآکر میرے لن کو تھام لیا اور لگی اسکی مٹھ مارنے میں تو ھواؤں میں اڑ نے لگا ۔۔۔ کہ یار یہ تو کھل کر کھیلنے کی عادی ھے تو مجھے تجسس ھوا کہ اسنے یہ کھا ں سے سیکھا تو پتہ چلا کہ اس نے کراچی میں بھی چند سال گزارے ھیں۔ اپنے رشتہ داروں کے یھاں اور وھاں پر اسکی ایک دوست تھی جو لسبین سیکس کی شوقین لڑکی تھی۔ جس نے سارے گر اسکو بھی سکھائے ھیں تو لامحالہ مجھے شک ھوا سیل پیک کا تو میری الجھن مجھے سوچ میں غرق ھوتا  دیکھ کر وہ ھنس پڑی اور بولی فکر نہ کرو مجھے پتہ ھے کہ ھمارے خاندان میں صبح جو رنگین چادر دیکھی جاتی ھے وہ تم کو ویسی ھی ملے گی۔ افتتاح تم ھی کروگے لیکن میرا طریقہ چدائی زرا مختلف ھوگا میں کھتی ھوں کہ چدائی دل سے کی جائے۔ ایک کی بھی اگر رضامندی نہ ھو تو مزہ نہی آتا۔ میں نے اسکی باتوں سے اتفاق کیا اور اگلے اسٹیپس پر چل پڑا تو اس نے اگلہ حملہ کردیا کہ ھمارے لپس سے کسنگ شروع کردی اور ناف پر آکر بریک کردی ۔۔۔ پھر ھمیں اپنے اوپر کھینچ لیا اور ھم سے بھی وھی تقاضا کیا وہ تو جیسے ھماری استاد بن گئی اور ھم اسکے گرویدہ ہوگئے کہ خالہ نے واقعی ڈھونڈ کے کھلاڑی میدان میں اتارا ھے ۔۔۔ھم اسکی چھوٹے بوبس کو منہ میں لیکر پنک کلر کے نپلز چوسنے لگے تو وہ خوش ھوگئی اور ھم سے زور زورسے سے چوسنے کا کھنے لگی۔ اب ھم نے بھی ناف تک چسائی کی اور اگلے اسٹیپ پر جانے کی تیاری کرنے لگے اس نے پھلے ھی سلوار وغیرہ اتار لی تھی اور کھنے لگی کہ میں نے تمھیں پسند کیا تو خالہ کو بتایا تھا اب اس نے کھاکہ پھلے تیل یاتھوک لگا لو تاکہ مجھے زیادہ تکلیف نہ ھو ھم نے اس کی بات پر عمل کرتے تھوک سے کام چلایا اور جب اسکی لال لال چوت پر ھاتھ پھرتے اسکا نظارہ کیا تو اس نے کھا کہ بعد میں دیکھ لینا اب تو اسکی خارش ختم کرو یار ھم نے جیسے ھی اندر دھکیلا تو اسکی چیخ نکلی جو کہ مجھے بالکل مصنوعی سی لگی ۔میں نے کہ دیا کہ یار اتنا تو زور سے میں نے نھی جھٹکا لگایا جتنا تم نے شور مچایا تو کھنے لگی کہ یہ بھی تم کو پتہ ھونا چاھیئے کہ کچھ رشتہ دار دیواروں سے کان لگائے کھڑے ھوتے ھیں پھر جوھم نےپلنگ پے اودھم مچایا تو مت پوچھو اس کے ساتھ میں بھی چیخ رھاتھا۔ اسی پوزیشن میں کافی دیر گزر گئی تو اس نے بھی کھا کہ جتنی دیر تم آج لگآرھے ھو اتنی ھی ھر روز دیکھنا چاھتی ھوں میں ۔ جس میں چھپا طنز میں سمجھ تو گیا پر میں نے کھا ھم بھی کھوسہ رئیس ھیں۔ تم کو ھر روز ھی ایسا ٹف ٹائم ملے گا بس تم اماں کو خوش کردیا کرو۔ تاکہ گھر۔میں چک چک نہ ھو ۔۔ کافی وقت کے بعد ھم دونوں آگے پیچھے ھی فارغ ھوئے اور میں ایک سائیڈ پر ھو کر لیٹ گیاتو اس نے صاف ستھرائی میں بھی میرا ھاتھ بٹایا۔ چادر بھی بدلی اور مخصوص جگہ پر سے دوسری سفید چادر بھی اٹھا کر  بچھادی اور مجھے دودھ کا گلاس بھی پلایا۔ مٹھائی اس نے آدھی اپنے منہ میں رکھ کر مجھے پاس بلایا اور مجھے مل کر کھانے کا کھا۔ اس نے یہ انکشاف بھی کیاکہ مجھے پتہ ھے کہ تم نے کل ایک ھی بار کیا ھے اسکے ساتھ اور پھر باتوں باتوں میں وہ سوگئی تھی اور تم بھی میں نے زور دیکر پوچھا کہ۔تم۔کو۔کس نے بتایا ھے پھر جو اس نے نشانیاں بتائیں لڑکی کی تو میں سمجھ گیا کہ یہ وہی لڑکی ھے جو کل پھلے والی بیگم کے کمرے میں صبح ھی صبح موجود تھی اور ابھی اندر آتے ھوئے بھی اسی لڑکی کو میں نے کمرے سے نکلتےدیکھا تھا۔ مجھے خاموش دیکھ کر بولی کہ کچھ نھی ھوتا ایسا مخبر ھر خاندان میں ھوتا ھے۔  لیکن اب  میں ایسا نہی کروں گی جب تک تم نہ بولو کہ اب سوتے ھیں میں تب تک تمھارا ساتھ دوں گی ۔بس تم میرے گھر والوں کی عزت میں کمی نہی آنے دوگے تو مزے ھی مزے۔جب ھم نے کسنگ کی پھر چوماچاٹی کا دور چلا اور فائینل اسٹیپ کی طرف میں راغب ھوا  تو وہ پلنگ سے نیچے اتر گئی اور گھوڑی بن کر بولی آج ایسا کرتے ھیں ھم تو دنگ رہ گئے یار ۔۔۔ اس نے کھا کہ تم نے بھی دوستوں کے ساتھ فلمیں دیکھی ھوں گی تو کیا ھم نہی دیکھ سکتیں اس پوزیشن  میں زیادہ مزہ دوں گی کیونکہ میری گانڈ بھی بڑی ھے جب تمھارا لن اس سے ٹکرا کر اندر جائیگا تو زیادہ مزہ آ ئیگا ۔ ھم تو اسکی باتیں سن کر انگشت بدنداں ھوگئے کہ یار اس کو بھت آگئے تک پتہ ھے ھم نے بھی دیرنہ کی لن اندر پیلنا شروع کردیا اس نے کھااب اھستہ اھستہ رفتار تیز کردو کہ اب ھمیں بھی جم کے مزہ لیناھے۔۔۔ ھم نے خوب اودھم مچا یا پھر اسٹائل چینج کرتے پلنگ پر اسے اٹھاکر پھینکا اور خود نیچے کھڑے ھوکر اسکی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھ کر اسکی چوت میں مشین چلادی ۔۔ اس کو شور مچانے میں بڑا مزہ آتا تھا یا کسی اورکو آواز پھنچاناچاھتی تھی ۔۔۔۔سانوں کی ۔۔۔۔ ھمیں بھی مستی چڑھی ھوئی تھی ایسی پارٹنر کے ساتھ سیکس کرنے کامزہ ھی اپناھوتا ھے جو خود بھی دل سے چاھتی ھو۔کچھ دیر اسی طرح گزری تو اسنے اپنی اٹھی ھوئی ٹانگیں نیچے گرادیں۔ پھر ھم اس کے فارغ ھونے کے بعد بھی لگے رھے تھے۔۔ منی نکلنے کےآخری وقت میں ھم نے بھی زوردار چیخ مار کر اسے خوش کردیا۔

