کہانی پرانی انداز نیا
صبح کی سپیدی نمودار ہو رہی تھی۔یہ پاک بھارت کا سرحدی علاقہ
تھا۔اچانک فضا میں ایک سپیس شپ نمودار ہوئی۔آہستہ آہستہ وہ زمین کے قریب آتی گئی
اور صحرا میں اتر گئی۔ سپیس شپ کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک گوری چمڑی والا
آدمی نکلا جو بالکل ننگا تھا ۔اس کے گلےمیں ایک لاکٹ تھا۔ سپیس شپ دوبارہ ہوا میں
بلند ہو گئی ۔یہ آدمی ارد گرد کی چیزوں کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔اس نے ایک طرف
چلنا شروع کر دیا ۔وہ ایک ٹرین کے پاس پہنچ گیا۔اس نے ایک اور شخص کو دیکھا جو
پٹری کے پاس کھڑا تھا۔جب زمینی باشندے نے ننگے شخص کو دیکھا توبہت حیران ہوا۔اسے
وہ لاکٹ بہت قیمتی محسوس ہوا۔اس نے فوراً جھپٹا مار کر لاکٹ چھینا اور ٹرین کی طرف
بھاگا جو چلنے والی ہی تھی ۔حیران پریشان خلائی باشندہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن تب
تک وہ چلتی ٹرین پر سوار ہو چکا تھا۔اس نے اُسے پکڑنے کی کوشش کی تو اس شخص کا
ریڈیو پر ہاتھ پڑا جو خلائی آدمی کے ہاتھ میں رہ گئی۔جھٹکا لگنے کی وجہ سے وہ پشت
کے بل گر پڑا۔ٹرین آگے بڑھ چکی تھی۔یہ ٹرین پاکستان سے سامان تجارت لے کر بھارت
جاتی تھی۔یہ جگہ جہاں یہ واقعہ ہوا تھا پاکستاں کے صحرا تھر میں واقع تھی۔خلائی
آدمی نے ایک طرف چلنا شروع کر دیا۔کافی دیر چلنے کے بعد اُسے کچھ مکانات نظر آے۔
(منظر دوم) جگت جننی عرف جگو کا تعلق انڈیا سے تھا۔وہ تعلیم کی غرض سے برمنگھم آئی
ہوئی تھی۔ایک سال تو ٹھیک سے گزر گیا تھا۔اس کا ماسٹر میں آخری سال تھا جب اس کی
ملاقات ایک پاکستانی لڑکے سے ہوئی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن وہ رات کو مارکیٹ سے
واپس آ رہی تھی کہ دو اوباش لڑکوں نے اس کاپیچھا کرنا شروع کر دیا۔ ایک سنسان گلی
میں سے گزرتے ہوانہوں نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔ایک بولا:چکنی آج تو مزے آ جائیں
گے۔بڑے عرصے بعد کوئی تگڑا پیس ملا ہے۔جگو نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس
کے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا اور ایک طرف گھسیٹنے لگے۔وہ اسے گلی کی دوسری طرف کھڑی
اپنی کار میں لے جانا چاہ رہے تھے۔ابھی انہوں نے آدھی گلی ہی پار کی تھی کے سامنے
سے ایک لڑکا کانوں میں ہینڈفری لگائے گنگناتا ہوا نمودار ہوا۔یورپ کا اصول ہے کہ
کوئی کسی کے معاملے میں ٹانگ نہی اڑاتا۔مگر اُن کی بدقسمتی کہ وہ لڑکا پاکستانی
تھا۔وہ لڑکا جب پاس آیا تو جگو نے مدد کیلئےچلانا شروع کر دیا۔لڑکے نے پہلے تو
اگنور کیا لیکن جب لڑکی زیادہ آواز سے چلائی تو لڑکے نے رک کر ان افراد سے پوچھ
لیا کہ لڑکی کو کہاں لے جا رہے ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمہارا مسلہ نہی ہے۔لڑکا دو
قدم آگے بڑھا،وہ لڑکے بھی ریلیکس ہو گئے،لڑکے نے یکدم پلٹ کر دونوں کی گردن پر زور
سے ہاتھ مارا جس سے وہ زمین پر گر گئے اور جگو کو چھوڑ دیا۔لڑکے نے فوراً انہیں
ایک اور زوردار کک لگائی اور جگو کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف دوڑ لگا دی۔اُن میں سے
ایک لڑکےنے فوراً ایک چاقو نکالا اور اسے ان کی طرف پھینکا ۔وہ چاقو سیدھا لڑکے کی
ران پہ لگا۔ایک دفعہ تو وہ ڈگمگا گیا لیکن پھر اپنے آپ کو سنبھال کر دوڑنے لگ
پڑا۔گلی کے اختتام پر ایک ٹیکسی کھڑی تھی ۔ دونوں اس میں بیٹھے اور ڈرئیور کو
بھگانے کا کہا ۔ڈرئیور بھی صورتحال کو سمجھ چکا تھا۔اُس نے گاڑی بھگا دی۔لڑکے کی
پینٹ خون سے سرخ ہو رہی تھی۔جگو نے ڈرئیور کو اپنے فلیٹ کا پتا بتایا۔فلیٹ پر پہنچ
کر جگو نے کرایہ دیا اور لڑکے کو سہارا دے کر اندر لے گئی۔اندر جا کر لڑکے کہ ایک
کرسی پر بٹھایا۔جگو فوراً میڈیکل ایڈ کا سامان لے آئی۔چاقو ابھی تک لڑکے کی پینٹ
میں تھا جسے لڑکا نکالنےکی کوشش کر رہا تھا ۔اچانک اس نے ایک جھٹکا مارا اور چاقو
نکال لیا۔خون کا بہاؤ تیز ہو گیا۔ یہ دیکھ کر جگو حرکت میں آئی اور لڑکے کو پینٹ
اتارنے کا کہا۔لڑکا تھوڑا ہچکچایا پھر اس نے پینٹ اتار دی۔اب وہ صرف انڈروئیر میں
تھا۔جگو نے فوراً اس کی بینڈیج کرنا شروع کر دی۔پٹی کرنے کے بعد جگو نے اسے دوا دی
اور لیٹنے کو کہا ۔لڑکا لیٹ گیا۔جگو اس کیلئے اپنا ایک لوز ٹراؤزر لے آئی۔لڑکے نے
وہ پہن لیا۔جگو بولی:تم آرام کرو۔میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔جگو نے اس
کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام سرفراز بتایا۔جگو باہر چلی گئی۔تقریباً ایک گھنٹے
بعد اس کی واپسی ہوئی ۔اس کے ہاتھ میں دو شاپر تھے۔اس نے وہ میز پر رکھے اور کچن
میں چلی گئی۔کچن سے پلیٹیں لا کر اس نے کھانا نکالا اور دونو ں نے کھانا شروع کر
دیا ۔جگو: آپ کا بہت شکریہ سرفراز صاحب! اگر آپ نہ آتے تو پتہ نہی میرا کیا حال
ہوتا۔ سرفراز:کوئی بات نہی یہ تو میرا فرض تھا ۔ جگو: آپ کو زیادہ چوٹ تو نہی لگی؟
سرفراز:چوٹ تو بہت لگی تھی پر آپ نے مرہم ایسا لگایا ہے کہ سارا درد ہی چوس لیا۔
جگو مسکرا دی۔آپ باتیں بہت اچھی کر لیتے ہیں ۔بائی دا وے آپ کیا کرتے ہیں ؟
سرفراز: شکریہ تعریف کا۔آپ بھی مرہم بہت اچھا لگا لیتی ہیں ۔ویسے میں ماسٹر کر رہا
ہوں اور ساتھ پارٹ ٹائم جاب بھی۔اور آپ کیا کرتی ہیں؟ جگو: میں بھی بیلجیم
یونیورسٹی سے ماسٹر کر رہی ہوں۔اچھا اب آپ آرام کریں صبح بات کریں گے۔سرفراز : میں
پھر چلتا ہوں۔میرے دوست ہاسٹل میں میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ جگو: رات کے ایک بج
گئے ہیں ۔ ویسے بھی آپ کو چوٹ لگی ہے۔آپ اپنے دوستوں کو فون کر کے بتا دیں۔
سرفراز: چلیں ٹھیک ہے۔سرفراز فون کر کے دوستوں کو بتا دیتا ہے کہ وہ صبح آئے
گا۔جگو دوسرے کمرے میں سونے چلی جاتی ہے۔اگلی صبح جگو آٹھ بجے کے قریب اٹھی۔فریش
ہونے کہ بعد جب وہ دوسرے کمرے میں گئی تو پتا چلا کہ سرفراز جا چکا تھا۔وہاں ٹیبل
پر ایک کاغذ پڑا تھا۔جگو نے اٹھا کر پڑھنا شروع کیا ۔لکھا تھا:"ڈیر جگو !مجھے
ذرا جلدی میں جانا پڑہ رہا ہے اس لئے بتائے بغیر جا رہا ہوں۔اس کیلئےپیشگی
معافی۔ہاں دوبارہ کبھی بھی میری ضرورت پڑے تو آپ مجھے بلا جھجھک کال کر سکتی ہیں
۔اپنا نمبر لکھ دیا ہے۔بائے۔ سرفراز" جگو یہ پڑھ کر مسکرا دی۔اس نے فوراً اس
نمبر پہ گڈمارننگ کا مسج کر دیا،اور کام کاج میں لگ گئی۔نو بجے وہ تیار ہو کر
یونیورسٹی چلی گئی۔وہاں ایک خالی پریڈ میں اس نے موبائل چیک کیا تو سرفراز کے نمبر
سے دو میسج آئے ہوئے تھےکہ کون۔جگو مسکراتے ہوئے لکھنے لگی۔اچھا تو اب ہم کون ہو
گئے؟ تھوڑی دیر بعد ریپلائے آیا: جی ،دراصل پہچانا نہی۔جگو: اتنی جلدی بھول گئے؟
سرفراز : آپ کا نمبر سیو نہی اس لئے پتا نہی چل رہا۔ جگو: بس اتنا سمجھ لیں کہ آپ
کے احسان مند ہیں ہم۔سرفراز: اوہ، جگو صاحبہ آپ ہیں ۔جگو : جی۔ شکر ہے پہچان لیا۔
سرفراز: آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں۔فرمائیں کیسے یاد کیا؟ جگو : کیا کسی کام کے
بغیر یاد نہی کیا جا سکتا؟ سرفراز : نہی نہی۔میں تو ویسے ہی کہ رہا تھا۔ جگو : پھر
کب وقت دے رہے ہیں ہمیں؟ سرفراز: جب آپ کہیں۔ میں تو شام سات بجے کے بعد فری ہی
ہوتا ہوں۔ جگو : تو پھر آپ آٹھ بجے سی ویز کافی شاپ پہ آ جایئے گا۔ سرفراز :
او۔کے۔ ۔۔۔۔تین بجے کے قریب جگو یونیورسٹی سے اپنے فلیٹ چلی گئی۔ یہاں اس کے ساتھ
انڈیا کی ایک اور لڑکی بھی رہتی تھی جو کسی نیوز چینل میں رپورٹر تھی۔اس کا نام
نیہا تھا۔وہ بھی فلیٹ پر آ چکی تھی۔ جگو نے کل رات کا پوچھا کہ کل وہ کہاں تھی۔ اس
نے بتایا کہ وہ کام کے سلسلے میں دوسرے شہر چلی گئی تھی۔۔جگو ریسٹ کرنے لیٹ
گئی۔۔۔۔۔شام چھ بجے کے قریب جگو باٹھی۔نہانے کیلئے باتھ چلی گئی۔ اچھی طرح نہانے
کے بعد اس نے نئی ٹی شرٹ پہنی۔ پھر اس نے باہر نکل کر ہلکا سا میک اپ کیا۔جب یہ سب
نیہا نے دیکھا تو پوچھا کہ؛ جناب آج کس پی بجلی گرانے کا ارادہ ہے؟ جگو : ہنس پڑی۔
کسی پہ نہی۔پر تم کیوں جل رہی ہو۔ نیہا: جل کون رہا ہے، میں تو رشک کر رہی ہوں۔ وہ
کون خوش نصیب ہو گا جس کی قسمت میں ہی ہیرا جائے گا۔ جگو سن کے مسکرا دی۔ٹھیک سات
بجے وہ کافی شاپ پہنچ گئی۔ سرفراز پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔جگو اس کے پاس جا کر بیٹھ
گئی۔رسمی کلمات کے بعد سرفراز نے کہا: آپ کیا پسند کریں گی؟ جو آپ پسند کریں۔
بہرحال سرفراز نے آرڈر دے دیا۔انہوں نے آپس میں بات چیت کرنا شروع کر دی۔ جگو نے
پوچھا : آپ کی اور کیا کیا مصروفیات ہیں ۔ سرفراز : جی بس لائبریری چلا جاتا ہوں ۔
مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ اس کے علاوہ دوستوں کے ساتھ کبھی کبھار آؤٹنگ پر
بھی چلا جاتا ہوں۔ جگو: واؤ، اگر میں آپ کی دوست بن گئی تو مجھے بھی لے جائیں گے
گھمانے؟ سرفراز : جی بالکل۔ جگو: گڈ، چلو پھر آج سے ہم دوست ہیں ۔ سرفراز : ہم
پہلے کون سا دشمن تھے؟ جگو : ہاہا۔ نہی ایسی تو کوئی بات نہی۔ اتنی دیر میں ویٹر
کافی سرو کر دیتا ہے۔ جگو: آپ کو کس قسم کی کتابیں اچھی لگتی ہیں؟ سرفراز : مجھے
شاعری بہت اچھی لگتی ہے۔ خاص طور پہ مرزا غالب کی۔ جگو : مجھے بھی بہت پسند ہے۔ تو
کوئی شعر سنائیے نا۔۔۔ سرفراز : عرض کیا ہے،، ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ
ہماری خبر نہی آتی جگو : واہ ، واہ ۔ کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح کچھ دیر اور بات
کرنے کے بعد وہ اٹھ گئے۔ اسی طرح دو تین ہفتے گزر گئے۔ دونوں ملتے ملاتے رہے۔ ایک
دن اسی طرح ایک کیفے پر بیٹھے تھے اور گپ شپ کر رہے تھے۔ اب اکثر سرفراز جگو کو ٹچ
بھی کر لیتا تھا۔کبھی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ لیا۔کبھی کندھے پہ ہاتھ رکھ لیا۔جگو اس کا
برا نہی مناتی تھی۔ اس دن بھی سرفراز جگو کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ جگو: تم
نے بتایا نہی کہ تم پارٹ ٹائم کہاں جاب کرتے ہیں؟ سرفراز : پاکستان ایمبیسڈی میں ۔
جگو : کیا ؟؟؟؟؟ سرفراز: پاکستانی ہوں تو پاکستان ایمبیسڈی میں ہی کام کرو گا۔ پر
تم اتنا حیران کیوں ہو رہی ہو؟ جگو نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑایا اور کھڑی ہو گئی۔
سرفراز : پر ہوا کیا ہے ؟ کیا پاکستانی ہونا کوئی جرم ہے ؟ جگو : تم نہی سمجھ سکو
گے۔ جگو یہ کہ کر وہاں سے روانہ ہو گئی ۔ سرفراز بل پے کر کے اس کے پچھے بھاگا
لیکن تب تک وہ جا چکی تھی۔ سرفراز کی سمجھ میں نہی آ رہی تھی کہ جگو کو پاکستاں کے
نام سے کیا ہو گیا؟ بہرحال وہ اپنے ہاسٹل آ گیا ۔ جگو بھی اپنے فلیٹ پہنچ گئی تھی۔
نیہا نے پوچھا کہ کیا بات ہے آج کچھ پریشاں لگ رہی ہو۔۔ جگو : نہی کچھ نہی بس ویسے
ہی۔۔۔۔ جگو سرفراز کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔ وہ جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گئی۔
وہ اپنا ماضی سوچ رہی تھی۔ اپنے دیش کے بارے میں۔ اپنے خاندان کے بارے میں۔۔ جگو
کے والد ایک بزنس میں تھے۔ یوں تو وہ بہت اچھے تھے پر ایک مسلہ تھا کہ وہ مذہب پہ
اندھا اعتقاد رکھتے تھے۔۔ ان کے ایک خاندنی پنڈت تھے تپسوی جی۔ وہ ان کی ہر بات
مانا کرتے تھے۔۔ ہر جگہ پہ تپسوی جی کا عمل دخل تھا۔ جگو جب چھوٹی تھی تب اکثر جگو
کے ابو اسے تپسوی جی کے پاس لے جاتے تھے۔ اور اکثر اس سے تپسوی جی کے پاؤں دبانے
کا کہا جاتا تھا۔ پاؤں دبا دبا کہ اس کے ہاتھ تھک جاتے تھے۔ بعض اقات اس کے ابو
اسے تپسوی کے پاس چھوڑ کے چلے جاتے تھے کہ وہ اسے واپسی پر لیتے جائیں گے۔ اکثر
تپسوی جی اسے اپنی گود میں بٹھا لیتے تھے کیونکہ وہ تو ایک بچی تھی اس وقت آٹھ نو
سال کی۔ چیلے بھی سمجھتے کے مہاریج بچی کو پیار کر رہے ہیں۔ لیکن تپسوی اپنی شہوت
بھی پوری کر رہا ہوتا تھا۔ جب تنہائی میسر ہوتی تو تپسوی اپنی بالوں سے بھری
پنڈلیاں ننگی کر لیتا اورجگو کو دبانے کا کہتا۔ پھر وہ جگو کا ہاتھ پکڑ کر رانوں
کے اوپر رکھ دیتا ور کہتا کہ یہاں بھی دباؤ ۔ جگو کو مجبوراً دبانا پڑتا ۔ اسے
تپسوی کے پیٹ کے نیچے دو رانوں کے بیچ دھوتی کا ابھار واضح محسوس ہوتا تھا۔ ساتھ
ساتھ تپسوی اس کی کمر اور گانڈ پر بھی ہاتھ پھیرتا رہتا تھا۔ لیکن بات اس سے آ گے
نہ بڑھی کیونکہ تپسوی کو بھی پتہ تھا کہ ابھی یہ بچی ہے۔ پھر جب وہ بڑی ہوئی تو اس
نے دوسرے شہر میں کالج میں داخلہ لے لیا ۔ اس طرح تپسوی سے بچ گئی۔ پھر بھی جب
کبھی گھر کا چکر لگتا تو تپسوی کے پاس ضرور جانا پڑتا ۔ تپسوی اپنی حرکتوں سے باز
نہ آتا۔کبھی اسے آشیرباد دینے کے بہانے اسے گلے سے لگا لیتا۔ کبھی اس کا ماتھا چوم
لیتا۔ کبھی اس کی کمر پہ ہاتھ پھیر دیتا۔ جگو کا یہ سب برا نہی لگتا تھا کیونکہ یہ
سب اس کے مذہب کا حصہ تھا۔ کسی کو اس سے اعتراض نہ تھا۔ پھر جب وہ کچھ اور بڑی
ہوئی تو اس نے باہر جانے کی ضد کی۔ پاپا کی لاڈلی ہونے کی وجہ سے اجازت تو مل گئی
پر اس شرط پر کے وہ مذہب کی پابندی کرے گی۔ اور ہر ہفتے بعد تپسوی جی سے آشیر باچ
لیا کرے گی ویڈیو کال کے ذریعے سے۔ اس طرح وہ بیلجئم آ گئی۔ اس کی پوری زندگی میں
اسے ایک ہی بات سکھائی گئی تھی اور وہ تھی پاکستان اور مسلمان سے نفرت۔ اور اب وہ
ایک پاکستانی اور مسلمان کو دل میں بٹھا بیٹھی تھی۔ اب وہ کرے تو کیا کرے۔ یہی سب
سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح اٹھنے پر جب اسن نے اپنا موبائل چیک کیا تو 20
مسکالیں اور 15 میسجز آئے ہوے تھے، اور سبھی سرفراز کے تھے۔ میسج میں یہی کہا گیا
تھا کہ میرا کیا قصور ہے، کیا میں اب انسان نہی رہا۔ اور ایک غزل بھی تھی۔ بن
پوچھے میرا نام اور پتہ رسموں کو رکھ کے پرے چار قدم بس چار قدم چل دو نا ساتھ
میرے بن کچھ کہے بن کچھ سنے ہاتھوں میں ہاتھ لیے چار قدم بس چار قدم چل دو نا ساتھ
میرے جگو ایک دفعہ تو مسکرا دی۔ پھر سر جھٹکا اور سرفراز کو میسج کر کے پوچھا کہ
وہ کہاں ہے؟ فوراً جواب آیا کہ برج پہ۔ جگو فوراً بھاگی ۔ صبح صبح کا وقت تھا۔ جگو
نے ایک ٹیکسی لی اور برج پر پہنچ گئی۔ وہاں پر پہنچی تو برج پر اسے سرفراز کھڑا
نظر آ رہا تھا۔ اس نے ٹیکسی کا کرایہ ادا کیا اور سرفراز کی طرف دوڑی۔سرفراز نے
بھی اسے آتا ہوا دیکھ لیا تھا۔ اس نے اپنی بانہیں کھول دیں۔ جگو بھاگی بھاگی آئی
اور اس سے لپٹ گئی۔جگو: آئی لو یو سرفراز۔سرفراز : آئی لو یو ٹو جگو۔اور اس نے جگو
کو بھینچ لیا اور اس کے سر پر ہونٹ رکھ دیےکچھ دیر بعد اس نے جگو کا چہر ہ ٹھوڑی
سے پکڑ کر اوپر اٹھایا ۔جگو کی آنکھوں میں آنسو کے قطرے تیر رہے تھے۔سرفراز نے
اپنے ہونٹوں سے چوم لیا۔ جگو کے سانسوں کی حرارت اسے اپنے بہت قریب محسوس ہوئی تو
اسے بہت سکون ملا۔ اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور جگو کے شربتی گال چوم لیے۔
جگو کا سینہ اور تیز چلنے لگ پڑا تھا۔ اب سرفراز نے جگو کے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ
رکھ دیے۔ گلاب کی پنکھڑیوں سے بھی نازک اور لطیف لب اسے شہد سے زیادہ مٹھاس دے رہے
تھے۔ جگو نے بھی اپنے ہونٹوں کو اس کے حوالے کر دیا۔ کافی دیر کسنگ کرنے کے بعد
دونوں جدا ہوئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے۔ جگو نے سرفراز کا ہاتھ
تھام لیا اور دونوں ایک طرف چل دیے۔ سرفراز نے ایک مصرع پڑھا۔ بہت دیر کر دی
مہرباں آتے آتے۔ جگو مسکرا دی۔دونوں نے اکٹھا ناشتہ کیا۔اور پھر دونوں اپنی اپنی
یونیورسٹی چلے گئے۔ اگلے دن صبح کے وقت نیہا نے جاتے ہوئے کہا کہ میں آج رات نہی آ
سکو گی،، آفس کام ہے۔ جگو نے کہا ٹھیک ہے۔جگو بھی تیار ہو کر یونیورسٹی چلی گئی۔
واپسی پر اس نے سرفراز کو میسج کیا کہ وہ اس کے فلیٹ پر آ جائے۔۔ فلیٹ پر پہنچ کر
اس نے کچھ سپیشل ڈشز بنائیں ۔ بازار سے ایک کیک منگوایا۔ اور سرفراز کا انتظار
کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد بیل ہوئی۔ وہ بھاگ کے گئی اور دروازہ کھولا۔ آگے سرفراز ہی
تھا۔ جگو اس کے گلےلگ گی۔ ایک ہلکی سی کس کے بعد دونوں علیحدہ ہوئے۔جگو اسے اندر
لے کر آ گئی۔ اس نے سرفراز کو بیٹھنے کا کہا۔ کچھ دیر بعد وہ کھانا لے آئی۔ سرفراز
اسے مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔ آج جگو نےخاص انتظامات کیے تھے۔ ٹائٹ بلیو جینز سلیو
لیس شرٹ جو اس کی ناف سے اوپر تک ہی تھی۔اسکا گورا گورا پیٹ چمک رہا تھا اور اس کی
28 کی پتلی کمر سرفراز کو دیوانہ بنا رہی تھی۔ جگو نے پوچھا کہ اوہ ہیلو مسٹر !!!
کیا پہلے کبھی کوئی لڑکی نہی دیکھی ؟ سرفراز چونکا اور کہا۔ دیکھی تو بہت ہیں پر
تم جیسی نہی دیکھی جو ہوش و حواس چھین لیتی ہے۔جگو مسکر ا دی۔ بہرحال اسی طرھ ہلکی
پھلکی باتیں کرتے کرتے انہوں نے کھانا کھایا۔ جگو نے برتن سمیٹے اور کیک لے آئی۔
سرفراز بولا۔ آج تو بڑے خاص انتظامات کئے ہیں ۔ خیر تو ہے۔ جگو: خیر ہی ہے۔ بس دل
کر رہا تھا، کچھ وقت ساتھ بتائیں۔ سرفراز : کیا بات ہے۔ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے
اور کیک اپنے سامنے رکھ کر ٹی وی آن کر دیا۔جگو نے ایک پیس کاٹا اور اپنے ہاتھ سے
سرفراز کو کھلایا۔ سرفراز نے بھی پھر ایک پیس کاٹا اور جگو کو کھلایا۔ اسی طرح کچھ
اور وقت گزر گیا۔ دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے ٹی وی پر ایک گانا سن رہے تھے۔ گانا بہت
سیکسی قسم کا تھا۔ سرفراز نے اپنا ایک ہاتھ جگو کی کمر کے پیچھے سے گزار کر اس کی
ران پر رکھ لیا اور دوسرا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر سہلانا شروع کر دیا۔جگو کی
سانسیں تیز ہو گئیں۔سرفراز کے ہاتھ گردش کرنے لگ گئے تھے ۔اب اس نے جگو کا سر اپنے
کندھے پر رکھ لیا تھا۔کچھ دیر بعد سرفراز نے اپنے ہونٹ جگو کے سر پر رکھ دیے۔ ساتھ
ساتھ جگو کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے سہلانا بھی جاری رکھا۔اب سرفراز نے جگو کا چہرہ
ٹھوڑی سے پکڑ کر اوپر اٹھا یا ۔جگو کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں اور ان میں شرم اور
جزبات کے ملے جلے ڈورے تیر رہے تھے۔ سرفراز جگو کی اس ادا پہ قربان ہوا جاتا تھا۔
اس نے جگو کا چہرہ اوپر کر کے اس پہ بوسوں کی بوچھاڑ کر دی۔ پہلے اس کے کشادہ ،
سرخ و سپید ماتھے کو چوما ، پھر اس کی آنکھوں کو چوما۔ پھر نرم و نازک گالوں کو
انتہائی پیار سے چوما۔ پھر اس کے گلاب کی پتیوں جیسے ہونٹوں کو چوما۔ انہی ہونٹوں
کے بارے میں شاعر نے کہا ہے: نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
سرفراز نے ہونٹوں کو پہلے اوپر سے چوما پھر اوپر والے ہونٹ کو اپنے منہ میں ڈال کے
چوسنا شروع کر دیا۔ جگو کو تو جیسے کرنٹ سا لگ گیا۔ اس کا سانس دھونکنی کی طرح
چلنے لگا تھا۔ سرفراز کو اس کے ہونٹ شہد سے زیادہ میٹھے اور لذیذ لگ رہے تھے۔اس کا
بس نہی چل رہا تھا کہ کس طرح ان کو کھا جائے۔ پھر کچھ دیر بعد دونوں نے فرنچ کسنگ
شروع کر دی ۔ جگو بھی اب گرم جوشی دکھا رہی تھی۔ سرفراز مسلسل ہونٹ چوسے جا رہا
تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے جگو کا سر پکڑ رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے جگو کی کمر سہلا
رہا تھا۔ اب جگو نے سرفراز کے ہونٹ چوسنے شروع کر دیے۔سرفرازمزے کی نئی گہرائی میں
ڈوب گیا ۔ اب سرفراز نے اپنے زبان جگو کے منہ میں داخل کر دی۔ جگو نے اسے چوسنا
شروع کر دیا۔ دونوں کی زبانیں ٹکرا رہی تھیں ۔ جسمو ں میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ جگو
نے آ ج تک یہ سب صرف فلموں میں ہی دیکھا تھا۔ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ
سے اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہی تھا۔ بس کبھی کبھار کسی سہیلی کے ساتھ عمران ہاشمی
کی فلم دیکھ لیتی تھی ۔ جس میں یہ سب بھی ہوتا تھا۔ لیکن آج عملی طور پر یہ سب
کرنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اب سرفراز نے اپنا ہاتھ جگو کی کمر سے ہٹا کراس کے
پستانون کے ابھار پر رکھ دیا۔ جگو کا پھر انوکھے مزے کا احساس ہوا۔ کسنگ ابھی تک
جاری تھی۔ سرفراز نے جگو کے سینے کو بھی مسلنا شروع کر دیا تھا۔ سرفراز کو اپنی
پینٹ میں بھی اکڑاؤ سا محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد سرفراز نے جگو کو کھڑا کیا ،
اس کے ہاتھ پکڑ کر اوپر کیے اور اس کی شرٹ اتار دی۔ بے داغ ،گورا جسم دعوتِ نظارہ
دے رہا تھا۔ اوپر سے ہلکے گلابی رنگ کے برا میں قید جگو کے 36 کے ممے قہر ڈھا رہے
تھے۔ سرفراز تو یہ سب دیکھ کر پاگل ہو گیا اور جگو کے جسم پر ٹوٹ پڑا۔ پہلے اس کی
خوبصورت صراحی دار گردن پر بوسے دیے۔ جگو کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔ پھر اس طرح
چومتے چاٹتے وہ نیچے آیا ۔ اس کے ابھاروں کو اوپر سے پیار کیا۔ پھر اس کے پیٹ پر
زبان پھیری۔ پھر اس کی صاف شفاف ناف میں زبان داخل کر دی۔ جگو کو یوں محسوس ہوا کہ
جیسے اس کے پورے جسم میں بجلی کی لہر سی کوند گئی ہو۔ اس کے منہ سے پھر سسکاری نکل
گئی۔ کچھ دیر بعد جگو نے سرفراز کی شرٹ بھی اتار دی ۔اب سرفراز کے کشاچہ سینہ ننگا
تھا۔ جگو نے بھی اس پہ پیار کرنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد سرفراز نے جگو کو سینے
سے لگا کر پیچھے ہاتھ لے جا کر اس کے برا کی ہکس بھی کھول دیں۔ برا نیچے ڈھلکنے
لگا۔ سرفراز نے اسے پکڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ اب جگو کا اوپری بدن مکمل ننگا تھا۔
جگو نے شرم کے مارے اپنے ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ لیے تھے جو انھیں چھپانے میں
ناکام رہے تھے۔ سرفراز کو اس کی یہ ادا بہت اچھی لگی۔ سرفراز نے آگے بڑھ کر اس کے
ہاتھ پرے کیے۔ کیا نظارہ تھا۔ دودھ سے زیادہ سفید گورے گورے ،گول ممے، جو بلکل تنے
ہوئے تھے ، ان پر براؤن کلر کا دائرہ اور اس میں پھر ہلکے براؤن کلر کے چھوٹے
چھوٹے تنے ہوئے نپلز۔ سرفراز نے یہ نظارہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ پورن مویز میں بھی
اسے کبھی ایسا قدرتی حسن نظر نہ آیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ان نسوانی حسن کی
علامتوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ جگو کی سسکاری نکل گئی۔ سرفراز کے پیار کرنے
کا انداز اسے دیوانہ بنا رہا تھا۔ سرفراز کو وہ پستان انتہائی ملائم اور نرم معلوم
ہو رہے تھے بالکل روئی کے گولوں کی طرح۔ سرفراز نے ان پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔
پھر اس نے جگو کو صوفے پر بٹھا دیا اور اپنے منہ میں اس کا ایک مما لے لیا۔ جگو
مزے کے نئے جہان میں ڈوب گئی۔ اس کیلئے بھی یہ سب بالکل نیا تھا۔ سرفراز نے ایک
بوب کو منہ میں لے لیا اور اس پر زبان پھیرنی شروع کر دی اور دوسرے ہاتھ سے دوسرے
بوب کو پکڑ کر اس کو سہلانا شروع کر دیا۔ جگو کے منہ سے آہ،آوچ ،اوئی آہ ،،،اوہ ،،
کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں تھیں ۔۔ سرفراز نے اچھی طرح زبان پھیرنے کے بعد اس کے
نپل کو چوسنا شروع کر ددیا تھا۔ جگو کی آوازیں مزید بلند ہو رہی تھیں جو سرفراز کو
اور زیادہ گرم کر رہی تھیں ۔ نپل فل تناؤ میں تھے۔ سرفراز چوسنے کے دوران انہیں
ہلکےسے کاٹ بھی لیتا تھا۔ جس سے جگو کی لذت آمیز سسکاری نکل جاتی تھی۔ ایک ممے سے
اچھی طرح کھیلنے کے بعد سرفراز دوسرے ممے کی طرف گیا۔ اس کے ساتھ بھی وہی عمل
دوہرایا۔ جگو کو محسوس ہوا کے اس کی پینٹ نیچے سے گیلی ہو رہی ہے۔ اب سرفراز کو
بھی اپنے جسم پر لباس بوجھ لگ رہا تھا۔ اس نے جگو کو کھڑا کیا اور اس کی پینٹ کا
بیلٹ کھولا۔ پھر زپ نییچے کی۔ پھر آہستہ آہستہ اسے اتار دیا۔ اب جگو صرف ایک پنک
کلر کی پینٹی میں تھی۔ سرفراز نے اسے اپنی پینٹ کی طرف اشارہ کیا۔ جگو سمجھ گئی۔
وہ آگے بڑھی اور اس نے سرفراز کی پینٹ بھی اتار دی۔ اب سرفراز بھی صرف ایک سفید
انڈرویئر میں تھا ۔ اس کے انڈرویر میں ابھار واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔ اب سرفراز
نے جگو کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا۔ پھر اس کی ٹانگیں اٹھا کر اس
کی پینٹی بھی اتار دی۔ اب جگو الف ننگی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی،، اور کچھ کچھ شرما
بھی رہی تھی ۔ سرفراز بولا: جگو تم بہت حسین ہو۔ مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ آئی لو یو،
میری جان۔۔ جگو: آئی لو یو ٹو سرفراز، ۔۔۔ اب سرفراز نے پھر سے اس کے پورے جسم کو
چومنا شروع کر دیا۔ گردن سے ہوتے ہوئے نیچے پیٹ تک آگیا۔ پھر اس نے پیٹ سے نیچے
سفر شروع کیا۔ جگو کی بے چینی بڑھنا شروع ہو گئیپھر سرفراز نے اپنے لب جگو کی
کنواری چوت پر رکھ دیے ،۔ جگو کو کرنٹ سا لگا۔ اس نے بے اختیار سرفراز کے سر پہ
ہاتھ رکھ دیا۔ سرفراز کو وہ چوت بہت گرم گرم محسوس ہوئی، اس میں سے چکنا سا مادہ
بھی نکل رہا تھا۔ جس کی خوشبو اسے دیوانہ بنا رہی تھی۔ انتہائی خوبصورت براؤن کلر
کی چوت ،اس پہ ہلکےہلکے بال، ان کے جڑے ہوئے لب،ان کے اوپر ایک چھوٹا سا دانہ جو
سرخ ہو رہا تھا
یہ سب نظارہ سرفراز کے جزبات کو مزید ابھار رہا
تھا۔ اس کو اپنا انڈروئر پھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے اپنے لب جگو کی چوت پہ
پھیرنے شروع کر دیے۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی زبان نکالی اور اس کو جگو کی چوت پر
پھیرنا شروع کر دیا۔ جگو تو مزے کی اک نئی دنیا میں پہنچ گئی۔ سرفراز کی زبان نے
جب اس کے دانے کو ٹچ کیا تو وہ اپنی سسکاری کو نہ روک پائی۔ سرفراز نے اب اسی دانے
کو پکڑ لیا اور اسے چوسنا شروع کر دیا اور اس پر اپنی زبان پھیرنا جاری رکھا۔ جگو
اب مسلسل سسکاریاں لے رہی تھی۔ اور اپنا جسم بار بار ہلا رہی تھی۔کچھ دیر بعد اسے
اپنی چوت میں بہت سی گرمی محسوس ہوئی اور یوں لگا جیسےپورے جسم میں چونٹیاں سی
رینگ رہی ہوں۔ اس کے سسکاریوں کی آواز بلند ہو گئی۔ اس نے سرفراز سرفراز چلانا
شروع کر دیا ۔ سرفراز فوراً اٹھا اور اس جگو کے اوپر لیٹ گیا اب اس اپنے ہاتھ سے
اس کی چوت کو سہلانا جاری رکھا اور خود اس کے بوب کو چوسنا شروع کر دیا۔ جگو دوہرے
مزے سے آشنا ہوئی۔ اسے سرفراز پر بے حد پیار آ رہا تھا۔ اچانک اسے لگے کے اس کی
سانسیں اور تیز ہو گئیں ہیں۔ ۔۔۔۔۔ آہ، آؤچ ۔ سرفراز ،، میں گئی۔۔ آہ ۔ آ،،،،،ئی
۔۔لو ۔۔۔۔، یو ،، سرفراز،، اور اس کی چوت میں جیسے سیلاب آ گیا۔ سرفراز کو بھی
اپنی رانوں کے پاس بہت پانی محسوس ہوا ۔ جگو نے اسے اچھی طرح بھینچ لیا۔ اس کے
ساتھ ہی جگو شانت ہوتی چلی گئی۔جگو نے مزے سے آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر بعد اس
نے آنکھیں کھولیں اور سرفراز کی طرف پیار سے دیکھا۔ پھر وہ اٹھی اور اس نے سرفراز
کو نیچے لٹا کر اس پہ بوسوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اب مزے لینے کی باری سرفراز کی تھی،۔