بھر حال ھم کو اپنی خالہ پر بڑا پیار آ رھا تھا کہ بڑی فنکار اور سیکسی لڑکی اس نے ھمارے لیئے پسند کی ۔۔۔ باقی باتیں ویسے ھی معمول کے مطابق گزریں۔

اوکے  ملتے ھیں آپ سے

اگلی پرائی شادی میں ۔۔۔ جوکہ آپکے کمنٹس پر۔منحصر ھے کہ جتنی جلدی اور جتنے زیادہ ھوں گے اتنی ھی جلدی میں اگلی شادی میں لے چلوں گا۔ آ پ کو

ویسے  لکھاری کا بھی دل خوش ھوگا ۔کلب والے بھی اتنے ھی دل جمعی سے کام کریں گے۔  اپکو تو پتہ ھے کہ آپکے لائکس  سے زیادہ کمنٹس فیول کاکام کرتے ھیں  ۔۔ آپکابارانی تھنڈر۔۔۔۔


پرائی شادی میں ۔۔۔ دیوانہ

کھانی نمبر 9

سلام۔دوستو اج ھم ایک رسم ورواج والی شادی میں جارھے ھیں۔

مشوری برادری کے ایک بزرگ نے مجھے عشاء نماز کے بعد نکاح پڑھانے کا کھا تو میں نے گھنٹہ بھر بعد کا انھیں ٹائم دیدیا۔خیر رات کو 9بجے مجھے انکا بھیجابندہ بائیک پر نکاح کے لئیے لے گیا وھاں پر تو دو بندے بیٹھے ھوں اور کوئی نہ ھو میں نے کھا کہ بھائی دولھا کھاں ھے اور گواہ وغیرہ لے آؤ کہ نکاح پڑھائیں تو جی جی سائیں کہ کر وہ جو مجھے لایاتھا وہ بھی غائب گھنٹہ بھر گزرا تو وہ بزرگ جس نے مجھے نکاح کے لئیے کھا تھا وہ سامنے آیا اب اس نے نئی کھانی سنادی کہ ھمارا خاندانی رواج ھے کہ سحری کے ٹائم نکاح ھوگا۔ اب میں تو غصہ ھونے لگا کہ پھر مجھے ابھی سے کیوں بلا لیا ابھی تو رات کے دس بج رھے ھیں تمھارے ٹائم کے مطابق تو ابھی پانچ گھنٹے باقی ھیں اس نے کھا کہ پھر مولوی ملتے نہی اب آپ آ ھی گئے ھو تو یہیں آرام کرلو میں نے انکار کردیا کہ ہماری اور بھی زمہ داریاں ھیں گھر بار ھے مجھے جانا ھے اس نے کھا کہ    اب بائیک بھی نہی کہ اپ کو چھوڑنے کوئی جائے۔ فاصلہ بھی بھت تھا اور واپس جاتا ھوں غصے میں تو صبح یہ تو مجھے نہی بلاتے چارو ناچار وھیں چارپائی پر لیٹ گیا۔ رات کو دو بجے کے قریب ڈھول دھماکے شروع ھوگئے سارے موالی قسم کے لوگ بے ڈھنگے اچھل کود کرنے لگے۔ نیند بھی نہ کرنے دیں اور نکاح بھی نہ کروائیں۔ خوب اچھل کود کرنے کے بعد جب سب تھک گئے تو پھر نکاح کا خیال آیا انھیں تب جاکر کھیں میری طرف انکا خیال گیا۔ تب مجھے چائے پانی کا پوچھنے لگے مجھے غصہ تو بھت آیا مگر اب کیاکرنا میں نے کھا تم دولھا کو میرے قریب لاؤ نکاح پڑھائیں اب جس کا نام بطور گواہ لکھوایا جائے وہ کھے کہ نہیں بابا میرا وضو نہی میں نے تو شراب پی ھوئی ھے میرا نام مت لکھنااب نئی بات پے بحث ھوگیا کہ اسطرح تو کوئی بھی نہی بچا ھوا ھے۔ اب اس وقت دوسرے صاف شفاف بندے کھاں سے لائے جائیں کہ گواہ کے طور پر نام لکھوائیں  اتنے سارے لوگوں میں پانچ بندے نہ ھوں جو نام لکھائیں۔ اخر اس بابے نے لوگوں کو منت سماجت سے کہا کچھ نہی ھوتا تو لوگوں نے نام لکھوانے کی حامی بھری            ۔بھر حال رات کو چار بجے نکاح کرادیا گیا۔ پھر ڈھول دھماکے فائرنگ شروع ھوگئی۔ اس درمیان دولھا صاحب نے شور مچا دیا کہ اب میرا نکاح ھوگیا ھے مجھے اندر جانے دو۔ رات ضائع نہی کرنی میں نے اپنے سسر کے سامنے شور مچادیا کہ جلدی کرو۔  میں نے حق شرع کرنا ابھی کے ابھی۔ اب عورتوں کو کھاں بھگایاجائے گھر بھی چھوٹا سا تھا۔ بڑھے بوڑھے بولی کو تو اج صبر کرجا صبح سے گھرسارا خالی ھوگا پھر تو جیسے چاھیے کرنا  چاھے کرنا پر ابھی تو لوگوں کو دربدر نہ کر۔۔۔کئی خواتین کے بچے سوئے ھوئے ھیں۔

دولھا کو بھی جیسے ضد چڑھ گئی ھو بولے مولبی صاحب سے پوچھ لو کہ اب نکاح ھوگیاھے مجھے حق شرع کرنے کی اجازت ھے جائز کام میں دیر نہی کرنا چاھیئے. اسی وقت دولھا کو اندر جانے کی اجازت ملی اور اندر سے دروازہ بند ھوگیا۔۔

دولھا نے اندر جاتے ھی بیگم کو کھاکہ دیکھ میں اگیا ھوں تیرے رشتے داروں نے ےو بھت کوشش کی میں اج تیرے کو نہ چودوں پر میں۔ بھی ضد کاپکاھوں میں اندر اگیاھوں اب تو دیر نہ کر اذانوں سے پھلے پھلے چدائی کراکے ورنہ پھر میں سوجا وں گا۔ لڑکی بھی تیز نکلی اس نے کھا کہ اگر توں نے بڑوں کی بات نہی مانی اور جلدی سے اندر اھی گیا ھے تو میں نے بھی منع نہی کیا اب میںکچھ نہی کروں گی نا روکوں گی جیسا تیرا دک کرے میں کپڑے اتار دیتی ھوں۔ دولھا تو نشے میں تھا اسک اننگا بدن دیکھ کر فورا اس سے چمٹ گیا اور لگ اسکی پیٹ پر چمیاں لینے ناف سے نیچے جاکر اسے بھت زیادہ نشہ چڑھا ھوا تھا۔ اس نے اپنی شلوار نکالی اور سوکا ھی لن چوت پر رکھ جو زور ڈالا تو تھوڑا ھی اندر گیا ھوگا کہ لڑکی کی چیخ نکلی تو موالی بھت خوش ھوا اور   اسکی چوت میں یکدم ھی سارا اندر کردیا ۔ کچھ دیر بعد ھی منی نکال کر ننگا ھی سوگیا۔  جب کافی دیر گزر گئی تو بہتلڑکی نے اسے ایک سائیڈ پر کیا اور خود بھی سوگئی۔ صبح کو ادھے دن تک تو وہ سوتا رھا جب اسکی والدہ نے بار بار دروازہ کھٹکھٹایا تو جلی بھنی دولھن نے دروازا کھول دیا ۔ اور اسے اسکے بیٹے کی شکایت لگائی کہ ایسے کیا جانوروں والی تربیت کی ھے تم نے اسکی۔۔ یہ تو کسی کام کا نہی۔۔۔۔ ساس نے کھا کہ تو کونسی دودھ کی دھلی ھے تو نے کونسی چادر رنگین کی ھے ۔اب جیسا ھے ویسا برداشت کر۔۔۔ عزت کی خاطر اگر ےوں نء میرے بیٹے کے کارنامے کھولے تو میں بھی  تیری کھانیاں سب کو مرچ مصالحہ لگا کر بتاؤں گی۔۔۔۔ اسطرح زندگی کی گاڑی چل پڑی ھے۔۔۔