جگو اس کو چومتی ہوئی نیچے آئی۔ اس کے سینے کو چوما۔ نپلز کو چوما۔ پھر پیٹ کو
چوما۔ سرفراز کا بدن بھی بہت حسین تھا۔ پھر جگو اس کی رانوں کے درمیاں آ گئی۔ اس
نے انڈروئر کو اوپر سے ہی چومنا شروع کر دیا۔ پھر اس نے سرفراز کا انڈروئر اتار
دیا۔ سرفراز کا 7 انچ کا لن ایک جھٹکے کے سیدھا کھڑا ہو گیا۔ایک دفعہ تو وہ اسے
دیکھ کر حیران ہو گئی۔ پھر اسنے اسے ہاتھوں میں لے لیا اور ہلکا ہلکا مساج شروع کر
دیا۔ اب سرفراز کی سسکاریاں نکل رہی تھیں۔ سرفراز : جگو میری جاں اس کو پیار تو کرو۔
جگو نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے لن کی کیپ پر ہونٹ رکھ دیے ۔ دراصل وہ یہ سب پورن
موویز مین دیکھ چکی تھی اور اسے پتہ تھا کہ ایسا کرنے سے مرد کو بہت مزہ آتا ہے
اور وہ اپنے محبوب کو بے حد مزہ دینا چاہتی تھی۔ پھر جگو نے اپنی زبان نکالی ور اس
کے پورے لن پر گھمانی شروع کر دی۔ سرفراز کے چونکہ ختنے ہوئے ہوئے تھے اس لئے اس
کے لن کی کیپ بہت گول تھی اور وہ جگو کو بھی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ابھی یہ سب ہو
ہی رہا تھا کہ جگو کے موبائل کی بیل بجی۔ جگو نے اگنور کیا۔ اور اس کا لن چوسنا
جاری رکھا ۔ لیکن جب کچھ دیر بعد پھر بیل بجی تو اس نے لن چھوڑ کر موبائل کو دیکھا
تو نیہا کا نمبر شو ہو رہا تھا۔ جگو نے سرفراز کی طرف دیکھ کر کہا ، ایک منٹ میری
روم میٹ کی کال آ رہی ہے پتہ نہی کیا بات ہے ۔ جب اس نے کال اٹینڈ کی تو نیہا کی
آواز آئی۔ یار میرا پروگرام کینسل ہو گیا ہے۔ میں آ رہی ہوں پلیز میرے لیے کھانے
کیلئے کچھ لے آؤ ۔ بہت بھوک لگی ہے۔ میں آدھے گھنٹے تک پہنچ رہی ہوں۔ اوکے بائے۔
جگو : نے فون بند کر کے سرفراز کی طرف دیکھا ۔ وہ بھی اپسیٹ دکھائی دیا۔ جگو نےاس
کے لن کی طرف دیکھا جو اس دوران سو چکا تھا۔ جگو بولی: اوہ سو سور ی۔ میری روم میٹ
آ رہی ہے۔ کوئی بات نہی پھر کبھی سہی۔ لیکن میں تمہیں تھوڑا سا مزہ ضرور دے سکوں
گی۔ یہ کہ کر جگو جکھی اور سرفراز کے لن کو منہ میں ڈال لیا۔ تھوڑی دیر بعد سرفراز
کا لنڈ اانگڑائیا ں لیتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ جگو نے اس لولی پاپ کی طرح چوسنا شروع
کر دیا۔ وہ اپنی پوری زبان اس کے لنڈ کی کیپ پہ گھماتی اور پھر اچھی طرح اس منہ
میں گہرائی تک لینے کی کوشش کرتی۔ سرفراز مزے کے ایک نئے جہان سے آشنا ہو رہا تھا،
۔ اس نے جگو کے سر کو اور نیچے دبانا شروع کر دیا۔ اور ساتھ ایک ہاتھ سے کا ایک
پستان بھی پکڑ لیا۔ جگو مسلسل لنڈ چوسے جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد سرفراز کو اپنے
جسم میں ہلچل کا احساس ہوا۔ اس لگا جیسے اس کا سارا جسم اس کے لنڈ کی طرف دوڑ رہا
ہو۔ اس نے جگو کو بتایا کہ وہ آ رہا ہے ۔ جگو نے لنڈ میں سے نکال کر ہاتھ میں لے
لیا اور ہاتھ سے مٹھ لگانی شروع کر دی۔ چند سیکنڈ بعد سرفراز کے لنڈ سے ایک جھٹکے
سے منی کی پھوار نکلی۔کچھ دیر بعد سرفراز بھی شانت ہو گیا۔ پھر جگو جلدی سے اٹھی
اور کپڑے پہنے۔ سرفراز بھی اپنے کپڑے پہننے واشروم چلا گیا۔ کپڑے پہننے کے بعد وہ
باہر نکلا جگو جو ایک الوداعی کس دی آئی لو یو بولا اور چلا گیا۔ جگو جلدی سے نیہا
کیلئے کھناے پینے کا سامان لینے بازار چلی گئی۔ خلائی باشندہ آگے بڑھتا جا رہا
تھا۔ آگے کچے مکا نات تھے۔کچھ بچے بھی وہاں کھیل رہے تھے۔ خلائی مخلوق مکمل ننگا
تھا۔اس نے ریڈیو اپنے گلے میں پہن رکھا تھا۔وہ ایک درخت کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور
چھپ کے دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ بچوں کے اوپری بدن برہنہ تھے۔ بالکل اس کی
طرح ۔کچھ نے صرف شلوار پہن رکھی تھی۔ خلائی مخلوق انہیں دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔
اس کو چونکہ ایک تلخ تجربہ ہو چکا تھا، اس لیے وہ ان کے پاس ناگیا۔ کچھ دیر بعد
اسے قدموں کی آواز اپنی طرف آتی سنائی دی۔ وہ جلدی سے درخت پر چڑھ گیا۔ کیونکہ اس
کے گولے پر یہ سب بہت آسان تھا۔ اتنے میں اسے ایک لڑکا اور ایک لڑکی درخت کی طرف
آتی دکھائی دی۔ دونو ں ہنستے مسکراتے آ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ درخت کے نیچے آ
گئے۔خلائی باشندے نے اپنے آپ کو اچھی طرح پتوں میں چھپا لیا۔ لڑکے نے فوراً لڑکی
کو اپنی بانہون میں بھر لیا اور بوس و کنار شروع کر دیا۔لڑکی کسمائی اور بولی : نہ
کرو جی، کوئی آ جا ئے گا۔لڑکا : کوئی نہیں آئے گا۔ کتنے عرصے بعد تو ہم ملے ہیں۔
لڑکی : ہم تو روزانہ ہی ملتے رہتے ہیں۔ لڑکا اس کی گال چومتے ہوئے بولا: خاک ملتے
ہیں ۔ تم تو بس کام کرتی رہتی ہو۔ مجھے تو دور سے ترساتی ہو۔ اب لڑکے نے اس کے
پستانوں کی بھی اوپر سے مسلنا شروع کر دیا تھا۔ لڑکی مزاحمت کرتے ہوئے: میں کیسے
آپ سے مل سکتی ہوں آپ مالک ہیں میرے۔ لوگ کیا کہیں گے ۔وڈے چوہدری جی تو مار ہی
ڈالیں گے۔ لڑکا : کچھ نہی ہومیں ہوں نہ تمہارا ساتھ۔ اب لڑکے نے لڑکی کے ہونٹوں کو
چومنا شروع کر دیا تھا۔ خلائی مخلوق کیلئے یہ سب بالکل نیا تھا۔ اس کے پلینٹ پر یہ
سب نہی ہوتا تھا۔بس ہر ہفتے بعد ایک اجتماع میں وہ سب اپنی منی نکالتے اور اس بڑے
گرو کو دے دیتے۔ کچھ عرصے بعد بڑا گرو انہیں بتا دیتا کہ کس کا بچہ کس کے پیٹ میں
ہے۔ اس طرح ان کی افزائش نسل ہو جاتی۔ پر اس دنیا کے منظر نے خلائی مخلوق کو حیران
کر کے رکھ دیا تھا۔اس لگا جیسے اس کے نچلے حصے میں کوئی ہلچل سی ہو رہی ہے ۔اس نے
دیکھا تو اس کو 10 انچ کا گورا لنڈ جو پہلے بامشکل ہی کھڑا ہوتا تھا اب مکمل جوبن
پر تن گیا تھا۔ لڑکے لڑکی کی کسنگ جاری تھی۔ اچانک لڑکی نے اپنے آپ کو چھڑوایا اور
کہا بس، چوہدری جی،، کوئی آ جائے گا۔چوہدری نے بھی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اسے
چھوڑ دیا۔ دونوں چلے گئے۔ لیکن خلائی مخلوق کو حیراں پریشاں چھوڑ کر۔ خلائی مخلوق
کافی دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔ اب لوگ گھروں سے نکلنا شرو ع ہو گئے تھے۔ اس لئے وہ
وہیں چھپا رہا۔ اب اسے بھوک پیاس بھی لگ رہی تھی۔ جب دوپہر کی گرمی اپنے عروج پر
پہنچی اور باہر سناٹا چھا گیا ، تو وہ باشندہ نیچے اترا۔ اس نے ایک طرف چلنا شروع
کر دیا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد اسے آگے ایک بڑے سا پانی کا ریلا ایک بڑے پائپ میں سے
نکللتا دکھائی دیا۔ یہ دراصل ٹیوب ویل تھا۔ باشندے نے آگے بڑھ کر اپنا منہ اس پائپ
پر رکھ دیا۔ٹھنڈا پانی پینے سے اس کی طبیعت میں بہتری آئی۔ اب اس کو بھوک لگ رہی
تھی۔ اس نے پھر ایک طرف چلنا شروع کر دیا۔ اب وہ ایک گلی میں سے گزر رہا تھا۔ اگر
اس وقت کوئی اسے دیکھ لیتا تو یقیناً بے ہوش ہو جاتا۔ جلد ہی وہ ایک فارم ہاؤس کے
پاس پہنچ گیا۔ خلائی باشندے ہونے کی وجہ سے اس کی تمام حسیات عام انسانون سے کئی
گنا زیادہ تھیں۔ اس نے دھیان لگا کہ سن گن لینے کی کوشش کی لیکن مکمل سناٹا تھا۔
وہ دروازے میں سے اندر داخل ہو گیا۔ سامنے برامدے میں ایک آدمی سویا ہوا تھا۔ پاس
ہی ایک میز پر کچھ دودھ وغیرہ رکھا ہوا تھا۔ باشندے نے فوراً دودھ کا مگھ منہ سے
لگا لیا اور غٹا غٹ سارا دودھ پی گیا۔ پھر اس نے دیکھا کہ دوسری طرف کافی ساری
بھینسیں کھڑی تھیں۔ خلائی باشندہ ادھرچل پڑا۔ وہاں کوئی جگہ دیکھ کر وہ اپنے آپ کو
چھپانا چاہتا تھا۔ آخرکار اسے ایک جگہ مل ہی گئی۔بھینسوں کے طبیلے کے ساتھ ہی ایک
بڑا سا کمرہ تھا۔ باشندہ اس میں داخل ہو گیا۔ وہاں کافی سارا کاٹھ کباڑ پڑا تھا۔
وہاں ایک پرانا سا ٹریکٹر کھڑا تھا۔ ساتھ پرالی (بھوسہ) کا ایک بڑا ڈھیر۔ خلائی
مخلوق اب تھوڑا آرام کرنا چاہتا تھا۔ وہ ٹریکٹر کے نیچے گھس کے لیٹ گیا۔ جلد ہی اس
کی آ نکھ لگ گئی اور وہ اپنے گولے کے خواب دیکھتا سو گیا۔ کافی دیر بعد اچانک اس
کی آنکھ کھلی۔ اس نے غور کیا تو پتا چلا کہ اندھیرا چھا چکا ہے۔ اس کے ارد گرد کچھ
سرگوشیاں ہو رہی تھیں۔ کیونکہ اس کا حافظہ کافی تیز تھا اس لیئے اس نے پہچان لیا
کہ یہ وہی صبح ولا پریمی جوڑا تھا۔ دونوں پرالی پر بیٹھے ہوئے تھا۔ لڑکا بولا : آہ
کتنے عرصے بعد ایسی رات آئی ہے جب ہم دونوں ساتھ ساتھ ہیں ۔ لڑکی: جی۔ چوہدری جی۔
لڑکی کی آواز میں ہلکا سا خوف بھی تھا۔ لڑکا : کیا گی چوہدری جی لگا رکھی ہے۔ میرا
اچھا بھلا نام ہے۔ نام سے پکارا کرو مجھے۔ کیا مجھ سے پیار نہیں تمھہیں۔ بہت ہے ؟
لڑکی : نہیں ندیم بابو ایسی کوئی بات نہیں ۔ پیار نہ ہوتا تو میں یہاں آپ کے ساتھ
آتی۔ ندیم : چلو شکر ہے تم نے نام تو لیا۔ ویسے آ ج تم بہت پیاری لگ رہی ہو ۔ لڑکی
شرما گئی۔ وہ پرالی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑکی: اگر کوئی آ گیا تو بہت بدنامی ہو گی۔
آ پ کی عزت کا کیا ہو گا۔ ندیم: کو ئی فکر نہ کرو۔ بابو گی اور مما اپنے کمرے میں
سو رہے ہیں۔ چھوٹا کامران بھی میرے روم میں سو رہا ہے۔ ہمارے منشی کی نیند کا تو
تمہیں پتا ہی۔ لڑکی : کچھ نہ بولی۔ ندیم کے ہاتھو ں کی گردش بڑھ رہی تھی۔ اب اس نے
لڑکی کا چہرہ اپنے قریب کیا اور اسے چومنا شروع کر دیا۔ وہ باشندہ (جس کا بعد میں
نام پی کا رکھا جانا والا تھا اب اب اسے پی کے ہی لکھا جائے گا۔) ان کی آ واز نھی
سمجھ سکتا تھا ۔ اسے بس کھسر پھسر سی سنائی دے رہی تھی۔ وہ بڑے شوق سے یہ نظارہ
دیکھ رہا تھا۔ اب لڑکے لڑکی کے گال چوم رہا تھا۔ہلکی ہلکی روشنی موجود تھی۔ لڑکی
کے سینے کا زیروبم تیز ہو گیا تھا۔ لڑکے نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ اس
کے ہونٹوں کو پہلے چوما پھر چوسنا شروع کر دیا۔ لڑکی کو بھی مزہ آ رہا تھا۔ اس کے
ہونٹ بلکل باریک اور نرم و نازک تھے۔ کڑکے نے غالباً کوئی سونف یا الائچی وغیرہ
کھا رکھی تھی کیونکہ اس کے منہ سے بھت اچھی خشبو آ رہی تھی جو لڑکی کو اور بھی مزہ
دے رہی تھی ۔ لڑکی کا نام نیلم تھا۔ سب نیلاں کہتے تھے کیونکہ وہ غریب تھی۔ لیکن
ندیم اس پیار سے نیلو کہا کرتا تھا۔ اب لڑکے نے اپنی زبان نیلم کے منہ میں داخل کر
دی جو اندر جا کر نیلم کی زبان سے ٹکرانے لگی۔ نیلم نے اسے چوسنا شروع کر دیا۔
ندیم مزے سے سرشار ہو گیا۔ اس نے ایک ہاتھ نیلم کی کمر پر رکھ دیا اور دوسرے ہاتھ
سے اس کے پستان مسلنے شروع کر دیے۔ کچھ دیر بعد ندیم نے کسنگ چھوڑ کر نیلم کے بازو
اوپر کیے اور اس کی سفید کلر کمیص اوپر کر کے اتار دی۔ نیلم کا سر شرم سے جھکا ہوا
تھا، ۔ ندیم نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا منہ اوپر اٹھایا۔ اور پھر سے اسے چومنا شروع
کر دیا۔ اب کی بار گردن پر بھی بوسے دیے۔ ندیم کے تپتے ہوئے ہونٹ جب نیلم کی گردن
سے ٹکڑائے تو اس کی سسکاری سی نکل گئی۔ گردن پر چومنے اور اپنی زبان پھیرنے کے بعد
ندیم نے نیچے کا سفر شروع کیا
اس کے سینے کو چوما پھر پیٹ پر بوسے دیے۔ انہوں نے پرالی پر چادر
بچھا رکھی تھی۔ ندیم نے ہاتھ پیچھے لاے جا کر اس کے برا کی ہک بھی کھول دی۔ سفید
کلر کا برا اب اس کے ہاتھوں میں تھا۔ ندیم اسے اپنے ناک کے پاس لے گیا اور اچھی
طرح سونگھا۔ اس میں نیلو کے مموں اور ان کے پسینے کی ملی جلی خوشبو شامل تھی جو
ندیم کو بہت اچھی لگ رہی تھی۔ پھر اس نے برا ایک طرف رکھ دیا۔ اب نیلو کے 36 کے ان
چھوئے ممے اس کے سامنے تھے۔ نیلو نے اپنے ہاتھون کا ہالہ بنا کر ان کو ڈھانپ رکھا
تھا اور شرما رہی تھی۔ ندیم نے پیا ر سے اس کے ہاتھ ہٹائے اور اس کے گورے گورے
مموں کا جائزہ لینے لگا ۔پھر اس نے اپنی قمیص بھی اتار دی اور نیلم کو لٹا دیا۔ اب
وہ اس کے اوپر تقریباً آدھا لیٹ کر اس کے ممے چوسنے لگ گیا۔ جیسے ہی اس کے ہونٹوں
نے نیلم کے مموں کو چھویا، نیلم کو جیسے کرنٹ سا لگ گیا۔ اس اپنی چوت میں کھجلی سی
محسوس ہونی لگ گئی ۔ پہلے ندیم نے اچھی طرح اس کے ایک ممے پر زبان پھیری اور دوسرے
کو ہاتھ سے پکڑ لیا اور سہلانا شروع کر دیا۔ نیلم نے ہلکی ہلکی سسکیاں لینی شروع
کر دیں ۔ پی کے یہ سب بڑی حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ اس کیلیئے یہ سب بالکل نیا تھا۔
اس کے عضو میں بھی تناؤ آ چکا تھا۔ اس نے اسے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ ادھر ندیم نے اچھی
طرح زبان پھیرنے کے بعد نپل کو بالکل بچے کی طرح چوسنا شروع کر دیا۔ اس کا ایک
ہاتھ نیلم کے ممے کو سہلا رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ نیلم کی چوت کو شلوار کے
اوپر سے ہی سہلا رہا تھا۔ اب اس نے ایک ممے کو چھوڑ کر دوسرے کو پکڑ لیا۔ اس کا
بھی وہی حال کیا۔ نپلز کو منہ میں لے کر اچھی طرح چوسا اور دانتوں میں لے کر ہلکے
سے کاٹ بھی لیا۔ اب اس نے نیلم کی ٹانگیں تھوڑی اوپر اٹھا کر اس کی شلوار اتار دی۔
نیلم بلیک کلر کی پینٹی پہنے اس کے سامنے تھی۔ اب ندیم نے اس کی پینٹی بھی اتار
دی۔ اب اس نیلم کی ٹانگیں تھوڑی کھول دیں اور اس کی چوت کا مشاہدہ کرنے لگ گیا۔
نیلم کی چوت ہلکے براؤن کلر کی تھی۔ اس پر ہلکے ہلکے بال تھے۔ اس کے لب چھوٹے
چھوٹے اور ساتھ ملے ہوئے تھے۔ اس میں سے لیس دار مواد سا نکل رہا تھا۔ نیلم نے
اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ ندیم نے ہاتھ بڑہا کر اس کی چوت پر رکھ دیا۔ وہ کسی
بھٹی کی طرح دہک رہی تھی۔ ندیم نے اسے سہلانا شروع کر دیا۔ نیلو مزے سے ادھر ادھر
ہونے لگی۔ اب ندیم نے اس کی ٹانگوں پر ہاتھ رکھا اور جھک کر اپنا منہ اس کی چوت پر
رکھ دیا۔ نیلم نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا کہ وہ ایسا بھی کر سکتا ہے۔ جیسے
ہی اس نے اپنے لب نیلم کی چوت پر رکھے نیلم کو جھٹکا سا لگا۔ لزت کی شدید لہر اس
کے جسم میں دوڑ گئی۔ وہ بولی : کیا کر رہے ہیں آپ؟ یہ جگہ اس کام کیلئے نہی ہے ۔
ندیم کچھ نہ بولا اور اپنا کام جاری رکھا۔ اب وہ بس اوپر اوپر سے چوم رہا تھا۔
نیلم مزے سے سسکاریاں لے رہی تھی۔ اب ندیم نے اپنی زبان اس کی چوت پر پھیرنا شروع
کر دی ۔ نیلم نے مزے کی شدت سے اپنا سر پٹخنا شروع کر دیا۔ اس کے منہ سے بے ہنگم
آوازیں نکل رہی تھیں۔ آہ۔۔ند۔۔۔۔ی ی ی ی۔۔م ۔۔با۔۔۔بو۔۔۔۔نہ ک ک ریں ۔۔۔ایسا ۔۔ آہ
آؤچ۔۔۔۔ ندیم ان آوازوں کو سن کر اور مست ہو رہا تھا۔ اس نے اب چوت کے دانے پر
زبان پھیرنی شروع کر دی جو اب سرخ ہو رہا تھا۔ اب ندیم نے اسے منہ میں لے کر چوسنا
شروع کر دیا۔ نیلم کے جسم نے ایک اور جھٹکا کھایا ۔ اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ
ندیم کے سر پر رکھ دیا۔ اب ندیم نے چوتے کے دونوں لب کھولے اور زبان اندر گھسیڑ
دی۔ نیلم کو ایسا مزہ کبھی زندگی میں نہ ملا تھا۔ اسے نے مزے سے آنکھیں بند کر
رکھی تھیں۔ ابھی ندیم کو زبان اندر ڈالے کچھ ہی سیکنڈ ہوئے تھے کےہ نیلم کے جسم نے
کانپنا شروع کر دیا ۔ اس نے ندیم کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اور دبایا۔ ندیم نے
زبان کی گردش اور تیز کر دی۔ نیلم کے جسم نے جھٹکے کھائے ۔ ایک تیز فوار کے ساتھ
اس کی چوت نے پانی چوڑ دیا ۔ ندیم نے اپنا منہ تھوڑا پیچھے کر لیا تھا ۔ بہرحال
کچھ پانی اس کے منہ پر بھی لگ گیا۔ جسے اس نے نیلم کی پینٹی سے صاف کیا۔ پی کے یہ
سب بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ پہلے نیلم کی چہرے پر بیتابی اور اب اتنا سکون ۔وہ ہر
چیز کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس کے گولے پر تو عورتیں ہمیشہ پردوں سے دور ہی
رہتی تھیں اور ان کے چہرے پر پی کے نے کبھی اتنا سکون نہی دیکھا تھا۔ اب ندیم نے
نیلم کو اشارہ کیا کہ وہ اس کی شلوار اتارے ۔ نیلم کھڑی ہوئی اور اس نے آگے بڑھ کر
ندیم کا نالی کھولا اور اس کی شلوار نیچے کر دی ۔عام دیہاتیوں کی طرح ندیم نے بھی
نیچے کچھ نہیں پہن رکھا تھا۔ اس کا 7 انچ کا لن فل جوبن پر تھا۔ ندیم نے نیلم کا
ہاتھ پکڑ کر اس پر رکھ دیا۔ نیلم کو ےوں لگا جیسے اس نے کوئی دہکتا ہوا لوہے کا
راڈ پکڑ لیا ہو۔ ندیم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا ۔ اب نیلم
کو بھی سمجھ آ گئی۔ اس نے ندیم کے لن کی مٹھ لگانی شروع کر دی۔ ندیم : نیلو اس کو
پہلے گیلا تو کر لو۔ نیلم :وہ کیسے جی۔ ندیم : وہ ایسے۔۔۔ اور اس نے نیلم کا سر پکڑ
کر اپنا لن کے نزدیک کر دیا۔ اس کو منہ میں لو۔ نیلم : میں نہی لوں گی جی ۔ یہ
گندا ہوتا ہے۔ ندیم : دیکھو پہلے میں نے تمہیں مزہ دیا نا۔۔۔اب تم بھی مجھے مزہ دو
۔ نہی تو میں کبھی تم سے بات نہی کرو گا۔ کچھ نہی ہوتا پلیز ۔ یہ کہ کر ندیم نے
نیل کا سر اور دبایا اور اس کے ہونٹ لن کو چھونے لگ گئے ۔ نیلم بھی نا چاہتے ہوئے
اسے چو منے پر مجبور تھی۔ پہلے اس نے کیپ کو اوپر سے چوما ۔ پھر باقی لن کو چوما۔
ندیم : اب منہ میں بھی لے لو۔ اور قلفی کی طرح چوسو ۔ نیلم : نہی مجھ سے یہ نہی ہو
گا۔ ۔ یہ سنتے ہی ندیم نے اسے پرے کیا ا ور پرالی پر لیٹ گیا۔ وہ ناراض ہونے کی
ایکٹنگ کر رہا تھا۔ نیلم نے جب یہ دیکھا تو کہا۔ کیا ہوا ندیم ؟ ندیم نے کوئی جواب
نہ دیا۔ نیلم : پلیز بولا نا۔ ندیم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر بعد اسے
اپنی رانوں پر کچھ حرکت کا احساس ہوا۔ اچانک وہ مزے کی شدت میں ڈوب گیا۔ اسے اپنے
لن پر نیلم کے نرم نرم ہونٹ محسوس ہوئے۔ نیلم نے فوراً ہی سے اپنے منہ میں لے لیا۔
اب ندیم نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا۔ نیلم اس کے لن پر جھکی ہوئی تھی۔ لن کو
اپنے منہ لے ر وہ اس پہ زبان پھیر رہی ہے۔ ندیم کو بہت مزہ آ رہا تھا۔ اسے اپنیے
لن پر نیلم کے دانت بھی 2،3 دفعہ محسوس ہوئے لیکن وہ کچھ نہ بولا۔ کافی دیر لن
چسوانے کے بعد ندیم نے اسے نیچا لٹایا اور خود اس کے اوپر آ گیا۔ اب دوبارہ اس نے
نیلم کو چومنا شروع کر دیا۔ نیلم کے بڑےبڑے مممے چوسنے شروع کر دیے۔ نیلم دوبارہ
سے گرم ہونا شروع ہو گئی۔ اب نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں اور اپنے کندھوں پر رکھ
لیں۔اپنا لن پکڑ کر ااس نے نیلم کی چوت پہ رگڑنا شروع کر دیا۔ نیلم کو مزہ آنا
شروع ہو گیا۔ کچھ تو چوت کا اپنا پانی بھی اسےگیلا کر رہا تھا، کچھ لن بھی نیلم کے
تھوک سے گیلا ہو چکا تھا۔ اب ندیم آ گے جھکا اور اپنا لن نیلم کی چوت کے اندر لے
جانے کی کوشش کی ۔۔ چوت کافی ٹائٹ تھی۔ ندیم سمجھ گیا کہ لن آسانی سے اندر نہی جا
سکے گا ۔ اب اس نے جھک کر نیلم کے ہونٹ اپنے ونٹوں میں لے لیے اور انہیں چوسنا
شروع کر دیا۔ اب اس نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور اس کا لن چوت کی گہرئی میں اتر
گیا۔ نیلم کی آنکھیں جیسے باہر کو ابل آئیں لیکن ندیم نے اس کے ہونٹوں کو نہ
چھوڑا۔ نیلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ ندیم نے لن کو چوت کے اندر ہی رہنے دیا
اور خود کسنگ شروع کر دی۔ پھر اس نے نیلم کے ہونٹوں کو آزاد کر دیا۔ جیسے ہی اس نے
نیلم کے منہ کو چھوڑا نیلم کی آہ سنائی دی۔ نیلم : بڑی درد ہو رہی ہے ۔ ندیم: کچھ
نہی ہوتا ۔ ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ کہ کر اس نے نیلم کے نپلزچوسنا شروع کر
دیے۔ اب نیلم کا درد کچھ کم ہو گیا تھا۔ اب ندیم نے آہستہ آہستہ لن کو حرکت دینی
شروع کر دی۔ نیلم تھوڑا سا کسمائی ۔ لیکن چونکہ ندیم اس کے نپلز بھی چوس رہا تھا
اس لیے درد کا احساس بھی کم ہو رہا تھا ۔ اب ندیم اپنے لن کو آہستہ آہستہ حرکت
دیتا رہا۔ کچھ دیر بعد جب نیلم کی چوت سے دوبارہ پانی نکلنا شروع ہو گیا تو ندیم
کا لن تھوڑا اور روانی میں آ گیا۔ اب اس نے حرکت تھوڑی اوور تیز کر دی۔ نیلم کی
سسکاریاں بلند ہونے لگیں۔ آہ۔،،ہ ،، ند۔۔د۔ی ی،،م۔ ۔ ۔م،،ہائے میں مر گئی۔۔۔۔۔،،
آہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔ آہ۔۔۔ بس ۔۔کرو۔۔۔۔نہ۔۔۔کرو نہ،، آؤچ۔۔۔ ندیم سمجھ گیا کہ اب اسے مزہ
آنا شروع ہو گیا ہے۔ اس نے رفتار اور تیز کر دی۔ دھپ دھپ کی آواز کمرے میں گونجنے
لگی۔ 2 ۔۔4 منٹ اس طرح چودئی کرنے کے بعد اب ندیم نے اپنا لن باہر نکالا۔ اس نے
دیکھا کہ لن پر خون لگا ہوا تھا۔ اب و ہ خود چادر پر لیٹ گیا ۔ اس نے نیلم کو اپنے
اوپر بیٹھنے کا کہا۔ نیلم اس کی طرف منہ کر کے آہستہ آہستہ بیٹھنے لگی۔ پہلے پہلے
تو لن سلپ کر گیا کیوںکہ نیلم کواس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اب ندیم نے اسے لن
ہاتھ میں پکڑ کر اند ر لینے کو کہا ۔ نیلم نے اب ہاتھ سے لن کو پکڑا ،چوت پر سیٹ
کیا اور آہستہ آہستہ اس پر بیٹھنے لگی۔ ابھی اس نے ٹوپی ہی اندر لی تھی کہ ااس کی
آہ نکل گئی۔ ندیم نے اس کے چوتڑوں سے پکڑ کر اسے نیچے حرکت دی۔ ایک آہ کے ساتھ لن
جڑ تک گہرئی کے ساتھ چوت میں اتر گیا۔ اس طرح چودائی کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ
ہوتا ہے کہ لڑکی کا پورا جسم ااور ممے آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں جن سے مزہ دگنا ہو
جاتا ہے۔ اب ندیم نے نیلم کے چوتڑوں سے پکڑ کر اسے اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا۔
کچھ دیر جب نیل خود ہی اوپر نیچے ہونے لگی تو ندیم نے نیلم کے چوتڑ چھوڑ کر اس کے
کے اچھلتے ممے پکڑ لیے۔ اب نیلم خود ہی اوپر ہوتی، لن کی صرف کیپ ہی اس کی چوت کے
اندر ہوتی اور وہ دھڑام سے نیچے آتی۔ اب اس نے اپنی رفتار تیز کر دی۔ ندیم اور
نیلم دونوں ہی مزے کی وادیوں کی سیر کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ندیم نے نے نیلم کو
روکا اور اسے گھوڑی بننے کا کہا۔ نیلم گھوڑی کی طرح جھک گئی اور ڈوگی سٹائل میں آ
گئی۔ اب ندیم اس کے پیچھے آیا اور اپنی زبان اس کی چوت پر رکھ دی۔ نیلم کی سسکاری
سی نکل گئی۔ اس پوزیشن میں نیلم کی چوت بہت زیادہ ایکسپوز ہو چکی تھی۔ اچھی طرح
زبان پھیرنے کے بعد ندیم نے اپنا لن نیلم کی چوت پر سیٹ کیا اپنے ہا تھ نیلم کے
موٹے چوتڑوں پر رکھے اور آہستہ آہستہ اپنا لن اند ر داخل کر دیا۔ اب ندیم نے اندر
باہر کرنا شروع کر دیا۔ آہستہ آ ہستہ اس نے رفتار بڑھانی شروع کر دی۔ کمرے میں دھپ
دھپ کی آوازیں گونجنے لگیں جو ماحول کو اور بھی سیکسی بنانے لگیں ۔ اور ان کے ساتھ
ندیم اور نیلم کی بے ھنگم آوازیں ۔ آہ،
،ہ،،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہہ،آ،،،آ،،،آ،،،ہ،،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ ، اہ۔۔۔اہ۔۔۔۔آؤچ،،، کچھ دیر بعد
نیلم کو لگا جیسے اس کے سارے جسم کا خون اس کی چوت کی طرف حرکت کر رہا ہو ۔ اس نے
اپنی چوت کس لی۔ جس سے ندیم کا لن چوت کی دیواروں کے ساتھ اور اچھی طرح رگڑ کھانے
لگا۔ نیلم : آہ۔۔۔آہ۔۔ ند۔۔۔د۔۔ی،،ی۔۔م ،،۔۔ مجھے ۔۔۔کچھ ہ۔۔ہ۔۔و۔۔۔رہا۔۔۔ہے۔۔
آہ۔۔ میں ۔۔۔۔گ۔گ۔گ۔گئی۔۔۔ ااور اس کے ساتھ ہی ندیم کو لگا جیسے اس کے لن پر کسی
نے ابلتے پانی کا چھڑکاؤ کر دیا ہو۔نیلم کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ ندیم نے کچھ دیر
کےلئے اپنا لن باہر نکالا ۔ اور پھر اندر کر کے دھکے لگاناے شروع کر دیے۔ اس دفعہ
اس نے اپنی رفتار کافی تیز رکھی۔ اپنے ہاتھ نیلم کی نرم نرم گانڈ پر رکھے وہ لگاتا
ر دھکے لگا رہا تھا۔ وہ اپنا لن باہر لے جاتا ، صرف اس کی ٹوپی اندر رہتی کہ وہ
ایک جھٹکے سے پھر اندر ڈال دیتا ۔ اب اسے بھی اپنے جسم میں چونٹیاں سی رینگتی
محسوس ہوئیں۔ اس نے جھٹکے اور تیز کر دیے۔ جب اس لگا کہ وہ بس چوٹنے ہی والا ہے تو
اس نے لن باہر نکال لیا اور ہاتھ سے مٹہ لگانے لگا۔ اچانک منی کی پچکاری نکلی جو
نیلم کےچوتڑوں پر جا گری۔ ندیم کے لن سے دو تیں پچکاریاں نکلیں اور اس کا لن
پرجھانے لگ گیا۔ ندیم نے نیلم کو سیدھا کیا اور اس کے پاس لیٹ گیا۔ دونوں ایک
دوسرے کی محبت میں سرشار ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ کچھ دیر ایسے پڑے رہنے کے
بعد ندیم نے اپنے کپڑے پہنے اور نیلم نے بھی اپنے کپڑے پہن لیے۔ دونوں نے چادر
اٹھائی ااور باہر نکل گئے۔
پی کے جو نجانے کب سے انہیں دیکھ کر اپنا لن مسل
رہا تھا اس کے اپنے لن کی منی بھی نکل چکی تھی، ۔ پی کے یہ سب دیکھ کر اتنا تو
سمجھ ہی گیا تھا کہ اس گولے کے لوگ صرف خاص خاص موقعوں پر ہی کپڑے اتاارتے ہیں اور
ان کیلئے کپڑے پہننا ضروری ہے۔ رات کافی ہو چکی تھی۔ پی کے باہر نکلا ۔ اب وہ ایک
کمرے کی طرف جا رہا تھا۔ اس کمرے کے پاس جا کر اس نے دروازے کو دھکیلا تو وہ کھلا
تھا۔ وہ دبے قدموں اندر داخل ہو گیا۔ یہاں پر ایک الماری تھی۔ ساتھ ایک چارپائی
پڑی تھی۔ اور ایک سائیڈ پر ایک پرانا سا ٹرنک بھی پڑا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ
کسی ملازم وغیرہ کا کمرہ ہو۔ پی کے نے الماری کھول کے دیکھی ۔ اس میں کچھ کپڑے
وغیرہ پڑے تھے۔ ان میں سے ایک شلوار قمیص اس نے پہن لی۔ چونکہ وہ کئی افراد کو اس
حلئیے میں دیکھ چکا تھا اس لیئے اپنی یاد داشت کی بنا پر اس نے کافی حد تک ٹھیک ہی
پہن لیئے ۔ اب وہ ریڈیو کو اپنے گلے میں ڈال کر باہر نکلا اور حویلی کے گیٹ کی طرف
روانہ ہوا۔ باہر نکل کر اس نے دیکھا کہ ایک طرف ایک ٹرک کھڑا تھا۔ اس کی پچھلی طرف
والا بڑا ڈھکن نیچے گرا ہوا تھا۔ اور اس میں کچھ پیازوں کی بوریاں نظر آ رہی تھیں
۔ پی کے نے اردگرد یکھا اور کسی کو نہ پا کر دوڑ کر ٹرک میں سوار ہو گیا۔ اس نے
اپنے آپ کو اچھی طرح پیازوں کی بوریوں کے پیچھے چھپا لیا۔ کچھ دیر بعد اسے قدموں
کی آواز سنائی دی۔ دو افراد آئے انہوں نے پیازوں کی دو تین بوریاں اور رکھیں اور
ڈھکن بند کر دیا۔ صبح کے چار پانچ بجنے والے تھے۔ ٹرک آہستہ آہستہ چلنا شروع ہو
گیا۔ کچھ دیر بعد پکی سڑک پر پہنچ کر اس کی رفتار تیز ہو گئی۔ کچھ دیر بعد پی کے
کو نیند آ گئی اور وہ سو گیا۔ اس کی آنکھ ایک جھٹکے سے کھلی ۔ اب کافی روشنی ہو
چکی تھی۔ پی کے کو تھوڑی سی گرمی بھی محسوس ہوئی۔ اس محسوس ہوا کہ ٹرک کسی جگہ رکا
ہوا ہے۔ پی کے ڈکھن کے قریب ہوا اور آنکھ بچا کر باہر دیکھنے لگا۔ باہر سورج اپنی
آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ دن کے بارہ بج چکے تھے۔ یہ حیدر آباد کا نواحی علاقہ
تھا۔ پی کے نے دیکھا کہ کافی لوگ ایک ڈھابہ ٹائپ ہوٹل پر بیٹھے کھانا وغیرہ کھا
رہے تھے اور کچھ ویسے ہی لیٹے ہوئے تھے۔ پی کے کو موقع اچھا معلوم ہوا۔ وہ ٹرک سے
نیچے اتر گیا اور ادھر اُدھر دیکھتا ایک طرف چل دیا۔ ہر کوئی اپنے کام میں مصروف
تھا اس لئے کسی نے توجہ نہ دی۔ پی کو ایک کچی سی سڑک ایک طرف جاتی دکھائی دی۔ پی
کے اس پر چل دیا۔ ابھی کچھ ہی آگے گیا تھا کہ اسے دو کاریں آگے پیچھے آتی دکھائی
دیں۔ پہلی کار جیسے ہی اس کے قریب آئی وہ فوراً ایک طرف ہو گیا۔ وہ تو گزر گئی
لیکن چونکہ وہ اپنے پیچھے بہت زیادہ گرد و غبار چھوڑ گئی تھی اس لئے دوسری کار پی
کے کو نہ دیکھ سکی۔ اس کے ڈرائیور کو تب پتا چلا جب کار پی کے کے بہت نزدیک آ چکی