اوکے دوستو۔

اگلی کھانی جو مجھے آج ھی ایک دوست سے سننے کو ملی ھے وہ زیادہ انٹریسٹنگ ھوگی۔

پرائی شادی میں ۔۔۔ دیوانہ

۔۔ کھانی نمبر 10۔۔پارٹ ون

سلام۔دوستو۔۔۔ آج  ایک ایسے وڈیرے کی شادی میں شرکت کرنے کا موقع مل رھا ھے۔ جو کہ صحافی ھونے کے ساتھ ساتھ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔والد صاحب انکے اپنے زمانے کے مشھور سخی زمیندار رہ چکے تھے، مگر گزشتہ سال انکا رشتہ اپنے بھائی کے گھر  پکا کرنے کے بعد انکا انتقال ھو چکا تھا ۔۔ یارو جکھرو کے صحافیوں، سیاستدانوں، واپاریوں اور سندھ بھر کے معززین کو شادی کارڈز دعوتیں بانٹنے میں بیس دن خجل خوار ھوئے ھم۔

جب برات چلنے کا وقت ھوا تو پتہ چلا کہ کام کرنے والے دوستوں کے لئے گاڑیوں کا انتظام نہی ھے، اب جس نے جانا ھے وہ یاتو کسی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرلے یا  اپنی گاڑی کرایہ پر منگوالے، کیوں کہ دولھاصاحب گھر پر نہی ھیں وہ پارلر سے تیار ھونے گئے ھیں، دوسرے شھر برات کے ساتھ مامے و دیگر رشتہ داروں کا جمگھٹا اتنا زیادہ تھا کہ کسی کو کسی کی پرواہ نہ تھی۔

 

بات یہ تھی کہ وہ یارو صرف نام کا یار نہ تھا بلکہ ھر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا تھا ، اگر آدھی رات کو بھی کسی کو پولیس پکڑ کر لے جاتی تو اس کو فون کرکے بے فکر ھوجاتے تھے، اسنے بندہ چھڑا کر اپنی اوطاق پر رات کو ٹھرانا ھوتا تھا پھر اگلے دن اسکو گھر روانہ کردیا جاتا تھا۔۔۔ مطلب کہ یار باش آدمی تھا۔۔۔ سالہ تھا بھی بھت موٹا کرسی میں تو آتا ھی نہ تھا صوفہ منگواناپڑتا تھا اسکے لئے۔

بھرحال ھم نے ھی کسی نا کسی کے ساتھ سیٹ بنا لی۔۔ اس نے بھی دو مووی میکر بک کروائے ھوئے تھے، ھر دوست اس چکر میں تھا کہ میں ڈانس کرتا مووی میں نظر آجاؤں تاکہ بعد میں یارو کو نظر آؤں، اور اسکی گلہ سے بھی بچ جاؤں۔۔ خیر سے جب بارات کڑیو شھر سے کافی آگئے نکلی تو برات کو روک دیاگیا کہ دولھامیاں ابھی راستے میں ھیں جبکہ ھم دلھن کے گاؤں والے موڑ پر پھنچ گئے ھیں تو اسکے بغیر گاؤں میں داخل ھونا،  وھاں جانا مناسب نہی سمجھابڑوں نے۔۔ لیکن ایک بات جو دوستوں کو سمجھ نہی آرھی تھی  کہ اتنے سویرے برات کیوں لے جائی جا رھی ھے۔ جبکہ عام رواج کے مطابق شام کو جایا جاتا ھے، تاکہ رات کو سکون سے جب سب سوجائیں تو دولھا کی ملاقاتیں ھوں۔۔ لیکن ھم چونکہ انکے زات پات کےتو تھے نہی ، جو اندر کی بات وقت سے پھلے معلوم ھوجاتی، تو سب سنگت والوں کے ساتھ ھم بھی روانہ ھوئے۔

بھر حال گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد دولھا صاحب پارلر سے اپنی گاڑی میں سوار پھنچے اور ریلی کی قیادت سنبھالی، جب ھم گاؤں میں داخل ھوئے تو ان لوگوں نے خوب فائرنگ سے ھمارا استقبال کیا اور خوب آؤ بھگت کی، وھاں پر دو مولویوں کو دیکھ کر ھم نے سوچا کہ ضرور کچھ دال میں کالا ھے، ورنہ ایک ھی عالم چار چار نکاح پڑھا سکتا ھے، بھر حال آ ؤ بھگت کے بعد جب مولوی صاحبان کی واری آئی تو پتہ چلا کہ دو نکاح ھیں۔ ایک ابو کی پسند سے کیا گیا رشتہ ھے جبکہ دوسرا رشتہ یارو نے اپنی پسند سے کیا ھے جو کہ دوسری گاؤں کی لڑکی ھے ۔۔ دوسری زات کی بھی ھے۔ اسی لئے انھوں نے اپنی پسند کا مولوی بلایا ھے۔۔ تاکہ شرط شرائط اچھی رکھ سکیں۔ مگر یارو بھی ھشیار پکھی تھا کہ پھلے اپنی زات والی سے نکاح کروالیا۔۔ جس میں دوسری والوں کے رشتہ داروں، بڑوں کو بھی بلوالیا اور کہا کہ جو شرطیں ادھر لکھی جائیں گیں،دوسری شادی والوں کے وھاں بھی یہی شرطیں ھوں گی اور دونوں نکاح ابھی لکھے جائیں گی۔

رخصتی بھی عجیب اسٹائل سے ھوئی دن گیارہ بجے صرف شربت وکھجور وں سے تواضع کرائی گئی۔۔ ساری بارات جلدی سے گاڑیوں میں سوار ھوئی اور واپسی کاسفر شروع ھوگیا ، وھاں پھنچتے ھی دولھن کو اندر کمرے میں  بٹھاکر سب کو دوسری بارات میں جانے کاکہ دیا گیا۔۔ سب کو حیرت انگیز طور پر خاموشی سے روانہ ھوتے دیکھا،

میں نے زندگی میں اتنی بڑی بارات کو خاموشی سے بڑی ھی سکون سے نکلتے دیکھا، ورنہ اکثر لوگ کئی قسم کے بھانے بناتے نظر آ تے ھیں۔۔

 

بھرحال دوسرے گاؤں والوں نے بھی اچھے انتظامات کر رکھے تھے، حسب معمول پرتپاک استقبالیہ دیا گیا۔ انکا انتظام وانصرام  ھال والوں نے سنبھال رکھا تھا، سب لوگوں کو اب بھوک لگی ھوئی تھی جبکہ ادھر بھی شربت ھی چلتا نظر آ رھا تھا، جو دوست تو پان،گھٹکے، پڑیاں وغیرہ کے نشے میں مبتلا تھے، انکے تو منہ چل رھے تھے، باقی ھم جیسے شریف لوگ (جس کی گواھی آپ ریڈرز بھی دیتے ھیں) کیا کرسکتے تھے، سوائے برداشت کے، چائے پانی شربت پی پی کر ھمارے تو اب پیٹ بھی کنوئیں بن چکے تھے۔۔

 

پھرایک خوشگوار اعلان سنائی دیا کہ کھانا لگ رھا ھے، تھوڑی دیر بعد دونوں سائیڈوں  سے تمبو کھول دیئے گئے۔ اور ھم نے شکر ادا کرتے ھوئے، دوڑ لگادی کہ جس کے ھاتھ میں جو پلیٹ آجاتی وہ دوسروں کو نہی دیتا۔ خوب دھما چوکڑی ھوئی ٹیبلوں پر کئی ڈشیں تھیں کھانے کھلانے والے لا لا کر تھک گئے۔ دیھاتی لوگوں نے خوب اودھم مچا دیا تھا۔

بھر حال اب حسب عادت کئی لوگ کھانا کھا کر نکل لئے تھے۔۔ جب کہ ھمیں تو اسپیشلی دولھامیاں نے کھا کہ بارانی اکھٹے نکلتے ھیں۔ شام کو جاکر کھیں انکی رسمیں پوری ھوئیں جس میں دودھ پلائی، جوتا چھپائی ، سر ٹکرانے ، وغیرہ شامل تھیں، تب جاکر  دولھن کو گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔اب انکے بڑے بوڑھے کھنے لگے کہ دولھا کو دلھن کی گاڑی میں نہی بٹھایا جائے گا۔۔ وہ اب کسی دوسری گاڑی میں جائے گا۔۔ ھم دوست اب خوب ھنسے کہ گاڑیاں تو اکثر نکل گئی تھیں جن میں گنجائش ھوسکتی تھی، اب تو باقی  دس کے قریب کاریں کھڑی تھیں ، لیکن سب پھلے ھی اوور لوڈڈ تھیں۔ دولھن کی گاڑی پر انکی عورتوں نے قبضہ کرلیا تھا۔۔۔ ھم نے تو کھا کہ بیٹا اب زرا پیدل چل کر وزن کم کرلے۔۔۔ تو وہ منتیں کرنے لگا کہ یار بے عزتی نہ کرواو۔۔۔ بھر حال ایک دوست نے اسکے واسطے قربانی اسطرح  دی کہ  پچھلی سیٹ میں ایک دوست کی جھولی میں بیٹھنا گوارا کیا۔ یقیناً اسکو آپ نے پھچان لیا ھوگا کہ ایسی قربانی اور کون دےسکتا ھے۔۔۔ (کمنٹ میں بتا دینا، اسکی وجہ بھی) شام کو دیر سے گاتے وجاتے اسکے بنگلے پر واپس پھنچتے ھی کافی دوست  گاڑیوں والے چل پڑے۔ جب کہ ھمیں تو دولھا کو کمپنی دینی تھی جبکہ صبح سویرے نئی سیکسی رپورٹ بھی تو لینی تھی۔۔ھمیں سب سے زیادہ دلچسپی اس میں تھی کہ یہ۔موٹو ایک ھی رات میں دونوں کو خوش کیسے کیسے کرپائے گا۔۔ یا ادھر بھی سیاست سے کام لے گا۔۔ پرائی شادی،  پہلی رات کی  کھانی سننے کا چسکا بھی بڑی ۔۔۔۔ عادت ھے۔۔

 


پرائی شادی میں۔۔۔۔ دیوانہ

کھانی 10۔۔ پارٹ ٹ2

بڑی  عید  کا اسپیشل

 

شام کو آئے ھوئے مھمانوں کو جلدی کھانا پیش کردیا گیا کہ یہ لوگ سونے کی تیاری کرلیں تو پھر مجھ سے چند منٹوں کے مشاورتی اجلاس کے بعد اسے بارانی کے یعنی میرے بتائے ھوئے طریقوں میں سے کسی ایک پر  عمل کرنا تھا۔۔۔

بارانی کا آئیڈیا تھا کہ دونوں دلھنوں  کو ایک ھی کمرے میں بلا کر گفٹ وغیرہ دے   اور پھر ایک ساتھ سیکس کرنے کا عمل شروع کردے تاکہ انکی جھجھک بھی ختم ھوجائے۔

 

اور آئندہ کے لئے بھی آسانیاں پیدا ھوجائیں گی۔

اب اس پر عمل کرنا بڑی بوڑھیوں کی وجہ سے اور کچھ الگ الگ خاندان والے ھونے کی وجہ سے بظاھر ممکن نہی لگ رھا تھا۔

 

بارانی کا خیال تھا

کہ"تبدیلی آ نہی رھی آ گئی ھے"  والے فارمولے کو ابھی سے اپلائی کرو۔

 

تم نے دو شادیاں اور  ایک ھی دن  رخصتی کرنے پر بھی تو خاندان کےلوگوں کو راضی کر لیا تھا نا ؟

 

آگے کی داستان دولھا  ببلو موٹے کی زبانی سنیں۔۔۔

 

ببلو بولا  جب میری  شادی شادہ بڑی بھن نسرین  نے مجھ سے پوچھا کہ ھاں ببلو اب بتا کس کمرے میں پہلے دودہ ومٹھائ پہنچاؤں،،،، ھنستے ھوئے ۔۔۔کہا ڈاکٹری کرنے پہلے کس کے پاس جائے گا۔

 

تو میں  نے شاھینہ کے کمرے کا کہ دیا، ساتھ ھی اسے چار گلاس دودھ پہنچانے کا جب کہا تو اسے حیرت اس وجہ سے ھوئی کہ اسے پتا تھا کہ ببلوکی  محبت یا پسند تو زرمینہ تھی۔

 

بھر حال ببلو نے زرمینہ کو کال کی اس نے بڑی دیر بعد کال اٹینڈ کی اور بولی کہ کیا آج بھی صرف فون پر ھی گذارا کرو گے۔۔

 

ببلو آج تو کھل کر مزے کرنے کی رات ھے، تم آجاؤ سیدھا میرے پاس میں منتظر ھوں۔

 

ببلو نے کھا یار بریک تو لو۔۔۔۔بولتی ھو تو بولتی چلی جاتی ھو۔

آج مجھے تجھ سے ایک فیور چاھیئے میری خاطر ایک قربانی دے میں نے ایک آئیڈیا سوچا ھے کہ آج اپن تینوں ایک ساتھ رات گزاریں ، پھر اپن ساری زندگی ساتھ ھیں۔

 

اس نے کھا کہ تو حکم کر۔۔   آج سے پہلے میں نے تجھے انکار کیا ھے کیا ؟ سھاگ رات ھے تو کیا ھوا، لیکن پہلے آئیڈیا تو بتاؤ ۔

 

میں نے اسے ڈرتے ڈرتے کہا کہ تم برا نا مان جانا،  اگر دل نامانے تو صاف صاف انکار کردینا، وہ بولی پہلے اپنا آئیڈیا بتا۔

میں نے کھا کہ میں چاھتا ھوں کہ شاھینہ کے کمرے میں تو بھی آجائے اور میں اپنی خواھش کے مطابق گفٹ بھی دونوں کو ایک ساتھ دوں۔

واؤ آئیڈیا تو اچھا ھے اس شاھینہ کو میرے کمرےمیں لے آؤ۔

 

میں نے کھا کہ یہی تو قربانی میں مانگ رھا ھوں تم سے، کہ میرے دل کے تم زیادہ قریب ھو میرے خیالات سے واقف ھو۔

 

وہ خاندانی قسم کی لڑکی ھے تم اس سے زیادہ پڑھی لکھی خوبصورت اور  دلکش ھو، میرا دل کھتا ھے کہ تم جلدی مان جاوگی، اور جب اسکے سامنے ھی ھم کسنگ کریں گے تو اسکو بھی جلدی شھوت ھوگی ، ھوسکتا کہ وہ بھی ھمیں جوائن کرلے، تو اسطرح سے گروپ سیکس انجوائے کرنے کا موقع بن جائیگا۔