تھی۔ اس نے بریک لگائی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔۔ کار ہلکے سے پی کے کو لگی اور پی
کے وہیں گر گیا۔ کار رک گئی ۔ اس کا پچھلا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور اس میں سے
ایک لمبی زلفوں والا آدمی نکلا ۔ وہ پی کے قریب آیا اور اسنے جھک کر پی کے کی نبض
چیک کی۔ پھر بولا : اوئے زریں خاناں ۔۔ یہ کیا کر دیا تو نے۔ زریں خاں : استاد وہ
گردو غبار میں پتا نہی چلا ۔ شنکر شکرا گاڑی ہی بہت تیز بھگا رہا تھا۔ اتنے میں
پچھلی سیٹوں سے ایک اور آدمی بھی باہر نکل آیا جو پینٹ شرٹ میں ملبوس تھا۔ اس نے
کہا: کیا ہوا جہانی استاد ؟ جہانی : کچھ نہی یار صفدر : اس بندے کو ٹکر لگی ہے
اپنی گاڑی سے۔ صفدر: چلو پھر ایسا کرتے ہیں کے اسے گاڑی میں ڈال لیتے ہیں ، بعد
میں ڈاکٹر کو دکھا لیں گے۔ ابھی دیر کی تو شنکر نکل جائے گا۔ جہانی نے اثبات میں
سر ہلایا۔ انہوں نے پی کے کو اٹھا یا اور گاڑی میں ڈال لیا ۔ زریں خاں نے گاڑی آگے
بڑھا دی۔. جلد ہی اس نے رفتار بہت تیز کر دی۔ لیکن تب تک اگلی گاڑی بہت دور نکل
چکی تھی۔ جہانی استاد جو پاکستان کا بہت بڑا ڈون تھا اس نے ہاتھ پہ ہاتھ مارا۔ دھت
تیرے کی۔۔ آ ج پھر ہاتھ سے نکل گیا سالا۔۔ صفدر : کوئی بات نہیں شاجہاں ، بکرے کی
ماں آخر کب تک خیر منائے گی۔ شاجہاں : زریں گل ، چل یار اب کسی ڈاکٹر کے پاس چل۔
زریں نے گاڑی کا رخ واپسی کی طرف موڑ دیا۔ جلد ہی وہ ایک ہسپتال کے پاس پہنچ گئے ۔
ڈاکٹر جہانی کا ایک جاننے والا ہی تھا۔ ۔ فوراً ،،،2 ،،3 میل نرس آ گئے۔ انہوں نے
پی کے کوو اٹھایا اور اندر لے گئے۔ ڈاکٹر نے پی کے کو اچھی طرح چیک کیا ۔ اسے کوئی
خاص چوٹ نہیں لگی تھی۔ ڈاکٹر نے ایک دو انجیکشن لگائے۔ کچھ دیر بعد پی کے کو ہوش آ
گیا۔ وہ حیرانی سے ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا۔ ڈاکٹر نے یہ اطلاع جہانی کو پہنچائی۔
جہانی اور زریں بھی آ گئے۔ جہانی نے اس سے پوچھا کہ ہاں بھئی جوان کون ہو تم؟ پی
کے حیران پریشان دیکھ رہا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اب زریں گل آگے بڑھا اور بولا
۔ اوئے لالے کی جان توم کو ہے ۔ کہاں جانا تھا توم کو؟ لیکن پی کے کچھ سمجھ اتا تو
وہ بولتا۔ ڈاکٹر کو لگا شاید پی کے بہرہ ہے۔ وہ پی کے کان کے قریب زور سے بولا:
بہرہ ہے کیا۔۔ پی کے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ڈاکٹر جہانی کی طرف دیکھ کر بولا
۔ سماعت تو ٹھیک ہے۔ اور ہوش و ہواس بھی ٹھیک ہیں ۔ لگتا ہے یاد داشت چلی گئی ہے۔
زریں گل بولا: تو اب پھر ڈاکٹر صاحب؟ ڈاکٹر: اب اسے اپنے گھر لے جائیں ۔ جب اسے
یاد داشت واپس آئے تو اسے اس کے گھر چھوڑ دیں۔ جہانی : ڈاکٹر اب ہم اسے لے کر کہاں
کھجل ہوتے رہیں ۔ آپ کو تو ہمارا پتا ہی ہے کبھی یہاں تو کبھی وہاں ۔ کیا آپ اسے
یہاں نہیں رکھ سکتے ؟ ڈاکٹر : نہیں جہانی صاحب ، آپ کو تو پتا ہی ہے پہلے ہی
مریضوں کا کتنا رش ہوتا ہے۔ پھر اس کا خیال کون رکھے گا۔ صفدر بولا: چل یار شاجہاں
اسے بھی لے چلتے ہیں اپنے ڈیرے پہ۔ جب اس کی یا د داشت آ گئی تو اسے واپس چھوڑ دیں
گے۔ جہانی نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔ انہوں نے پی کے کو گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی
اپنے ڈیرے کی طرف بڑھا دی۔ راستے میں زریں گل بار بار پی کے کی طرف دیکھ کر کچھ
بولتا تھا۔ پی کے کو اس کی کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی۔ یہ جاننے کے لئے کے وہ کی کہ رہا
ہے پی کے نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیا کیونکہ اس کے گولہ میں خیالات جاننے کا
یہی طریقہ تھا۔ زریں نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ صفدر اور جہانی نے بھی یہ حرکت
بڑی حیرانی سی دیکھی۔ زریں بولا : اوئے ٹھرکی منڈیا ، یاد داشت کے ساتھ اپنی پہچان
وی بھول گیا ہیں؟ زریں اور پی کے پیچھے بیٹھے تھے جب کہ صفدر آگے گاڑی چلا رہا تھا
اور جہانی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اب جہانی بولا : اوئے منڈیا ! لگتا ہے بڑی
گرمی چڑھی ہے تیرے کو۔۔۔ پی کے نے اسے بولتے دیکھ تو اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ صفدر
اور زریں دونوں ہنس پڑے۔ جہانی نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑا لیا ۔ جہانی بھی کھسیانی
ہنسی ہنس کر بولا اوئے زریں خانا ں لگتا ہے منڈے کا کوئے علاج شلاگ کرنا پڑے گا۔۔
زریں : جی استاد ۔۔ ڈیرے پر پہنچ کر کرتے ہیں کچھ۔۔ کچھ دیر بعد وہ ڈیرے پر پہنچ
گئے۔ وہ گاڑی سے نیچے اترے اور پی کے کو ایک کمرے میں چھوڑ کر اسے ہاتھ کے اشارے
سے سمجھایا کہ یہ اس کا کمرہ ہے۔۔پی کے جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ جہانی اور اس کے
ساتھیوں نے کچھ دیر آرام کیا پھر دوپہر کا کھانا کھایا۔ پی کے نے بھی ان کے ساتھ
بیٹھ کر کھانا کھایا۔ پی کے چونکہ جب سے آیا تھا بہت بھوکا تھا اس لئے اس نے ڈٹ کر
کھایا۔ اس نے ابھی تک ریڈیو اپنے گلے میں ڈال رکھا تھا۔ خان نے اس کی طرف ہاتھ
بڑھایا تو پی کے ۔۔ نے اسے چھپا لیا۔ سب ہنس پڑے۔ جہانی بولا: زریں گل ، پہلے اس
کا ٹھرک پورا کر پھر شاید یہ تم سے دوستی کر لے۔ کیا خیال ہے آج پھر شاربہ بائی کو
بلا نہ لیا جائے؟ زریں ؛ بالکل ضرور۔۔ اور اسے کہ دینا کہ کلثوم کو ساتھ ضرور لیتی
آئے۔ صفدر اور جہانی ہنس دیے۔ صفدر : شاجہاں صاحب۔ مجھے تو یہ سب پسند نہی ۔ میں
تو جا رہا ہوں اپنے گھر ۔ آپ لوگ انجوائے کرو۔ شاجہاں: چل کوئی گل نہی بس تھوڑا سا
ڈانس دیکھ لینا پھر چلے جانا۔ صفدر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ شاجہاں نے شاربہ بائی
کا نمبر ملا کر اسے ہدایات دے دیں۔ اسے اپنے ساتھ زریں کے لئے کلثوم اپنے لئے ارم
اور پی کے کیلئے کوئی اور نئی لڑکی لانے کو کہا۔ شاجہاں نے کہا وہ شام تک پانچ
لاکھ اس کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دے گا۔ خیر باقی وقت بھی اس طرح گزر گیا۔ شام
آ گئی۔ جب 7 بجے کا ٹائم ہوا تو باہر گاڑی کا ہارن بجا۔ ملازم نے جا کر دروازہ
کھولا۔ ایک بڑے ڈالے پر شاربہ بائی ور اس کے ساتھ تین لڑکیاں اور 2۔3، سازندے آئے
تھے۔۔ملازم انہیں اندر لے گیا۔ ایک بڑے ہال نما کمرے میں اہتمام کیا گیا تھا۔ جلد
ہی سازندوں نے اپنی ڈیوٹی سنبھال لی۔ جہانی استاد اور اس کے ساتھی ایک طرف بیٹھ
گئے۔ پی کے بھی قریب ہی بیٹھا تھا۔ ڈھولکی کی تھاپ پر رقص شروع ہوا۔ لڑکیوں نے
اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ کلثوم اور ارم کی عمر 25، 24 کے قریب ہو گی۔
لیکن نئی لڑکی کی 20 ،22 سال کے قریب تھی۔ تینوں اکٹھا ہی ناچ رہی تھیں۔ ارم اور
کلثوم نے تنگ کپڑے پہن رکھے تھے۔ ان کے سینے کے ابھار بہت نمایاں ہو رہے تھے۔
کلثوم کی ایک چیز بہت نمایاں تھی ، اور وہ تھی اس کی 40 کی گانڈ جو اس کی ٹائٹ
شلوار میں واضح نظر آ رہی تھی۔ اس کے چوتڑ بہت بڑے اور گول گول کے تھے۔ زریں کی
نظر بس جیسے کلثوم کی گانڈ سے چپک سی گئی ہو۔ ۔۔ رقص شروع تھا۔ زریں نے اٹھ کر
کلثوم پر نوٹ بھی پھینکے اور اس کی گانڈ پر ہلکی سی تھپکی بھی دی۔ ایک گھنٹہ رقص
دیکھنے کے بعد جہانی نے شاربہ کو کچھ اور پیسے دیے اور وہ سازندوں کو لے کر چلی گئی۔
اب صرف وہ تین لڑکیاں رہ گئیں ۔ صفدر نے بھی شاجہاں سے اجازت لی اور چلا گیا۔ اب
زریں سے صبر نہ ہو رہا تھا۔ اس نے فوراً کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور ایک ساتھ والے
کمرے میں چلا گیا تھا۔ شاجہاں نے پی کے کا ہاتھ پکڑااور اس نئی لڑکی جس کا نام
نگینہ تھا اس کے ہاتھ میں تھما کر کہا کہ اسے اچھی طرح مزہ دینا، بچارا بہت بیتاب
ہے۔۔۔ یہ کہ کر اس نے ارم کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر چھت پر بنے ایک کمرے میں چلا
گیا۔۔اب کمرے میں صرف نگینہ اور پی کے تھے۔ نگینہ پی کے کو لے کر کمرے میں چلی
گئی، جو ان کیلئے مخصوص کیا ہوا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی پی کے نے اس کا ہاتھ پکڑ
لیا کیوںکہ وہ اس گولے کی زبان سمجھنا چاہتا تھا۔ لڑکی سمجھی کہ شاہد یہ اس نے
شہوت کی بے چینی سے کیا ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر پی کے کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ
دیے۔ پی کے تو جیسے کرنٹ لگ گیا۔ ایاہ تو آج پہلی دفعہ اس کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کا
لن ایک جھٹکے سے تنبو کی طرح تن گیا۔ لڑکی نے اب اس کے ہونٹ چوسنے شروع کر دیے۔ پی
کے نے اس کا ہاتھ بدستور پکڑ رکھا تھا اور اس کی زبان اور خیالات آہستہ آہستہ
ٹرانسفر ہو رہے تھے۔ اب نگینہ نے ہونٹ چوسنے کے ساتھ دوسرے ہاتھ سے پی کے ،کے لن
کو سہلانا شروع کر دیا۔ پی کے کو یوں لگا جیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہو۔ کچھ دیر
بعد نگینہ نے اپنی زبان پی کے ، کے منہ میں داخل کر دی۔ جب پی کے کی زبان نگینہ کی
زبان سے ٹکراتی تو پی کے کے لن کو ایک جھٹکا سا لگتا۔ نگینہ کو محسوس ہو رہا تھا
کہ اس شخص کا لن بہت بڑا ہے۔ اب اس نے کسنگ چھوڑی اور نیچے بیٹھ کر اس کی شلوار
اتارنا چاہی لیکن پی کے ہاتھ چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ لڑکی نے اپنا ایک ہاتھ اس کے
ہاتھ میں رہنے دیا اور ویسے ہی تھوڑا جھک کر پی کے کی شلوار کا نالہ کھولا اور اس
کی شلور نیچے کھسکا دی۔ پی کے کے 10 انچ کے لمبے لن نے انگڑائی سی لی جسے دیکھ کر
نگینہ کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں۔ پھر وہ نیچے بیٹھی اور پی کے ، کے لن کو اپنے
ہاتھ میں لے لیا۔ دوسرا ہاتھ پی کے کے ہاتھ میں ہی تھا۔ نیچے جھک کر اس نے اپنا
منہ لن کی ٹوپی پر رکھ دیا۔ پی کے کو تو ایک جھٹکا سا لگا۔ اس کے منہ سے ایک بے
ہنگم سی آواز نکل گئی۔ اب اس نے ٹوپی کو منہ میں لے لیا اور چوسنا شرو ع کر دیا۔
ابھی اس نے ایک دو چوپے ہی لگا ئے تھے کہ پی کے ،کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا اور اس
نے اپنی منہ نگینہ کے منہ میں چھوڑ دی۔ دراصل پی کے، کے ساتھ یہ سب پہلی مرتبہ ہوا
تھا، ۔ اتنے مزے نے اسے بے قابو کر دیا تھا۔ نگینہ کا منہ منی سے بھر گیا۔ لیکن یہ
منی کچھ عجیب طرح کی تھی۔ سفید سفید ۔ کم لیسدا۔ اچھی خوشبو والی۔ نگینہ کا اسے
پھینکنے کو دل نہ چاہا اس لئے اس نے نگل لی۔ اب وہ کھڑی ہو گئی۔ اس نے اپنی قمیص
اتار دی ۔ پی کے کو کچھ دیر کیلئے اس کا ہاتھ چھوڑنا پڑا۔ قمیص اتارنے کے بعد اس
نے برا بھی اتار دی۔ اب اس کے 36 سائز کے گول مٹول خوبصورت سڈول ممے بالکل عریاں
تھے۔ پی کے نے فوراً اس کا ہاتھ دوبارہ سے پکڑ لیا۔ اب اس نے دوسرے ہاتھ سے اپنی
شلوار کھسکا دی۔ نیچے اس نے کوئی پینٹی وغیرہ نہی پہنی ہوئی تھی۔ اس کی براؤن کلر
کی چوت اب کپڑوں سے آزاد تھی۔ اس پر ہلکے ہلکے بال تھے۔ اب اس نے کسی طرح سے پی کے
کی قمیص بھی اتار دی۔ اب دونوں بالکل ننگے تھے۔ پی کے ساتھ ساتھ اس کی زبان اور
خیالات بھی اپنے اندر جزب کر رہا تھا۔ اب اس لڑکی نگینہ نے پھر سے کسنگ شروع کر دی۔
لب سے لب ٹکرائے۔ زبان سے زبان ٹکرائی۔ لعاب مکس ہوئے۔ دونوں شہوت میں ڈوب گئے۔ پی
کے کو ملنے والا مزہ کئی گنا زیادہ تھا۔ جب نگینہ اس کی زبان چوستی اور ساتھ اس کو
لن کو ہاتھ سے سہلاتی تو پی کے کو یوں لگتا جیسے اس نے سو فٹ بلندی سے چھلانگ لگا
دی ہو اور اب وہ ہوا میں پرواز کر رہا ہو۔ کچھ دیر بعد لڑکی نے اپنے ممے کو ہاتھ
میں پکڑ کر پی کے ، کے منہ سے لگایا۔ پی کے چونکہ اس سے ملتا جلتا منظر دیکھ چکا
تھا اس لیے اس نے مما منہ میں لے لیا۔ لیکن کچھ بھی نہ کیا۔ لڑکی بڑی حیران ہوئی۔
وہ بولی : ابے سالے کیسا چوتیا ہے تو ، تجھے بوبا چوسنا بھی نہی آتا۔ اپنی ماں کا
دودھ بھی ایسے ہی پیتا تھا۔ پی کے نے چونکہ اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اس لیے اسے
اتنی تو سمجھ آ گئی کہ اس لڑکی نے اس کو کوئی گالی وغیرہ نکالی ہے۔ اس نے فوراً
دانتوں سے نپل کو کاٹ لیا۔ نگینہ کی سسکاری نکل گئی۔ نگینہ : کیا کرتے ہو۔۔ آرام
سے کرو۔ ۔ پھر وہ سمجھ گئی کہ یہ بندہ اناڑی ہے اسے سمجھانا پڑے گا۔ اس نے پی کے
کو کوئی اشارہ کیا اور خود جھک کر پی کے سینے کے نپلز چوسنے شروع کر دیے۔ پی کے کا
سینہ بالوں سے پاک اور بڑا کشادہ تھا۔ جیسے ہی نگینہ نے نپل چوسا پی کے کے منہ سے
بے ہنگم سی سسکاری نکل گئی۔ کچھ دیر نپل چوسنے کے بعد نگینہ نے پی کے کو بھی ویسے
ہی چوسنے کا اشارہ کیا۔ اب پی کے کچھ کچھ سمجھ گیا تھا۔ اس نے جھک کر نگینہ کا مما
منہ میں لے لیا اور اس کا نپل چوسنا شروع کر دیا۔ لیکن چونکہ اس میں اناڑی پن
نمایاں تھا اس لیے نگینہ کی سسکاریاں بھی بلند تھیں۔ پی کے نپل کو بڑی شدت سے چوس
رہا تھا۔ اس کے دانت بھی ممے کے پر جگہ جگہ لگتے تھے۔ اس کی زبان بھی بڑی تیزی کے
ساتھ ادھر ادھر حرکت کر رہی تھی۔ کچھ دیر بعد نگینہ نے بوب چسوانا بند کیا اور
اپنی ٹانگیں کھول کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ اب ااس کی براؤن کلر کی چوت کافی حد تک کھل
گئی تھی۔ اس کے لب چھوٹے چھوٹے اور کافی حد تک سیدھے تھے۔ اس میں سے لیسدار سا
مواد بھی نکل رہا تھا۔ نگینہ نے پی کے کو نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پی کے گھٹنوں
کے بل اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ اب اس کا منہ چوت کے بالکل سامنے
تھا۔ نگینہ نے اپنا ہاتھ اس کے سر کے پیچھے رک کر اسے اپنی چوت کی طرف دھکیلا۔ پی
کے ، کا منہ سیدھا جا کر چوت پر لگا اور اس کی ناک چوت ے لبوں سے ٹکرائی۔ اسے ایک
جیب سی مہک آئی، اس نے اپنے ہونٹ چوت پر رکھ دیے۔ نگینہ کی سسکاری سی نکل گئی۔ پی
کے، کی زبان نے اپنی بے ترتیبی حرکت شروع کر دی۔ کبھی وہ اوپر جا کر نگینہ کے دانے
سے ٹکراتی یعنی اس کی چوت کے چھولے سے،کبھی اس کے لبوں سے۔ کبھی اندر گہرائی میں ۔
یہاں بھی پی کے ، کا اناڑی پن نمایاں تھا۔ اب اس نے اپنی ہونٹوں سے چوت کو چھی طرح
چوسنا شورع کر دیا۔ اتنی چدت سے چوسا کہ نگینہ چیخنے لگ پڑی۔ اس کی سسکاریوں کی
آواز بہت بلند ہو چکی تھی۔ آہ،،،ہ،ہ،، او،،و،ہ،ہ،ہ،آؤچ،،،یاہ۔۔۔ایہہ۔۔۔اوہہ۔۔کمینے
۔ سالے ، آرام ۔۔۔س۔۔س،ے،ے،ے،،،چو،،،س،س،،،م،،ا،،،ا،ا،ا،،ں۔۔۔ک۔۔۔ی ۔ی۔ی۔ی
،،،،سمجھ۔۔،،،ر،ر،ر،ر ،،ک،ک،کھ،،،ا،،ا،ا،،ہے، ،،،کیا،،،گشتی۔ ،،،کے بچے ۔۔۔تیری
زبان ہے یا آری۔۔۔۔۔آہ۔۔۔ایہہ۔۔اوہہہ۔۔۔آؤچ۔۔۔۔۔پی کے کو اس کے خیالات سے بس یہ
پتا چل رہا تھا کہ وہ بہت مزے میں ہے۔ پی کے نے اپنے کام کی رفتار اور تیز کر دی۔
اب اس نے اپنے دانتوں سے بھی کاٹنا شروع کر دیا۔ اچانک نگینہ کے جسم نے جھٹکے سے
لیے۔ آہ۔۔۔۔ہ۔ہ،ہ،،ہ،ہ،ہ،ہ،ہہ، میں مر گئی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس کی چوت میں جیسے
سیلاب آ گیا۔ پی کے ، کا منہ چوت کے پانی سے لتھڑ سا گیا۔ کچھ دیر بعد نگینہ چانت
ہو گئی۔ اس کو اتنا مزہ پہلے کبھی نہی ملا تھا۔ اس نے پی کے کو کھڑا کیا اور اپنی
زبان سے اس کا سارا منہ صا ف کیا۔ اب اس نے پی کے کو لٹا دیا۔ خود اس کے گھٹنوں کے
پاس بیٹھ کر اس کا لن چوسنے لگی۔ اچھی طرح لن چوسنے کے بعد وہ اٹھی اور پی کے لن
پر بیٹھنے کی تیاری کرنے لگی۔ اس نے پی کے لن پر اپنی چوت سیٹ کی اور آہستہ آہستہ
نیچے جانی لگی۔ اس نے یہ پوزیشن اس لیے اختیار کی تھی کہ ایک تو پی کے اناڑی تھا،
دوسرا س کا لن بہت بڑا تھا، اور تیسرا پی کے اس کا ہاتھ بھی نہ چھوڑ رہا تھا۔
نگینہ اپنا منہ پی کے کی طرف کیے آہستہ آہستہ نیچے ہونی لگی۔ پہلے پی کے کی ٹوپی
نے اس کی چوت کو ٹچ کیا، پھت جب وہ ٹوپی کو اندر لینے لگی تو اسے تھوڑی سے درد کا
احساس ہوا، حالانکہ وہ 4،5 دفعہ چوت مروا چکی تھی۔ وہ وہیں رک گئی۔ جب پی کے نے اس
رکتے دیکھا تو اس سے صبر نہ ہوا ، اس نے دوسرے ہاتھ نگینہ کی گانڈ پر رکھے اور اسے
زور سے نیچے دبا دیا۔ ایک جھٹکے سے لن نگینہ کی چوت کو روندتا ہوا اندر چلا گیا۔
نگینہ کی ایک زوردار چیخ برامد ہوئی۔ اس لگا جیسے اس کی چوت میں کسی نے لوہے کا
موٹا راڈ گھسا دیا ہو۔ لن 4، 5 انچ تک اندر جا چکا تھا۔ اب پی کے نے اسے چوتڑوں سے
پکڑ کر ہلانا شروع کر دیا۔ اب نگینہ بھی کچھ شانت ہو گئی تھی۔ وہ بھی آہستہ آہستہ
اوپر نیچے ہونے لگی۔ پی کے ، کو اب یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے نگینہ کے سارے
خیالات اس کے اندر آ چکے ہیں۔ کیونکہ ااس کے گولے میں پی کے کا ذہن سب سے تیز چلتا
تھا۔ اس نے نگینہ کا ہاتھ چوڑ دیا۔ اب اس نے دونوں ہاتھ نگینہ کے چوتڑوں پر رکھ
دیے اور انہیں اوپر لے جا کر زور سے نیچے دبا دیتے ، نگینہ کی چیخیں سی نکل جاتیں،
لن اپنی مکمل گہرائی تک اس کی چوت میں اتر جاتا۔ نگینہ کو لن اس کی بچہ دانی سے
ٹکراتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔( بچہ دانی یوٹرس کا دوسرا نام ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں
بچہ نمو پاتا ہے۔ لن چوت کے صرف اگلے حصے یعنی وجائنہ تک محدود ہوتا ہے۔ جس کی
اوسط لمبائی 4سے 5 انچ تک ہوتی ہے۔ بعض میں اس سے کم یا زیاادہ بھی ہو سکتی ہے۔)
نگینہ کی سسکاریاں بہت بلند ہو رہیں تھیں ۔ لیکن دوسرے کمروں میں بھی یہی کام ہو
رہاتھا اس لیے کسی نے دھیان نہ دیا۔ اب پی کے ہاتھوں کی رفتار تیز ہو گئی تھی۔ دھپ
دھپ کی آوازیں اور ساتھ نگینہ کی لذت آمیز سسکاریاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔وہ پی
کے ، کے لن پر بڑی اچھی طرح سواری کر رہی تھی۔ پی کے ، اسے اتنا اوپر لے جاتا کہ
لن کی صرف ٹوپی اند ر ہوتی اور پھر وہ ایک جھٹکے سے اسے نیچے لاتا ، لن چوت کی
دیوروں سے رگڑ کھاتا ہوا اس کی بچہ دانی سے جا ٹکراتا ۔ کچھ دیر اس طرح کرنے کے
بعد جب نگینہ کی بس ہو گئی تو اس نے پی کے ، کو رکنے کا کہا اور نیچے اتر کر اپنی
چوت کا معائنہ کرنے لگی۔ اس کی چوت تھوڑی سی سوج چکی تھی اور اس میں خون کے قطرے
بھی نظر آ رہے تھے۔ ا س نے ایک کپڑے سے چوت صاف کی اور اب خود لیٹ گئی ۔ اس نے پی
کے کو اپنے سامنے کھڑآ کیا۔ اس کے کندھوں پر اپنی ٹانگیں رکھ دیں۔ اپنے ہاتھوں سے
اس کا لن اپنی چوت پر سیٹ کیا اور اسے دھکا لگانے کو کہا۔ اب پی کے اس کی بات سمجھ
گیا۔ اس نے اپنے جسم کو جھکایا اور ایک زور دار جھٹکے سے اپنا لن نگینہ کی چوت میں
داخل کر دیا۔ لن چوت میں ڈوبتا چلا گیا۔ اب پی کے نے اپنے جسم کو تھوڑا جھکا کر
نگینہ کے مموں کو ہاتھوں سے پکڑ لیا ۔ اب سین کچھ یہ تھا کہ نگینہ کی ٹانگیں پی
کے، کے کندھوں پر تھیں جس سے نگینہ کی چوت اور بھی کشادہ اور ایکسپوژ ہو چکی تھی۔
دوسری طرف پی کے ، نے جھک کر نگینہ کے مموں کو پکڑ رکھا تھا اور انہیں مسل رہا
تھا۔ نگینہ کی سسکاریاں بلند ہو رہیں تھیں۔
آہ،،،ہ،ہ،،،ہ،ہ،،ا،،،،و،،و،و،و،و،و،،و،و،وہ،ہ،ہ،،ہ،ہ ،،،،،،،،،،،ہ،،،،ہ
۔۔۔۔۔۔،،،،،آؤ،،،،ؤ،،چ،،،،،چ،چ،چ،۔۔۔۔۔،اور،،،،ز،،ز،
زو،،،،و،ر،،،سے،،،،پھاڑ۔۔۔دو۔۔۔میری۔۔۔چو۔۔۔و۔۔۔و۔۔۔ ت۔۔۔ ۔۔آہ۔۔۔ہ۔۔ انہیں سن کر
پی کے ، کی رفتار ااور تیز ہو چکی تھی۔ اچانک نگینہ کے جسم نے جھٹکے سے کھائے۔ آہ
،،،ہ،،،ہائے،،،میں مر گئی۔۔۔۔ اور ساتھ اس کی چوت سے بے انتہا پانی نکل پڑا جس نے
پی کے لن کو نہلا سا دیا۔۔۔ مگر پی کے ابھی تک تھکنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ اب
نگینہ ڈوگی سٹائل میں آ گئی اور پی کے ، کو پیچھے سے ڈالنے کا کہا۔ پی کے پیچھے آ
گیا۔ اس نے لن نگینہ کے چوتڑوں اور گانڈ کے سوراخ پر رگڑنا شروع کر دیا۔ نگینہ :
اب ڈال بھی دو۔ ۔۔پی کے نے سنا تو فوراً ایک زور دار دھکا لگا یا ۔ اور ساتھ ہی
کمرے میں نگینہ کی زور دار چیخ بلند ہوئی۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہہ ہ
۔۔۔۔۔ہائے۔۔۔میں مر۔۔گئی۔۔۔۔کمینے۔۔۔گشتی کے بچے۔۔۔یہ چوت نہیں تیری ماں گانڈ
تھی۔۔۔۔چل باہر نکال۔۔۔اس کی آوازیں یوں محسوس ہو رہی تھیں جیسے بکرے کو ذبح کیا
جا رہا ہو۔ اسے ابھی س فیلڈ میں آئے 5۔ 6 ماہ ہی تو ہوئے تھے۔ اس کی گانڈ ابھی تک
کنواری تھی۔ جسے پی کے ، نے انجانے میں پھاڑ ڈالا تھا،۔ پی کے ،کا لن ابھی تک گانڈ
میں ہی تھا۔ اس گنڈ کی جکڑ ، تنگی ، اور گرماہٹ بہت مزہ دے رہی تھی۔ اس نے لن باہر
نہ نکالا۔۔جب نگینہ نہ اس کی غصہ میں گالیاں دیں تو اسے بھی غصہ آ گیا۔ اس نے لن
کو حرکت دینی شروع کر دی۔ کیونکہ لن نگینہ کی چوت کے پنی سے کافی گیلا ہو چکا تھا
اس لیے زیادہ رگڑ تو نہی لگ رہی تھی لیکن نگینہ کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم
میں لوہے کا سریا گھسا دیا گیا ہو۔اس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن پی کے
، نے اسے اچھی طرح قابو کر لیا۔ اب لن کی حرکت میں کچھ روانی آ رہی تھی۔ پی کے نے
اپنے آ پ کو نگینہ کے جسم پر جھکا لیا اور س کے بوبز پکڑ لیا۔ پی کے ، کے بوبز
مسلنے کا انداز بہت نرالا اور انتہائی شہوت انگیز تھا۔۔ اب پی کے ، نے لن کی رفتار
بڑھانی شروع کر دی ۔ نگینہ کی گانڈ بہت تنگ تھی اور پی کا لن کافی موٹا تازہ تھا۔۔
پی کے اب لن کو اتنا باہر نکالتا کہ بس ٹوپی اندر رہ جاتی اور پھر ایک جھٹکے سے
اندر ڈال دیتا ۔ نگینہ کی چیخ نکل جاتی۔ پی کے ساتھ اس کے بوبز اور نپلز بھی مسل
رہا تھا۔ کچھ طرح اس طرح کرنے کے بعد پی کے، کو تھکاوٹ سی محسوس ہوئی۔نگینہ بھی
تھکی تھکی لگ رہی تھی۔ اب پی کے نے اس کروٹ کے بل لٹا دیا۔ خود اس کے پیچھے لیٹ
گیا۔ اس کی ایک ٹانگ تھوڑی آگے کر دی۔ اس سے اس کی پھدی اور گانڈ کافی ایکسپوژ ہو
گئیں۔ اب پی کے نے چوت پر اپنا لن سیٹ کیا اور زور دار جھٹکے سے اندر داخل کر
دیا۔لن چوت کی دیواروں سے رگڑ کھاتا بچہ دانی سے جا ٹکرایا۔ نگینہ کی سسکاری نکل
گئی۔ اب پی کے نے لگاتار دھکے لگانے شروع کر دیے۔ ہر دھکے کے ساتھ نگینہ بلبلا
اٹھتی۔لیکن اب اس کو مزہ بھی بہت آ رہا تھا۔ پی کے ، نے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر اس
کے بوبز بھی پکڑ لیے۔اس طرح نگینہ کو دوگنا مزہ آنے لگ گیا۔ کچھ دیر اس طرح چودنے
کے بعد پی کے ، نے لن باہر نکالا اور نگینہ کی گانڈ میں ڈال دیا۔ نگینہ کی گانڈ جو
پہلے ہی کافی سوج چکی تھی اس کو بامشکل ہی برداشت کر پائی۔ پی کے ، نے دھکے لگانے
شروع کر دیے۔۔اس کا لن جڑ تک گانڈ میں داخل ہو جاتا تھا، ۔ اب نگینہ نے پی کے کا
ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی پھدی پر رکھ دیا ۔ پی کے ، سمجھ گیا کہ اسے مسلنے سے اسے مزہ
آتا ہے ۔ اس نے نگینہ کی پھدی مسلنا شروع کر دی۔ اب نگینہ کو بھی بہت مزہ آ رہا
تھا۔
پی کے اس کی گانڈ مارنے کے ساتھ ساتھ اس کی چوت اور مموں کو بھی
اپنے طریقے سے مسل اور نوچ رہا تھا۔ پی کے ہاتھ جب نگینہ کی پھدی کے چھولے سے
ٹکراتے تو اس کی لمبی سسکاری نکل جاتی۔ اب پی کے ، نے اپنی رفتار تھوڑی تیز کر دی
تھی۔ کچھ دیر بعد اسے لگ جیسے اس کا سارا خون اس کے لن کی طرف حرکت کر رہا ہو۔ اس
نے چوت کو مسلنا بھی تیز کر دیا۔ نگینہ کی سسکاریاں اور آہیں کمرے میں گونجنے
لگیں۔ اچانک پی کے ، نے نگینہ کے جسم کو اچھی طرح جکڑ لیا۔ اس کے جسم نے جھٹکے سے
کھائے ۔ اور اس کے لن نے اپنی منی نگینہ کی گرم گانڈ میں چھوڑ دی۔اپنی گانڈ میں پی
کے ، کی گرم گرم منی محسوس کرتے ہوئے نگینہ کو بھی شہوت ملی اور اس کی چوت نے بھی
پانی چھوڑ دیا۔ اب دونوں شانت ہو گئے تھے اور ایک دوسرے سے لپٹ کر سو گئے ۔ دوسری
طرف زریں گل جو کلثوم جب کلثوم کو لے کر اند رد اخل ہوا تو اس نے جاتے ہی کلثوم کے
بوبز جکڑ لئے۔انہیں مسلنا اور بھینچنا شروع کر دیا۔ کلثوم چونکہ پہلے بھی 1 ، 2
دفعہ زریں سے چدوا چکی تھی اس لئے اسے زریں کی عادا ت کا پتہ تھا۔ زریں نے اب
کلثوم کو چومنا شروع کر دیا۔ پورا منہ کو چوم کر اس نے کلثوم کے ہونٹ چومنے شروع
کر دیے۔ اب کلثوم نے اپنے ہونٹ کھول دیے۔ دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے لگ گئے۔
اب زریں نے کلثوم کو بیڈ پر لٹا دیا۔خود اس کے اوپر لیٹ کر کسنگ شروع کر دی۔کلثوم
کا بھر ا بھرا جسم اسے بہت مزہ دے رہا تھا۔ اس کالن کلثوم کی چوت کو اوپر اوپر سے
سہلا رہا تھا۔ اس کے لب کلثوم کے لبوں سے ٹکرا رہے تھا۔ اس نے پہلے اپنی زبان کلثو
م کے ہونٹوں پر پھیری۔ پھر اپنی زبان اس کے منہ میں داخل کر دی۔ کلثوم نے اس کی
زبان کو چوسنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر اس طرح سکنگ کرنے کے بعد زریں نے اس کی قمیص
اتار دی ۔ اب کلثوم کا اوپری بدن صرف ایک بلیک کلر کے برا میں تھا جس سے اس کے
گورے گورے ممے جھلک رہے تھے۔ زریں سے اب رہا نہ گیا ۔ اس نے ہتھ پیچھے لے جا کر
برا کی ہکس بھی کھول دیں اور برا نیچے گر گیا۔ اب کلثوم کے 38 کے ممے بالکل ننگے
تھے۔ ان پر بلیک نپلز تھے۔ زریں تو جیسے مموں پر ٹوٹ پڑ ا۔ ایک ممے کو ہاتھ سے
دبوچ لیا اور دوسرے کو منہ میں لے لیا۔ کلثوم کی سسکی سی نکل گئی۔ زریں نے اس کو
نپل کو دانتوں تلے ہلکے سے دبا دیا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ دوسرے ممے کو بھی مسل رہا
تھا اور اس کے نپل کو سہلا رہا تھا۔ اب اس نے پورے ممے پر اپنی زبان پھیرنی شروع
کر دی ۔ پھر ممے کو ہاتھ سے اٹھا کر اس کی گولائیوں کو زبان سے چاٹا ۔ کلثوم کی
سسکیاں اور آہیں بلند ہو گئیں۔ اب زریں نیچے آیا اور کلثوم کے بھرے بھرے گورے پیٹ
پر زبان پھیری۔ اب اس نے کلثوم کی ٹانگیں اٹھا کر اس کی شلوار بھی اتار دی۔ کلثوم
نے نیچے بھی بلیک کلر کی پینٹی پہن رکھی تھی۔ زریں نے وہ بھی اتار دی۔ اب خود کھڑا
ہو گیا اور کلثوم کو اپنے کپڑے اتارنے کہا۔ کلثوم نے زریں کے کپڑے بھی اتار دیے۔
اب زریں نے کلثوم کو پھر لٹا دیا اور اس کی موٹی موٹی رانوں کو زبان سے چاٹنا شروع
کر دیا۔ کلثوم کی تو آہیں نکل گئیں ۔ اب زریں نے کلثوم کی گوری گوری چوت جو تھوڑی
تھوڑی گیلی ہو رہی تھی ، پر پنے ہونٹ رکھ دیا۔ اس کو اچھی طرح چوما ، پھر زبا ن
بھی پھیری۔ پھر اس نے کلثوم کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھیں پر رکھیں اور
اپنا منہ کلثوم کی چوت میں گھسا دیا۔ کلثوم کی ایک بلند سسکاری نکل گئی۔ اب زریں
نے اپنی زبان کلثوم کی چوت میں گھسا دی، ، کلثوم مزے سے سر پٹخنے لگ گئی۔ کچھ دیر
بعد زریں نے کلثوم کی چوت کے دانے کو بھی چوما چوسا اور اس کی چوت کے لبوں کو بھی
چوسا۔ اب اس نے اپنی زبان نیچے لے جانی شروع کر دی۔ اب وہ گانڈ اور چوت درمیانی
لائن کو چاٹ رہا تھا ۔ کلثوم کو کرنٹ کی ایک لہر سی اپنے جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس
ہوئی۔ نے بے اختیار زریں کے سر پر ہاتھ رکھ لیا اور اسے کے سر کو دباناشروع کر
دیا۔ اب زریں اور اگے جا رہا تھا۔ کلثوم کو چونکہ زریں کا پتا تھا اس لیے وہ اپنی
گانڈ اور چوت کی اچھی طرح صفائی کر کے آئی تھی،،۔ ا ب زریں نے گانڈ کے سوراخ کے