 

اسی لئے اب میں نے تمھیں اپنی پسند کے بارے میں بتایاہے۔

 

اگر دل مانے تو ٹھیک ھے ورنہ میں پھر دوسرا کوئی طریقہ کرتا ھوں، جس میں آج رات تجھے انتظارِ یار کا پھر سے مزہ لینا پڑسکتاھے ۔۔۔

 

اس پیار و دھمکی آمیز پیغام پر اس نے کہا کہ میں تجھے دو منٹ بعد کال کرتی ھوں۔

 

دو ھی منٹ بعد بارانی کے سامنے ھی اسکی کال آئی کہ تیرے پیار کی خاطر میں یہ بات برداشت کرنے کو تیار ھوں، لیکن ایک چھوٹی سی تبدیلی کے ساتھ، میں نے کھا کہ بتا کیا تبدیلی چاھتی ھے تو ۔۔۔۔ جلدی بول ۔

 

آپ خود میرے کمرے میں آکر میرا ھاتھ پکڑ کر اس کے کمرے میں لے جاکر اس کے پاس بٹھا دوگے تو دونوں کا مان رہ جائیگا۔

 

مجھے اس کے کمرے میں خود سے  پہلے ھی دن جانے کا فیصلہ اچھا نہی لگ رھا ھے۔

 

تو اگر تم اتنا سا تعاون کرسکتے ھو تو میں تیری خاطر ادھر جانے کا رسک لے سکتی ھوں ۔۔۔۔۔

 

ورنہ میری سہیلیوں کا تو کہنا ھے کہ وہ نک چڑھی ھے زرور

غصہ کر جائیگی۔

 

اب میں نے دو منٹ مانگ لئیے،، اس نے ھنس کر کھا ھاں ھاں تم بھی کرلو مشورے لیکن میری یہ شرط فائنل ھے۔۔۔

 

اب کے بارانی نے کھا کہ بیٹا اگر تو نے مجھے مشورے کے لیے روکا ھے تو وھاں بھی مشاورتی کمیٹی موجود ھے ، بلکہ اسطرف بھی ھوگی۔۔۔ھاھا اب بولو ۔۔۔ ببلو بیچ میں پھنس گیا ھے تو ۔۔۔۔

 

اس نے کھا کہ با با " تبدیلی آ نہی رھی ۔۔۔تبدیلی آ جانی ھے آج رات"

 

بارانی کے مطابق تو زرمینہ نے ھلکی سی شرط پر تیرے پیار کی لاج رکھنے کی کوشش کی ھے۔

 

اب اس ٹووسٹ سے تو کسطرح استفادہ اٹھاتا ھے ، اور کتنا کس کو مطمئن کرپاتا ھے۔

 

میں نے بارانی کے دوسرے مشورے کو رد کردیا کہ شاھینہ سے بھی مشاورت کرلوں، میں نے بھی صدارتی اختیارات کے استعمال کرنے کی ٹھانی۔

 

اور فورا اٹھ کر اچانک  زرمینہ کے کمرے میں داخل ھوا تو ۔۔۔

 

اسکی تین رکنی مشاورتی کونسل کی ارکان ابھی وھیں ڈیرا ڈالے بیٹھیں تھیں ۔

 

میں نے زور سے  سلام کر کے سب کو  متوجہ کیا ، اور ان کے کچھ سمجھنے سے پہلے زرمینہ کو ھاتھ سے پکڑ  اٹھا کر  کھڑا کردیا۔

 

وہ بھی ھکا بکا تھی کہ نا باجی کو بھیج کر کمرہ خالی کرایا نا فون پر ھی کہا کہ آرھا ھوں۔۔ ابھی وہ اسی سوچ بچار میں تھی کہ میں نے جلدی سے اسے  گود میں اٹھالیا جس پر اسکی سہیلیوں نے تاڑیاں بجا کر داد دی جبکہ میں   سا منے والے شاھینہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔۔۔۔

 

اس نے کھا بھی کہ سینڈل تو پہن لینے دو، میں بولا کہ اگر مارنے ھیں تو اسکے والے سے ھی کام چلا لینا۔۔۔

باقی میں باجی کو بول کر تیرا کمرہ بند کروالیتا ھوں، دیکھ میں نے تیری شرط پوری کردی ھے اب وھاں جاکر نخرے مت کرنا۔

 

وہ بھی بڑی چالاک تھی ، چاھے فاصلہ بیس قدم کا ھی تھا ، لیکن اس نے فوراً مجھے جپھی والے انداز میں میرے گلے میں بانھیں ڈال دیں، باھر موجود دیگر رشتہ دار خواتین نے بھی حیرت سے ھمیں دیکھا، جبکہ اوطاق کی کھڑکی سے اندر جھانکتے میرے جگری یار  بارن عرف بارانی نے خوشی سے سیٹیاں بجائیں۔

 

بھر حال جب میں اس کو لیکر شاھینہ کے کمرے میں داخل ھوا تو وھاں باجی نسرین  بیٹھی اسے کچھ قیمتی  مشوروں سے نواز رھی تھیں ، مجھے دیکھ کر ۔۔۔۔اور میری گود میں چلبلی سی زرمینہ کو دیکھ کر دونوں کو چارسو چالیس کا زبردست جھٹکا یقینا لگا ھوگا۔

 

کیونکہ  بولتی بند اور آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھی،

میں نے باجی نسرین  کو پلنگ سے اترنے اور زرمینہ کے کمرے کو خالی کرکے لاک کرنے اور مجھ تک چابی پہنچا دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے،  زرمیںنہ کو شاھینہ کے ساتھ ہی پلنگ پر بٹھا دیا۔

 

باجی نسرین ابھی تک جیسے شاک میں تھیں، مجھے سائڈ پر آنے کا کہنے لگی تو میں نے کھا کہ آپ رھنے دو۔۔۔ تبدیلی آگئی ھے۔۔۔۔

 

باجی نے زچ ھو کر کہا کہ تبدیلی تبدیلی  کرنے والو ۔۔۔۔ دونوں لانگ شوز (  سینڈل والیوں ) سےجوتے نہ کھا  بیٹھنا۔۔۔۔

میں نے کھا باجی تو پرواہ نہ کر اپنے پاس موچڑے کھانے کو اتنا  موٹا جسم۔۔۔۔ موجود ھے نا۔۔۔

پہلے تو نوبت ھی نہی آئی گی۔۔۔ اگر آئی بھی تو تجھے نہی بلاوں گا ، بارانی کے ساتھ بھاگ جاؤں گا ۔۔۔ ھاں

 

باجی نسرین نے کہا کہ یہ واھیات مشورے تجھے دیتا کون ھے۔۔۔ میں نے کھا باجی اپنا بھی ترین کی طرح کا یار ھے نا ۔۔۔۔۔  بارن  عرف بارانی ۔۔۔  ۔

 

باجی نسرین بولی کہ یہ تو خاندانی رواج کے خلاف اقدامات کر رھا ھے،  اسی کا نام تو تبدیلی ھے، صبح تک سارا رزلٹ سامنے آجائیگا۔اب آپ تشریف لے جائیں۔

 

میں نے باجی نسرین کو کمرے سے  باھر نکال کر کمرے کو لاک کیا اور نئے سرے سے انکو سلام کیا۔ شاھینہ نے تپے ھوئے سے انداز میں جواب دیا، لیکن میں نے نظر انداز کرتے ھوئے۔

 

اپنی جیب سے انگوٹھیوں والی ڈبیاں  نکال کر انکے سامنے رکھتے ھوئے کہا کہ کوئی کچھ بھی کہتا رھے انکی باتوں میں آکر مجھ سے منہ پھلانے سے پہلے ایک دفعہ پوچھ ضرور لیا کرنا۔۔۔