ارد گرد والی جگہ پر زبان پھیرنی شروع کر دی۔ کلثوم کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔زریں
نے زبان پھیرتے پھیرتے اپنی زبان کی نوک کلثوم کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی۔ کلثوم
کی زوردار آہ بلند ہوئی۔ زرین نے اس کی گانڈ کے سوراخ پر زبان پھیرنا شروع کر دی ۔
اس کی زبان پوری گانڈ کی سیر کر رہی تھی اور کلثوم کی آہ و بکا بلند ہو رہی تھی۔
مگر زریں اس سے بے فکر اپنے کام میں مصروف تھا۔ اس نے کلثوم کی گانڈ کچھ اس طرح
چاٹی کہ کلثوم کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔ زریں بھی اس پانی سے بھیگ گیا تھا ۔ لیکن
اس نے کوئی اثر نہ لیا۔ اب وہ خود بیڈ پر لیٹ گیا۔ اب کلثوم اس کے اوپر آ گئی اور
زرین کو چومنا شروع کر دیا ۔ زریں کی زبان چوسنے کے بعد اس کے بالوں بھرے سینے کو
بھی چوما پھر اس کے لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا ۔ کچھ دیر ہاتھ سے سہلانے کے بعد اس نے
لن کی ٹوپی پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ، زریں کو مزہ تو بہت آ رہا تھا پر وہ کوئی آواز
نہ نکال رہا تھا، ۔ اب کلثوم نے لن کو منہ میں ڈل لیا۔ زریں کے لن کلثوم کے نرم
گرم منہ کو محسوس کر کے اور تن گیا۔ کلثوم نے اس کی ٹوپی پر ااچھی طرح زبان پھیری
اور اسے قلفی کی طرح چوسنا شروع کر دیا۔ کافی دیر لن چسوانے کے بعد زریں نے کلثوم
نے زریں کو لٹا دیا اور خود اس کی ٹانگیں اوپر اٹھا دیں۔ اب اس کی چوت اور گانڈ
کافی ایکسپوژ ہو چکی تھیں۔ زریں نے تھوڑی تھوک اس کی گانڈ پر اور تھوڑی اپنے لن پر
لگائی اور اپنے لن کو کلثوم کی چوت اور گانڈ پر رگرنا شروع کر دیا۔ کلثوم کی آہیں
کمرے میں گونجنے لگیں۔۔ آہ۔ اب ڈال بھی دو نہ خان جی ، کیوں اپنی جان کو ترسا رہے
ہو۔ یہ سنتے ہی زریں نے لن کو گانڈ کے سوراخ پر فٹ کیا اور ایک جھٹکے سے لن گانڈ
میں ڈال دیا ۔ کلثوم کی ایک بلند چیخ نکل گئی۔ اس نے سوچا تھا شاید زریں پہلے چوت
میں ڈالے گا ، لیکن زریں تو اس کی موٹی ،گوری گانڈ کا شیدائی تھا۔ اب زریں کا لنڈ
کلثوم کی گانڈ کی سیر کر رہا تھا۔ اب کلثوم کو زیادہ درد محسوس نہی ہو رہا تھا۔
زریں نے کلثوم کی ٹانگیں اس حد تک اٹھا دیں تھیں کہ کلثوم کے گھٹنے اس کے پیٹ کو
لگ رہے تھے ، اس سے زریں کا لنڈ اپنی گہرائی تک کلثوم کی گانڈ میں اتر رہا تھا۔ اس
کے ٹٹے کلثوم کے چوتڑوں سے ٹکراتے تھے ۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے کلثوم کے سڈول ،
گورے گورے مموں کو پکڑ رکھا تھا۔ زریں کی رفتار بہت تیز ہو رہی تھی۔ کچھ دیر بعد
زریں نے لنڈ باہر نکالا اور کلثوم کے منہ میں دے دیا ۔ کچھ دیر چسوانے کے بعد پھر
سے اس کی گانڈ میں اتار دیا۔ گانڈٖ چودتے چودتے اس نے اپنا لن باہر نکالا اور اس
کلثوم کی چوت میں گھسا دیا۔ کلثوم کی آہیں مزید بلند ہوگئیں ۔ زریں کا لن آٹھ انچ
کا تھا اور کافی موٹا تھا۔ کچھ دیر چوت چودنے کے بعد اس نے لن پھر سے گانڈ میں ڈال
دیا۔ اسے کلثوم کی چدائی کرتے 15 منٹ تو ہو گئے تھے ۔ اب اس نے کلثوم کو گھوڑی
بننے کا کہا۔ کلثوم اس سٹائل میں آ گئی۔ زریں پیچھے سے آیا اور لن اس کی گانڈ میں
گھسا دیا ۔ کافی دیر گھسے لگانے کے بعد اس کو جب یہ لگنے کگا کہ وہ فارغ ہونے کے
قریب ہے تو اس نے لن چوت میں ڈال دیا اور رفتار بڑھا دی۔ یکدم کلثوم نے چیخ سی
ماری اور ااس کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ زریں رکے بغیر گھسے مارتا رہا اور چوت کی
گرماہٹ اور چکناہٹ کے سامنے اس کا لن ٹک نہ پایا اور اس نے بھی پانی چوڑ دیا ۔
کلثوم کو لگا جیسے اس کی چوت میں کسی نے لاواا سا چوڑ دیا ۔ دونوں ایک دوسرے پر گر
گئے اور ایک دوسرے سے لپٹ کر ننگے ہی سو گئے۔ صبح کو پی کے کی آنکھ کھلی ۔ (اب
آگےکی کہانی پی کی زبانی )نگینہ ابھی تک میرے ساتھ لپٹی ہوئی تھی۔ میں نے جھک کر
اس کے گالوں کو چوما۔ پھر مجھے اپنے ساتھ گزرا واقعہ یاد آیا۔ میں جلدی سے ان
لوگوں کے کمرے کی طرف بھاگا جو مجھے کل اپنے ساتھ لائے تھے اور میرا بڑا خیال رکھا
تھا۔ میں ایک کمرے میں داخل ہوا ۔ وہاں کچھ کپڑے وغیرہ بکھرے پڑے تھے۔ برا پینٹی ،
شلوار قمیص، بستر پر وہ خان اور اس کے ساتھ والی لڑکی ننگی لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے
خان کو جھنجوڑ کر اٹھا یا۔ بھایا ! بھایا ! اٹھو ، جلدی ، ،،، خان آنکھیں ملتا اٹھ
گیا۔ خان مجھے بولتا دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ بھئی لالے کی جان کیا جادو کر دیاا
چھوکری نے ایک ہی رات میں ۔ ،، میں:بھایا ! اابھی میرے ساتھ چلو ۔ امارے ستھ بڑا
ٹریجڈی ہوت ہے۔ زریں نے کہا : اچھا اچھا ۔ جا اوپر سے جہانی استاد کو اٹھا لا پھر
چلتے ہیں۔ یہ کہ کر زریں نے کلثوم کو بھی اٹھا یا اور خود باتھ روم چلا گیا۔ میں
بھی اوپر چلا گیا۔ جہانی صاحب بھی ننگے لیٹے ہوے تھے۔ ان کے ساتھ والی چھوکری کی
ننگی ٹانگیں جہانی صاحب کے اوپر تھیں ۔ میں نے جہانی صاحب کو بھی اٹھا دیا۔ میری
بات سن کر وہ بھی جلدی سے تیار ہونے باتھ روم چلے گئے۔ جلد ہی ہم ناشتہ وغیرہ کر
کے گاڑی پر نکل گئے ۔ راستے میں صفدر بھی ہمارے ساتھ مل گیا۔ 5 ۔ 6 گھنٹے بعد ہم
اس جگہ پر پہنچ گئے جہاں میں نے ٹرین دیکھی تھی۔ میں نے جہانی صاحب کو ساری بات
بتائی۔ بھایا ، وہ آدمی ایہاں جگہ پر امارہ لاکٹ وا لے کر بھاگا تھا۔ ام کو وہ
لاکٹ چاہیے۔ جہانی : پر لالے یہ جو ٹرین ہے یہ تو بھارت جاتی ہے۔ اب تمھا را لاکٹ
تو انڈیا پہنچ چکا ہو گا ۔ وہاں سے اسے ڈھونڈنا اور حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ سن
کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں رونے لگا۔میرے آنسو دیکھ کر زریں اگے بڑھا اور
مجھے گلے سے لگا لیا۔ اوئے لالے کی جان ، توم فکر کیوں کرتا اے۔ ام ہے نے تمہارا
بھائی۔ ام تمہیں بھارت پہنچائے گا،۔ اب میں بولا : بس آپ مجھے کسی طرح وہاں پہنچا
دیں ۔ آگے میں خود ڈھونڈ لوں گا۔ یہ سن کر جہانی نے کہا : کرتے ہیں کچھ۔ ہم وہاں
سے واپس گھر آ گئے۔ کچھ دنوں بعد جہانی نے مجھے ایک کاپی ٹائپ کچھ چیز لا دی اور
بولا : یہ تمھارا ویزہ ہے ۔ میں حیرانی سے بولا : یہ کیا ہوتا ہے۔ جہانی ہنس پڑا
اور بولا : اس سے تم بھارت پہنچ جاؤ گے۔ کچھ دنوں بعد وہ مجھے ایک ایسی جگہ لے گئے
جہاں بڑے بڑے جہاز کھڑے تھے۔ پھر زریں میرے ساتھ رہا اور صفدر اور جہانی صاحب رخصت
ہو کر چلے گئے۔ مجھے وہ کہ کر گئے تھے کہ وہ بھی جلد آئیں گے۔ زریں میرے ساتھ تھا۔
ہم ایک طرف بڑھے جہاں کچھ لوگ میز کے پیچھے بیٹھے کاغذات وغیرہ چیک کر رہے تھے۔
پھر ہم ایک دروازہ نما مشین میں سے گزرے۔ پھر اپنا سامان لے کر ایک بڑے جہاز کی
طرف بڑھے ۔ وہ مجھے ایک دھاتی پرندے جیسا لگ رہا تھا۔ ہم اس میں سوار ہو گئے ۔
مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا۔ پھر وہ جب اڑنے لگا تو میں نے آنکھیں بند کر لیں اور
زریں کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ زریں میری اس حالت پر ہنس دیا۔ کافی دیر بعد جہاز نے
لینڈنگ کی۔ اس وقت بھی مجھے بہت ڈر لگا۔ پھر ہم نیچے اترے ۔ زریں بولا : لو بھئی
لالے کی جان ! پہنچ گئے ہم انڈیا۔ میں بھی خوش ہوا۔ ہم ایک ٹیکسی کی طرف چل دیے۔
سرفراز جب سے گیا تھا جگو کی بے چینی بڑھ سی گئی تھی۔ اس کو یوں لگ رہا تھا جیسے
اس کی چوت میں خارش اور جلن سی ہو رہی ہو۔تھوڑی دیر بعد نیہا آ گئی ۔ نیہا : سوری
یار تمھیں ڈسٹرب کیا۔۔۔ جگو : کوئی بات نہی۔ نیہا نے کھانا کھایا اور پھر لیٹ
گئی۔جگو سرفراز سے میسجنگ میں لگ گئی۔ اگلے کوئی دنوں تک وہ آپس میں ملتے تو رہے
پر کوئی خاص موقع نہ ملا۔ ہاں یہ تھا کہ جب بھی ملتے سرفراز کسنگ ضرور کر لیتا اور
موقع محل دیکھ کر جگو کے ممے بھی دبا دیتا۔ ایک دن اسی طرح ایک کیفے میں بیٹھے
تھے۔ سرفراز بولا : جگو اب صبر نہی ہوتا ۔ میں تمھیں جی بھر کر پیار کرنا چاہتا
ہوں۔ جب سے تم نے ادھورا چھوڑا ہے بہت بے چین ہوں۔۔ جگو : میرا بھی یہی حال ہے
سرفراز، پر کیا کریں کوئی خاص موقع نہی بن رہا ۔تم ویسے ہی ہاسٹل میں رہتے ہو۔ میں
ایک لڑکی کے ساتھ رہتی ہوں۔ جب وہ آفس ہوتی ہے تو میں یونی ورسٹی ۔جب میں فری ہوتی
ہوں تو وہ بھی فلیٹ پر ۔۔ سرفراز : تو ایک دن یونیورسٹی سے چھٹی کر لیتے ہیں۔ جگو
: آج کل میرے بڑے امپورٹنٹ لیکچر چل رہے ہیں ۔ مس نہی کر سکتی۔ سرفراز ٹھنڈی آہ
بھر کر ، چلو پھر انتظار کرتے ہیں۔یہ کہ کر اس نے میز کے نیچے سے ہاتھ بڑھا کر جگو
کی رانوں پہ رکھ لیے اور انہیں سہلانا شروع کر دیا۔ جگو بھی مسکرا دی۔۔دونوں نے
کھانا کھایا اور چلے گئے۔ پھر وہ موقع آ ہی گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ کسی فیسٹیول کے
سلسلے میں جگو کی یونیورسٹی کو چھٹی تھی۔ جگو نے رات کو ہی سرفراز کو میسج کر دیا۔
سرفراز نے او۔کے کہا۔صبح نیہا آفس چلی گئی۔ اس کے جاتے ہی جگو نے سرفراز کو میسج
کر دیا۔ اور خود وائٹ کلر کے فوم والا برا، وائٹ کلر کی ہی پینٹی ، جینز کی شارٹس
جو صرف اس کی آدھی رانوں تک آتے تھے، اور ایک بنیان ٹائپ شرٹ لے کر واشروم میں
داخل ہو گئی۔ واشروم میں جا کر اس نے اپنے کپڑے اتارے ۔ اور خود ننگی بڑے آئینے کے
سامنے کھڑی ہو گئی۔ اپنے مموں کو ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا ، اپنی چوت کو
دیکھا، اس پر ہلکے ہلکے بال تھے، اس کی بغلوں پر بھی ہلکے ہلکے بال تھے، سب سے
پہلے اس نے کرم سے ان بالوں کو صاف کیا۔پھر اس نے اپنی بغل ، پھدی ، مموں اور گانڈ
پر ایک بہت اچھی خوشبو والا صابن لگایا۔ پھر اس نے اپنے پورے جسم کو مل مل کر اچھی
طرح دھویا۔ پھر اس نےایک خوشبو والے لوشن سے اپنے بوبز ،گانڈ اور پھدی کا مساج کیا
اور کپڑے پہن کر باہر آ گئی۔ جگو نے ایک بیکری میں برتھ ڈے کیک کا آرڈر دے دیا۔
کچھ دیر بعد بیل ہوئی۔ جگو نے جا کر دروازہ کھولا ، آگے سرفراز تھا۔ اس نے جب جگو
کو اس روپ میں دیکھا تو آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ جگو واقعی سیکس کا بم لگ رہی تھی۔
اوپر سے اس کے چہرے پر پانی کے قطرے ، اس کا بھیگا بدن ، اس کے گیلے گیلے ریشمی
بال ، سرفراز کو لگا جیسے اس کی پینٹ بس پھٹنے والا ہو۔ اس نے فوراً آگے بڑھ کر
جگو کو چہرے کو پکڑ لیا اور اس کو بھیگے بھیگے یاقوتی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے
ڈھانپ لیا۔ جگو کسمائی ۔ سرفراز انتہائی شدت سے کسنگ کر رہا تھا۔وہ اتنی شدت سے
ہونٹ چوس رہا تھا کہ جگو کو میٹھا میٹھا درد بھی ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جگو نے
اپنا منہ چھڑایا اور بولی : بس کرو میری جان ، تھوڑا صبر تو کر لو۔سرفراز بولا :
جب تم جیسی خوبصورت پری سامنے ہو تو کس کافر سے صبر ہوتا ہے۔سرفراز یہ کہ کر اندر
بڑھ گیا۔ جگو دروازے پر ہی کھڑی ہو گئی۔کچھ دیر بعد کیک والا بھی آ گیا۔ جگو نے
کیک لیا ، پیمنٹ کی ، اور دروازہ لاک کر کے اندر چلی گئی۔ کیک فریزر میں رکھ کر وہ
بیڈروم میں آ گئی اور شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے بال سکھانے لگی۔ سرفراز بیڈ
پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ جگو کی ٹانگیں رانوں سمیت ننگی تھیں۔ چھوٹے سے شارٹس
بامشکل ہی اس کے آدھے چوتڑوں کو چھپا رہے تھے۔ جگو کے گورے گورے ملائم بازو ننگے
تھے۔ اس کی شرٹ اس کے بدن سے چپکی ہوئی تھی جس میں سے اس کی وھائٹ برا صاف نظر آ
رہی تھی۔ جگو اب اپنے بالوں میں برش کر رہی۔ جب اس نے کنگھی کر لی تو سرفراز اس کے
پیچھے جا کر کھڑاہو گیا اور اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیے ۔ سرفراز : جگو! ۔۔۔۔
جگو: جی میری جان سرفراز: تم بہت خوبصورت ہو۔ جگو شرما دی۔ سرفراز نے اپنی بات
جاری رکھی۔ تمھاری یہ گھنی زلفیں مجھ پر جادو کر دیتی ہیں۔۔۔ تمھارا یہ خوبصورت
چہرہ ، تمھاری شربتی انکھیں جن میں ڈوب جانے کو دل کرتا ہے، تمھارے گلابی ، چا ند
سے روشن رخسار ، تمھارے گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ ، اف ،، میں تو مر جاتا ہوں۔۔۔
جگو سن سن کے شرما رہی تھی۔ جگو : اچھا ؟ اور کیا کیا اچھا لگتا ہے تمھیں ؟
۔۔۔سرفرا ز اب اپنے ہاتھوں سے اس کے کندھوں اور گردن کا مساج کر رہا تھا ۔ اس نے
اپنی بات پھر سے جاری کی۔ تمھاری صراحی دار گردن ، گورے کندھے،سڈول چھاتی ، اف ،
اور پھر اس کے نپلز، جن کو کاٹ کھانے کو دل کرتا ہے، ۔۔۔۔ اب جگو بھی گرم ہو رہی
تھی۔اسے بھی اپنی تعریفیں سن کر بہت خوش ہو رہی تھی۔ سرفراز نے اپنی بات جاری رکھی
: تمہاری نازک پتلی کمر، تمھارا گورا دودھیا پیٹ ، تمھاری بھری بھری ہپس ، تمھاری
چوت ، اس کے تو کیا کہنے۔۔اب سرفراز نے اپنے ہونٹ جگو کے ننگے گورے کندھوں پر رکھ
دیے۔ کچھ دیر چومنے کے بعد اس نے جگو کے کان کی لو منہ میں لے لی اور چوسنا شروع
کر دیا۔ جگو کی سسکاری سی نکل گئی۔اس کو بہت مزہ آ رہا تھا۔ سرفراز نے کچھ دیر کان
کی لو چوسنے کے بعد اس اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا بالکل کسی روئی کے گولے کی طرح
اور لا کر بیڈ پر ڈال دیا۔ جگو بھی بہت رومینٹک ہو رہی تھی۔ اس نے ڈیک پر ایک
سیکسی سونگ لگا دیا۔۔۔ قطرہ قطرہ میں گروں ،،جسم پہ تیرے ٹھیروں قطرہ قطرہ میں
گروں ،، تجھ میں ہی کہیں رہ لوں سرفراز نے اس بیڈ پہ لٹا کہ اس کو چومنا شروع کر
دیا ۔اس کے چہرے کو اچھی طرح چومنے کے بعد اس نے جگو کے ہونٹوں کو چومنا شروع کر
دیا۔ جگو بھی اب گرم جوشی سے اس کا ساتھ دے رہی تھی۔اب سرفراز نے پنی زبان اندر
داخل کر دیا ۔ جسے جگو نے چوسنا شروع کر دیا۔ اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ جگو بیڈ
پر لیٹی ہوئی تھی سرفرا ز اس کے اوپر لیٹاہوا تھا۔ جگو کے ممے سرفراز کے سینے سے
لگ رہے تھے۔ جگو کو اپنی چوت پر سرفراز کے لن کا ابھار محسوس ہو رہا تھا۔ اب
سرفراز نے جگو کی زبان چوسنی شروع کر دی۔۔گانا بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔۔ دریا تو
خالی کر دے ، مجھ میں سارا تو بھر دے تجھ کو آ میں پی جاؤ، پیاس بجھا دو او
وووووووو اب لڑکی کی آواز آتی ہے : لانا کچھ بادل لانا ، ان کو مجھ پہ برسانا ۔
بوندیں ہوں تیری جن میں ، ان سے بِھگا دو اوووو سرفراز اب اس کی رسیلی زبان چوس
رہا تھا ۔ جگو بھی اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ اب سرفراز نے اس کےبا زو اوپر کر
کے اس کی شرٹ اتار دی۔ جگو کا اوپری شفاف ،دودھیا اور بے داغ بدن اب صرف ایک وائیٹ
کلر کے برا میں تھا۔ سرفراز نے اسے بھی اتار دیا۔ اب جگو کے سڈول ، گورے گورے ،
گول پستان سرفراز کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ سرفراز نے انہیں ہاتھوں میں لے لیا۔ لذت
آ میز سسکاری نکل گئی۔ سرفراز نے انہیں ہاتھوں میں لے کر مسلنا اور دبانا شروع کر
دیا۔ جگو کی آہیں نکل رہی تھیں ۔ اب سرفراز نے جھک کر جگو کے ایک پستان کو منہ میں
لے لیا۔ وہ اسے اتنا نرم ور ملائم محسوس ہوا جیسے روئی کا گولا ہو ۔ اس نے اس پر
زبان پھیرنی شروع کر دی۔اب سرفراز کا لعاب جگو کے پستان پر لگ رہا تھا۔ سرفراز
دوسرے ہاتھ سے دوسرا مما دبا رہا تھا۔ جگو کی سسکاریاں نکل رہی تھی۔اب سرفراز نے
اس کے بوب کا تنا ہوا نپل اپنے منہ میں لے لیا ۔ اس کو اپنے دانتوں تلے دبا کے
کھینچا ۔ جگو کی سسکاریاں بلند ہو گئیں۔جگو کا نپل اب سرفراز کے منہ میں تھا جسے
وہ باکل بچوں کی طرح چوس رہا تھا۔ کچھ دیر ایک نپل چوسنے کے بعد اس نے دوسرے کو
بھی پکڑ لیا اور اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا۔ اب اس نے جگو کی شاڑٹس کی طرف ہاتھ
بڑھا یا اور اسکا بیلٹ کھول کر اسے اتار دیا۔ پھر اس کی پینٹی بھی اتار دی۔ اب جگو
الف ننگی لیٹی ہوئی تھی اور کچھ کچھ شرما رہی تھی۔ اب جگو اگے بڑھی اور سرفراز کو
دھکا دے کر بیڈ پر لٹا دیا۔ خود اس کے وپر آ گئی۔ اس نے سرفراز کی شرٹ کے بٹن
کھولے اور اسے اتار دیا۔ پھر اس نے اس کی پینٹ اور پھر انڈروئر بھی اتار دیا ۔ اب
وہ اٹھی اور سرفراز کو ویسے ہی لیٹے رہنے کا اشارہ کیا۔ اور خود کچن میں چلی گئی ا
ور کیک لے آئی۔ وہ سرفراز کے قریب بیٹھ گئی ۔ اس نے تھوڑا سا کیک کاٹا اور سرفراز
کے منہ میں دے دیا۔اب اس نے اپنے ہونٹ بھی سرفراز کے ہونٹوں سے لگا دیے ۔ سرفراز
اس سب پر بہت حیران اور خوش ہو رہا تھا۔ اب جگو اور سرفراز مل کر کیک کھا رہے تھے۔
سرفراز کو اندازہ کرن مشکل تھا کہ کیک زیادہ لذیذ ہے یا جگو کے ہونٹ۔کیک کھانے کے
بعد اب جگو نے کیک کا ایک اور بڑا سا ٹکڑا کاٹا اور سرفراز کے لنڈ پر رکھ دیا۔ اب
جگو نے اپنے ہونٹوں سے سرفراز کے لنڈ پر موجود کیک کھانا شروع کر دیا۔سرفراز مزے
کی نئی وادی میں ڈوب گیا۔جگو نے اپنی زبان سے سارا کیک چاٹا۔۔ساتھ ساتھ اس کے لن
کو بھی اچھی طرح چوسا۔۔۔ اب سرفراز اگے بڑھا ۔اس نے کیک کا ایک پیس کا ٹا اور جگو
کے لٹا کر اس کےا وپری بدن ، اس کے گورے گورے مموں ، اس کے پیٹ اور باقی ساری
چھوتی پر مل دیا۔ اب سرفراز نے اپنی زبا ن سے سارا کیک چاٹنا شروع کر دیا۔ جیسے
جیسے سرفراز کی زبان جگو کے بدن پر لگتی جگو کی سسکاریاں سی نکل جاتیں۔۔سرفراز نے
اچھی طرح سارا کیک چاٹا اور پھر اس کے براؤن تنے ہوئے نپل پر لگے کیک کو چوسنے
لگا۔جگو : آہ۔س۔سس،،ر،،فر،،،ا،،ز،کیا،،،ک،ر،،،ر،ہے،،،ہو،،،میر، ،،ی،،،ی،،جا،،ن۔۔
سرفراز نے اپنا کام جاری رکھا ۔ جگو کے نپلز کو اچھی طرحب چوسنے کے بعد اس نے کیک
کا ایک اور ٹکڑا کیا اور اس کی چوت اور رانوں پر مل دیا۔ اب سرفراز اس کی چوت اور
رانوں پر ٹوٹ پڑا ۔ اس نے اپنی زبان سے کیک چاٹنا شروع کر دیا۔کچھ کیک جگو کی چوت
کے اند ر بھی ڈال دیا اور اپنی زبا ن سے اسے بھی چاٹنے لگا۔ جگو کی لذت آمیز
سسکاریاں نکل رہیں تھیں۔ اچھی طرح جگو کی پھدی چوسنے اور چاٹنے کے بعد اس نے جگو
کی ٹانگیں اٹھائیں اور ایک تکیہ اس کے چوتڑوں کے نیچے رکھ دیا ۔اس نے جگو کی
ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ لیں ۔(سیل پھاڑنے کیلئے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے ) اب
اس نے اپنا لن جگو کی چوت پر رگڑنا شروع کر دیا۔جگو کی چوت پہلے ہی مزے سے بے حال
تھی ۔ اب وہ اور گیلی ہو گئی۔ سرفراز نے اپنے لنڈ کی ٹوپی سے جگو کی پھدی کے چھولے
کو مسلنا شروع کر دیا۔ جگو کی آہیں اور بلند ہو گئیں۔ اس نے اپنا سر پٹخنا شروع کر
دیا۔۔۔جگو : سس۔۔فر۔ا۔ز۔۔کچھ کرو نا۔۔۔بہت گرمی بہت جلن ہو رہی ہے ۔۔۔ سرفراز جگو
کی اس حالت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔کیا کروں؟ جگو : میرے اندر ڈال دو۔۔۔۔ سرفراز
چوت پر اپنا لن رگڑتے ہوئے۔کیا ڈالوں۔۔۔ جگو: اپنا لن میری چوت میں ڈال دو
۔۔۔جلدی۔۔۔ سرفراز : دیکھ لو ،،تھوڑا درد ہو گا برداشت کر لو گی؟جگو : ہاں ۔،۔بس
جلدی ڈالو۔۔۔سرفراز نے یہ سن کر لن اس کی چوت کے سوراخ پر رکھا ، اپنے ہاتھ سے اسے
سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے اندر داخل کر جگو کی نے زور دار چیخ ماری۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ
ہ ہہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ،،، ہائے ،،،، میں ،،مر
گئی،،،،،سرفراز،،،،پلیز نکالو اسے باہر۔۔۔۔سرفراز نے دیکھ کے جگو کی چوت سے خون
نکل رہا تھا۔۔ اس نے لن کو اندر ہی رہنا دیا اور خود جگو کے جسم پر جھک کر اس کے
مموں کو چوسنے لگا۔ اس کے مموں کو اس نے بڑی شدت سے چوسا ۔۔۔اب جگو کی توگہ مموں
کی طرف ہونے لگی اور اسے مزہ آنے لگا۔ سرفراز نے اس کے نپلز دانتوں تلے دبا
لیے۔۔جب اس نے دیکھ کہ جگو کا درد کچھ کم ہو گیا ہے تو اس نے لن کو آہستہ آ ہستہ
حرکت دینی شروع کر دی، جگو کو درد تو ہو رہا تھا لیکن وہ برداشت کر رہی تھی۔ کچھ
دیر حرکت دینے کے بعد سرفراز نے لن باہر نکال لیا اور ٹشو پیپر سے جگو کی چوت صاف
کی۔ اب وہ جگو کے اوپر لیٹ گیا اور اس کو چومنا شروع کر دیا،۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے
ہاتھ سے پھدی کو بھی مسل رہا تھا ۔ جگو کو بہت مزہ آ رہا تھا۔ اب سرفرز نے اپنی
ایک انگلی اس کی پھدی میں داخل کر دی اور اس کو تیزی سے اندر باہر حرکت دینی شروع
کر دیا۔ جب جگو بہت گرم ہو گئی اور اس نے پھر سے ہلنا جلنا شروع کر دیا تو سرفراز
اٹھا اور اس نے جگو کی ٹانگیں ٹھا کرا پنا لن اس کی پھدی پر رکھا اور پھر ایک
جھٹکے سے اندر داخل کر دیا۔ اب کی بار جگو کی چیخ میں درد کم اور مزہ زیادہ تھا۔
سرفراز نے اپنے لن کو آہستہ آہستہ حرکت دینی شروع کر دی۔ سرفراز کا لن جگو کی پھدی
کی دیواروں سے رگڑ کھاتا ہوا اندر جاتا تو جگو کو یوں لگت جیسے اسے کرنٹ سا لگ رہا
ہو ۔ بے انتہا مزہ۔ ۔ اب سرفراز نے اپنے دھکے تیز کر دیے ۔ اس کے ٹٹے چوت اور گانڈ
کے سنگم پر لگتے ۔ اس کا لن چوت کی گہرائیوں کو ناپ رہا تھا۔ جگو کو ہر دھکے کے
ساتھ لگتا کہ اس کی سانس نکل کر واپس اس کے جسم میں آ گئی ہو ۔ سرفراز نے اپنی
رفتار تیز کر دی۔ جگو کی آہیں اور سسکاریاں بھی بہت بلند اور بے ہنگم ہوتی گئیں ۔
آہ۔۔۔اہہ۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔آؤچ۔۔۔ایہہ۔۔۔اوہہ۔۔۔۔۔ک چھ دیر بعد سرفراز نے پوزیشن
چینج کی اب وہ خود لیٹ گیا اور جگو کو ااپنے اوپر بیٹھنے کا کہا۔ جگو اس کی طرف
کمر کر کے لن کے اوپر آ گئی ۔ اپنے ہاتھ سےا س نے لن اپنی چوت پر سیٹ کیا اور پھر
آہستہ آہستہ نیچے ہونے لگی۔ سرفراز کو سا کی گوری گوری گانڈ ور نرم نرم چوتڑوں کا
نظارہ بہت مزہ دے رہا تھا۔ اب لن جگو کی چوت میں داخل ہو چکا تھا اور جگو نے اوپر
نیچے ہونا شروع کر دیا۔ جگو ساتھ ساتھ سیکسی سیکسی آوازیں بھی نکال رہی تھی۔ اب اس
نے اپنی رفتار بھی تیز کر دی۔ آہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ آؤچ،،،ایہہ ۔۔۔
سر۔۔ر۔۔ر۔ف۔ف۔ر۔ا۔ا۔ز۔۔اور۔۔تیز۔۔۔۔ہائے میں مر گئی۔۔۔۔آئی
۔۔ل۔ل۔و۔و۔یو۔و۔و۔و۔ووو۔۔۔۔س۔س۔سر۔ر۔ر۔ف۔راز۔۔۔ ۔ اب سرفراز نے بھی اس کے کولہوں
پر ہاتھ رکھ دیے اور اسے اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا ۔ سرفراز اسے اٹھا کر اوپرلے
جاتا جب صرف لن کی کیپ اند ر رہ جاتی تو ایک جھٹکے سے جگو کو نیچے لاتا جس سے لن
اس کی پھدی کی دیواروں سے رگڑ کھاتا چوت کی گہرائی میں اتر جاتا۔اور جگو کی ایک
لمبی آہ نکل جاتی،،،۔۔۔اب سرفراز نے اسے رخ بدلنے کو کہا ۔ اس نے لن چوت کے اندر
ہی رہنے دیا اور ویسے ہی اپنے جسم کو گھماتے ہوئے اپنا چہرہ سرفراز کی طرف کر لیا
۔ اب اس کے تنے ہوئے سڈول ممے سرفراز کی آنکھوں کے سامنے تھے ۔ جو جگو کی اچھل کود
سے بار بار اچھلتے تھے۔ سرفراز کو جگو کا لاجواب گورا بدن اس کا پیٹ اس کی حسیں
ناف ۔ اس کے بڑے بڑے نپلز بہت مزہ دے رہے تھے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی چھاتیاں
پکڑ لیں اور انہیں مسلنا شروع کر دیا۔ اب جگو کو دو طرفہ مزہ آنا شروع ہو گیا تھا۔
اس نے اپنی رفتار اور تیز کر دیے۔ اب کمرے میں اس کے دھڑام سے اچھلنے کودنے کی
آویزیں گونج رہیں تھیں ۔ اب سرفراز نے لن کو اندر پی رہنے دیا اور جگو کو اپنے
ہاتھوں میں اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔ اب جگو سرفراز کے ہاتھوں میں کسی روئی کے گولے کی
طرح سمائی ہوئی تھی۔
سرفراز نے اسی طرح اسے اٹھائے رکھا اور نیچے سے
دھکے لگانے شروع کر دیے۔ جگو کو ہر دھکہ اپنی روح تک لگتا ہوا محسوس ہوتا۔ اس طرح
سے لن اس کی چوت میں مکمل گہرائی تک جا رہا تھا۔ جگو کا وزن کم تھا اس لیے سرفراز
کو زیادہ مشکل نہ ہو رہی تھی۔ جگو نے اپنی بانہیں سرفراز کے گلے کے گرد ڈال رکھیں
تھیں ۔ ہر دھکے کے ساتھ اس کی لذت آمیز چیخ سی نکل جاتی ۔ 2 ، 3 منٹ اس طرح چودنے
کے طعد سرفراز اس کو ویسے ہی لیے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا ۔ ا لگتا تھا کہ سرفراز کے
لنڈ کو جگو کی پھدی سے ایک منٹ کی دوری بھی گوارا نہیں ۔ اب سرفراز نے جگو کی ایک
ٹانگ صوفے سے نیچے کر دی اور دوسری ٹانگ اپنے ہاتھ پر رکھ لی۔ سرفراز کی دونوں
ٹانگیں صوفے سے نیچے تھیں ۔ اب نیچے سے سرفراز نے دھکے لگانے شروع کر دیے ۔ اس طرح
کرنے کا فائدہ یہ تھا کہ جگو کا چہرہ اور اس کے ممے سرفراز کہ منہ کے بالکل سامنے
تھے ۔ سرفراز نے جگو کے ممے کو منہ میں لے لیا ۔ جگو تو مزے سے پاگل ہو گئی۔ اس کی
آہیں بہت بلند ہو گئیں ۔ہائے سرفراز۔۔میں م۔۔۔ر۔ر۔ر۔ گئی۔۔۔۔پلیز ۔۔۔تھوڑی دیر رک
جاؤ ۔۔۔مجھے کچھ ہو رہا ۔۔۔آہ۔۔ہ۔ہ۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔ہایہہ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس
نے ایک زور دار چیخ ماری ااور جھڑ گئی ۔ سرفراز نے کچھ دیر کیلئے اپنا لن باہر
نکالا۔ اس کا لن جگو کی پھدی کے پانی سے بھیگا ہوا تھا۔ اب سرفراز نے پھر سے دھکے
لگانے شروع کر دیے ۔ کچھ دیر بعد اس نے جگو کو اٹھایا اور کھانے والے ٹیبل پر الٹا
لٹا دیا۔ اب جگو کی گانڈ اور پھدی سرفراز کے سامنے تھی ۔ جگو کی ایک ٹانگ میز سے
نیچے لٹک رہی تھی ور دوسری میز پر تھی۔ سرفراز نے ااس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر پیچھے
سے لن اایک جھٹکے سے ااس کی چوت میں ڈال دیا۔ پورا میز ہل گیا۔ جگو کی آہ سی نکل
گئی۔ سرفراز نے تیز تیز دھکے لگانے شروع کر دی۔ ہ۔۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔سر۔۔ر۔۔۔فر۔۔ر۔از۔۔۔تم
۔۔کتنے ۔۔۔۔چ۔۔ھ۔ے۔۔۔ہو۔۔۔و۔۔۔تمھارا۔یہ
ہتھیار۔۔تو۔۔و۔۔کم۔۔۔ا۔ل۔۔کا۔ا۔ہے۔۔۔آہ۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔ اف۔۔۔ہا۔۔ئے۔۔۔۔۔سرفراز۔جگو
کی آہیں سن کر اور بھی تیز ہو رہا تھا ۔ اب کمرے میں جگو کی چیخوں کے ساتھ ساتھ
دھپ دھپ کی آوازیں بھی گونج رہی تھیں ۔ سرفراز بھی بے ہنگم سی آوازیں نکال رہا
تھا۔ اب اسے بھی لگ رہا تھا جیسے وہ جھڑنے والا ہو اس نے کچھ دیر کیلئے اپنا لن
باہر نکال لیا۔اور جگو کے ہونٹ چوسنے شروع کر دیے ۔ جگو نے بھی اس کا بھرپور ساتھ
دیا ۔ کچھ دیر بعد اس نے جگو کو ڈوگی سٹائل میں آنے کا کہا ۔ جگو اس کے سامنے
گھوڑی بن گئی ۔ اب سرفراز نے پیچھے سے آ کر اس کی پھدی میں اپنا لن گھسا دیا۔ جگو
کی آ ہ نکل گئی۔ ا ب سرفراز نے دھکوں کی مشین سٹارٹ کر دی۔ اس کے ٹٹے جب جگو کے
جسم سے ٹکراتے تو اسے بڑا مزہ آتا۔ اس نے ایک ہاتھ سے جگوکی چوت کو مسلنا بھی شروع
کر دیا ۔ اب اسے لگ رہا تھا جیسے وہ فارغ ہونے کے بالکل قریب ہے ۔ اس نے دھکوں کی
رفتار بڑھا دی۔ ساتھ ساتھ اس نے جگو کی پھدی کے چھولے کو بھی مسلنا شروع کر دیا۔
جگو اس دوہری لذت کو برداشت نہ کر پائی۔ ااس کی آہیں ااور سسکاریاں اور بلند ہو
گئیں۔ ااہ۔۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔۔س۔س۔۔رر۔ر۔۔ف۔ف۔ر۔ر۔ا۔ز۔۔
میں۔۔۔م۔ر۔۔۔گئی۔۔۔آہ۔ہہ۔۔آؤچ۔۔۔اف۔۔۔ف۔۔ف۔اور ساتھ ہی جگو کی پھدی میں جیسے سیلاب