میں دونوں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ رکھنے کی کوشش کروں گا۔ اگر کبھی کوئی کمی کوتاھی رہ جائے تو نشاندھی ضرور کرادینا۔

 

اب دیکھو یہ انگوٹھیاں ایک جیسی ھیں صرف نگ کے رنگ کا فرق ھے،  کھولنے سے پہلے ایک ڈبی کا انتخاب کرلو، پھر میں دونوں کو ایک ساتھ ھی پہنادونگا۔

 

پہلے آ پ ، پہلے آپ کے چکر میں دونوں نے نہی اٹھائی تو میں نے شاھینہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کسی  ایک ڈبی کا آپ انتخاب کرلو۔

 

اس نے ایک ڈبی اٹھالی تو میں نے دونوں کی انگلیوں میں ایک ایک انگوٹھی پہنا ئی، اور پھر انکو نصیحتیں کرنے لگا ، جیسے آپس میں بھنیں بن کر رھنا، کہ لوگ تمھاری مثالیں دیں۔۔  وغیرہ وغیرہ۔

 

اب جو میں نے شاھینہ کا گھونگھٹ اٹھا کر اسکی زرا سی تعریف کری تو زرمیںنہ جو میری دوسری طرف بیٹھی تھی نے میرے بیک پر چونڈی وڈ۔۔۔۔ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کری، میں باز نہ آیا اور مسلسل شاھینہ کی طرف منہ کرکہ اسکی پیارے ھاتھوں گلابی ھونٹوں ، بڑے مموں ، خوبصورت جسم کی تعریف میں لگا رھا تھا کہ  ۔۔۔پھر سے زرمینہ نے وہ کیا جسے  چٹکی کھتے ھیں کاٹی۔۔ ھاھاھ۔۔۔۔۔۔  یارو ھنسو۔  مت ۔۔۔

میں تبدیلی لانے کے چکرمیں تھا۔

 

جبکہ زرمینہ کو پتہ تھا کہ میں چٹکی  کو برداشت نہی کرتا، فورا جوابی چٹکی نہ کاٹ لوں تو مجھے چین نہی آتا۔ لیکن میں برداشت کرگیا فی الحال۔

 

جب میں نے شاھینہ کی تعریفیں کر کر  کہ  اسکا گھونگھٹ اتروادیا تواب میں ، زرمینہ کی طرف متوجہ ھوا۔

اسکا بھی گھونگھٹ اٹھا کر جب اسے بھی تعریف سننے کا اسے شوق تھا تب میں نے اسے بے موقع چٹکی کاٹنے پر لیکچر سنا دیا ۔

وہ تو مجھ سے پہلے بھی فری تھی تو اس نے مجھے ایکدم سے گردن سے پکڑ کر فرنچ کس شروع کردی، اورجب لپ کسنگ ھماری طویل ھوگئی تو ۔۔۔۔۔

 

شاھینہ نے اسکی پیٹھ پر چٹکی کاٹی اور زور سے بولی ھائے ھائے بے شرموں کی طرح اوروں کے سامنے ھی شروع ھوگئی تو تو۔

 

کچھ تو شرم کر  باھر بیٹھے لوگ کیا کھیں گے کہ ادھر ھی شروع ہوگئے ھیں۔۔۔

 

زرمینہ نے اس کی چٹکی کے بدلے میں مجھے چٹکی کاٹی اور بولی ۔۔۔یار کیا کروں یہ ببلو   ھے نا  مجھے بھت پسند ھے

اسکے موٹے موٹے ھونٹ دل کرتا چک مار کے کھا جاؤں۔۔

 

باقی رھی باھر بیٹھے رشتہ داروں کی بات تو سب کو پتہ ھے کہ مرد شادی کرتا کس لئے ھے، چدائی ھی کی تو رات ھے آج ، لے تو بھی مزے لے لے۔

 

اس نے ایک طرح سے مجھے اسکی طرف دھکیلا،  ھلکا

ھلکا سا یار؟

 

شاھینہ نے مجھے دیکھا تو ضرور مگر چھوا تک نہی، میں نے کھا کہ مجھے آج رات یہ پسند ھے کہ میری دونوں ملکانیاں میرے ساتھ مل کر مزے کریں۔

 

مگر جواب ندارد۔۔۔۔ تب مین نے ھی پیشقدمی کرتے ھوئے شاھینہ کو بانہوں میں پکڑ لیا اور لگا  اس سے کسنگ کرنے پہلے تو اس نے منہ ادھر ادھر کیا ، لیکن پھر کچھ سوچ کر شاید اس نے بھی فرنچ کس شروع کردی میرے ساتھ اس ظالم نے اس زور سے میرے لبوں پر کاٹا کہ میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔

 

میں نے اسے کہا کہ آرام سے میں سارا تمھارا ھوں، اب مجھ پر گولی نے اثر دکھانا  شروع کردیا تھا تبھی تو میں ھواؤں میں اڑ رھاتھا۔۔

 

میں نے بھی شاھینہ کو سکھانے کے واسطے کہ بات پر فوری عمل کیسے کیا جاتا ھے، زرمینہ سے کھا کہ اپنے کپڑے اتارو، حالاں کہ میں نے شاھینہ کو بانہوں میں پکڑا ھوا تھا اور وقتا فوقتاً اسکی چمیاں بھی لے لیتا تھا، تاکہ تندور گرم ھی رھے۔۔۔۔ ھاھااھا

 

زرمینہ نے بڑی فرمانبرداری سے اپنے زیور اور پھر کپڑے اتار دیئے، اب وہ صرف پینٹی اور بریزر میں ھمارے سامنے ھی کھڑی تھی۔

 

پھر میں نے شاھینہ کو چھوڑ کر زرمینہ کو اپنی بانہوں میں گھیر لیا اور اسکی چمیاں پپیاں لیتے ھوئے ، شاھینہ کو کپڑے اتارنے کا کہا تو اس نے بڑی چالاکی سے زرمینہ کو آ نکھ مارتے کہا کہ جی یہ تو آپکا کام ھے۔

 

میں نے اپنی انا کو دباتے ھوئے کہا کہ ٹھیک ھے آج میں اتاردوں گا لیکن آئیندہ میں حکم عدولی سمجھوں گا اسے، اب میں نے اسکے ساتھ وہ کام کیا جو اسکو ساری زندگی یاد رھے گا۔

 

پتہ ھے میں نے کیا کیا ! ۔۔۔ ؟ ھاں بارانی ٹھیک سمجھا میں نے اسکی شلوار پہلے اتاری اور پینٹی بھی ساتھ ھی نیچے کھسکا دی۔

 

جس سے اس نے خجالت تو محسوس کی مگر ساتھ ھی یہ پیغام بھی وصول ھوگیا کہ شوھر کی پھر مرضی کہ پہلے کیا اتارتا ھے۔

 

اسنے اپنی چوت پر جلدی سے ھاتھ رکھ دیا اور مجھے سندھی میں کھا کہ یہ تو آدھا کام کیا آپ نے، تو میں نے برجستہ جواب دیا کہ میرا مطلب اتنے میں ھی پورا ھوجائے گا۔

وہ میرے طنز سے میرا اپنے لئے تضحیک آمیز پیغام سمجھ چکی تھی، لیکن ڈھیٹ بن کر ساکت کھڑی رھی، جبکہ اسکے سامنے زرمینہ نے میرے کپڑے اتارنا شروع کردیے تھے۔



میں نے بھی اس کے بریزر میں سے اسکے  36سائز  کے  گول مٹول ممے باھر نکال کر ان کی پنک کلر کی چوچیاں منہ میں لیکر چوسنا شروع کردیا تو وہ بھی مست ھوگئی۔

 

اب اسکےمنہ سے مجھےپتہ نہی  واقعی یا شاھینہ کو سنانے کے واسطے زرا اونچی آواز سے سسکاریاں نکلنے لگییں۔

اور جب میں نے ایک ھاتھ سے دوسرا مما پکڑ کر مسلنا شروع کیا تو اس نے تو مجھے اپنے سینے کے ساتھ جکڑ ھی لیا، اب میں نے اسکی کانوں کی لوؤں پر کسنگ شروع کردی تھی۔

پھر میرا نیچے کا  سفر شروع ھوا تو   آھستہ آھستہ اسکی گردن پھر سینے کے دونوں مموں کے درمیان والی جگہ پر ، پھر میں نے دونوں مموں کو یکجا کرکے اس کے درمیان اپنے منہ سے خوب رگڑائی کری۔

 

ھم دونوں اپنے سیکس کے درمیان کبھی کبھی ھم  شاھینہ کی طرف بھی دیکھ لیتے تھے،  اسکا سفید چھرہ اب سرخ رنگ میں تبدیل ھوتا نظر آرھا تھا۔

 

پھر زرمینہ کے پیٹ اور ناف میں میں  نے کافی دیر سکنگ بھی کی ، زرمینہ کی ناف کا سوراخ کافی بڑا تھا اس میں زبان بڑے مزے سے اندر باہر ھوسکتی تھی،   پھر کسنگ کرتا کرتا جب میں اسکی پینٹی کے پاس پھنچا تو اس دوران شاھینہ بھی ڈھیٹ پن ختم کرکے اپنے کپڑے اتار چکی تھی ، اور دور سے بیٹھے اپنے بڑے سے ممے کو باھر نکال مجھے دکھاتے ھوئے اپنی چوچی کو اپنے ھی منہ میں لینے کی کوشش کر رھی تھی۔

 

زرمینہ نے میرے سر کو پکڑ کر اپنے منہ کے سامنے لاکر مجھے آنکھ سے اشارہ کیا کہ وہ تندور اب گرم ھورھا ھے اسطرف جاؤ، پھر اس نے زرا سی لپ کسنگ کرتے مجھے منہ سے بھی کہ دیا کہ اسے مزید گرم کرنے کی ضرورت ھے۔

 

میں نے جب شاھینہ کو اپنی طرف کھینچا تو وہ کٹی پتنگ کی طرح  میری جھولی میں آگری، اورمیں بھی اسکی طرف متوجہ ھوگیا، اور ھم نے لپ کس شروع کردی تو اب اسکی لپ کسنگ میں بھی زرا سمجھداری شامل  تھی۔

اس لئے کھتے ھیں کہ وقت سب کچھ سکھا دیتا ھے۔

 

اور لپ کسنگ کے ساتھ ساتھ اس نےایک ھاتھ سے  میرے بالوں بھرے سینے پربڑے پیار سے  ھاتھ چلانا شروع کردیاتھا۔

 

کچھ دیر بعد زرمینہ نے قریب آتے ھی   فوراً میری چڈی اتار دی اور میرے کھڑے لن کو منہ میں لے لیا، اور ٹوپی کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا، شاھینہ سے رھا نہی گیا تو فوراً بولی:؛:

ھوں گندی بچی گندی حرکتیں۔

اس جملے پر زرمینہ بڑی تپی اور ھواب دینے کو اس نے میرے لن کو منہ سے باھر نکالا، لیکن میں نے اسے  منع کرتے پھر سے اسکے منہ میں لن  گھسا دیا۔

 

پھر کچھ دیر بعد میں نے شاھینہ کو لٹا دیا  اور اس کی چوت پر اپنا منہ لگا دیا۔

 

وہ تو بڑا حیران ھوئی کہ یہ کیا ایسا بھی ھوتا ھے کیا ؟

ببلو یہ کیا کرتے ھو یہ تو گندی جگہ ھے، یہاں منہ نہی لگاتے، میں نے سنی ان سنی کردی اور اسکی سلکی چوت جس پر بال کا نام ونشان نہی تھا چوسنے میں مجھے بڑا مزہ دے رھی تھی۔

جب میں نے اسکے دانے کو دانتوں میں پکڑا تو  اسکی تو سسکاریاں نکلنی شروع ھوگئیں۔

 

میں نے اسکی چوت کے دونوں لبوں کو پکڑا اور زبان اسکی چوت میں اندر باھر کرنے لگا تو اسکی سسکاریاں مزید  بلند ھونے لگیں اسے  بڑا مزہ آنے لگا اس نےمیرے سر کے بالوں میں ھاتھ پھیرا۔

کچھ دیر بعد میں نے اسکی چوت کے دونوں لبوں کو آپس میں جوڑ کر جب ایک ساتھ منہ میں لیکر چوسا تو اسکی بس ھی ھوگئی۔

 

پھر کچھ دیر بعد میں نے اسکی چوت کے ایک ایک لب کو سک کرنا شروع کردیا تو وہ مزے کی انتھا پر پھنچ گئی، اسے ارگیزم آنے لگا تو اسنے میرے سر کو پکڑ کر زور سے اپنی چوت کے ساتھ  بھنچ دیا۔ اسکا پانی نکل کرمیری ناک سے ٹکرا کر باھر آنے لگا۔

اور وہ بے سدھ سی ھوکر پیچھے کو لیٹ گئی۔

 

ادھر کچھ دیر بعد میں نے زرمینہ کو پلنگ کے ایک   کونے میں کردیا اور خودکھڑا ھوگیا۔ اب اسکی چوت بالکل میرے لن کے سامنے تھی میں نے دو  انگلیوں سے چوت کی لبوں کو پکڑ کر زرا سی لن کی جگہ بنائی اور تھوڑا سا پیچھے ھٹ کر ٹو پا۔

اسکی چوت کے دانے پر رگڑنا شروع کردیا جس کا ھم دونوں کو بڑا مزہ آیا۔

کچھ دیر ایسے کرتے رھنے کے بعد میں نے اپنے بڑے قد کا فائیدہ اٹھایا اور اس کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر کہ کسنگ شروع کردی زراسی دیر میں اس نے بھی میرا اوپر والا۔ھونٹ اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع کردیا۔

 

لیکن وزن زیادہ ھونے کی وجہ سے وہ تھوڑی ھی دیر میں کسنگ چھوڑ بیٹھی، کیوں کہ اسطرح میرا سارا وزن اس پر آجاتا تھا۔

اب میں نے فائینلی زرمینہ کی  چوت میں اپنا لن  اندر ڈالنے کا من بنایا تو دوبارہ لپ کس کے ساتھ تھوڑا تھوڑا لن کو بھی حرکت دینا شروع کیا۔

میرے لن کی ٹوپی اسکی چوت کے پانی سے کافی گیلی ھوکر اپنی انٹری دینے کو تیار تھی۔

جب میں نےتھوڑا پیچھے ھٹ کر دوبارہ نشانہ بنا کر لن کو مزید اندر کرنا چاھا تو زرمینہ نے پلیز آھستہ سے کرنے کی تلقین آھستہ سے میرے کان میں کردی۔ میں نے صرف ٹوپی ھی اندر کی تو اسکی درد بھری سسکی مجھے سنائی دی، پھر میں نے ادھر ھی کچھ دیر آرام آرام سے اندر باھر کرنا شروع کردیا۔

لیکن پھر  ایک دفعہ ھم نے اس کے منہ پر لپ کس کا ڈھکن لگایا اور ایک زوردار جھٹکا مارتا ہوا لن اسکی چوت میں گھسا دیا۔ اتنالمبا و موٹا لن اسکی برداشت سے باھر تھا۔۔