گیا،،سرفراز کو گرم گرم لاوا سا اپنے لنڈ پر محسوس ہوا ۔۔ جگو کے پانی کی گرمی تاب
نہ لاتے ہوئے اس کے لن نے بھی اپنا پانی چوڑ دیا۔ سرفراز نے ساری کی ساری منی جگو
کی چوت میں چوڑ دی۔ ور پھر ویسے ہی جگو کو لٹا کر اس کے اوپر لیٹ گیاا۔ کچھ دیر تک
دونوں لمبے لمبے سانس لیتے رہے ۔ پھر سرفراز نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا۔ سرفراز نے
جگو کو ایک کس دی اور باتھ روم چلا گیا۔ وہاں اس نے اپنا لنڈ دھویا۔ پیچھے پیچھے
جگو بھی آ گئی۔ اس نے بھےی اپنی پھدی دھوئی۔ پھر دونوں نے مل کر نہایا۔ اور ایک
دوسرے کو نہلایا۔ سرفراز نے کپڑے پہنے اور جانے کیلئے تیار ہو گیا۔ پھر وہ چلا
گیا۔ جگو اب بہت خوش تھی۔ اس نے بھی کپڑے پہن لیے اور باقی صفائی بھی کر دی۔ اتنے
میں نیہا بھی آ گئی۔شام کے وقت اس کے گھر سے کال آ گئی۔ وہ گھر والوں سے باتیں
کرنے لگ گئی۔ باتوں باتوں میں اس کے منہ سے نکل گیا کہ سے ایک لڑکے سے پیار ہو گیا
ہے۔ اس کے ابو تو چلا اٹھے۔ اس کی ماں بولی : لڑکا کرتا کیا ہے؟ کہاں کا ہے؟،، جگو
: ماں وہ پاکستانی ہے۔۔۔اس کی ماں : ہائے ، تو پاگل ہو گئی ہے جگو،،برقعہ پہنے گی۔
۔پاکستان جائے گی؟ جگو کا ابا۔۔: جگو تو یہیں رک ،،، اور انہوں نے گاڑی نکال لی۔
اس کے پاپا کرم داس کہاں جا رہے تھے اسے پتا تھا۔ جلد ہی وہ تپسوی جی کے پاس پہنچ
گئے۔ بھولے نات غضب ہو گیا۔۔۔تپسوی ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے۔ پربھو کی جے ہو۔۔۔کرم
صاحب سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔بچی سے مجھے بات کرنے دو۔ اب لیپ ٹاپ تپسوی کے سامنے
تھا۔ جگو نے پرنام کیا۔ تپسوی: بیٹا ڈلیٹ کا بٹن دباؤ ۔ اس لڑکے کو اپنے سسٹم سے
نکال دو۔دھوکہ دینا ان کی فطرت ہے۔ ابھی پربھو سے آگیا لے کر دیتا ہوں ۔ یہ کہ کر
تپسوی نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنا سر سا ہلانا شروع کر دیا۔ساتھ ساتھ وہ وقفہ
وقفہ سے بول رہا تھا۔ جی۔۔جی۔۔۔جی۔۔ٹھیک ہے ۔جو آگیا مہاراج ۔۔۔۔تپسوی نے آنکھیں
کھولیں اور بولا۔: جگت جننی بھوشوانی لکھو ۔۔یہ پاکستانی لڑکا جس کا نام سرفراز ہے
دھوکہ دے گا۔۔تمھارے جسم سے کھیلے گا لیکن شادی نہی کرےگا ۔ جگو : سرفراز دھوکا
نہی دے گا۔ کرم داس : جگو تم فورا ً واپس آ جاؤ۔۔جگو نے یہ سن کر لیپ ٹاپ بند کر
دیا۔ اس نے سرفراز کو کال کی اور پنے پاس آ نے کا کہا ۔ سرفراز کچھ دیر بعد اس کے
پاس آ گیا ۔ جگو: سرفراز مجھ سے پیار کرتے ہو؟ سرفراز : خیر ہے،،کیا ہوا؟ جگو :
ہاں یا ناں میں جوب دو۔۔۔سرفراز : ہاں کرتا ہوں ،، پر ہوا کیا ہے ؟ جگو : شاادی
کرو گے ؟ سرفراز ہاں لیکن۔۔۔۔۔۔جگو : کل۔۔کل ہم شادی کر ہے ہیں ۔۔۔سرفراز : لیکن
بات تو سنو۔۔۔۔۔جگو : کل دس بجے چرچ میں آ جانا۔۔یہ کہ کر جگو اٹھ گئی۔ اگلے دن
جگو تیار ہو کر دس بجے چرچ پہنچ گئی۔ وہاں ایک اور لڑکی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ جگو
بے چینی سے سرفراز کا انتظار کر نے لگی۔ اتنے میں دوسری لڑکی کو فادر نے بلایا۔ اس
نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹوکری سی جگو کو پکڑا دی۔ کچھ دیر بعد ایک بچہ سا آیا
اور جگو کو ایک لیٹر سا تھما کر چلا گیا۔ جگو نے اسے کھول کر پڑھا۔لکھا تھا کہ
سوری مجھے کچھ مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے میں تم سے شادی نہیں کر سکتا مجھے معاف
کر دینا۔۔۔بس اور کوئی نام وغیرہ نہیں تھا۔۔۔جگو یہ پڑھ کر ہکا بکا رہ گئی۔ اس کے
قدموں تلے سے زمیں نکل گئی۔ٹوٹے دل کے ساتھ وہ چرچ سے باہر نکلی۔ اس نے جا کر اپنا
سامان پیک کیا اور انڈیا روانہ ہو گئی۔ سارے رستے وہ روتی رہی۔ انڈیا پہنچ کر کچھ
دن بعد اس نے ایک نیوز چینل جوائن کر لیا۔ ٹیکسی میں بیٹھ کر زریں نے ٹیکسی والے
کو ایک ہوٹل میں جانے کو کہا۔ ٹیکسی ایک طرف چل دی۔ اچانک زریں اچھل سا پڑا۔ اس نے
فوراً ٹیکسی روکنے کا کہا۔ زریں : لالے ام نے اپنے ایک خاص دشمن کو دیکھ لیا ہے۔
ام کو اس کے پیچھے جانا مانگتا۔یہ توم کو ہوٹل میں چھوڑ دے گا۔ پریشان نہ ہونا ۔
یہ کہ کر زریں ٹیکسی سے اتر کر ایک طرف دوڑ گیا۔ ٹیکسی نے مجھے ہوٹل کے پاس چھوڑ
دیا۔ میں نے ٹیکسی کا کرایہ دیا اور ہوٹل کی طرف چل دیا۔ مجھے یہ سب بڑا عجیب لگ
رہا تھا۔ امارے گولے میں تو کونو گاڑی ہی نہ تھی۔ پر ادھر تو سب لوہے کی ڈبیا میں
گھوم پھر رہے تھے ۔ لمبی لمی عمارتیں جو آسمان سے باتیں کر رہی تھیں ۔ ہمارا دماغ
تو لل ہو گیا تھا۔ اب جو ام آگے بڑھا تو کیا دیکھا کہ ایک بڑا سا دروازہ لگا ہوا
تھا اور اس کے آگے ایک چھوٹے سے قد کا موٹا آدمی کھڑا تھا ۔ ام آگے بڑھا۔ اس آدمی
نے ام کو روک لیا۔ صاحب کہاں جا رہے ہو۔ میں بولا: اندر جا رہا ہوں ۔ وہ بولا: سب
ہی اندر جاتے ہیں آپ کو کیا کام ہے۔۔ یہ سن کر میں بھی سوچ میں پڑ گیا کہ میں کیوں
اندر جا رہا ہوں۔میں نے کہا : بھئی صاحب امارا لاکٹوا ایک آدمی نے چھین لیا ہے ۔
ام کو اس کی بڑی ضرورت ہے۔ وہ بولا : تو پھر پولیس سٹیشن جاؤ ادھر کیا ہے۔ میں نے
کہا کہ پولیس اسٹیشن کہاں ہے ؟ اس نے کہا وہ سامنے جو بس سٹاپ ہے اس پر جو بس آئے
اس میں بیٹھ جانا وہ تمہیں پولیس سٹیشن پہنچا دے گی۔ میں بس پر بیٹھ گیا۔ بس میں
ہر طرح کے لوگ سوار تھے۔ ایک طرف ایک میڈم بڑی افسردہ سی بیٹھی تھیں اس نے سفید
کپڑے پہن رکھے تھے۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، میڈم کیا بات ہے آ پ
بڑی پریشان لگ رہی ہیں ، وہ میری طرف بڑی حیرانی سی دیکھنے لگی ۔ایک آدمی بولا:
کیوں بے ، ودھوا کو دیکھ کر لائن مارتا ہے۔ پکڑ لو سالے کو ۔اور وہ سب میری طرف
بڑھے۔ ایک آدمی نے میری کمر پہ ہاتھ مارا۔ میں ڈر گیا۔میں جلدی سے دروزے کی طرف
بڑھا اور چلتی بس میں سے نیچے اتر کر ایک طرف دوڑ لگ دی ، ۔؛کچھ دیر آگے ؛جانے کے
بعد کیا دیکھا کہ ایک خوبصورت لڑکی سفید لباس پہنے اپنی سہیلیوں سے مل رہی تھی۔
مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔ میں نےاس کے پاس جا کر کہا : میڈم بڑ افسوس ہوا کہ آ پ کے
پتی مر گئے۔ وہ چلائی کب؟ میں نے کہا : مجھے کیا پتا ، اپ ہی نے سفید لباس پہن
رکھا ہے۔۔۔اس نے مجھے زور سے ایک تھپڑ مارا ۔ سفید لباس تو شادی پر پہنا جاتا ہے
مرنے پر تو کالا لباس پہنا جاتا ہے ۔ مجھے وہاں سے بھی بھاگنا پڑ ا۔ آگے گیا تو
کیا دیکھا کہ تین لڑکیا ں کالے رنگ کے لباس میں رہی تھیں ۔ میں نے کہا ۔ بہت افسوس
ہوا کہ آپ تینوں کے پتی مر گئے۔ پیچھےسے ایک موٹا آدمی آ گیا ۔ ٹھر جا کمینے ۔ میں
ابھی زندہ ہوں ۔ ابھی بتاتا ہوں تمہیں ۔ یہ سن کر مجھے وہاں سے بھی بھاگنا پڑا۔
کچھ دیر چلنے کے بعد آگے پولیس سٹیشن آ گیا۔ وہاں سے ایک ایک وردی والا آدمی نکل
رہا تھا ۔ میں اس کے پاس گیا۔ جناب جناب،، میری مدد کیجئے ۔ وہ بولا : جلدی بولو
کیا ہے؟ میں بولا: میرا لاکٹ وا گم ہو گیا ہے۔ بہتے قیمتی ہے۔ اس ڈھونڈنے میں میری
مدد کیجئے ۔ وہ بولا : کہاں گم ہو ا ہے؟ میں نے کہا : میں نے کہا: راجھستان میں
۔اس نے ایک زوردار تھپڑ میری کمر پر مارا ۔ بولا: پی کے ہے کیا؟ گم راجھستان میں
ہوا ہے اور تم یہاں دہلی میں دھونڈ رہے ہو۔ میں بولا پر چوری کا مال تو سارا دہلی
میں آتا ہے نا۔ وہ بولا جا اندر جا کر رپورٹ درج کروا دے ۔ میں دروازے سے جانے لگا
تو اگے ایک موچھل سا آدمی کھڑا تھا۔ مجھے اس سے ڈر سا لگا۔ وہ ہر آنے والے سے لڑ
جھگڑ سا رہا تھا ۔ میں نے گھوم کر آ نے کا سوچا۔ میں دوری طرف جانے لگا۔دوسری طرف
گیا تو کیا دیکھا کہ کافی ساری پرانی گاڑی کھڑی تھیں، اور بھی کافی کاٹھ کباڑ پڑا
تھا۔ میں دروازہ ڈھونڈنے کے چکر مین اور قریب چلا گیا۔ مجھے دروازہ تو کہیں نظر نہ
آیا ۔ پر ایک کار سی مجھے کچھ ہلتی نطر آئی۔ میں بڑا حیران ہوا۔ باقی ساری کاریں
بالکل ساکن تھیں ۔ صرف یہ پولیس کار ہل رہی تھی۔ میں دیکھنے کیلیے اور قریب گیا۔
بڑے احتیاط سے جھانک کر دیکھا تو سب سے پہلے مجھے پولیس وردی پڑی نظر آئی اس سے
اوپر ایک اور کالے رنگ ک کپڑا سا پڑا تھا۔ پھر مجھے چار ٹانگیں ہلتی جلتی نطر
آئیں۔ اب ہلکی ہلکی آوزیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔
آہ۔۔۔اوہہہ۔۔۔اوہ۔۔پلیز۔۔بس۔۔۔کریں ۔۔۔انسپکٹر صاحب۔۔۔۔آہہ۔۔۔اب تو میرے بھائی کو
چھوڑ دیں گے۔۔۔آہ۔۔آگے سے مرد کی آواز آئی ، چپ کر گشتی،،،،چوڑ دوں گا تیرے بھائی
کو بھی۔۔پہلے مجھے تو اچھی طرح مزہ دے لے۔ مجھے بڑی حیرانی سی ہوئی۔۔اب سب کچھ
میری آنکھوں کے سامنے تھے۔نیچے کوئی عورت سی لیٹی ہوئی تھی جس کی گوری گوری ٹانگیں
اور پھدی وضح نظر آ رہی تھیں۔اس کے ندر نسپکٹر کا کالا کلوٹا لن بھی جاتا نظر آرہا
تھا۔انسپکٹر کافی موٹا تھا اور اس کی ٹانگوں پر بے شمار بال تھے۔ میں نے پنے ہوتھا
ونڈو پر رکھی وردی پر ٹک دیے اور بڑے مزے سے دیکھنے لگ۔ یکدم نسپکٹر پوزیشن چینج
کرنے کیلئے مڑا تو اس نے مجھے دیکھ لیا۔میں گھبرا گیا۔ تو کون ہے کمینے۔۔۔اپنی ماں
کی چودئی دیکھ رہےہو۔ ٹھرر جا ابھی بتاتا ہوں۔۔ یہ سن کر مٰیں بے اختیاری میں بھگ
نکلا۔انسپکٹر کی وردی میرے ہاتھ میں ہی رہ گئی۔۔میں تھانے سے بھی باہر نکل کر ایک
طرف دوڑ گیا۔ایک بس جا رہی تھی میں بھاگتا ہو اس میں سوار ہو گیا۔بس میں بہت رش
تھا۔ میں نے وہ وردی اپنے بیگ میں ڈال لی۔
پی کے از رانا پردیسی
میں بس میں ایک سیٹ کاسہارا لے کر کھڑاہو گیا۔ میں بہت بھاگ چکا
تھا ۔ مجھے اپنا گھر اپنا وطن بڑی شدت سے یاد آ رہا تھا۔میں بہت اداس ہو گیا۔ ایک
بزرگ میری یہ حالت دیکھ کر بولا: کیا بات ہے بیٹا ؟بہت اداس لگ رہے ہو۔میں: امارا
لاکٹوا کھو گیا ہے، بہتی قیمتی تھا۔اسی واسطے پریشان ہے۔بزرگ بولا: تمہاری مدد تو
بھگوان ہی کر سکتا ہے۔ میں نے یہ لفظ پہلی مرتبہ سنا تھا۔اتنے میں وہ بزرگ کا سٹاپ
آ گیا اور وہ نیچے اتر گئے۔کچھ دیر بعد اگلے سٹاپ پر میں بھی اتر گیا۔میں نے ایک
آدمی سے پوچھا کہ یہ بھگوان کیا ہوتی ہے؟اس نے میرے سر پر ایک جھانپڑ مارا۔۔ابے او
مورکھ تجھے بھگوان کا نہی پتا۔جا بھگوان سے معافی مانگ۔میں نے سوچا کہ جب پتا ہی
نی تو معافی کیسی۔۔۔پھر میں نے ایک خاتون سے پوچھا کہ یہ بھگوان کہاں ملے گا۔ اس
نے کہا کہ وہ تو ہر جگہ ہے۔ لیکن اگر درشن کرنے ہیں تو وہ سامنے مندر میں چلے
جاؤ۔میں مندر کی طرف گیا۔ایک دکان پر کافی مورتیاں پڑیں تھیں۔ میں نے کہا: بھائی
جان یہ بھگوان کہاں سے ملے گا۔یہ سن کر اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھا۔ کیوں کیا
کام ہے؟ بھائی صاحب امارا لاکٹوا چوری ہو گیا ہے ۔ جس سے کہو وہ یہی کہتا ہے کہ
تمھارا کام بھگوان ہی کر سکتا ہے۔ اب ہم کیا کریں۔ وہ آدمی بولا جاؤ اندر مندر میں
یہ ناریل وہاں پھوڑو ، تمھارا کام ہو جائے گا۔اس نے ام سے سو روپیا لے لیا۔ ام
اندر گیا۔کوئی بیس منٹ بعد اماری باری آئی۔ام بولا: بھگوان امارا لاکٹوا دلائی
دو۔یہ کہ کر ام ہاتھ آگے کر کے وہیں کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد پنڈت نے تھالی سی
میرے ہاتھ میں رکھ دی۔اوربولا آگے چلیے۔ میں حیران ہو گیا۔میں بولا بھائی صاحب
میرا کام نہی ہوا ابھی۔وہ بولا ہو جائے گا۔ پیچھے سے ایک خاتون بھی بولی بھائی
صاحب آگے چلیے ۔کیوں لائن روک رکھی ہے۔پیچھے سے تھوڑااور دھکا لگا اور ام آگے ہو
گیا۔ مجبوراً مجھے باہر نکلنا پڑا۔ام ایک طرف جا رہا تھا کہ کیا دیکھا کہ ایک آدمی
ہاتھ میں بیگ لیے بھاگا چلا آرہا ہے۔اس کے پیچھے ایک خاتون چلاتی ہوئی۔چور
چور،،پکڑو پکڑو۔۔۔ام کو کچھ گڑبڑ سی لگی۔میں نے فوراً اپنا بیگ اس کو مارا ، وہ
وہیں گر گیا۔ اتنے میں وہ لڑکی بھی پہنچ گئی۔ کیا مست لڑکی تھی۔گوری گوری ننگی
ٹانگوں والی بوائے کٹ ہیئر سٹائل کے ساتھ۔ اس نے ہانپتے ہوئے اس چور کو دو تین
تھپڑ مارے اس سے اپنا بٹوا واپس لیا اور میرا شکریہ ادا کرنے لگی۔میں نے کہا جی
کوئی بات نہی۔اتنے میں چور موقع دیکھ کر فرار ہو گیا۔ میں اس کے پیچھے جانے لگا تو
بولی چھوڑو اسے ۔آؤ آپ کو چائے پلاؤں۔میں: جی رہنے دیں ، کونو ضرورت وا نہیں
ہے۔پراس نے بہت اصرار کیا تو مجھے جانا پڑا ۔ہم ایک کیفے میں جا کر بیٹھ گئے۔اس نے
چائے کا آرڈر دیا۔ پھر مجھ سے باتیں کرنے لگی۔تھینک گاڈ ۔اگر آپ نے ہوتے تو میرا
کیا ہوتا ، اس بٹوے میں میرا پاسپورٹ آئی ڈی کاڈ، سب کچھ تھا۔میں : اجی کوئی بات
نہیں ۔ وہ بولی: آپ یہاں کیا کر رہے تھے؟ میں(ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے): بس کیا بتاؤں
بڑی لمبی کہانی ہے آپ یقین نہیں کریں گی۔وہ بولی: بتائیں نا، آپ تو بڑے اداس لگ
رہے ہیں۔میں نے کہا: میرا ایک قیمتی ریموٹوا چوری ہو گیا ہے۔ کہاں کہاں نہی گیا اس
کو ڈھونڈنے کی خاطر ۔ کون سا دروازہ ہے جو میں نے نہی کھٹکھٹایا۔اسی وجہ سے بہت
پریشان ہوں۔وہ: آخر ایسا کیا تھا اس میں؟ آپ اس جیسا ایک ااور بنوا لو۔یہاں پہ ہر
چیز مل جاتی ہے۔ میں: آپ نہیں سمجھ سکتی میڈم۔پھر میں نے ادھر ادھر دیکھ کر اس کے
کان کے قریب ہوتے ہوئے کہا: اس میں میری سپیس شپ کا بٹن ہے۔ جس سے میں واپس اپنے
گولے پر جا سکوں گا۔ اب اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ آپ ٹھیک تو ہیں؟مطلب تم یہ
کہنا چاہتے ہو کہ تم اس دنیا کے باشندے نہی ہو؟ ۔۔۔۔میں نے اثبات میں سر
ہلایا۔۔اچھا کیا نام کیا ہے تمھارا۔۔؟ میں: نام تو پتا نہیں پر پتا نہیں کیوں سب
پی کے پیکے بلاوت ہیں۔۔وہ بولی: تم کو کب سے یہ خیال آ رہا ہے کہ تم ایک ایلین ہو یعنی
کسی اور دھرتی سے آئے ہو۔ میں : میڈم آپ کو ہم پر وشواس نہیں نا ۔ لایئے اپنا ہاتھ
پکڑایے ۔ہم آپ کے خیالات پڑھ کر آپ کو بتا دیں گے ۔ پھر تو آپ کو ہم پر یقین آ
جائے گا۔یہ کہ کر میں نے جلدی سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر اس نے
جلدی سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ اورباہر جانے لگی ۔میں بولا: جایئے ۔ آپ کی
قسمت میں وہ ٹومی کتے کا انٹرویو ہی ہے۔اس نے ایک دفعہ پیچھے مڑ کر دیکھا ااور پھر
باہر نکل گئی۔میں بھی اپنا سا منہ لے کر باہر نکل گیا۔میں ایک طرف پیدل چلا جا رہا
تھا کہ پیچھے سے ایک کار تیزی سے گزری جس سے کیچڑ کے کچھ چھینٹے میرے اوپر بھی
آئے۔میرے سارے کپڑے خراب ہو گئے۔ میں نے کار والے کی ماں بہن ایک کی اور ایک واش
روم میں جا کر کپڑے بدلے۔ کیوں کہ میرے پاس اور کوئی کپڑے تو تھے نہیں تو میں نے
وہی وردی پہن لی انسپکٹر والی۔اب مجھے پھر سے بھگوان کی تلاش تھی۔ میں نے ایک بابے
سے پوچھا کہ مندر کہاں ہے۔اس نے کہا کہ یہ دو قدم آگے ہی ہے۔ میں چل پڑا۔ مندر
پہنچ کر اس دفعہ میں نے سوچا کہ بھگوان سے ڈائریکٹ بات کروں۔ اس لیئے میں مندر کے
پچھلے گیٹ سے داخل ہوا اور مندر کی طرف چل پڑا۔دراصل میرا ارادہ تھا کہ ڈائریکٹ بھگوان
جی کی مورتی کے پاس پہنچ جاؤں۔ ابھی میں کچھ ہی آگے گیا تھا کہ مجھے سسکاریوں اور
آہوں کی آواز سنائی دی۔ میری حساس طبیعت نے فوراً سمت کا پتا لگا لیا۔ آوازیں بہت
مدھم تھیں۔ میں آوازوں کی طرف بڑھا۔ میرے کان اور لن کھڑے ہو چکے تھے۔ ایک کمرے کے
قریب پہنچ کر جب مجھے یقین ہو گیا کہ آوازیں اسی کمرے سے آ رہی ہیں تو میں نے کان
لگا کر سننے کی کوشش کی۔ آواز آئی۔آہ ، پنڈت جی نہ کریں۔،یہ پاپ ہے۔ آہ۔۔پنڈت ۔نہ
میری بالکی نہ۔یہ تو پن کا کام ہے۔۔تمھارا پتی دیو تم کو طلاق نہی دے سکے گا جب
تمھاری کوکھ میں بچہ ہو گا۔ مجھے بہت تجسس ہوا۔ اب اماری سمجھ میں آئی کہ بھگوان
امارا کام کیوں نہی کر رہا۔ یہ پنڈت لوگ تو یہاں عیاشی کر رہا تھا تو پھر بھگوان
تک ہماری بات کون پہنچائے۔ اب میں نے کوئی کھڑکی یا درز ڈھونڈنے کی کوشش کی جس سے
میں اندر کا منظر دیکھ سکوں۔ یہ کمرہ ذرا ہٹ کر تھا۔ اس کے ساتھ 2 ، 3 اور کمرے
تھے اور سامنے ایک درخت بھی تھا۔مجھے اور کچھ نا سوجھا تو غصے میں آ کر زور سے
دروازے کو لات ماری۔دروازہ ایک جھٹکے سے کھل گیا۔اندر کا منظر بڑا ہوش ربا تھا۔
چارپائی پر لڑکی پڑی تھی کوئی انیس بیس سال کی۔اس کی شلوار اتری ہوئی تھی اور اس
کے بڑے بڑے گول ممے صرف ایک کالے رنگ کے برا میں قید تھے۔ اس کی ٹانگوں کے بیچوں
بیچ پنڈت بیٹھا تھا جس نے اپنا سر لڑکی کی چوت پر جھکا رہا تھا اور لڑی مزے سے
ادھر ادھر اپنا سر پٹخ رہی تھی۔جب زور سا درواز کھلا تو دروازے پر ایک وردی والے
کو دیکھ کر دونوں چونکے اور ہکا بکا رہ گئے۔میں نے دروازے کو بند کیا اور اندر جا
کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہو رہا ہے؟پنڈت تھر تھر کانپتے ہوئے۔ کچھ
نہیں مہاراج،ہمیں معاف کر دیجئے۔۔۔۔اتنا تو میں بھی سمجھ گیا تھا کہ وردی کی وجہ
سے وہ کافی ڈرے ہوئے ہیں۔ میں نے بھی رعب دار آواز میں کہا کیا بھگوان نے تم کو اس
لیے کام پر رکھا ہوا کہ کہ تم اس کی داسیوں کا یوں اتیاچار کرو۔ اس لڑکی نے ایک
چادر سے اپنے بالائی سینے کوڈھانپ لیا اور پھر وہ دونوں میرے قدموں میں گر گئے۔
دونوں نے اپنے ہاتھ میرے سمانے جوڑ دیا۔ ہمیں شما کر دیجئے مہاراج۔ آپ جو کہیں گے
ہم وہ کریں گے۔ لڑکی نے بھی یہی باتیں کیں۔ لڑکی بہت گوری تھی۔ مجھے ویسے ہی بہت
تپ چڑھی ہوئی تھی۔ وہ پنڈت اٹھا اور اس نے ایک الماری کھولی اس میں سے نوٹوں کی
ایک بڑی گڈی نکال کر میرے سامنے کر دی۔ میں نے کہا یہ ایک طرف رکھ دو۔ اور سکون سے
چارپائی پر بیٹھ جاؤ۔ وہ دونوں پھر سے چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میں نے لڑکی کے خیالات
پڑھنے کیلئے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پہلے تو وہ تھوڑا کسمائی پر پھر شانت ہو گئی۔ اس
کے خیالات پڑھ کر مجھے پتا چلا کے اس کا نام سونیا ہے اس کی شادی کو 2 برس ہو چکے
ہیں پر ابھی تک اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔ اس کی ساس اسے بہت طعنے
دیتی ہے۔ اس کے پتی نے تو طلاق تک کی بھی دھمکی دے رکھی ہے۔ اب بھی اس کی ساس ہی
اسے پنڈت کے پاس لاتی تھی۔کئی دفعہ پنڈت کے پاس آنے کے بعد پنڈت نے آج اس کی ساس
سے کہا تھا کہ آج وہ چار گھنٹوں کیلئے اس کو ادھر ہی چوڑ جائے و ہ اس پر ایک خاص
عمل کرے گا جس سے اس کی گود ہری ہو جائے گی اور اب وہ اپنا خاص عمل کر رہا تھا۔ پی
کے کے لبوں پر ایک خاص مسکراہٹ آ گئی۔ اب وہ پنڈت کی طرف متوجہ ہوا ۔ اس نے کہا:
ایک شرط پر میں تم دونوں کو معاف کر سکتا ہوں ۔ تم پھر سے وہی کام شروع کرو جو
پہلے کر رہے تھے۔ کیا ؟ دونوں اکٹھے بول اٹھے۔ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں۔ پنڈت
بولا۔۔میں : اچھا ٹھیک ہے میں جا رہا ہو ں لوگوں کو بلا کر لاتا ہوں پھر تمہیں پتا
چلا گیا ،۔یہ کہ کر میں واپس مڑا۔ اتنے میں پنڈت نے پھر سے میرے پاؤں پکڑ لیے۔
کرتے ہیں کرتے ہیں ۔ پلیز آپ رک جائیں ۔ یہ سن کر میں پھر رک گیا۔ پنڈت پھر سے
لڑکی کی طرف بڑھا اور اس کو چارپائی پر لٹا دیا۔ لڑکی کی شلوار تو اتری ہوئی تھی
لیکن اس نے ایک کپڑے سے اپنی پھدی چھپا رکھی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر وہ کپڑا اس سے
چھینا اور اس کی گوری گوری چوت ننگی ہو گئی جو بالوں سے بالکل پاک تھی۔ دیکھتے ہی
دیکھتے پنڈت نے اپنا منہ پھر سے سونیا کی چوت پر رکھدیا اور سونیا نے شرم سے اور
مزے سے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔میں ان کے قریب کھڑا ہو کر یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔
اب مجھے بھی مزہ آ رہا تھا۔ میں کچھ دیر تو یہ منظر دیکھتا رہا۔ میرا ارادہ تھا کہ
آ ج ان دونوں کو اچھی طرح ذلیل کروں ۔ مجھے ان پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ میں آگے بڑھا
اور میں نے سونیا کے برا کو اس کے بوبز سے ہٹا دیا اور اس کے ممے ننگے کر دیے۔
اسکے 34 کے سڈول گورے گورے ممے ننگے ہو گئے تھے جن پر چھوٹے چھوٹے براؤن نپلز بہت
اچھے لگ رہے تھے۔ میں اپنا بیگ ایک سائیڈ پر رکھ چکا تھا۔ میں نے اس کے دونوں مموں
کو ہاتھوں میں دبا کر بھینچنا اور مسلنا شروع کر دیا۔ اس کے نرم نرم ممے میرے
ہاتھوں کو بہت مزہ دے رہے تھے۔ میری اس حرکت سے سونیا کی بے چینی اور بڑھ گئی اور
اس کی نے اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لیا۔ میں نے اپنے انگوٹھے سے اس کے نپل کو
مسلا۔ کچھ دیر اچھی طرح اپنے ہاتھ سے اس کے مموں کو سہلانے کے بعد میں پیچھے ہٹا
اور اپنی شرٹ اور بنیان بھی اتار دی۔ بالوں سے پاک میرا کشادہ سینا عریاں تھا۔
پنڈت بھی اپنے کام میں مصروف تھا۔ میں آگے بڑھا اور سونیا کو تھوڑا اوپر کر کے اس
کی برا بھی اتار دی۔ اب میں اس کومموں پر جھکا۔ پہلے ان پر اوپر اوپر سے زبان
پھیری ۔ میری گیلی زبان سونیا کے سڈول چھاتیوں کا بار بار طواف کر رہی تھی۔ کبھی
اس کی چھاتیوں کی گولایاں، کبھی اس کے نپلز کے گرد براؤن حلقہ،کبھی اس کے مموں کے
نیچے والی جگہ، کبھی اس کے براؤن نپلز جو فل تناؤ میں تھے۔سونیا تو مزے سے بے حال
ہو رہی تھی۔ اچھی طرح زبان پھیرنے کے بعد میں نے اب اپنے ہونٹوں کو حرکت میں لانے
کا فیصلہ کیا۔ اب میں نے ہونٹوں سے اس کے مموں اور نپلز کو چومنا اور چوسنا شروع
کر دیا۔ کیا رسیلے اور ملائم ممے تھے اس کے۔ سونیا نے اتنے مزے کا تو کبھی خواب
میں بھی نہی سوچا تھا ۔ اس نے بے دھیانی میں اپنا ایک ہاتھ پنڈت کے سر پر اور ایک
میرے سر پر رکھ لیا۔ اب کام میری بھی برداشت سے باہر ہو گیا۔ میں نے اپنی پینٹ اور
انڈر وئر بھی اتار دی۔ میرا 10 انچ کا لن فل تناؤ میں تھا۔ میں نے سونیا کا ہاتھ
پکڑ کر اپنے گرم لن پر رکھ دیا۔ سونیا نے فوراً ہاتھ پیچھے ہٹا لیا۔ میں نے اس کے
چہرے پر ایک تھپڑ مارا ۔ پکڑو اسے سالی گشتی۔۔ اس نے فورً دوبارہ اسے پکڑ لیا۔ میں
نے اب اس کے چہرے کو چومنا شروع کر دیا۔ اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا لیے۔ اس نے
پہلے تو منہ بند رکھا۔ میں نے غصے میں آتے ہوئے اس کے نپلز کو زور سے مسلا اور رگڑ
دیا جس سے بے اختیاری میں اس کا منہ کھل گیا ۔ میں نے فوراً اپنی زبان ااس کے منہ
میں داخل کر دی۔ میری زبان اور اس کی زبان کے ٹکراؤ سے اس کے جسم میں جھرجھری سی
پیدا ہوئی۔ اس کے خیالات مجھے یہ بتا رہے تھے کہ اس کے شوہر تو بس صرف پھدی میں لن
ڈال کر چلا جاتا تھا یا پھر بس اس کے مموں کو مسل لیتا۔ آج اس کو بہت مزہ آ رہا
تھا۔ اب پنڈت بھی اپنا تہہ بند اتار چکا تھا۔ اس کا سینا بالوں سے بھرا ہوا تھا۔
اس کے 5 انچ کے لن کے اردگرد بھی بالوں کا ایک گھنا جنگل تھا۔ میں نے اسے حکم دیا
کہ ابھی اس نے کچھ نہی کرنا ۔ پھر میں نے اسے سونیا کی گانڈ چوسنے اور چاٹنے کا
کہا ۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا، یہ آپ کیا کہ رہے ہیں مہاراج۔ میں یہ نہی کر
سکتا۔ مجھے ایک دم غصہ آ گیا۔ اچھا تو تم نہی کر سکتے۔ میں آگے بڑھا اور پنڈت کو
ایک تھپڑ مارا اور بازو سے پکڑ کر کہا چلو آؤ میرے ساتھ تھانے چلتے ہیں۔
یہ سن کر وہ فوراً بولا : میں کرتا ہوں مہاراج ،
مجھے معاف کر دیں۔ سونیا بھی یہ سب دیکھ سن رہی تھی۔ گانڈ چوسوانے اور چٹوانے کا
عمل اس کیلئے بھی نیا اور حیرت انگیز تھا۔ پنڈت فوراً اس کی ٹانگوں کے درمیان آیا
اور اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر اپنا منہ اس کی گانڈ سے لگا دیا۔ مزے اور حیرت سے
سونیا کا منہ کھل گیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اپنا لن اس کے کھلے منہ میں
داخل کر دیا۔پہلے تو وہ بوکھلا گئی۔پھر میرے گرم لن کو محسوس کرتے ہوئے اس نے اسے
باہر نکالنا چاہا پر پھر میرے تیور دیکھتے ہوئے ویسے ہی رہنے دیا۔میں نے اس کے منہ
کو ہاتھ سے مزید پکڑ کر مزید کھولا اور لن کو حرکت دینی شروع کر دی۔ میں نے اسے
چوسنے اور چاٹنے کا کہا۔چار و ناچار اسے میری یہ بات ماننی پڑی۔اس نے بے بسی سے
اپنی زبان میرے لن پر پھیرنی شروع کر دی۔ اب تو میں مزے کی وادیوں میں ڈوب گیا۔اس
کی گرم گرم زبان جب میرے لن کی ٹوپی کو بوسے دیتی تو میرے جسم میں مزے کی لہر سی
دوڑ جاتی۔ میرا لن صرف 2، 3 انچ تک ہی اس کے منہ کے اندر تھا۔ اس کی تھوک میرے لن
کو بھگو رہی تھی۔میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کے پستان پر رکھ لیا۔ دوسرے ہاتھ سے اس
کی چوت کو رگڑنا شروع کر دیا۔ سونیا کا نرم گرم منہ میرے لن کو بہت مزہ دے رہا
تھا۔ اچھی طرح لن چسوانے کے بعد میں نے اب پنڈت کو نیچے لیٹنے کا کہا۔ اس کے اوپر
سونیا کو اس طرح بٹھایا کہ اس کا منہ پنڈت کی جانب تھا۔ اب میں نے ایک تیل کی شیشی
سے تھوڑا تیل لیا اور پنڈت کے لن اور سونیا کی گانڈ پر اچھی طرح لگا کر اسے سونیا
کی گانڈ مارنے کا کہا۔ سونیا تو چلا اٹھی نہیں، پلیز یہاں سے نہ کریں ۔ میرے شوہر
نے بھی کبھی یہاں سے نہی کیا۔میں نے کہا چپ کر سالی ورنہ مار کھائے گی۔ میرے تیور
دیکھتے ہوئے پنڈت جس کی عمر 35،40 کے قریب تھی ، اس نے اپنے ہاتھ سے اپنا لن سونیا
کی گانڈ کے سوراخ پر فٹ کیا اور ایک زوردار جھٹکا مارا جس سے لن سونیا کی گانڈ کے
تنگ سوراخ کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔سونیا کی ایک زوردار چیخ نکلی لیکن میں
نے فوراً آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ سونیا اب مچل رہی تھی اور کسی طرح
اس قید سے نکلنا چاہتی تھی لیکن میں نے اچھی طرح اسے قابو کیا ہواتھا۔ اب میں نے
سونیا کی چوت کو زور زور سے مسلنا شروع کر دیا۔ جب میں نے دیکھا کہ اس کی چوت اب
گیلی ہو گئی ہے تو میں نے اپنا لن اس کی پھدی کے لبوںپر رکھااور ا سے رگڑنا شروع
کر دیا۔پنڈت جو سونیا کی چیخ سن کر رک گیا تھا میں نے اسے دوبارہ کام شروع کرنے کا
کہا۔پنڈت نے دوبار ہ سے لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اب میں نے اپنا لن اس کی
پھدی کے سوراخ پر فٹ کیا اپنے ہاتھ اس کی کمر اور اور چوتڑوں پر رکھے اور ایک
زوردار جھٹکا مارا جس سے میرا لن اس کی چوت کے اندر سے ہوتا ہو ااسکی نرم گرم چوت
کی گہرائی میں اترتا چلا گیا۔ سونیا کسی ذبح ہوتے بکرے کی طرح چلائی ۔ میں نے پہلے
ہی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا اس لیے اس کی چیک زیادہ بلند نہ ہو سکی۔ میں نے
لن اس کے اندر ہی رہنے دیا۔ اور اس کی کمر کو چومنے لگا۔ اس کی گردن پر کس کیا ۔
اس کے کانوں کی لو کو اپنے ہونٹوں سے چوسا۔نیچے سے پنڈت نے بھی اپنے لن کی حرکت کو
کچھ دیر کیلئے روک دیا اور سونیا کے مموں کو ہاتھوں سے مسلنا شروع کر دیا۔ سونیا
کیلئے یہ تجربہ انتہائی حیرت انگیز اور درد ناک تھا۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ اب اس
کا درد کچھ کم ہو گیا ہے او ر وہ کچھ شانت ہو چکی ہے۔تو میں نے لن کو آہستہ آہستہ
حرکت دینی شروع کر دی۔ لن کی ٹوپی اس کی چوت کی دیواروں سے رگڑ کھاتی ہوئی اس کی
بچہ دانی سے جا ٹکراتی۔ اب نیچے سے پنڈت نے بھی اپنا کام شروع کر دیا۔ اپنے دو