مگر اب وہ ماھی بے آب کی طرح تڑپنے لگی ادھر ادھر بھت اس نے کوشش کی کہ وہ میری گرفت سے نکل جائے اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہنےلگے،  مگر ایک تو قد چھوٹا اوپر سے میرا وزن زیادہ تھا،    دوسرا میں نے اسے چاروں شانے چت کیا ھوا تھا۔ ایسے تڑپتے  روتے میری گرفت سے نکلنے کی ناکام کوشش کرتے تھک گئی وہ۔

جب کچھ دیر اور  گزر گئی تو میں نے  اس کے۔لب آزاد کیئے تو اس نے کھا کہ۔آرام سے ظالم میں کوئی بھاگی نہی جارھی ھوں۔ میں نے کھا کہ یار تم نے مزہ ھی اتنادیا کہ میں اپنے آپ کو روک نہ سکا۔۔ ، کیا چکنی چھوٹی سی چوت ھے تیری مزہ ھی آگیا،

اور پھر میں نے سوچا کہ  ایک ھی دفعہ میں تم کو تکلیف ھوگی پھر مزے ھی مزے۔ وہ کچھ دیر تو تکلیف کا اظھار کرتی رھی مگر پھر اس نے بھی نیچے سے ھلنا شروع کردیا تو میں نے  گھسے مارنا چالو کردیا۔۔

بڑے قد کا اس دن مجھے بڑامزہ آیا کہ میرے بدن کے نیچے اس کا سارا جسم سما گیا تھا۔

شاھینہ کے منہ پر اب ھوائیاں اڑ رھی تھی، زرمینہ کا تڑپنا اور میرا اسکو زبردستی جکڑے رکھنا، اس سے شاھینہ کو سبق مل رھاتھا کہ اسکے ساتھ بھی یہ سب ھونے والاھے، اور یہ سب وہ پلنگ کے دوسرے کونے سے بقائمی ھوش وھواس اپنی ننگے بدن کی جاگتی آنکھوں سے دیکھ رھی تھی۔

 

پلنگ کے دائیں کونے پر میں جب اسکے پیٹ پر لیٹا تھا تو میرا لن اسکی چوت میں آدھا  اندر باھر ھورھا تھا۔

کیوں کہ میرا موٹا پیٹ بیچ میں آرھا تھا، میں تھوڑا گانڈ کو باھر کی طرف کھینچتا تو لن میرا باھر نکل جاتا تھا اور جب میں اپنی گانڈ کو واپس نیچے کی طرف دھکیلتا تو بڑی نرمی وپیار سے آدھا لن اسکی چوت میں گھس جاتا۔

 

اب دوبارہ سے پورا لن اندر باھر کرنے کے لئے مجھے کھڑا ھوناپڑا، تب میں نے اسکی چوت کا خون بھی دیکھا تو شاھینہ کو دکھانے کی خاطر میں نے اس سے بیک سائڈ پر پڑا  خراب کپڑا مانگ لیا، جب اس نے اٹھا کر دیا تو میں نے زرمینہ کی  چوت اور اپنا لن بھی صاف کرکے کپڑا واپس اسکی طرف اچھال دیا، سفید کپڑے پر لال ولال خون لگا ھوا صاف نظر آرھا تھا۔

 

بھر حال اب میں نے اسکی ٹانگیں اٹھالیں اور اس کی چوت کو نشانے پر لیکر پھر ایک زبردست قسم کے جھٹکے کے ساتھ اسکی چوت میں لن  اندر داخل کردیا،

جب پورا لن بچہ دانی تک پہنچتا تو اس کی ھوں ھوں کی آواز بڑامزہ دیتی مجھے۔ پیار پیار سے میں نے اسے کوئی دس منٹ اسی پوزیشن میں چدائی جاری رکھا تو یکبارگی اسکا جسم اچانک سے اکڑنے لگا اور وہ  چھوٹ گئی۔

 

اور اب اسکااندر چپچپاھٹ زیادہ ہوگئی تھی تو میں نے شاھینہ کے پاس پڑے ھوئے کپڑے سے اسکی چوت کو اندر تک صاف کیا اور پھر سے لن اندر داخل کردیا۔

 

اب کی بار میں نے اسکی ٹانگیں بھی اپنے سینے کے اندر کرلیں تھیں اور زبردست قسم کی دھکوں کی مشین چلا دی ۔۔

کچھ دیر بعد اس نے  پھر سے بھرپور ساتھ دینا شروع کر دیا۔

 

ٹانگیں تھک جانے کاجب اس نے کھاتو میں نے اسے نیچے کرکے سائیڈوں پر کردیں اور پھر مشین چلا دی۔  وہ بھی سمجھتی تھی کہ اس میں شاھینہ کو بھی سبق مل رھا ھے، کیوں کہ وہ اس سے عمر میں بھی چھوٹی تھی۔

اب کے بار اسے بھی مزہ آنے لگا تو اسنے میری کمر پر ھاتھ پھیرتے ھوئے کھا کہ یار ایسے ھی سکون سے کرتے رھو مزہ آتا ھے۔

اسی طرح سکون سے کرتے کرتے جب میں منزل کے قریب ھوگیا تو  اب میں نے بے تحاشا جھٹکے مارنے شروع کردئیے۔

 

اس نے بھی نیچے سے گانڈ اوپر اٹھا اٹھا کر میرا ساتھ دیا اور آخر کار میں زبردست جھٹکا مارتا ہوا اسکی چوت میں اندر ھی چھوٹ گیا۔

 

اور میری گرم منی جب اس کے اندر گئی تو وہ بھی میرے ساتھ ھی چھوٹ گئی۔۔

 

کافی دیر میں اسکے پورے جسم کو سمیٹے اسکے اوپر لیٹا رھا اسکی پپیاں لیتا رھا۔ اس نے واقعی بڑا مزہ دینے کے ساتھ سائد میں بیٹھی مغرور حسینہ کو بھی، سبق سکھانے میں کمال درجے تک صبر و برداشت سے کام لیتے ھوئے، مزے دئیے اور لئے ۔

 

اب میں نے شاھینہ کو کہا کہ وہ ھمیں جگ سے دودہ گلاسوں میں بھر کر دے۔

میں نے چونکہ ان کو پہلے ھی کہ دیاتھا کہ میں کسی سے نا انصافی نہی کروں گا ، تو میں نے اب زرمینہ کو بانھوں میں اٹھا کر ننگا ھی واشروم میں گھسا دیا، شاھینہ سے اسکے کپڑے اندر پھنچانے کا کہ دیا۔۔۔

تو اب میری نظر جب گھڑیال کی طرف گئی تو رات کے تین بج رھے تھے۔۔۔ پھر میں نے سارے سین شاھینہ کے ساتھ بھی وھی کئے ، تھوڑی تبدیلی کے ساتھ۔۔۔۔

 

یہ ساری اپنی رئیل کھانی مجھے ببلو نے  سندھی زبان میں بتائی ، آپکی خاطر میں نے اسے کم۔مصالحہ ڈال کر پیش کئیے ھیں، یہ صحافی دوست ابھی بھی زندہ دل ھے جب بھی اس سے کوئی واقعہ سننا چاھے تو کھانی کے بدلے کھانی سنانے کی شرط پر یہ اب بھی سناتاھے۔

اورمیرے پاس تو ایسی کھانیوں کی کمی نہ تھی، اور  واقعی مجھے بھی اس نے  دو  نشستوں میں سنائی تھی یہ والی کھانی،  اس نے کیوں کہ اگلے دن اس نے دعوت ولیمہ میں بھی تو ھم سے کام کروانا تھا۔

 

 romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels pdf

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

hot and bold urdu novels pdf

urdu bold novels and stories

urdu bold novels and short stories

urdu bold novels after marriage

urdu bold novels army based

most romantic and bold urdu novels

most romantic and bold urdu novels list pdf

No comments:

Post a Comment

Contact Us

Name

Email *

Message *