سوراخوں میں دو دو لنوں کو لے کر سونیا کو درد تو بہت ہو رہا تھا، لیکن اب وہ
برداشت کر رہی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ اب اس کی جان جلدی نہیں چھوٹے گا۔ میں ساتھ
ساتھ اس کے خیالات بھی پڑھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اف اس پولیس والے کا لن
کتنا بڑا ہے۔ مجھے تو لگ رہا ہے جیسے ابھی موت کو چھو کر آئی ہوں۔ لیکن اب تو مزہ
بھی آ ہ رہا۔ اس کے یہ گرم گرم خیالات پڑھ کر میں اور گرم ہو گیا۔ میں نے دھکوں کی
رفتار تھوڑی تیز کر دی۔ میں اپنا لن فل باہر نکالتا پھر ایک جھٹکے سے اندر داخل کر
دیتا۔ ہر جھٹکے سے سونیا کی سسکاری نکلتی اور اس کے ممے فصا میں اچھلتے۔ نیچے سے
پنڈت بھی مسلسل جھٹکے مار رہا تھا۔ وہ بھی لگتا تھا کہ پہلی دفعہ کسی کی گانڈ مار
رہا تھا اس لیے بہت مزے میں لگتا تھا۔میں نے اب لن کی رفتار اور تیز کر دی۔ اب لن
کی ٹوپی کو اندر رکھتے ہوئے لن کو تیزی سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔سونیا کی
سسکاریا ں اور آہیں بلند ہونے لگیں۔
آہ۔ہ۔۔ہ۔ہ۔،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،ہ،،،ہ،،،،ہ،،،ہہ،ہہ،،،اوہہ،ہ،ہ ،ہ، میرے لن کو اس کی چوت کی
گرماہٹ ، پکڑ اور نرمی بہت مزہ دے رہی تھی۔ اس کی چوت اب بھی کافی ٹائٹ تھی۔اس لیے
میرا لن اسا میں سے رگڑ کھا کھا گزر رہا تھا۔ گنڈ اور پھدی کے درمیان موجود ہلکی
سی جلد سے مجھے پنڈت کا لن بھی حرکت کرتا محسوس ہو رہا تھا۔ میں دس منٹ تک اسی طرح
اسے چودتا رہا۔ اسا دوران اس کی چوت نے 2،3 دفعہ پانی چھوڑا۔ اب میں نے پوزیشن
چینج کی ۔ پنڈت ویسے ہی نیچے لیٹا رہا۔ اس کے اوپر سونیا کو اس طرح لٹایا کہ اس کی
کمر پنڈت کے پیٹ سے لگ رہی تھی اور اس کے پستان آسمان کی طرف تھے۔ اب میں نے سامنے
سے آ کر اس کی پھدی میں لن ڈال دیا۔ نیچے سے پنڈت نے بھی لن ڈال دیا۔میں چاہتا تھا
کہ ایک دفعہ اس کی چوت میں اپنا پانی چھوڑ کر پھر اس کی گانڈ کی طرف جاؤں۔اس طرح
چودائی سے میرا لن گہرائی تک اس کے اندر جا رہا تھا۔ ابھی اس طرح چودائی کرتے 2،3
منٹ ہی ہوئے تھے کہ نیچے سے پنڈت کی آہ بلند ہوئی ،۔ میں سمجھ گیا کہ وہ فارغ ہو
گیا ہے۔ اس نے اپنا لن سونیا کی گانڈ سے باہر نکال لیا۔ میں نے بھی سونیا کو اپنی
بانہوں میں بھر لیا اور سائڈ پر ہو گیا۔ پنڈت نیچے سے نکل کر اپنے کپڑے پہننے لگ
گیا میں سمجھ گیا کہ اب وہ اور نہی کرے گا۔ میں نے سونیا کو گھوڑی بنا دیااور
پیچھے سے اپنا لن اس کی چوت میں ڈال کر دھکوں کی مشین شروع کر دی۔ اس طرح کرنے سے
میرالن اس کی پھدی کی دیواروں سے اچھی طرح رگڑ کھا رہا تھا جس سے سونیا کو بہت مزہ
مل رہا تھا۔ میرے ٹٹے اس کی پھدی کے لبوں سے ٹکراتے تو دھپ دھپ کی آواز سے کمرہ
گونج اٹھتا۔ میں نے اپنے آپ کو اس کے جسم پر جھکا لیا اور اس کےمموں کو مسلنے لگ
پڑا۔ اس کی چوت اتنا پانی چوڑ چکی تھی مجھے بہت زیادہ چپ چپاہٹ سی محسوس ہو رہی
تھی اور بہت مزہ آ رہا تھا۔ اچانک اس نے پھرایک زوردار سسکاری لی اور اس کی چوت
میں پھر سے سیلاب آگیا۔ اس کی چوت کے گرم گرم لاوے کو محسوس کرتے میرے لن نے بھی
ہار مان لی اور اپنا پانی پچکاریوں کی صورت میں اس کی پھدی میں ڈالنا شروع کر دیا۔
کیونکہ اس کی سوچ سے پتا چل چکا تھا کہ اسے بچہ چاہیے اس لیے میں نے اپنا پانی اس
کی چوت میں ہی چھوڑ دیا۔اپنا پانی نکالنے کے بعد میں چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ ساتھ
ہی سونیا بھی لیٹ گئی۔ اس نے اپنا چہرہ میرے قریب کر لیا اور پیار سے میرے سینے پر
ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ وہ بولی : تم کتنے اچھے ہو، کتنا پیار کیا ہے تم نے مجھے
۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں تم پر قربان ہو جاؤں۔ میں نے کہا : تم بھی بہت کمال ہو ،
مجھے بہت مزہ دیا ہے۔ میں اس کی گانڈ بھی مارنا چاہتا تھا پر ابھی میں یہ سوچ ہی
رہا تھا کہ دروازے پر زوردار دستک ہوئی۔اور۔۔۔۔۔ دروازے پر دستک سن کر پنڈت جلدی
سے آگے بڑھا اور ساتھ ساتھ اس نے سونیا اور پی کے کو کپڑے پہننے کا اشارہ کر
دیا۔پنڈت نے پوچھا کہ کون ہے؟ آگے سے اس کے ایک چیلے نے کہا کہ سونیا کی ساس آئی
ہے۔ نڈت نے ایک پچھلے دروازے سے مجھے نکل جانے کا کہا۔ میں وردی پہن کر نکل گیا۔
آج بڑے عرصے بعد میرے من کو اور میرے لن کو شانتی ملی تھی۔ میں باہر نکل کر ایک
طرف چل دیا۔ اسی طرح 2، 3 دن اور گزر گئے۔ اس دوران میں کئی مندروں پر گیا۔ کئی
جگہ پراتھنا کی لیکن کچھ نہ ہوا۔ پھر کسی نے کہا چرچ جاؤ۔ کسی نے کہا منت مانگو۔
کسی نے کہا گردوارے جاؤ، واہگرو کرپا کریں گے۔ میں ہر جگہ گیا لیکن کچھ نہ ہو سکا۔
پھر مجھے آہستہ آہستہ سمجھ آ گئی کہ ادھر تو سارا سسٹم ہی نُل ہو چکا تھا۔ سسرے
پنڈت اور پادری ٹھیکے دار بنے ہوئے تھے۔ مجھے سب سے نفرت ہونے لگی۔ میں اپنے لاکٹ
کی تلاش میں ادھر اُدھر پھرنے لگا۔ ایک دن میں ایسے ہی بازار چلا جا رہا تھا کہ
مجھے ایک آدمی نظر آئی ۔ مجھے اس کی شکل کچھ جانی پہچانی لگی۔ میں نے غور کیا تو
اس کی شکل تو بالکل بھگوان کرشن سے ملتی تھی۔ وہی حلیہ، وہی شکل۔ میں نے من میں
سوچا کہ آج تو اپنا لاکٹ اس سے لے کر ہی جاؤں گا۔ پھر وہ ایک ٹائلٹ میں داخل ہوا ۔
میں بھی اس کے پیچھے داخل ہو گیا اور وہ دروازہ بند کر دیا۔ وہ بہت گھبرا گیا۔
مجھے دیکھ کربولا : کون ہو تم؟ دروازہ کیوں بند کر دیا۔میں بولا آج نہی جانے دوں
گا۔ پہلے میرے لاکٹ دو۔ کتنی فیسس بھر چکا ہوں آپ کے مندروں پر۔ وہ بولا: پلیز
مجھے چھوڑ دو۔ میرے چھوٹے چھوٹے ماں باپ ہیں۔ میں نے کہا : نہی آج تو آپ کو پہلے
میرا لاکٹ دینا پڑے گا۔ وہ میرے تیور دیکھ کر دروازے کی طرف لپکا اور دروازہ کھول
کر باہر بھاگ گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے لپکا ۔ بھاگتے بھاگتے وہ ایک بڑے ہال میں
داخل ہو گیا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے وہاں داخل ہو گیا۔ ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا
ہوا تھا۔ لگتا تھا کوئی پروگرام وغیرہ ہو رہا تھا۔ میں بھگوان بھگوان کی آواز دے
رہا تھا۔ ہال میں سٹیج پر ایک گنجا سا آدمی بیٹھا تھا۔ میرے کانوں میں آواز پڑ رہی
تھی۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں دھیان لگا ئے ، گیان ی منزلیں طے کرتے میں شو جی کے
قدموں میں بیٹھا تھا۔ شو جی نے وجد میں آتے مجھ ایک خاص تحفے سے نوازا۔ ایک چمک
دار موتی ۔ بولو پربھو کی جے ہو۔۔۔میں نے کہا شو جی یہ کیا ہے۔ بولے یہ میرے ڈمرو
کا ٹوٹا ہوا منکا ہے اسے لے جا اسے لے جا اور اس سے لوگوں کے دکھ درد دور کر۔ آپ
لوگ دیکھنا چاہیں گے وہ منکا۔ وہ مقدس منکا جس سے لاکھوں لوگوں کو شفا ملے گی ۔
لوگوں کے دکھ درد دور ہوں گے۔ اتنے میں سٹیج پر اندھیرا ہو گیا اور پھر میری
آنکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب ہوں گئیں۔میرے سامنے میرا وہ لاکٹ تھا جسے میں نے
کہاں کہاں نہی ڈھونڈا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ میں بے اختیار بول اٹھا۔
پربھو کی جے ہو ، پربھو کی جے ہو۔ بم بم بولے بم بم بولے۔۔۔۔۔۔ اس گنجے کا وعظ
جاری تھا۔ میں جذبات سے بے اختیار سٹیج پر چڑھ گیا۔ یہ ہماری پراپرٹی ہے۔ یہ شو جی
کے ڈمرو کا ٹوٹا ہوا منکہ نہیں ہے۔ میں بے اختیار بولا۔۔۔اس گنجے آدمی نے گھور کر
میری طرف دیکھا اور بولا۔ کیا ثبوت ہے آپ کے پاس؟ آپ میری مجلس میں فساد ڈلوانے
آئے ہیں ۔ سکیورٹی! لے جاؤ اسے باہر۔ پھر کچھ لوگ آگے بڑھے اور مجھے زبردستی باہر
نکال دیا۔مجھے خوشی بھی تھی اور غم بھی تھا۔ خوشی اس بات کی کہ میرا لاکٹ مل گیا
اور دکھ اس بات کا کہ اب وہ میری پہنچ سے بہت دور تھا۔ میں اداس ایک طرف چلا جا
رہا تھا کہ اچانک کسی گاڑی سے میری ٹکر لگی اور میں گر گیا ۔ درد سے میرے ہوش و
حواس جاتے رہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ پتہ نہی کتنی دیر بعد میری آنکھ کھلی ۔ ہوش آنے پر میں نے
خود کو کسی ہسپتال کے کمرے میں پایا۔ میں اٹھ کر بیٹھنے لگا تو کسی نے آگے بڑھ کر
مجھے اس سے روکا اور یہ کوئی اور نہیں وہی لڑکی تھی جو مجھے پہلے بھی ایک دفعہ مل
چکی تھی یعنی جس کا بیگ میں نے چور سے چھینا تھا۔ میں خود کو اس جگہ پر پا کر بہت
حیران ہو رہا تھا کیونکہ ابھی تک میرے حواس پوری طرح بحال نہی ہوئے تھے۔ اس لڑکی
نہ کہا: شکر ہے آپ کو حوش آ گیا۔آپ بے دھیانی میں میری گاڑی سے ٹکرا گئے۔شکر ہے
زیادہ چوٹ نہی آئی اور میں آپ کو قریبی ہسپتال میں لے آئی۔ میں نے کچھ نہ کہا بس
گم صم ادھر ادھر دیکھتا رہا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک نرس آئی اور کہا کہ اب یہ گھر جا
سکتے ہیں۔ کچھ لوشن وغیرہ لکھ کر دیے ہیں ان کو زخموں پر لگاتے رہیں۔ معمولی سےزخم
ہیں جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ مجھے لے کر وہ لڑکی باہر آ گئی۔ ہم اس کی گاڑی میں جا
کر بیٹھ گئے۔ااب وہ مجھ سے مخاطب ہوئی :
ہاں بولو کہاں ہے تمہارا گھر؟ میں نے کہا: میڈم ہمارا
گھر تو بہت دور ہے آپ وہاں تک ہمیں نہی چھوڑ سکتیں۔ یہ کہتے ہوئے میری آاواز بھرا
گئی اور میری آنکھوں میں نمی سی آ گئی۔ میری حالت دیکھتے ہوئے اس نے کہا چلو کچھ
دیر میرے گھر چلتے ہیں پھر آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور
کچھ دیر بعد ہم اس کے گھر پہنچ گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس میں اس وقت صرف
ایک خاتون تھی جو شاید کام کاج کرنے والی تھی اور گھر کی صفائی کر رہی تھی۔یہ ایک
کافی خوبصورت سا گھر تھا۔ دو کمرے ایک چھوٹا سا ٹی وی لانج، ایک کچن ،باہر تھوڑ سا
صحن۔ میں نے پوچھا : آپ یہاں اکیلی رہتی ہیں۔ اس نے کہا: ہاں ، ۔ اور یہ کہتے ہوئے
اس کی آواز کی اداسی میں نے واضح محسوس کی۔ پھر اس نے خادمہ کو جس کی عمر 25،26 کے
قریب ہو گی اسے دو کپ چائے بنا کر لانے کا کہا۔ چائے آئی تو ہم پینے لگے۔ اس دوران
اس نے پوچھا : اب بتاؤ۔ تم نے پہلے بھی ایک دفعہ مجھے یہ کہانی سنانے کی کوشش کی
تھی۔ میں بولا : میڈم ، تب پ نے پوری بات سنی کب تھی۔ وہ بولی : چلو اب بتا دو تم
کون ہو ؟ میں بولا: مجھے آپ یوں سمجھ لیں کہ میں سیاروں کی سیر کرتا ہوں۔ میرے ذمے
یہ کام ہے کہ اپنے گولے کو دوسرے گولوں سے بچاؤں۔ میڈم (ایک دبی مسکراہٹ منہ پر
لاتے ہوئے) اوہ اچھا تو تم خلا باز ہو ۔اب تک کتنے سیاروں پر جا چکے ہو؟ میں بولا:
بہتوں پر ۔۔۔ تمھارا فیورٹ پلینٹ کون سا ہے؟ "ھمارا اپنا پلینٹ"
"ارے ہمارا پلینٹ ارتھ تو ہے ہی اس کے علاوہ کون سا " " ارے میڈم
ارتھ کی تو للی بجی ہوئی ہے۔ ادھر تو ٹوٹل گڑبڑ ہی گڑبڑ ہے۔" میری س بات پہ
وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔اچھا وہ کیسے؟ ادھرہر قبیلہ کی زبان الگ ۔ کوئی کسی کو سمجھ
نہی سکتا۔ ہمرے گولے میں کونوں کوئی زبان ہی نہ ہے۔ اچھا تو یہ جو تم بول رہے کیا
وہاں بھی ایسی ہندی ہی بولی جاتی ہے؟ "یہ تو ہم یہاں سے ہی سیکھا ہوں۔ وہاں
تو زبان کا چکر ہی نہیں ہے۔بس کسی کو چھوؤو تو آپ ہی آپ اس کے خیالات ٹرانسفر ہو
آتے ہیں ۔ پر یہاں!!!!!! یہاں تو آواز کے ساتھ ساتھ فیلنگز پر بھ دھیان دینا پڑتا
ہے۔ تب کہیں جا کر بت کی سمجھ آاتی۔" "اور یہ جو تم نے جینز پہن رکھی ہے
وہاں بھی ایسی جینز شرٹ چلتی ہے۔" "ارے نہیں نہیں۔ کونوں ایسی بات ناہیں
ہے ۔ ہمرے گولے پر تو کونوں کپڑا ایچ ناہیں ہے۔ ادھر تو لوگن ننگے ہی گھومیں ہیں۔
وہ تو ادھر آ کر ہمیں پتا چلا کہ یہاں تو لوگ چمڑی کے اوپر بھی کپڑا پہنے ہیں اور
اس میں بھی ٹوٹل کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔" "وہ کیسے؟" " وہ
ایسے کہ یہاں ہر وقت اور ہر کام کیلئے علیحدہ کپڑے ہیں۔ رات کے کپڑے اور دن کے
اور۔ پولیس والے کے اور ڈاکٹر کےاور۔ خوشی کے اور اور غمی کے اور۔ اور پھر ہر گروہ
کیلئے الگ رواج ہے ۔ جو کپڑا ایک جماعت کیلئے غمی اور سوگ میں پہنا جاتا ہےوہی
دوسری جماعت میں خوشی کے وقت پہنا جا تا ہے۔ ہمارا تو دماغ ہی چکرا گیا تھا اس
سارے معاملے سے ۔ کئی دفعہ مار کھاتے کھاتے بچا۔ " "اچھا تو مطلب تم
یہاں سے نہیں ہو؟" (اب س کے چہرے پر ڈر اور حیرت کے ملے جلے تاثرات تھے۔)
"نہیں۔ بالکل نہیں۔ کہو تو آپ کو ثبوت بھی دے دوں۔لایئے اپنا ہاتھ ۔ میں ابھی
اپ کو خیالات پڑھ کر آپ کو بتاتا ہوں پھر آٌ کو یقین آئے گا۔ "(یہ کہ کر میں
نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی طرف بڑھا یا ۔) اس نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا
۔"نہیں ، نہیں۔ اچھا تم ایسے کرو پہلے اس رادھا کے خیالات پڑھو۔" اس نے
کم والی مائی کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اس نے آواز دے کر قریب بلایا اور کن میں لے کر
کچھ سمجھایا۔ پھر اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں رکھ دیا۔میں نے اس کے خیالات پڑھنے
شروع کر دیے۔ کچھ دیر بعد میں بولا: رادھا اب سوچ رہی ہے کہ بس اب تھوڑا سا کام رہ
گیا ہے ۔ جلدی یہ ختم ہو جائے تو وہ اپنے بچے کے پاس چلی جائے جو اس کا انتظار کر
رہا ہو گا۔ اسے وہ اپنی ساس کے پاس چھوڑ آئی ہے۔ اس کی ساس اس کے بچے کا زیادہ
خیال نہیں رکھتی۔ اور اس نے آج جلدبازی میں ایک کانچ کا گلاس بھی توڑ دیا ہے اور
اس کا ارادہ ہے کے کل نیا لا کر رکھ دے گی۔ ابھی میں نے صرف اتنا ہی بولا تھا کہ
رادھا بے اختیار بول اٹھی : با جی یہ سچ کہ رہا ہے ۔ یہ مہان ہیں ۔ یہ گیانی ہیں۔
یہ کہ کر وہ میرے قدموں میں گر گئی۔ میں فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ میڈم نے بھی آگے بڑھ
کر اسے اٹھایا اور گلے سے لگا کر کہا کے آج کے بعد وہ اپنے بچے کو بھی ساتھ لے آیا
کرے اور جب چھٹی چاہیے ہو تب چلی جایا کرے ۔ یہ کہ کر سے چھٹی دے دی اور وہ چلی
گئی۔ اب وہ میری طرف متوجہ ہوئی۔ ' ہاں تو جناب پی کے صاحب ۔ کیا جادو کیا آپ نے
رادھا پر؟ ' " یہ جادو نہیں تھا میڈم ۔ بے شک آپ بھی آزما لیں۔" یہ کہ
کر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اب س نے بھی زیادہ مزحمت نہیں کی۔میں اس کے خیالات
پڑھتا رہا اور ساتھ بولتا بھی رہا۔ میں نے کہا: آپ کا نام جگو ہے ۔ اور پھر میں نے
اس کی پوری لائف ہسٹری سنانی شروع کر دی اور جب میں سرفراز والے واقعے پر پہنچا تو
اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ دیکھ کر میں نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور اسے چپ
کروانے لگ گیا۔کچھ دیر بعد وہ چپ ہوئی اور بولی: اب مجھے ینین آ گیا ہے تم واقع ہی
کسی ور گولےسے ہو ۔ اب اپنی کہانی سناؤ۔ اب میں نے اپنی کہانی سنائی ۔ پوری کہانی
وہ بڑے مزے سے سنتی رہی۔آخر کار رات کے نو بجے میری کہانی ختم ہوئی اور وہ سحر سے
باہر نکلی۔ کچھ دیر وہ سوچتے ہوئے بولی کہ اچھا تو اب یہ بات ہے ۔ تمہارا لاکٹ وا
اب پرتھوی جی کے پاس ہے جسے اب وہ شو جی کے ڈمرو کا ٹوٹا ہوا منکا بتاتا ہے۔ میں
نے کہا کہ ہاں۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی کہ چلو میں کچھ کروں گی۔ فی لحال تو تم
یہاں رہو۔پھر ہم نے کھانا کھایا اور سو گئے۔ اسی طرح دن گزرتے گئے۔ آہستہ آہستہ ہم
ایک دوسرے کے کافی اچھے دوست بن گئے۔ وہ اپنی باتیں مجھ سے شئیر کرنے لگی۔ ساتھ
ساتھ وہ بتا رہی تھی کہ وہ پرتھوی اوراس لاکٹ کے متعلق معلومات حاصل کر رہی ہے۔ایک
دن ہم یوں ہی بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اب ہم کافی فری ہو گئے تھے ۔ وہ مجھ سے میرے
گولے کی باتیں بڑے شوق سے سنا کرتی تھی۔ اس نے پوچھا کہ اچھا تو تمھارے گولے میں
بالکل ہمارے جیسے انسان ہوتے ہیں۔ میں نے کہا جی بالکل۔ پھر اس نے پوچھا : وہاں
عورتیں بھی ایسی ہوتی ہین؟ میں نے کہا : جی بالکل ۔ بالکل یہاں جیسی۔ بس تھوڑا نقش
و نگار کا فرق ہوتا ہے۔ پھر وہ بولی اچھا وہ ننگی گھومتی ہیں؟ میں نے کہا: ہاں جی
جگو میڈم وہ سب ننگی گھومتی ہیں۔ وہ بہت حیران ہو گئی۔ہمارے درمیان جو باتیں ہوئیں
وہ مکلالمے کی صورت میں درج ذیل ہیں۔ جگو: "تو ان کو شرم نہی آتی؟" میں:
" شرم کس بات کی ؟ وہاں سب ہی ننگے گھومتے ہیں۔" جگو: "تو مرد اپنے
آپ پر کنٹرول کر لیتے ہیں؟" میں: کنٹرول؟؟ کس بات کا کنٹرول؟ میں سمجھا نہی؟
جگو: اف اوہ۔۔اب میں کیسے سمجھاؤں؟ اچھا دیکھو ۔ جب تم کسی لڑکی کے قریب جاتے ہو
تو تمہیں کیسا لگتا ہے؟ میں: مجھے اچھا لگتا ہے۔ جگو: تمہارا دل کیا کرتا ہے؟ میں:
میرا دل کر تا ہے کہ مجھے میرا لاکٹ جلد مل جائے اور میں جلد گھر واپس چلا جاؤں۔
جگو(سر پر ہاتھ مارتے ہوئے): اوہ ہو ۔۔میں وہ بات نہیں کر رہی۔ میں: تو آپ یہ بات
کر لیں۔ جگو : اچھا چلو یہ بتاؤ کہ تمھارے ہاں اولاد کیسے پیدا ہوتی ہے؟ مطلب بچے؟
میں: عورت سے۔ جگو: وہ تو ٹھیک ہے مگر کیسے؟ میں : میں کیسے بتاؤں ؟ میں جب پیدا
ہوا تو بچہ تھا۔ جگو(میرے کندھے پ ہاتھ مارتے ہوئے): اب میں کیسے سمجھاؤں ؟ میں:
آپ کیا سمجھانا چاہ رہی ہیں؟ جگو : اچھا ٹھہرو۔(پھر وہ اٹھی اور اس نے ڈاکومنٹری
فلم لگا دی۔ جس میں جانور سیکس کر تھے اور ان سے آگے اولاد پیدا ہوتی تھی) میں بڑے
غور سے فلم دیکھ رہا تھا۔ جگو: اب بتاؤ کچھ سمجھ آئی؟ میں یہ پوچھنا چاہ رہی ہوں
کہ جب سب ہی ننگے گھومتے ہیں تو کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ اس طرح کے کاام کریں؟
میں: شاید آپ نے میری بات سنی نہیں؟ وہاں عورتیں ننگی گھومتی ہیں۔ کتے نہیں۔ ویسے
بھی ہمیں جانوروں کے ساتھ یہ کام کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ یہ تو گندی بات ہے۔ جگو :
اف اوہ۔۔۔کہاں پھنس گئی میں۔ ااچھا چلو اب سیدھی طرح بات کرتی ہوں۔ دیکھو ۔ اس
کائناات میں افزائش نسل کیلئے جب تک نر اور ماادہ قریب آ کر ملاپ نہ کریں ان کی
نسل پیدا نہی ہوتی۔ تو میں یہی پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ کیا وہاں بھی شادی بیاہ ہوتی
ہے؟ میں: اوہ،ہ تو آپ یہ پوچھنا چاہ رہی ہیں کہ وہاں مرد عورت میں کیا تعلق ہے۔ تو
بات یہ ہے کہ وہاں عورت کو چھونا بھی پاپ ہے۔ بچہ صرف چھ سال تک ماں کو چھو سکتا
ہے اس کہ بعد نہیں۔ وہاں ہر ہفتے ایک اجتماع ہوتا ہے جس میں ہمیں بے حد مزہ آتا ہے
اور ہمیں یوں لگتا ہے جیسے ہمارے لوڑے سے کوئی لیس دار مواد سا نکل رہا ہو ۔ پھر
کچھ دن بعد ہمارے گرو ہمیں بتا دیتے ہیں کہ ہمارا بچہ کس کے پیٹ میں ہے۔ جگو(میرے
منہ سے لوڑے جیسا لفظ سن کر حیرت سے اچھل پڑی): کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ وہاں بھی ایسے الفاظ
بولے جاتے ہیں؟ میں : کچھ سمجھا نہیں ۔ کیسے الفاط؟ جگو: وہی جو تم نے اب بولا
تھا۔ میں: میں نے تو بہت سے الفاط بولے ہیں۔ پتا نہی آپ کس کی طرف اشارہ کر رہی
ہو۔ جگو: وہی جس سے مواد نکلتا ہے؟ میں : اچھا تو آپ لنڈ کی بات کر رہی ہیں۔
جگو(شرم سے ، ہچکچاتے ہوئے): جی۔ میں : در اصل یہ سارے الفاط میں نے اسی گولے میں
سنے ہیں۔ لنڈ ، پھدی ، بوبے ، چوت،لوڑا، گانڈ، بنڈ، وغیرہ۔ جگو کو یہ الفاظ سن کر
ایک جھٹکا سا لگا ۔وہ کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کوئی اس کے سامنے اتنی بے
باکی سے یوں یہ الفاظ کہے گا اور وہ اس کو کچھ کہ بھی نہ سکے گی۔ جگو: مگر کیسے؟
میں(ادھر ادھر دیکھ کر اپنا منہ اس کے قریب کیا ۔): جگو میڈم ! یہ تو سارا پرتھوی
ہی لل ہوا پڑا ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑے کو دیکھ لو ۔ ہر کوئی پھدی کے پیچھے بھاگ
رہا ۔کوئی چھپ کر پھدی مارتا ہے تو کوئی شادی کر کے ڈھول تماشے کے ساتھ ڈنکے کی
چوٹ پر مارتا ہے۔ ہمارے گولے میں تو آج تک کبھی کسی نے کسی کی پھدی کی طرف آنکھ
اٹھا کر بھی نہی دیکھا۔پر یہاں تو ہر آنکھ پر میں نے پھدی پھدی دیکھا ہے۔ اور تو
اور آپ کے پنڈت بھی جو مذہب کے ٹھیکے دار بنے پھرتے ہیں وہ بھی کسی سے کم نہیں۔
پہلے پہلے ام کو بہت حیرانی ہوئی کہ آخر اس آدھ انچ کی موری میں ایسا کیا ہے کہ سب
پاگل ہوئے جاتے ہیں۔ پر پھر جب میرا لنڈ اس موری کے اندر گیا تو تب پتا چلا کہ
زندگی کا مزہ تو یہاں تھا۔ جگو(میری بے باک باتوں پرہکا بکا رہ گئی اور آکری بات
پر تو حیرت سے چلااٹھی۔۔): کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تم نے یہاں آ کر یہ کام کر بھی
لیا۔ ؟ میں:میڈم سب ہی یہ کام کرتے ہیں تو میں پھر کیسے بچ سکتا تھا۔ ویسے آپ کو
حیرانی کیو ں ہو رہی ہے ۔ جتنی آپ کی عمر ہے میرا تجربہ کہتا ہے کہ آپ کی پھدی کو
بھی کوئی لنڈ اسیر کر چکا ہے۔ میری اس بات پر تو جگو کے پسینے چھوٹ گئے۔ وہ غصہ سے
چلا اٹھی۔گیٹ آؤٹ۔ نکل جاؤ میرے گھر سے۔ میں تو ڈر گیا۔ میری آنکھوں میں آنسوآ
گئے۔ میں رونے لگ پڑا اور بولا: میڈم مجھے معاف کر دیں ۔ مجھے نہی پتا تھا کہ آپ
کو برا لگے گا۔ کتنے عرصے بعد مجھے کوئی مددگار ملا ہے جو میرا لاکٹ مجھے دلوا
سکتا ہے اور اب وہ بھی مجھے چھوڑ دے مجھے گوارا نہیں۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔ جب
یہ سن کر بھی اس نے کوئی توجہ نہ دی ااور اپنا منہ دوسری طرف رکھا تو میں نے پنا
سر زور سے فرش پر مارنا شروع کر دیا۔ مجھے اب زندہ نہیں رہنا۔ میں مر جاؤں گا۔ پھر
ایک ور ضرب لگائی ۔ جس سے میرے سر سے خون نکلنے لگا۔ اس سے پہلے کہ میں تیسری دفع
ضرب لگا پاتا وہ ایک جھٹکے سے اگی بڑھی ور مجھے تھام لیے اور ااپنے سینے سے لگا
لیا۔ میرے سر سے خون اور آنکھوں سے آنسو دیکھ کر اسے ااحساس ہوا کہ یہ تو نادان ہے
اسے نہی پتہ کہ کب کیا کہنا ہے۔ میں ہی غلط تھی۔ اس کے بعد اس نے میری مرہم پٹی
کی۔ مجھےب جوس کا ایک گلاس پلایا اور سب پھر سے پہلے جیسا ہو گیا۔
میں اس سب پر بہت حیران تھا۔ پھر اس نے مجھے بتایا کہ اسے کیسے
آپریٹ کرنا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے ایک لیپ ٹاپ دے گی جس کی میموری 1000
جی بی ہو گی ور اسے وہ ایسی ویدیڈز سے بھر دے گی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہاں ہم
یہ چلائیں گے کیسے ۔ وہاں تو بجلی نہی ہے۔ تو کچھ دیر کیلئے تو وہ پریشان ہو گئی
اور پھر بولی۔ اس کا بھی حل ہے میرے پاس۔ میں تمہیں دو بڑی سکرینوں والے لیپ ٹاپ
دوں گی اور ساتھ کوئی سو پچاس بیٹریز بھی جس سے تمھارا گزارا ہو جائے گا۔ میں بہت
خوش ہو گیا ۔ میں بولا : آپ کا بہت شکریہ۔ اب کسی طرح میرے لاکٹ کا کچھ کر دیں۔ وہ
بولی: فکر نہ کرو۔ میں اس کا بھی جلد کچھ کرتی ہوں۔ اب میں تمہیں سمجھا دیتی ہوں
کہ کس طرح اسے پلے کرنا ہے اور ساتھ ساتھ تمہیں کمنٹری کر کے اپنے لوگوں کو
سمجھانا بھی ہے۔ پھر اس نے ایک ٖفوٹو پہ کلک کر دیا۔ وہ چلنے لگی۔ ساتھ ساتھ وہ
بول بھی رہی تھی۔ یہ دیکھو یہ لڑکی کمرے میں اکیلی بیٹھی ہے ۔ یہ اس کا شوہر کام
سے واپس آیا ہے۔ شوہر نہانے کیلئے باتھ روم میں چلا گیا ہے۔ بیوی کچھ دیر بعد باتھ
روم میں چلی جاتی ہے۔ وہاں شوہر بالکل ننگا ہے۔ بیوی اسے مل مل کے نہلاتی ہے ۔اس
کے عضو ملتی ہے۔ شوہر کا عضو بیوی کے لمس سے تن جاتا ہے۔ اتنی گرم مووی اور ساتھ
ساتھ جگو کی ہاٹ کمنٹری میں تو پسینے سے شرابور ہو گیا۔ میرا لن فل تن گیا اور
پینٹ پھٹنے کے قریب ہو گئی۔ جگو میرے بالکل ساتھ بیٹھی تھی۔ اور مجھے لگا جیسے اس
کو بھی کچھ کچھ ہو رہا ہے۔ ابھی یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بج
اٹھی اور جگو نے فوراً لیپ ٹاپ بند کیا اور فون اٹھایا۔ فون سننے کے دوران اس کے
چہرے کا رنگ بدلنے لگا اور اس کے چہرے سے دبا دبا جوش چھلکنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔
جگو کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھ کر میں نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ وہ بولی کے تمھارے
لاکٹ کا پتہ چل گیا ہے۔میں نے کہا واؤ۔وہ بولی : اسی مندر میں جہاں تم کو وہ پنڈت
ملا تھا وہاں پر کل اس کی رونمائی ہے۔ تپسوی سیدھی طرح تو وہ لاکٹ دے گا نہیں ہمیں
کسی اور طریقے سے وہ لاکٹ نکلوانا پڑے گا۔ چلو جلدی چلتے ہیں۔ ہم وہاں سے روانہ
ہوئے ۔ جگو کے پاس ایک بائیک تھی ۔ مجھے چونکہ چلانی نہی آتی تھی اس لیے اس نے
چلائی۔ میں پیچھے بیٹھ گیا۔ مندر پہنچ کر ہم نے بائیک ایک طرف کھڑی کی اور اندر چل
دیے۔ آج خوب گہما گہمی تھی۔ ہر طرف لوگ آ جا رہے تھے ۔ اور ساتھ کچھ صفائی ستھرائی
کا کام بھی چل رہا تھا۔ جگو نے ایک آدمی سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہے تو اس نے
کہا کہ کل کے دن بھگوان رام نے لنکا کی طرف چڑھائی کی تھی تو اسی کی یاد میں ایک
تقریب ہو گی جس میں تپسوی جی شو جی کے خاص منکے کی رونمائی بھی کریں گے۔ منکے کے
سن کر میری آنکھوں میں خاص چمک آ گئی۔ پھر ہم نے وہ جگہ بھی دیکھ لی جہاں شو جی کے
منکے یعنی میرے لاکٹ کو رکھا جانا تھا۔ یہ مندر کا مرکزی ہال تھا۔ ااب جگو نے کہا
کہ پی کے کسی طرح اس پنڈت کو ڈھونڈو ۔ وہی ہماری مدد کر سکتا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک
ہے۔ ہم اسے ڈھونڈنے میں لگ گئے۔ آخر کار ہم نے اسے ڈھونڈ ہی لیا۔ وہ ایک کونے میں
کھڑا مندر کی داسیوں کو کئی ہدایت وغیرہ دے رہا تھا۔ مجھے دور سے دیکھ کر اس کے
چہرے پر تھوڑی پریشانی ظاہر ہوئی۔ اس نے جلدی جلدی ان داسیوں کو فارغ کیا ۔ اتنے
میں ہم اس کے قریب پہنچ گئے۔ میں بولا: پنڈت مہاراج آپ باز نہیں آئے ااپنی حرکتوں
سے؟ وہ جلدی سے بولا: مہاراج وہ میں تو صرف انہیں بتا رہا تھا کہ کل تقریب میں کیا
انتظامات کرنے ہیں۔ میں نے کہا: اچھا ٹھیک ہے۔یہ میری ایک ساتھی ہیں ۔ انہیں کچھ
معلومات چاہییں۔ان کا تعلق ایک نیوز چینل سے ہے اس لیے صحیح صحیح بتانا۔ اس نے
اثبات میں سر ہلایا۔ جگو: کل کی تقریب کب شروع ہو گی؟ وہ: شام سات بجے۔ جگو: شو جی
کا منکہ کب لایا جائے گا؟ وہ: شام چھ بجے۔ جگو: اس کی رونمائی کب ہو گی؟ وہ: رات 9
بجے تپسوی جی آئیں گے۔ اور دس بجے اس کی رونمائی ہو گی۔ جگو : اس کے بعد کیا ہو گا
۔ تفصیل سے بتاؤ۔ وہ: اس کے بعد منکے کو سپیشل روم میں رکھ دیا جائے گا جہاں صرف
پنڈتوں کو جانے کی اجازت ہوتی ہے۔تپسوی جی کیلئے ایک خاص کمرہ موجود ہے جہاں وہ
آرام کریں گے۔ پوجا رات بارہ بجے تک جاری رہے گی ۔ اس کے بعد جو لوگ قریب سے آئے
ہوں گے وہ اپنے گھروں کو چلے جائیں گے اور جو دور سے ہوں گے وہ یہیں مندر میں آرام
کریں گے۔ صبح کو منکہ پھر تپسوی جی کے ساتھ واپس چلا جائے گا ۔جگو: اچھا ٹھیک ہے۔
اب تم جاؤ۔ ۔۔۔ہم نے کچھ دیر اور وہاں کا معائنہ کیا اور گھر آ گئے۔ گھر آ کر جگو
لیپ ٹاپ پر بیٹھ گئی اور کافی دیر کوئی کام وغیرہ کرتی رہی ۔ ایک گھنٹے بعد اس نے
لیپ ٹاپ بند کیا اور مجھ سے مخاطب ہوئی۔ دیکھو پی کے۔ میری بات غور سے سنو۔ تپسوی
جی سے وہ ریموٹ حاصل کرنا آسان نہیں۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تم کیا کر سکتے ہو؟ میں نے
کہا : میرے اندر کچھ خاص صلاحتیں ہیں۔ ایک تو آپ کو پتا ہی ہے کہ میں خیالات پڑھ
سکتا ہوں۔ دوسرا میں کئی میل دور سے آواز سن سکتا ہوں اور تیسرا میں مکمل اندھیرے
میں بھی دیکھ سکتا ہوں۔ جگو: کل کی تقریب چونکہ کافی بڑی ہے اس لیے ہمارے چینل کے
لوگ بھی وہاں کوریج کیلئے ہوں گے۔ میں ابھی اپنی ڈیوٹی وہاں لگوا لیتی ہو ں۔ اب
پلان غور سے سن لو۔ میری ملازمہ رادھا کو بھی ہمارے ساتھ شامل کرنا پڑے گا۔ اس کی
ایک سہیلی وہاں کام کرتی ہے کھانے پکانے میں۔ رات دس بجے کے بعد تمام آنے والوں کو
ایک خاص مشروب پلایا جاتا ہے۔ رادھا کسی طرح اپنی سہیلی سے ملنے کے بہانے وہاں
جائے گی اور اس مشروب میں بے ہوشی کی دوا ڈال دے گی جس سے سب گہری نیند سو جائیں
گے۔ اب آگے ہمارے کام شروع ہو گا۔میں اس گیلری کے باہر رکوں گی جہاں ایک کمرے میں
تمہارا لاکٹ ہو گا اور تمہیں اندر جا کر وہ لاکٹ لانا ہو گا۔ اب رہ گیا اس سیف کا
پاسورڈ جس میں تمہارا لاکٹ ہو گا تو اس کا بھی حل ہے میرے پاس۔ تپسوی جی 9 بجے
وہاں پہنچیں گے۔جب لوگ ان سے مصافہ کریں گے تو تم نے بھی ان کے ہاتھ چومنے کے
بہانے سے ان کے ذہن سے پاس ورڈ پڑھ لینا ہے۔ یہ ہے پلان۔ اگر کوئی بات پوچھنی ہے
تو پوچھ لو؟ میں : ایک بات کہ اس پنڈت نے کہا تھا کہ وہاں کچھ لوگ بھی ہوں گے جو
پہرہ دے رہے ہوں گے۔ جگو بولی : اوہ ہاں انہیں تو میں بھول ہی گئی۔۔۔ ایک منٹ
۔۔۔میں کچھ سوچتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد وہ بولی : تو ایسے کریں گے کہ میں
کسی بہانے سے انہیں دوسری طرف لے جاؤں گی اور تم جلدی سے اپنا لاکٹ نکال لینا۔ میں
نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم نے پلان کی باریکیت کا پھر سے جائزہ لیا۔ اچانک اس کے چہرے پر
عجیب سے تاثرات آئے۔وہ بولی: ایک اہم بات تو میں بھول ہی گئی۔ ہم نے آج اس پنڈت سے
معلومات لیں تھی۔ اگر کل کو جب یہ لاکٹ غائب ہوا اور اس نے کسی کو بول دیا تو میرا
کیا ہو گا۔ تم تو چلے جاؤ گے۔ میں نے کہا: یہ بات تو ٹھیک ہے۔۔۔پھر کچھ دیر سوچنے
کے بعد اس نے ایک بار پھر لیپ ٹاپ کھول لیا اور کچھ سرچ کرنے لگ گئی۔ کچھ لمحات
بعد اس نے لیپ ٹاپ میرے سامنے کر دیا اور بولی: کیا یہ ہے تمہارا لاکٹ؟ میں تو
حیران ہو گیا میرے سامنے میرا وہی لاکٹ تھا ۔میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھونے کی
کوشش کی پر میرا ہاتھ سکرین سے ٹکرایا اور جگو کھلکھلا کر ہنس دی۔۔: دھیرج مہاراج
دھیرج ۔یہ صرف تصویر ہے۔۔۔میرے ذ ہن میں ایک شاندار منصوبہ آ گیا ہے۔ ہم ایک مکینک
سے اس کی نقل بنوائیں گے ۔ تم اس اصل کی جگہ یہ نقل رکھ دو گے۔ اس طرح کسی کو پتہ
نہی چلے گے۔ میں نے کہا شاندار بالکل صحیح۔۔لیکن کیا اس جیسی چمک اس سے نکل پائے
گی۔ وہ بولی : بالکل نکلے گی۔ پر یہ تھوڑا سا مہنگا ہو گا لیکن چلو میں کچھ کرتی
ہوں۔ وہ فوراً اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ اس نے ایک دو جگہ فون پر بات کی ۔ وہ اس
دوران کچھ بیچنے کی بات بھی کر رہی تھی جسے میں اچھی طرح سمجھ نہی سکا۔پھر وہ اٹھی
اور باہر جانے لگی۔مجھ سے کہا کہ تم بیٹھو میں شام تک آ جاؤں گی۔ ساتھ اس نے مجھے
ٹی وی لگا دیا اور مجھے ریموٹ سے اسے آپریٹ کرنا سکھا دیا ۔ میں ادھر مصروف ہو گیا
اور وہ چلی گئی۔ اس وقت ٹائم 3 بج رہے تھے۔میں ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہو گیا اور
اس میں مجھے بڑا مزہ آنے لگا۔ ہر چیز میرے لیے نئی تھی۔اس طرح وقت بڑی تیزی سے
گزرا کہ پتا ہی نہی چلا۔ شام سات بجے کے قریب بیل بجی اور میں نے جا کر دروازہ
کھولا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا لیکن اس کی بائیک کہیں نظر نہی آ رہی تھی۔ وہ
اندر آ گئی۔ اور بولی : تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ پھر اس نے ایک ڈبہ میرے سامنے
کھول دیا۔ میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ میرے سامنے میرا لاکٹ تھا۔ میں نے فوراً اسے
ہاتھ میں لے لیا۔ پر مجھے وہ کچھ بدلا بدلا سا لگا۔ میں نے کہا: ہے تو وہی لیکن
کچھ فرق ہے۔ وہ بولی: ارے پگلے یہ اصل نہیں ہے بلکہ اس کی نقل ہے۔ تم فرق نہیں پہچان
سکے تو پرتھوی کیسے پہچان سکے گا۔پھر اسی طرح ہم کچھ دیر اور باتیں کرتے رہے۔ ہم
نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد ہم ٹی وی لانج میں بیٹھ گئے اور گپ شپ لگانے لگے۔ وہ
کہنے لگی: تو تم چلے جاؤ گے پھر لاکٹ ملنے کے بعد؟ میں : ہاں میڈم جانا تو پڑے گا۔
پر آپ نے جو کیا ہے میرے لیے اسے میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ جگو: چھوڑو بھی ۔ دوستوں
کیلئے اتنا تو کر ہی دیتا ہے بندہ۔اور ہاں کل تمہارے دو لیپ ٹاپ بھی آ جائیں
گے۔پھر ان میں بھی میں وہی ویڈیوز کر دوں گی تاکے تم ساتھ لے جا سکو۔۔میں: جگو آپ
کی بائیک نظر نہیں آ رہی ؟ جگو: وہ تو میں نے بیچ دی۔کچھ پیسوں کی ضرورت تھی اس
لیے۔ پر کچھ دن بعد میں نئی لے لوں گی۔۔ کچھ دیر اسی طرح باتیں کرنے کے بعد میں
بڑی لجاجت سے بولا : میڈم مجھے پھر سے وہ ویڈیو لگا دیں نہ میں دیکھنا چاہتا
ہوں۔پلیز۔۔ جگو: تمھیں لگتا ہے اس کا چسکا پڑ گیا ہے۔ چلو ٹھیک ہے۔مل کر دیکھتے
ہیں۔ پھر ااس نے لیپ ٹاپ کھولا اور ایک ویڈیو لگا دی۔انتہائی جزباتی ویڈیو تھی۔
لڑکی پہلے آہستہ آہستہ خود ننگی ہوتی ہے۔ پھر آدمی کی پینٹ اور انڈر ویر تار دیتی
ہے اور اس کے لنڈسے کھیلنا شروع کر دیتی ہے۔ پہلے لن کو دونوں پاؤں سے مساج دیتی
ہے پھر بڑے سٹائلش طریقے سے چوستی ہے۔ میں نے چونکہ یک لوز ٹراؤزر پہن رکھا تھا
اور نیچے انڈر وئر بھی نہیں تھا اس لیے لن کا ابھار بالکل واضح تھا۔ جگو بھی فلم
دیکھنے میں بڑی محو تھی۔میں نے لن کو ہاتھ سے مسلنا شروع کر دیا۔ پھر کچھ دیر بعد
لڑکی آ کر لن پر بیٹھ جاتی ہے اور اوپر نیچے ہونے لگتی ہے۔ چونکہ ہم صوفے پر بیٹھے
تھے اور لیپ ٹاپ جگو کی گود میں تھا ا س لیے مجھے ذرا اس کے قریب ہو کر دیکھنا پڑ
رہا تھا۔میری رانیں جگو کی رانوں کے ساتھ ٹچ ہو رہیں تھیں۔ کچھ دیر بعد جگو بولی :
اس طرح مزہ نہیں آ رہا چلو اندر بیڈ پر چل کر دیکھتے ہیں۔ہم بیڈ پر آ گئے ۔اب
صورتحال یہ تھی کہ ہم نے بیڈ سے ٹیک لگائی ہوئی تھی اور لیپ ٹاپ ہمارے سامنے پڑا
تھا۔ویڈیو بڑی مزے دار تھی۔ وہ ویڈیو ختم ہوئی تو جگو نے ایک اور لگا دی۔ وہ بھی
بہت شاندار تھی۔ اس میں آدمی لڑکی کی پھدی اور گانڈ بڑے شاندار طریقے سے چوستا اور
چاٹتا ہے۔ چونکہ ہم گھر میں اکیلے تھے اس لیے آواز بلند تھی اور لڑکی کی شہوانی
سسکاریاں کمرے میں گونج رہیں تھیں ۔ میرا لن فل تناؤ میں تھا۔ میں نے دیکھا کہ جگو
کے چہرے کا رنگ اور اس کے احساسات بدل رہے ہیں ۔ پھر جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے
اس نے اپنے ہاتھ کو ادھر ادھر حرکت دینی شروع کر دی۔ اس نے ایک باریک سی شرٹ پہن
رکھی تھی اور نیچے شاید کوئی باریک سا برا۔ اس نے اپنے جسم پر ہاتھ پھیرنا شروع کر
دیا۔ اپنے مموں کو اوپر اوپر سے سہلانا شروع کر دیا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں شاید
فلم کی طرف متوجہ ہوں۔ مگر میرا دھیان دونوں طرف تھا۔ مجھ سے بھی صبر نہ ہو سکا
اور میں نے بھی لن کو اوپر اوپر سے سہلانا شروع کر دیا۔ اس نے میری طرف حیرانی سے
دیکھا ۔میں اس کی طر فدیکھ کر مسکر ادیا اور ہم پھر سے مودی دیکھنے لگ پڑے ۔ ایک
کمرہ جس میں ایسی ویڈیو چل رہی ہو۔ایک لڑکا لڑکی موجود ہوں ۔بالکل تنہا۔کوئی خوف
یا ڈر نہ ہو کسی کا۔ وہاں کیسے جذبات پر قابو رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ابھی تک
ایک دوسرے کا تھوڑا لحاظ کر رہے تھے۔ تھوڑی سی جھجھک باقی تھی۔ہم چونکہ ساتھ ساتھ
بیٹھے تھے اس لیے ایک دوسرے کی حرکات کا بخوبی پتا چل رہا تھا۔اچانک جگو نے ایک ٹانگ
اٹھا کر میری ٹانگوں پر رکھ دی ۔ اور بولی: وہ تھوڑی تھکاوٹ ہو رہی تھی تو گر تم
برا نہ مناؤ تو؟ میں نے کہا : کوئی بات نہیں ۔ بلکہ میں دبا بھی دیتا ہوں۔ اور میں
نے بیٹھے جگو کی ٹانگ جو میری ٹانگوں کے اوپر تھی اور نیچے سے میرے لن کو بری طرح
مسل رہی تھی اسے دبانا شروع کر دیا۔ ہم دونوں نے بیڈ سے ٹیک لگا رکھی تھی۔ میرا
ہاتھ چونکہ زیادہ نیچے نہیں جا سکتا تھا اس لیے میں نے گھٹنے سے اوپر اوپر جگو کی
رانوں کو دبانا شروع کر دیا۔ جگو نے بھی ایک باریک سا لوز ٹرؤز پہن رکھا تھا اور
میں اس کے بھرپور جسم کو واضح محسوس کر سکتا تھا۔ جیسے ہی میں نے جگو کی رانوں کو
دبانا شروع کیا اس نے ایک آہ سی بھری ۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کیا اچھا نہیں لگا؟
بولی : نہیں بہت اچھا لگا ۔ داراصل تھکاوٹ زیادہ ہے نہ تو بس اس لیے تھوڑا میٹھا
میٹھا درد بھی ہوا۔ میں بولا : مجھے ایک اور آئیڈیا آیا ہے۔ آپ میری بات مانیں گی؟
بولی : ہاں بولو۔ میں نے کہا: آپ ایسا کریں الٹا لیٹ جائیں۔ میں آپ کو دبا دیتا
ہوں۔ لیپ ٹاپ آپ سامنے رکھ لیں۔ اس طرح آاپ کو بھی نظرآتا رہے گا اور مجھے بھی۔
ساتھ ساتھ آپ کی تھکاوٹ بھی اتر جائے گی۔ پہلے تو اس نے انکار کیا پر پھر میرے
اصرار پر مان گئی۔ اب وہ بیڈ پر اوندھی لیٹ گئی۔ اپے سینے اور گردن کے پاس اس نے
ایک تکیہ رکھ لیا ۔ سامنے لیپ ٹاپ تھا۔ اس نے ایک اور زبردست ویڈیو لگاا دی جو کہ
شاید کسی مساج سینٹر کی تھی جس میں بالکل ایسے ہی ایک اور لڑکی لیٹی ہوتی ہے اور
ایک آدمی اس کا مساج کر رہا ہوتا ہے۔پر فرق یہ تھا کہ وہ لڑکی مکمل ننگی تھی اور
لڑکا آئل سے اس کا مساج کر رہا تھا۔ بہرحال میں نے بھی ویڈیو دیکھتے دیکھتے جگو کو
دبان شروع کر دیا۔ پہلے اس کے کندھوں کو اپنے ہاتھوں سے دبایا۔ پھر اس کی کمر کو
تسلی سے دبایا۔ جگو کو ڈبل ڈبل مزہ آ رہا تھا۔ساتھ ساتھ اس کے منہ سے کبھی کبھار
آہ۔ایہہ کی آواز بھی نکل جاتی جو شہوت اور مزے سے بھرپور ہوتی تھی۔ وہ بولی : واہ
پی کے۔ تم نے تو کمال کر دیا۔اتنا اچھا دباتے ہو ۔ مزہ آ گیا ۔ میں بولا : شکریہ۔
اب جو میری نطر جگو کے ابھرے ہوئے چوتڑوں پر پڑی تو مزے سے بے حال ہو گیا۔ جگو کے
لوز ٹراؤزر میں سے اس کی نرم بھری بھری گانڈ کے ابھار واضح نظر آ رہے تھے۔
"کیا ہوا؟ رک کیوں گئے؟ کیا تھک گئے ہو؟" میں بولا: نہیں نہیں میڈم ویسے
ہی۔ پھر میں نے جگو کی پنڈلیا ں دبانی شروع کر دیں۔ اس کے پاؤں کو دبایا۔ میں اور
جگو ساتھ ساتھ فلم کو بھی انجوائے کر رہے تھے۔ اس مساج والے لڑکے نے اب اپنا لن
نکال کر لڑکی کے ہاتھ میں پکڑا دیا تھا اور خود اس کی پھدی کے ساتھ کھیلنے میں
مصروف تھا۔ بڑا ہی جذباتی منظر تھا۔ میں نے اب میڈم کی موٹی موٹی رانوں کو دبانا
شروع کر دیا۔ مجھے بھی ڈبل ڈبل مزہ آ رہا تھا۔ پر ساتھ تھوڑا ڈر بھی تھا کہ کہیں
میڈم غصے نہ ہو جائیں ۔ مجھے دن والی بات بھولی نہیں تھی جب میرے صرف یہ کہنے پر
کہ جگو نے بھی پھدی مروائی ہوئی ہے جگو نے مجھے گھر سے باہر نکلنے تک کا کہ دیا
تھا۔اب میرے ہاتھ میڈم کے چوتڑوں سے صرف چند انچ کی دوری پر تھے۔ اب میڈم ہلکے
ہلکے آہ ، ایہہ بھی کر رہیں تھیں۔ ویڈیو جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی میرے ہیجان میں
اضافہ ہو رہا تھا ۔ اپنے جذبات پر قابو نہ لاتے ہوئے اور آئندہ سے بے نیاز ہوتے
ہوئے میں نے اپنے ہاتھ میڈم کی گانڈ کے موٹے موٹے چوتڑوں پر رکھ دیے۔ ہر لمحے یہ
دھڑکہ لگا کہ اب جگو غصے سے مڑے گی اور طمانچہ مارے گی پر یہ کیا۔ اس نے تو کوئی
نوٹس ہی نہ لیا۔ بس صرف یہ کہا کہ اور اچھی طرح دباؤ پی کے۔ میری ساری تھکاوٹ اتار
دو۔ میرا حوصلہ بڑھ گیا۔میں نے اس کے چوتڑوں پر اپنی گرفت مظبوط کر دی جگو بڑے مزے
سے لیٹی ساتھ ساتھ ویڈیو دیکھ رہی تھی اور مجھے سے اپنا جسم بھی دبوا رہی تھی۔میں
نے آخر کار اس کے ابھرے چوتڑوں پر ہاتھ رکھ دیے اور جگو کی موٹی رانوں اور اس کی
بھری بھری گانڈ کو دبانا شروع کر دیا۔میرا لن مکمل تناؤ میں تھا۔ ڈبل ڈبل
مزہ۔۔ویڈیو کا الگ اور جگو کا الگ۔۔۔لیپ ٹاپ میں ویڈیو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی
تھی۔ لڑکے نے اب لڑکی کی پھدی چاٹنی شروع کر دی تھی۔لڑکی کی سیکسی سسکاریاں لیپ
ٹاپ کے کمرے میں گونجنے لگیں۔ میں نے کہا: میڈم آپ کو بھی آئل سے مساج نہ کر دوں؟
پلیز منہ مت کیجئے گا۔ آپ کو بھی بہت سکون ملے گا۔ جگو: نہیں ! بس ایسے ہی ٹھیک
ہے۔ میں: نہیں جگو جی۔۔ایسے کام نہیں چلے گا پلیز۔۔آپ میرے لیے اتنا کچھ کر سکتی
ہیں ۔کیا میں یہ بھی نہی کر سکتا۔۔میرے بار بار اصرار پر اس نے ہار مان لی۔ بولی
ٹھہرو میں ذر ا چینج کر آؤں۔ وہ واش روم چلی گئی اور میں ویڈیو دیکھنے لگ گیا۔ کچھ
دیر بعد دروزہ کھلنے کی آواز آئی۔میں نے جو پیچھے مڑ کر دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی
پھٹی رہ گئیں۔میرے سامنے لاجواب حسن ک تراشیدہ مجسمہ تھا۔ میں پلکیں جھپکنا بھول
گیا۔جگو صرف ایک سکن کلر بر ا اور ایک انڈر وئیر ٹائپ پینٹی میں تھی۔یوں سمجھ لیں
جیسے بکنی میں تھی۔کیا کمال کا شاہکار تھا میرے سامنے۔۔ دروازے کے سامنے کھڑے ہو
کر جب اس نے ایک توبہ شکن انگڑائی لی تو میں تو قربان ہو گیا اس کی اداؤں پہ جگو
نے مجھے یوں گھور گھور کر دیکھتے ہوئے دیکھا تو شرما گئی اور بولی : ایسے ٹکُرٹکُر
کیا دیکھ رہے ہو؟ میں بولا : جگو ! آپ بہت خوبصورت ہو ۔ شرما کے بولی: چل بس بس اب
زیادہ تعریفیں مت کرو۔۔۔پھر وہ ایک آئل کی شیشی لے آئی۔ میں نے بیڈ پہ اایک چادر
ڈال دی اور وہ پیٹ کے بل لیٹ گئی۔ ویڈیو دیکھ دیکھ کے مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ
مساج کس طرح کرتے ہیں ۔ میں نے بھی تھوڑا سا تیل ہاتھوں میں لے کر جگو کے کومل
کومل بدن پر ملنا شروع کر دیا۔ جگو کی پتلی کومل کمر مجھے دیوانا بنا رہی تھی۔میرے
ہاتھ اس کا مساج کر رہے تھے، ساتھ ساتھ ویڈیو بھی چل رہی تھی جو ہم دونوں کے جذبات
بھڑکا رہی تھی۔ جگو کی کمر ساری کی ساری ننگی تھی۔ بس صرف ایک باریک سی ڈوری جس نے
جگو کی بکنی کو تھاپ رکھا تھا وہ موجود تھی۔ میں نے پوری کمر پر اچھی طرح سے مساج
کیا۔ جگو بولی: واہ پی کے ۔ تم نے تو میری ساری تھکن ہی اتار دی۔ اب کچھ دیر میں
نے جگو کی گردن کا مساج کیا۔ اس کے ہاتھوں کا بھی مساج کیا ۔ پھر اس کی ٹانگوں کا
بھی مساج کیا۔ ٹانگوں پر آ کر مجھے ایک شرارت سوجھی۔ میں یوں کرتا کہ پاؤں سے شروع
کرتا اور مساج کرتے کرتے رانوں سے ذرا نیچے پہنچ کر رک جاتا ۔ جگو کے نرم بھرے
بھرے چوتڑ آدھےننگے میری آنکھوں کے سامنے تھے۔جب میں نے بار بار دونوں ٹانگوں کے
ساتھ اس طرح کیا تو جگو جھنجلا اٹھی۔ اوپر بھی مساج کرو نہ۔ مجھے بے چینی ہو رہی
ہے۔ میں بولا: دیکھ لو کہیں آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ وہ بولی: کچھ نہی ہوتا تم
کرو ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ میں نے فوراً کافی سارا تیل ہاتھوں میں
لیا اور جگو کی رانوں پر لگا دیا۔ اس کے چوتڑوں پر خوب تیل انڈیل دیا۔ پھر میں نے
مساج شروع کر دیا۔ واہ کیا ملائم ، نرم ، اور بھرے بھرے چوتڑ تھے۔ مزے کی لہر میرے
جسم میں دوڑ گئی۔ میں اور پیار اور شہوت سے مساج کرنے لگا۔ ویڈیو کی سیکسی آوازوں
نے ماحول کو ااور سیکسی بنا دیا تھا۔ جگو بھی اوووووووم
،۔،،،آہہ۔۔۔ہممم۔۔۔۔۔م۔۔م۔۔کی ہلکی ہلکی آوازیں نکال رہی تھی جس سے پتا چل رہا تھا
کہ وہ بھی بہت سرور میں ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ جگو کی پینٹی جو کافی بڑی تھی بار
بار میرے ہاتھوں سے ٹکرا رہی تھی۔ میں نے اس کو اتارنا چاہا۔ میں نے جیسے ہی پینٹی
کو کھینچ کر نیچے لانا چاہا میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ میڈم نے خود اپنی گانڈ
اٹھا کر میری مدد کی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میڈم کو بھی مزہ آ رہا تھا ۔ اب میڈم
نیچے سے بالکل ننگی ہو چکی تھی۔ میں نے اس کی گانڈ کا مساج شروع کر دیا۔ اس کے
چوتڑوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر کھولا اور جگو کی گانڈ کے سوراخ پر کافی سارا تیل لگا
کر مساج شروع کر دیا۔ بہت مزہ آ رہا تھا۔ اور جیسے ہی میں نے گانڈ کے ساتھ چھیڑ
چھاڑ شروع کی جگو کی سسکاری نکل گئی۔ میں نے جگو کی گانڈ کا جی بھر کے مساج کیا۔
اب میں نے جگو کو سیدھا ہونے کا کہا۔ وہ سیدھا ہو گئی۔ اس نے فوراً اپنے ہاتھ اپنی
پھدی پر رکھ لیے۔ شاید ابھی بھی اسے کچھ کچھ شرم آ رہی تھی۔ میں نے کچھ نہ کہا۔
اور تیل لے کر اس کی ٹانگوں کو اوپر اوپر سے مساج کرنے لگا۔ اچھی طرح اس کی رانوں
اور پنڈلیوں کا مساج کرنے کے بعد جب میں اس کی پھدی کے قریب پہنچا تو میں نے پیار
سے اس کے ہاتھ پرے کر دیے جو اس نے بڑے آرام سے کر لیے تھے۔ کیا کومل پھدی تھی۔ اس
پر ہلکے ہلکے بال تھے۔ اس کے لب جڑے ہوئے تھے اور بہت ٹائٹ معلوم ہو رہی تھی۔پھدی
کا کلر لائٹ براؤن سا تھا۔ اس میں سے ہلکا ہلکا پانی نکلتا محسوس ہو رہا تھا۔ میں
نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے کسی دہکتی بھٹی پہ میں نے اپنا ہاتھ
رکھ دیا ہو۔ میں نے کہا : میڈم یہ تو بہت گرم ہے۔ ۔۔۔ وہ شرم سے کچھ نہ بولی۔ میں
نے پھدی کا مساج شروع کر دیا۔ میں نے جیسے ویڈیو میں دیکھا تھا ویسے ہی اس کی پھدی
کامساج کر رہا تھا۔ اس نے مزے سے آہیں بھرنا شروع کر دیں۔ میں نے اپنے ہاتھ پہلے
تو اوپر اوپر سے اس کی پھدی پر پھیرے ۔ اپنے انگوٹھے سے اس کی چکنی جلد کو سہلایا۔
پھر میں نےاس کے لبوں کا مساج شروع کر دیا۔ جگو کی چوت کے لب کافی حد تک جڑے ہوئے
تھے۔ میں نے جیسے ہی ان کا مساج شروع کیا جگو کی آہ نکل گئی۔ میں نے چوت کے دانے
کو بھی اچھی طرح چھیڑا۔ ابھی میں یہ کر ہی رہ تھا کہ مجھے اپنے ٹراؤزر پر کسی
رینگتی چیز کا احساس ہوا۔ میں نے ادھر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ یہ جگو میڈم ک
ہاتھ تھاجو میرے لنڈ کے قریب پہنچ چکا تھا اور پھر اس نے میرے لن کو ٹراوزر کے
اوپر سے ہی پکڑ لیا۔ میں تو مزے سے سرشار ہو گیا۔ میں نے میڈم کی چوت کو چھوڑا اور
اس کے سینے کی طرف بڑھا جو ابھی تک چھپے ہوئے تھے ۔ میں نے فوراً بکنی کی سٹریپ
کھول دی اور اسے بھی نکال دیا۔ اب میں نے کافی سارا تیل نکالا اور جگو کے نہ ہونے
کے برابر پیٹ اور اس کے چھوٹے چھوٹے سڈول بوبز پر لگا کر مساج شروع کر دیا۔ میں نے
جیسے ہی جگو کہ بوبز کا مساج شروع کر دیا۔ جگو کی بھرپور سسکاریاں بلند ہوئیں ۔
اتنا مزہ تو اسے چوت کے مساج سے بھی نہیں آیا تھا۔ (جن کے بوبز درمیانے یا چھوٹے
سائز کے ہوں وہ زیادہ حساس ہوتے ہیں۔) جگو نے بھی میرے ٹرازر کا نالا کھولا اور لن
باہر نکال کر ہا تھ میں لے لیا۔ پر یہ کیا۔جگو کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب ہو
گئیں۔ دس انچ کا موٹا تازہ لنڈ۔اس نے حیرت سے پوچھا : کیا تمھارے گولے پر سبھی کے
اتنے بڑے ہوتے ہیں؟ میں نے اس کے بوبز کے تنے ہوئے نپلز کو مسلتے ہوئے جواب دیا :
ہاں تقریباً۔۔۔شاید انیس بیس کا فرق ہو بس۔۔ جگو: اوہ۔۔ پھر اس نے میرے لنڈ کو
سہلانا شروع کر دیا۔ اب میری برداشت جواب دیتی جا رہی تھی ۔ میں نے کچھ دیر اور
مساج کرنے کے بعد مساج بند کر دیا اور جگو کے اور قریب ہو گیا۔ اب میرا لنڈ جگو کے
منہ کے بالکل قریب تھا۔ میں نے اپنا عضو اس کے منہ کے اور قریب لے گیا اور آخر کا
ر میرے عضو کی کیپ نے اس کے لبوں کو ٹچ کر ہی لیاا۔ واہ کیا رسیلے ہونٹ تھے۔میرے
لن کو بہت مزہ اآیا۔پر میں نے ابھی اس کے منہ میں دیا۔ میں نے اپنا ٹراؤزر فل اتار
دیا۔ شرٹ بھی اتار دی۔ جگو تو پہلے ہی ننگی تھی۔جزبات اور شہوت سے اس کی آنکھیں
بند تھیں ۔ میں نے اپنے منہ کو اس کے منہ پر جھکا دیا۔ میرے لبوں نے اس کے گلاب کی
پنکھڑیوں جیسے نرم و نازک ہونٹوں کو چھوا۔مزے سے میرے جسم میں سر سراہٹ سی پھیل
گئی۔جگو نے بھی مزے سے ایک ہلکا سا جھٹکا سا لیا۔ اتنی دیر سیکسی ویڈیوز دیکھنے کے
بعد اور مجھ سے اپنے گورے ، ننگے جسم کا مساج کروانے کے بعد جگو کے جزبات بہت بھڑک
چکے تھے۔ دوسرا اس کے خیالات پڑھنے کے دوران مجھے یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ وہ
سرفراز سے چوت مروا چکی ہے۔ اس لیے مجھے پتا تھا کہ اسے بھی سیکس کی بہت طلب رہتی
ہو گی۔
دو ننگے بدن، شہوت میں ڈوبے ایک دوسرے کے قریب ہو
رہے تھے۔ اس کے نرم و نازک رسیلے ہونٹ میرے ہونٹوں کے قبضے مٰیں تھے۔ کیا ملائم
اور نازک ہونٹ تھے۔ میں نے بڑے شد و مد کے ساتھ انہیں چومنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر
بعد میں نے اپنی زبان جگو کے منہ میں داخل کر دی۔ میری زبان اس کی زبان سے ٹکرائی
۔ وہ بھی بڑی گرم جوشی سے میرا ساتھ دے رہی تھی۔ لگتا تھا کہ اسے بھی شہوت چڑھ گئی
تھی۔ اس لیئے جیسے ہی میری زبان اس کے منہ میں گئی اس نے کسی ٹافی کی طرح اسے
چوسنا شروع کر دیا۔ مجھے مزے کا ایک اور جھٹکا سا ملا۔ جگو بذات خود ایک ہاٹ لڑکی
تھی۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی جسے میں نے بڑے مزے سے
چوسنا شروع کر دیا۔ پھر میں نیچے آیا۔ اس کے رخساروں کو چوما۔ اس کی آنکھوں کو۔ اس
کے کانوں کی لو کو۔۔(کان کی لو سیکس کے پوائنٹ آف ویو سے انتہائی حساس ہے۔زیادہ تر
خواتین کیلئے اور گردن اور کمر کو چومنا بھی ۔۔اکثریت کو اس سے بہت زیادہ مزہ ملتا
ہے۔)۔۔۔۔۔اس کی صراحی دار گردن کو ۔۔۔۔اس کے سینے کے ابھاروں کو۔۔۔ جب میں اس کے
سینے پر پہنچا تو اسے نے مزے سے ہلکی ہلکی آہیں لینا شروع کر دیں۔ میں نے جب اس کے
مموں کا مساج کیا تھا تب ہی اسے بہت مزہ آیا تھا ۔ اور اب تو میں انہیں چوم رہا
تھا ۔ چاٹ رہا تھا۔ زبان سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کر رہا تھا اب تو پھر لذت سے
جگو نے چیخنا ہی تھا۔ اس کے نپلز مکمل تن چکے تھے۔ میں ابھی اس کی چھاتیوں کی
گولائیاں زبان سے چاٹ رہا تھا۔ دوسرا مما میں نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور اس مسل
رہا تھا۔ بھینچ رہا تھا ۔ دبا رہا تھا۔ اتنے سوفٹ اور ملائم تھے کہ بس۔۔۔میرا لن
جگو نے ہاتھ میں پکڑ لیا اور سہلانے لگی۔ میں نے اپنا کام جاری رکھا ۔ کچھ دیر بعد
میری زبان نے جگو کے مموں کے تنے ہوئے نپلز کو ٹچ کیا۔ جگو کی بلند سسکاری نکل
گئی۔ آہہ۔ہ۔ہ۔ہہ۔پ۔پ۔ی۔ی۔۔۔ک۔ک۔ے۔ے۔۔۔میں نے نپلز کو زبان سے چھیڑنا شروع کر دیا۔
واہ کیا ممے تھے ۔ اور کیا نپلز تھے۔ میں جب نپلز کو دانتوں تلے ہلکے سے دباتا تو
جگو آہیں بھر کر رہ جاتی۔ کافی دیر تک نپلز چوسنے کے بعد میں اب نیچے آیا۔ جگو کا
کومل بدن انتہائی خوبصور ت پیٹ ۔۔ناف کا بے داغ سوراخ ۔۔۔ میں تو فدا ہو گیا۔۔میں
اس کے جسم کا ایک حصہ بھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا جہاں میرے ہونٹ نہ لگے ہوں۔ اس کا
پورا جسم بالوں سے پاک اور انتہائی صاف اور بے داغ تھا۔ میں نے اس کے پیٹ کو چوما
۔ اس کی ناف میں اپنی زبان ڈال دی۔ اس نے پھر ایک ہلکا سا جھٹکا لیا۔ میں اب اور
نیچے آیا۔ اس کی ٹانگوں کو چوما ۔ یہاں تک کے اس کے خوبصورت پاؤں بھی چومے۔ پھر
میں اس کی پھد ی کی طرف بڑھا۔ واہ کیا خوبصورت پھدی تھی۔ میں نے پہلے ہاتھ سے اس
کو تھوڑا مسلا۔ پھر اپنا منہ اس پر رکھ دیا۔ بہت گرم تھی۔ اس میں سے تھوڑا تھوڑا
پانی بھی نکل رہا تھا۔ میں نے اسے چاٹنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا : جگو ! تم ساری
کی ساری لا جواب ہو۔ کیا انمول شاہکار ہو تم تو۔۔۔وہ بولی: تم بھی تو کمال
ہو۔۔کوئی بھی نہی کہ سکتا کہ تم اناڑی ہو۔۔۔ میں پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو
گیا۔ میں نے اپنے لبوں کو اس کی چوت کے لبوں سے ملا دیا۔پھر اپنی زبان کی نوک سے
کھد بد کرنے لگا۔ اس کے سرخ ہوتے دانے کو رگڑا۔ اس کی پھدی کی لبوں کو منہ میں لے
کر چوسا۔ پھر میں نے اپنی زبان اندر گھسا دی۔ جگو:
آہہہ،،،،،ہ،ہ،ہ،،ہ،ہ،ہ،ہ،،اوہ،،،،پی،،،ی،،ی،ی،ی،،،کے ،ے،ے۔۔۔۔نہ کرو۔۔آ۔ہہ۔۔مجھے
کچھ ہو رہا ۔ہے۔۔میں نے آوازوں کو انجوائے کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا۔ زبان جب
اس کی چوت کے اندر گئ تو جیسے اس کو کچھ ہو گیا ہو ۔ مزے سے وہ بلند آہیں اور
سسکاریاں لینے لگی۔۔ساتھ ساتھ اس نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ دیا اور اسے اور
دبانے لگی۔ میں بھی فل اندر ہو کر اس کی چوت میں زبان گھسانے لگا۔میری زبان اس کی
چوت کی سیر کر رہی تھی۔ میرا سر اس حد تک دھنسا ہوا تھا کہ میری ناک اس کی چوت کے
لبوں سے لگی ہوئی تھی۔مجھے اس کی چوت کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ میں بڑے مزے
سے چوت چوستارہا ۔اچانک ا س کی آہیں بلند ہونے لگیں۔ اس نے جھٹکے سے کھانے شروع کر
دیے۔ اس نے میرے سر کو بے اختیاری طور پر اور نیچے دبایا۔اچانک مجھے اپنے منہ پر
پانی کا ایک سیلاب سا محسوس ہوا۔ میں نے اپنی زبان باہر نکال لی اور منہ پیچھے کر
لیا۔ جگو اب شانت ہو گئی تھی۔ میرا منہ اس کی پھدی کے پانی سے لتھڑا ہوا تھا۔ میں
باتھ روم میں چلا گیا۔ منہ دھو کر میں واپس آیا تو وہ میری طرف بڑے پیار سے دیکھ
رہی تھی۔ جیسے ہی میں اس کے قریب پہنچا اس نے مجھے بیڈ پہ گرا لیا اور میرے اوپر آ
گئی۔ اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور انہیں چوسنے لگی۔۔ پھر کچھ
دیربعد اس نے میرے سینے کو چوما ۔ میرے نپلز پر بھی زبان پھیری ۔پھر اس نے میرے لن
کو ہاتھ میں پکڑ کر سہلانا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد اس نے آخر کار اپنے لب اس کی
ٹوپی پر رکھ ہی دیے۔ آہ۔ہ۔ہ۔مزے سے میں بے قابو ہو گیا۔۔اس نے پہلے اپنے ہونٹوں سے
میرے لنڈ کو چوما پھر ا س کی ٹوپی کے گرد گو ل گول زبان گھمانے لگی۔۔مزے سے میرے
رونگٹھے کھڑے ہونے لگے۔۔۔اس کی گرم ، رسیلی زبان میرے لن کو سیراب کر رہی تھی ۔
مجھے اپنے جسم میں سنسنا ہٹ کا احساس ہونے لگا ۔ اس نے میرے لن کو اچھی طرح چوسنا
شروع کر دیا۔۔یوں چوس رہی تھی جیسے لالی پاپ چوستے ہیں،۔مجھے بہت مزہ آنے لگا۔ اب
مجھ سے مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے کہا: بس جگو ! اب اور برداشت نہیں
ہوتا کچھ کرو۔ جگو : کیا کروں پی کے؟ میں : جس کو چوس رہی ہو ااس کے اوپر بیٹھو۔
وہ مسکرائی اور میرے لن کے اوپر آا گئی۔ ہاتھ سے میرے لن کو چوت کے سوراخ پر فٹ
کیا ور آہستہ آہستہ اس اندر لینے لگی۔ پر ابھی صرف میری کیپ ہی اندر گئی تھی کہ
جگو کی آہ نکلی اوار وہ رک گئی۔ میں نے پوچھا : جانو کیا ہوا؟ وہ بولی: درد ہوتی
ہے۔ میں نہی لے سکتی۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا آہستہ آہستہ اند رلو۔ اس نے کوشش
کی لیکن پھر رک گئی۔ میں نے کہا : ا س طرح نہیں ہو گا۔ آپ بیڈ پر لیٹو۔۔۔وہ بیڈ پر
لیٹ گئی۔ میں نے اس کی ٹانگیں کھولیں۔ چوت کافی ٹائٹ تھی۔ میں نے ایک دفعہ پھر
اپنے لعا ب سے اسے گیلا کیا۔ اس کی ایک ٹانگ ایک سائیڈ پر نکالی اور دوسری کو اس
طرح بلند کیا کہ وہ سیدھی میرے سینے سے لگی میرے کندھے تک ٌپہنچ رہی تھی۔ پھر میں
نے اپنا لن اس کی چوت پر سیٹ کیا ۔ یک زوردار جھٹکا مارا۔ جگو کی ایک آہ بلند ہوئی
اور میرا لن اس کی چوت کو چیرتا ہوا اندر گھستا چلا گیا۔ جگو: آہ۔۔۔ہائے میں مر
گئی۔۔۔پی کے ،پلیز نکال لو بہت درد ہو رہا ہے۔ میں نے لن وہیں روک لیا اور اس کے بدن
پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس کے بوبز کو مسلا۔ جب مجھے لگا کہ وہ ریلیکس ہو گئی ہے تو
میں نے آہستہ آہستہ لن کو حرکت دینی شروع کر دی۔ اس کی چوت بہت ٹائٹ اور گرم تھی۔
میرے لن کو جیسے ہلکی ہلکی ٹکور ہو رہی ہو۔ میرا لن ابھی تک صرف 5 انچ تک ہی اندر
گیا تھا۔ میں نے ابھی اتنا ہی کرنا مناسب سمجھا۔ جگو: پہلے تو ہائے ہائے کرتی رہی
۔پھر اسے بھی مزہ آنے لگا ۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ اس کی چوت میں سے تھوڑا سا خون
بھی نکل رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا پہلے تم نے پھدی نہیں مروائی۔ وہ بولی:
آہہ۔۔ہ۔ہا۔ں ۔۔مروائی ۔۔۔تت۔۔تو۔۔۔تھی۔ی۔۔ی۔۔۔س۔سس۔رفراز۔۔۔سے۔۔میں نے کہا : پھر
اب کیوں خون نکلا ہے؟ کہنے لگی: وہ 2، 3 سال تو ہو گئے ہیں۔۔۔سرفراز نے بھی صرف
ایک دفعہ ہی کیا تھا۔۔آہہ۔۔ایہہ۔۔اور پھر تمھارا لن بھی تو کافی بڑا ہے۔ میں نے
ہوں میں سر ہلایا ااور دھکے لگاتا رہا۔ جگو کی نرم گرم چوت کی وادیوں میں میرا لن
سیر کر رہا تھا۔میں نے کچھ دیر اور دھکے لگائے اور پھر جگو کو ویسے ہی اٹھا کر
صوفے پر لٹا دیا۔ صوفے پر لٹا کر میں نے پھر سے دھکے شروع کر دیے۔ میں نے کچھ اس
زور سے دھکے لگائے کہ پورا صوفہ ہلنے لگا۔میرا لن بڑی تیزی سے اندر باہر ہو رہا
تھا۔ جگو نے بھی اپنے آپ کو قابو رکھنے کیلئے صوفے کو زور سے پکڑ لیا۔ میرے دھکوں
سے جگو کی لذت آمیز سسکاریاں بلند ہو رہیں تھیں۔۔وہ بول رہی تھی: کم
آن۔۔آہہ۔۔ایہہ۔۔یاہ۔۔فک می ہارڈ ۔۔۔اور زور سے پی کے۔۔۔ میں نے دل سوچا کہ اب وقت
گیا ہے کہ اسے دکھا دوں پی کے کیا ہے۔۔۔میں نت رفتار بڑھا دی اور ایک زوردار جھٹکا
مارا جس سے میرا لنڈ جڑوں تک اندر چلا گیا۔۔جگو کی چیخ بلند ہوئی۔میں نےاس پر کوئی
توجہ نہ دیتے ہوئے اپنے دھکے جاری رکھے۔ہر سٹروک پر جگو کی سانس رکتی محسوس ہوتی۔
میری رفتار بہت بڑھ چکی تھی۔اچانک جگو کی آہیں بے ڈھنگم ہو گئیں۔ اس کی آوازیں
بلند ہوئی۔اور پھر اس کے جسم نے ایک جھٹکا سا کھایا اور اس کی چوت نے پانی چھوڑ
دیا۔ اب اس طرح کرنے سے مجھے تھکاوٹ کے احساس ہونے لگا تو میں نے کہاکہ چلو اب میں
لیٹتا ہوں تم پہلے کی طرح اوپر بیٹھنا۔ میں بیڈ پر لیٹ گیا ااور وہ میرے اوپر آ
گئی۔ اب لن کو لینے میں اسے کوئی دشواری نہ ہوئی۔ اس نے لن کو چوت پر سیٹ کیا اور
آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگی۔ مجھے مزہ نے لگا۔ لیکن کافی دیر تک جب وہ اسے ہی
کرتی رہی تو میں نے اپنے ہاتھ اس کی گانڈ پر رکھے اور سے زور زور سے اوپر نیچے
کرنے لگا۔ ساتھ میں نے خود سے بھی نیچے سے سٹروک مارنے شروع کر دیے۔ اب میں نے سے
صوفے پر الٹا ہونے کا کہا۔ وہ الٹا ہو گئی۔ میں نے اس کی گانڈ اوپر اٹھائی اور اسے
ڈوگی پوزیشن میں لے آیا۔اب میں پیچھے سے آیا اور اپنا لن س کی پھدی میں ڈال دیا۔
اس طرح کرنے سے یہ فائدہ ہوا کہ مجھے جگو کی گانڈ ا اور اس کا براؤن سوراخ کلئیر
نظر آنے لگا۔ واہ کیا نظارہ تھا ۔ میں نے اپنی انگلی کو تھوڑا گیلا کیااور جگو کے
سوراخ کو مسلنے لگا ساتھ ساتھ لن کے دھکے جاری تھے۔ میں نے کہا: جگو تمھاری گانڈ
تو بہت پیاری ہے۔۔۔ جگو: شکریہ۔۔لیکن اس کا سوچنا بھی مت۔ میں اتنا بڑا لن ہرگز
برداشت نہیں کر سکوں گی۔ میں نے کہا : بے فکر رہو میں تمہاری مرضی کے بغیر کچھ
نہیں کروں گے۔ میں نے دھکوں کی رفتار بڑھا دی۔ اب مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میں
منزل کے قریب ہوں ۔ میں نے کہا کہ میں جھڑنے والا ہوں ۔ کیا اندر ہی کر دوں۔ وہ
بولی کہ نہیں باہر نکال لینا۔میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے 2، 3
زوردار جھٹکے مارے اور ساتھ ہی لن باہر نکال لیا۔ میرے لن سے منی کی زوردار فور
نکلی جو جگو کی کمر اور گانڈ پر گری۔ میں وہیں صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔ جگو اٹھی اور
اپنی گانڈ ایک کپڑے سے صاف کرنے کے بعد میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا سر
میرے شانے پر ٹکا دیا۔ بولی: پی کے ! تم بہت اچھے ہو۔ میں تمہیں بہت مس کروں گی۔
میں : میں بھی آپ کو بہت مس کروں گا۔ پھر ہم باتھ روم گئے۔ اکٹھے نہائے۔ نہانے کے
دوران میرا پھر موڈ بن رہا تھا لیکن وہ بولی ٹائم کافی ہو گیا ہے۔ ہم پھر کبھی کر
لیں گے۔ ابھی نہیں ۔ ہم ننگے باہر آئے۔ ننگے ہی بیڈ پر جپھی ڈال کر سو گئے۔ اگلی
صبح بڑی روشن تھی۔ میں اٹھا اور تو دیکھا کہ میں بھی تک ننگا ہی پڑا تھا۔ جگو بھی
پہلو میں لیٹی تھی۔ اس کہ چہرے پر ایک عجیب سی خماری اور سکون تھا۔ گویا تیری صبح کہ
رہی ہے تیری شب کا فسانہ میں نے اس کے ماتھے کو چوم لیا۔ وہ بیدار ہو گئی۔ مجھے اس
طرح اپنے اوپر جھکا دیکھ کر شرما گئی۔ جلد ی سے اٹھی اور اپنے کپڑے اٹھا کر باتھ
روم کی طرف بھاگی۔میں پیچھے سے اس کے ننگے بدن کا مشاہدہ کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد ہم
صحن میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ آج کا پلان بھی ڈسکس کر رہے تھے۔ جگو
بولی : پلان سارا یاد ہے نہ۔ میں نے کہا : ہاں ۔ بولی: چلو پھر جلدی سے سناؤ ۔۔
میں نے کہا: سب سے پہلے ہم شام کو ماحول کا جائزہ لیں گے۔ میری جب میں نقلی لاکٹ
ہو گا۔ 9 بجے تپسوی جی سے سلام لینے کے بہانے ان کے خیالات پڑھ کر تجوری کا پاس
ورڈ معلوم کروں گا جس میں میرا ریموٹ وا پڑا ہے۔
پھر 10 بجے مشروب پلایا جائے گا جس میں رادھا پہلے سے پہ بے ہوشی
کی دوائی ملا دے گی۔ تم اس کمرے کی حفاطت کرنے والوں کی کسی طرح پرے کرو گی او
رمیں لاکٹ نکال کر اس کی جگہ نقلی رکھ دوں گا۔ وہ بولی: شاباش۔۔تمہیں تو اچھی طرح
یاد ہے۔ اب میں اپنے آفس جا رہی ہوں۔ نیہا کو میں نے پہلے ہی تیار کر لیا ہے۔ شام
سات بجے میں آ کر تمہیں لے جاؤں گی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اس نے کہا : رادھا آئے گی
۔ صفائی وغیرہ کر کے چلی جائے گی۔ میں نے کہا : ٹھیک ہے۔ وہ کچھ دیر بعد چلی گئی۔
میں اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ میری کتنی بڑی ہمدرد تھی۔ میرے لیے اس نے اپنی
بائیک بیچ دی تھی۔ سب سے بڑی بات کہ وہ میرے لیا اپنا کتنا وقت نکال رہی تھی۔ میں
نے سوچا کہ چاہے جو ہو جائے جگو کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا۔10 بجے کے قریب
رادھا آ گئی۔ آج اس نے ایک نیلی ساڑھی پہن رکھ تھی جس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی
اور اس کے ساتھ اس کا ایک سال کا بچہ بھی تھا۔ مجھے نمستے کرنے کے بعد وہ گھر کے
کام کاج کرنے لگی۔ بچے کو اس نے ایک جھولے میں ڈال کر سلا دیا تھا۔جب وہ جھک کر
جھاڑو دیتی تو اس کی موٹی بھری بھری گانڈ کا نظارہ مجھے بہت مزہ دیتا۔ اور اگر وہ
میرے سامنے ہوتی تو اس کے بڑے بڑے بوبز کی کلیویج نظر آتی ۔ خیر یہ سب چلتا رہا۔
جب وہ کچن میں برتن دھو رہی تھی تو میں بھی پانی پینے کے بہانے چلا گیا۔ اس کا بدن
بھیگا ہوا تھا۔میں اس کی کلیویج کو دیکھنے لگا۔ شاید سے بھی احساس ہو گیا تھا۔ اس
نے پلو صحیح کر لیا۔ میں واپس ٹی وی لانج میں آ گیا۔ اتنے میں اس کا بچہ رونے لگا
جو صرف 9، 10 ماہ کا تھا۔ میں نے پکارا: رادھا ! تمھار ا بیٹا رو رہا ہے۔ وہ جلدی
سے بھاگتی بھاگتی آئی اور اسے چپ کروانے لگی۔ وہ ایسے چپ نہیں کر رہا تھا ۔ اتنے
میں اس نے ایک بار میری طرف دیکھا اور پھر پلو آگے کر کے بلاؤز اٹھا یا اور پھر
برا بھی تھوڑا اوپر کر کے اپنا مما ننگا کیا اور اسے بچے کہ منہ میں دے دیا۔ بچہ
فوراً نپلز چوسنے لگا اور چپ ہو گیا۔ میں بے شرموں کی طرح اس نظارے کو برابر تکے
جا رہی تھا۔ وہ اٹھی ور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ بہرحال وقت گزرتا رہا اور 1 بج
گئے۔ میں نے کہا : رادھا بھوک لگی ہے۔۔ وہ بولی : بھی آئی جی۔ ۔اس نے کم وغیرہ تو
ختم کر لیے تھے۔ میرے سامنے کھانا رکھ کر جب وہ جانے لگی تو میں نے کہا: تم بھی
کھا لو ۔ کہنے لگی کہ نہیں میں گھر جا کر کھاؤں گی۔ میں نے کہا: نہیں پلیز میرے
ساتھ بیٹھ کر کھاؤ۔۔ میں تو کچھ دیر کا مہمان ہوں پھر تو بہت دور چلا جاؤں گا۔ وہ
میرے اصرار کو دیکھتے ہوئے مان گئی اور سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ میں نے کہا:
چلو کھانا شروع کرو۔ وہ کھانے لگی ۔ ساتھ بولی: مہاراج ! ایک بات پوچھوں۔ میں نے
کہا: ہاں ہاں ضرور پوچھو۔۔وہ کہنے لگی کہ جگو میم بتا رہی تھیں کہ آپ یہاں کے
نہیں۔۔۔کیا واقعہ ہی ایسا ہے ۔ اور پھر آپ خیالات کیسے پڑھ لیتے ہیں۔ میں نے کہا:
ہاں ایسے ہی ہے۔ اور تم بھی تو آج کی ہماری مہم میں شامل ہو۔ جہاں تک بات خیالات
کی ہے تو یہ ہمارے گولے کے لوگوں کی ایک خوبی ہے۔ جس طرح سننا دیکھنا یہاں کے
لوگوں کی خوبیا ں ہیں ایسے ہی وہاں پر ان کے ساتھ ساتھ خیالات پڑھنا بھی ایک ایسی
ہی خوبی ہے جو سب کے پاس ہوتی ہے۔ وہ بولی: اچھا تو یہ بات ہے۔ کچھ اور بتائے نہ
اپنے گولے کہ لوگوں کے بارے میں۔جگو میڈم نے تو مختصر ہی بتایا تھا۔ میں شروع ہو
گیا۔ اسے مختصر مختصر بتانے لگا۔ جب میں نے سے بتایا کہ وہاں سب ننگے گھومتے ہیں۔
اور اولاد کیسے ہوتی ہے تو بہت حیران ہوئی۔ پھر میں نے ایک اور شوشہ چھیڑ دیا کہ
وہاں کہ لوگوں کہ اعضائے مخصوصہ بھی یہاں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ میرا تیر نشانے
پہ لگا اور وہ بول اٹھی کہ مجھے کیسے پتا چلے گا۔ میں نے کہا : اگر کہو تو میں
دکھا سکتا ہوں۔ وہ شرم گئی۔اور اپنا سر جھکا دیا۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کی ٹھوڑی کے
نیچے رکھا اور اس کا چہرہ اوپر کیا۔ میں بولا: اس میں شرمانے کی کیا بات ہے ۔ میں
تو آج کا مہمان ہوں۔ سوچ لو دوبارہ یہ موقع نہیں ملے گا۔ اس نے اثبات میں سر
ہلایا۔ میں نے کہو آؤ اندر چلتے ہیں۔ وہ مان گئی۔ ہم کمرے میں آ گئے۔ میں نے اسے
بیڈ پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے کپڑے اتار دیے۔ میرا ننگا بدن دیکھ
کر جیسے وہ اک ٹرانس میں آ گئی ہو۔ بڑے غور سے دیکھنے لگی۔ میرا 10 انچ کا سرخ و
سفید لن مکمل جوبن پر تھا۔ بولی: فرق تو کافی ہے۔ اتنا بڑا اور خوبصورت۔ میں نے اس
کو ہاتھ سے پکڑ کر تو چیک کرو۔ کچھ جھجکتے ہوئےاس نے اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھ
دیا۔ میں اس کے نرم ہتھ کو اپنے لن پر محسوس کرتےہی مزے سے سرشار ہو گیا۔ کچھ دیر
وہ اسی طرح میرے لن کو سہلاتی رہی پھر میں بولا: اب مجھے بھی دکھاؤ نہ کہ یہاں کی
عورتیں ہمارے گولے سے کتنی مختلف ہوتی ہیں۔ وہ انکار کرنے لگی۔ پر جب میرا اصرار
بڑھا اور میں نے یہ بھی کہا کہ چلو کئی بات نہیں میں تو مہمان ہوں۔ تمہاری یہ بات
ہمیشہ یاد رہے گی۔ یہ بات کہتے ہوئے میں نے اپنے لہجے کو بہت اداس بنا لیا تھا۔
میرے لہجے کی اداسی کو محسوس کرتے ہوئے مان گئی۔ اس نے میری طرف اپنی کمر کی اور
اپنے کپڑے اتارنے لگی۔ پہلے اپنی ساڑھی کا پلو اتارا۔ پھر اپنا بلاؤز اور برا بھی
اتار دی۔ اس کی سفید گوری کمر اب ننگی تھی۔ پھر میں نے کہا : اب میری طرف گھومو گی
تو مجھے کچھ نظر آئے گا۔ وہ شرماتے ہوئے پیچھے گھوم گئی۔ ابھی تک اس نے اپنے
ہاتھوں سے اپنے مموں کو ڈھانپ رکھا تھا۔یہ نظارہ اور بھی دلفریب تھا۔ میں آگے بڑھا
اور کہا: رادھا جی۔۔۔ان کو بھی ہٹاؤ نہ۔۔اس طرح تو کچھ پتا نہیں چلے گا۔ پھر میں
نے خود ہی اس کے ہاتھوں کو پرے کیا۔ واہ کیا مست ممے تھے۔ بہت گول تنے ہوئے، دودھ
سے بھرے ہوئے، سڈول ، گورے گورے ۔ اور تو اور ان کی نپلز پر ابھی تک دودھ کے قطرات
چمک رہے تھے۔ میں نے کہا : امارے گولے پر تو ایسا ناہیں ہوت ہے۔ وہاں تو کسی کے
ممے ایسے خوبصورت ناہیں ہیں۔ وہ اپنی تعریف سن کر خوش ہونے لگی۔ میں نے ہمت کرتے
ہوئے اپنے ہاتھ اس کے مموں پر رکھ لیے۔ اس نے ناکام سی مزاحمت کی کوشش کی لیکن
میرے آگے اس کی ایک نہ چلی۔ میں نے اس کے مموں کو مسلنا شروع کر دیا۔ میں بولا:
واؤ۔۔۔تمھارے ممے تو بہت زبردست ہیں۔ اب مجھے اپنی وہ نیچے والی بھی دکھاؤ نہ۔ اس
نے انکار کرنا چاہا لیکن میں نے خود ہی اس کی شلوار اتار دی۔ نیچے اس نے ایک بلیو
کلر کی پینٹی پہنی تھی جو بمشکل ہی اس کی پھدی کو کور کر رہی تھی۔ میں نے کہا : تم
اس طرح تھک جاؤ گی۔ بیڈ پر لیٹ جاؤ۔میں تسلی سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ شرماتے ہوئے،
لجاتے ہوئے، بیڈ پر لیٹ گئی۔ میں نے اس کی پینٹی بھی اتار دی۔ اس کی براؤن چوت جس
پر ہلکے ہلکے بال تھے میرے سامنے تھی۔ میں نے اس پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ بہت گرم اور
گیلی ہو رہی تھی۔میں نے اسے مسلنا شروع کر دیا۔ اس پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگا۔
میرا ہاتھ اس کی پوری چوت کو سہلا رہا تھا۔ میں نے اس کو دانے کو اپنے انگوٹھے سے
مسلا۔ اس کی آہ نکل گئی۔ پھر میں نے اپنے ہونٹ آخر کار اس کی پھدی پر رکھ دیے۔ در
اصل میں چاہتا تھا کہ وہ جلدی تیار ہو جائے ۔ اسی لیے میں پھدی سے سٹارٹ کر دیا۔
میں نے جیسے ہی اپنے ہونٹ اس کی پھدی پر رکھنے چاہے اس نے مجھے ایسا کرنے سے منع
کیا۔ بولی: نہیں مہاراج ، یہ پاپ ہے۔ویسے بھی یہ بہت گندی جگہ ہے۔ میں بولا: کچھ
نہیں ہوتا۔ ویسے بھی میں زیادہ کچھ نہیں کروں گا بس تھوڑا سا پیار ہی تو کر رہا
ہوں۔ پھر میں نے اس کی پھدی کے لبوں کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ اس
کی سسکاریاں نکل رہیں تھیں۔ میں نے اب ایکشن میں آنے کا فیصلہ کیا اور اپنی زبان
کی نوک سے اس کے دانے کو خوب چھیڑا یہاں تک کہ وہ لال ہو گیا اور رادھا ہلنے لگی۔
اس کے بدن میں تناؤ آ گیا۔ میں نے اس کی چوت کے لبوں کو ہاتھ سے کھلا اور اپنی
زبان اندر داخل کر دی جو جا کر اس کی پھدی کی دیواروں سے رگڑ کھانے لگی۔ میں نے
کچھ اس طرح سے چوت چوسی اور چاٹی کہ رادھا مزے سے چلانے لگی۔ اس کی لذت آمیز اور
شہوت سے بھرپور سسکاریاں کمرے میں گونجنے لگیں۔ اس نے اپنی کمر اور سر ہلا ہلا کر
اپنا رسپانس دینا شروع کر دیا۔ اچانک اس نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر اسے اور
نیچے دبایا۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکل رہا تھا: اور زور سے۔۔آہ۔ہ۔ہ۔ہہ۔۔ایہہ۔
۔۔شاباش۔۔۔ہائے۔۔آؤچ۔ ۔ اور۔ چوسو مہاراج۔۔میری پھدی کو کھا جاؤ۔۔آہہ۔۔اس کے ساتھ
ہی اس کے جسم نے ایک جھٹکا سا لیا اور ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا۔۔اور ساتھ ہی وہ
ڈھیر ہو گئی۔ میں نے بھی اپنا منہ پیچھے کیا اور پھر اسے ایک کپڑے سے صاف کیا ۔ وہ
آنکھیں بند کیے بڑے سکون سے لیٹی ہوئی۔ میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اس نے
آنکھیں کھولیں اور بڑے پیار سے میری طر ف دیکھا۔ اچانک پتا نہیں اسے کیا ہوا ، وہ
اٹھی اور مجھ پر بوسوں کی برسات کر دی۔ میرے ماتھے کو چوما، آنکھوں کو، گالوں کو ،
پھرہونٹوں ۔ میں تو بہت حیران ہوا ۔ کہاں وہ اتنا شرما رہی تھی اور کہاں اب خود ہی
شروع ہو گئی۔ وہ بولی: آپ نے مجھےاتنا مزہ دیا ہے کہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہ
سوچا تھا۔ منے کے ابا تو بس آتے تھے ۔ اندر ڈال کر پانی نکالتے اور سو جاتے تھے۔
میں ساری رات کروٹیں بدلتی رہتی۔ آج مجھے یوں لگا ہے جیسے میں مکمل ہو گئی ہوں۔ آج
سے میں آپ کی داسی ہوں۔ میں نے بھی اس کو چومتے ہوئے کہا: مجھے داسی کی ضرورت
نہیں۔ تم آج سے میری دوست ہو۔ یہ کہ کر میں نے اس کے مموں کو پکڑ لیا۔ ان کو
ہاتھوں میں مسلا تو ان میں سے دودھ نکل آیا۔ میں نے اپنا منہ اس کے مموں پر رکھنا
چاہا تو بولی: آپ سے ایک التما س ہے۔ اگر آپ انہیں چوسیں گے تو دودھ نکل آئے گا۔
میرا بیٹا پھر بھوکا رہ جائے گا۔ میں بھی اس کی بات سمجھ گیا اور حسرت دل میں لے
کر ہی اس کے باقی جسم کو چومنے لگا اور اپنی زبان سے چاٹنے لگا۔ میں نے اس کے
رسیلے ہونٹوں کو پکر لیا اور بھرپور کسنگ سٹارٹ کر دی۔ اب وہ بھی میرا بھرپور ساتھ
دے رہی تھی۔ شرم، حیا ، جھجک ختم ہو چکی تھی۔ا س کی زبان میری زبان سے ٹکرا رہی
تھی۔ ابھی یہ سب جاری ہی تھا کہ اچانک اس کے بچے کے رونے کی آواز آئی۔ میں تلملا
گیا۔لیکن خیر وہ سب چھوڑ کے ادھر بھاگی۔ اپنے بچے کو لے کر وہ ادھر ہی آ گئی۔ اس
نے بچے کامنہ اپنے ایک ممے سے لگا رکھا تھا۔ بچہ آنکھیں بند کیے بڑے مزے سے اس کا
دودھ پی رہا تھا۔ یہ نظارہ مجھے بہت پسند تھا۔ ہمارے گولے میں تو عورتیں صرف
تنہائی میں ہی بچوں کو دودھ پلا سکتیں تھیں۔ اگر کوئی شخص کسی عورت کو دودھ پلاتے
دیکھ لیتا تو عورت اور مرد دونوں کو سخت سزا ملتی تھی۔ بہرحال وہ آ کر بیڈ پر لیٹ
گئی اور بچے کو بھی ساتھ لٹا کر دودھ پلانے لگی۔ میں اس کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا
اور اس کی چوت کو تھوڑی دیر تک چاٹا۔ پھر میں نے اپنا لن ااس پر رگڑنا شروع کر
دیا۔ وہ مزے سے بے حال ہونے لگی۔ میں نے تھوڑا سا زور لگایا تو لن کی کیپ اندر چلی
گئی۔ اس کی چوت جگو جتنی تو نہیں تنگ تھی لیکن پھر بھی کافی گرم اور مزے دار تھی ۔
میرے اندر ڈالنے سے اس نے ایک ہ بھری۔ میں نے تھوڑا اور زور لگا یا تو لن اور اندر
چلا گیا۔ اس کی ٹانگیں اٹھا کر میں نے کندھوں پر رکھ لیں ااور دھکے سٹارٹ کر دیے۔
کیا مزے دار سین تھا۔ اس کے ممے اس کا بیٹا چوس رہا تھا اور اس کی پھدی میں مار
رہا تھا۔ خیر میں زوردار دھکے مارتا رہا۔ ہر دھکے پر وہ دہل جاتی۔ میرے موٹے تازے
لن سے اسے بہت مزہ ا رہا تھا۔۔ کچھ دیر بعد بچہ سو گیا تو اس نے مجھے کچھ دیر رکنے
کو کہا ااور وہ بچے کو دوسرے کمرے میں ڈال آئی۔ میں نے کہا: اب تو بچے نے بھی جی
بھر کے دودھ پی لیا ہے ۔ اب مجھے بھی پینے دو نہ اور پھر میں صرف ایک ممے سے پیوں
گا۔ دوسرے کا دودھ اس کیلئے رکھ لینا۔ اس نے اپنے ایک ہاتھ سے اپنے ایک بوب کی نپل
کو دبایا تو تھوڑا سا دودھ باہر نکل آیا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
میں بہت خوش ہوا۔ اب میں یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح
اس کو چود نے کے ساتھ ساتھ اس کے ممے بھی چوس سکوں۔مجھے ایک آئیڈیا آیا۔ میں صوفے
پر بیٹھ گیا۔میں نے اس کو اپنی گود میں اس طرح بٹھایا کہ اس کی ایک ٹانگ نیچے زمین
پر رکھی ہوئی تھی جب کہ دوسری میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے اوپر اٹھا دی۔ اب اس کا
ممہ بالکل میرے منہ کے سامنے تھا۔ میں نے اسے کہا کہ نیچے ہاتھ سے اندر ڈالو۔ اس
نے اپنے ہاتھ سے میرا لن پکڑ کر اپنی چوت میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا ممہ اپنی چوت
میں ڈال لیا ۔ دوسرے ہاتھ سے میں اس کے دوسرے ممے کو دبانے لگا اور اس کی نپل کے
ساتھ کھلواڑ کرنے لگا۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ نیچے سے میں نے دھکے لگانے شروع کر
دیے تھے۔ اس طرح اگرچہ لن پورا اندر تو نہیں جا رہا تھا لیکن مزہ بہت آ رہا تھا۔
رادھا بھی ڈبل مزے سے بے حل ہو رہی تھی۔ میرے شدید دھکوں سے پورا صوفہ ہل رہا تھا۔
2، 3 منٹ بعد وہ ایک مرتبہ پھر چھوٹ گئی۔ میں لگا رہا۔ اب میں نے ایسے ہی اس کو
اٹھایا اور بیڈ پر لا کر گھوڑی بنا دیا اور پیچھے سے اسا کی پھدی میں لن ڈالنے
لگا۔ تنے میں میری نظر اس کی گانڈ پر گئی۔ میں نےاس کی گنڈ کو سہلانا شروع کر دیا جو
بہت نرم اور گوشت سے بھرپور تھی۔ میں نے اس کی گانڈ کے سوراخ کو انگوٹھے سے
سہلایا۔ اسے اور بھی مزہ آنے لگا ۔ پھر میں بولا: تمھاری گانڈ بہت پیاری ہے۔ کیا
پہلے کبھی اس میں کیا ہے؟ وہ بولی : ہاں بس ایک دو دفعہ میرے پتی نے زبردستی کیا
تھا۔ بہت درد ہوتی ہے۔ میں بولا: میں بھی کروں گا۔ لیکن درد نہیں ہونے دوں گا۔ اس
نے اانکار کیا۔ میں نے سے چھوڑا اور تیل کی شیشی لے آیا اور کافی سارا تیل اس کی
گانڈ پر انڈیل دیا۔ پھر میں نے اپنا لن تو اس کی چوت میں ڈال دیا اور چودائی سٹارٹ
کر دی لیکن ساتھ ہی میں نے اپنے ہاتھ سے اس کی گانڈ کے سوراخ کو تیل سے چوپڑنے
لگا۔ میں نے تیل اس کی گانڈ کے اندر ڈال دیا اور ایک انگلی سے اس کے سورخ کو اندر
سے تیل لگانے لگا۔ میری ایک انگلی کو وہ آسانی سے برداشت کر گئی۔ پھر میں نے دو
انگلیوں کو تیل لگایا اور اس کی گانڈ میں داخل کر دیں۔ اب کی بار س نے ہلکی سی چیخ
نکالی اور تھوڑا ہلنے جلنے لگی۔ میں نے انگلیاں نکال کر اور تیل میں چوپڑیں اور
دوبارہ سے اس کی گانڈ میں ڈال کر اند ر باہر کرنے گا۔ اب اس کو درد نہ ہوا ور مزہ
آنے لگا۔ کافی دیر سی طرح کرنے کے بعد میں نے پھر تین انگلیاں ڈال دیں۔ جب وہ بھی
رواں ہو گئیں تو میں نے اب آگے بڑھنے کا سوچا اور لن اس کی پھدی سے نکال کر اس کی
گانڈ پر رگڑنے لگا۔ میں نے کافی سارا تیل اپنے لن پر بھی لگایا اور لن کو گانڈ کے
سوراخ پر فٹ کر کے آہستہ آہستہ اندر کرنے لگا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے درد نہ ہو
بالکل ۔ بالکل آرام آرام سے لن اندر جا رہا تھا، جیسے ہی لن کی ٹوپی اندر گئی، اس
نے ایک آہ بھری اور بولی : درد ہو رہا ہے۔ میں نے کہا : کچھ نہیں ہوتا۔ میں نے لن
وہیں روک دیا اور اس کی پھدی کو مسلنا شروع کر دیا اور دو انگلیاں اس کے اندر باہر
کرنے لگا جس سے اسے مزہ آنے لگا۔ میں نے پھر ساتھ ساتھ اس کی گانڈ میں لن کی حرکت
شروع کر دی۔اب کی بار وہ بس ہلکے سے کسمائی۔ میں نے آرام آرام سے لن کو حرکت دینی
جاری رکھی۔ اب آہستہ آہستہ لن رواں ہو رہا تھا۔ میں نے کچھ دیر ایسے ہی جاری رکھا
اور پھر لن باہر نکال کر چوت میں ڈال دیا۔ کچھ دیر اس کی پھدی میں ڈالنے کے بعد
میں نے لن پھر باہر نکال لیا اور اس پر کافی سارا تیل لگا کر پھر اس کی گانڈ میں
ڈال دیا۔ اب کی بار اسے درد نہ ہوئی۔ میں نے رفتار بڑھا دی۔ وہ آہیں بھرنے لگی۔
سسکاریاں لینے لگی۔ میں نے کہا: کیا درد ہو رہا ہے ؟ بولی : نہیں اب نہیں ۔ اب تو
مزہ آ رہا ہے۔ ساتھ ساتھ چوت کو بھی چھیڑتے رہو۔ میں نے کہا: جو حکم میری جان۔ پھر
میں نے اس کی چوت کے دانے کو بھی مسلنا شروع کر دیا جو کہ سرخ ہو رہا تھا۔ میں نے
اپنے دھکوں کی رفتار بڑھا دی۔ اس کی گانڈ بہت ٹائیٹ اور گرم تھی۔ مجھے یوں لگ رہا
تھا جیسے کوئی نرم گرم چیز میرے لن کو ٹکور دے رہی ہو۔ میں اب مزے کی انتہا پر
تھا۔ میں نے دھکے اور تیز کر دیے۔ کچھ دیر بعد مجھے لگا کہ میں جیسے چھوٹنے والا
ہوں۔ میں نے پوچھا کہ اپنا پانی کہاں نکالوں۔ بولی : جہاں مہاراج کا دل کرے۔ میں
نے لن اس کی پھدی میں ڈال کر زور سے دھکے لگانے شروع کر دیے۔ ساتھ ساتھ اس کے
چھولے کو بھی مسلتا رہا۔اچانک اس کا بدن ایک بار پھر کانپا اور اس کی پھدی نے پھر
اپنا پانی چھوڑ دیا۔ میرے لن پر جیسے کسی نے نیم گرم پانی انڈیل دیا ہو۔ میری
رفتار اور تیز ہوئی۔ پچ پچ کی آوازیں کمرے میں گونج رہیں تھیں۔ وہ گھوڑی بنی بنی تھک
چکی تھی اور اس کی ٹانگیں کانپ رہیں تھیں۔ کچھ دیر بعد ہی میرے لن نے بھی جھٹکا سا
لیا اور میں نے اپنی منی اس کی چوت میں ہی چھوڑ دی اور اس کے اوپر ہی ڈھے گیا ۔ وہ
بھی اب بہت تھک چکی تھی اس لیے ویسے ہی گر گئی۔ کچھ دیر ہم یوں ہی پڑے رہے ۔ پھر
میں اٹھا اور اپنا لن باہر نکا ل لیا۔ میں واش روم گیا اور اسے دھو کر کپڑے پہن
لیے۔ وہ بھی اٹھی اور صفائی کر کے کپڑے پہن لیے۔ اس نے کمرے کی حالت درست کی۔ میں
اب بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اس نے میرے گھٹنوں
پہ اپنا سر رکھ دیا۔ میں پریشان ہو گیا۔ میں نے اسے اٹھایا اور کہا: ارے ارے یہ
کیا کر رہی ہو۔ بولی: زندگی میں پہلی بار میں اپنے آپ کو مکمل محسوس کر رہی ہوں ۔
اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہے۔ میں نے کہا : مزہ آیا کہ نہیں۔ بولی : مزے کی تو انتہا
ہو گئی۔ جب منے کے ابا نے پیچھے سے ڈالا تھا تو میں پوری رات درد سے روتی رہی۔ پر
آج تو ،،،،،،۔۔۔بس نہ پوچھو۔ میں آپ کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہوں ۔ آپ کے ایک حکم پر
اپنی جان دے سکتی ہوں۔ میں نے کہا بس اور کچھ نہیں۔ آج کے کام میں ہماری مدد کرنا
اور میرے بعد جگو میم کا خیال رکھنا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے اور پھر وہ اپنے بچے کو لے
کر چلی گئی۔ اب شام کے چھ بج چکے تھے۔ کچھ دیر بعد بیل بجی اور میں نے جا کر
دروازہ کھولا۔ جگو آئی ہوئی تھی۔ وہ اپنے کسی دوست کی بائیک مانگ کر لائی ہوئی
تھی۔ اس نے کہا کہ آؤ چلیں۔میں تو پہلے ہی تیار تھا۔ ہم نے نقلی لاکٹ اٹھا یا اور
چل دیے۔ میں نے اسے اپنی پینٹ کی جیب میں ڈال لیا۔ جلد ہی ہم مندر کے گیٹ پر پہنچ
گئے۔ پریس کارڈ دکھانے پر گیٹ والوں نے کچھ کہے بغیر ہمیں اندر جانے دیے۔ اندر جا
کر دیکھا تو خوب گہما گہمی تھی۔ لوگ مسلسل آ جا رہے تھے۔سات بجے تقریب کا باقاعدہ
آغاز ہونا تھا۔ جگو نے بتایا کہ وہ منکا یہاں پہنچ چکا ہے لیکن ہم اسے رات 11 بجے
ہی حاصل کریں گے۔ ہم نے اچھی طرح جائزہ لیا۔ ایک ایک چیز کا۔ مندر کے اندر کوئی
خاص سیکیورٹی نہیں تھی۔بس رضاکارانہ طور پر کچھ لوگ عوام کو کنٹرول کر رہے تھے۔
ایک بڑے ہال میں جو کم از کم 2 ایکڑ کا ہو گا اس میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا
اور لوگ جوق در جوق ادھر جا رہے تھے۔ ہم نے اس راستے کا بھی معائنہ کیا جہاں سے شو
جی کا منکا سٹیج پر لایا جانا تھا اور پھر واپس سیف میں رکھنے کیلئے لے جایا جانا
تھا۔ کچن والے حصے میں ہمیں رادھا بھی نظر آئی لیکن ہم نے اس سے کوئی بات نہ کی۔
ہم اس منکے والے روم کی طرف گئے جہاں وہ سیف تھی تو 2 آدمیوں نے ہمیں روک لیا اور
بولے کہ اس طرف آنا منع ہے ۔ یہاں صرف پنڈت ہی آ سکتے ہیں۔ ہم نے اثبات میں سر
ہلایا۔ سات بجے تقریب کا آغاز ہوا۔ جگو مجھے ہدایات دے کر خود کوریج کرنے چلی گئی۔
اپنے پریس والوں کے پاس۔ مجھے اب کوئی خاص کام تو تھا نہیں۔ میں نے ادھر اُدھر
پھرنا شروع کر دیا۔ میں بھی حال میں پہنچ گیا لیکن ایک ایسی جگہ کھڑا ہوا جہاں سے
مجھے نکلنے میں آسانی ہو۔ اب میرا کام صرف یہ تھا کہ میں سلام لینے کے بہانے کسی
طرح تپسوی سے پاسورڈ معلوم کروں۔ میں حال میں موجود تھا کہ مجھے اپنے پاس سے لوگوں
کی آوازیں سنائی دیں۔ کچھ لوگ باتیں کر رہے تھے۔ یار جب تپسوی جی آئیں تو پہلے ہی
آگے ہو جانا۔ ہر دفعہ ان کے ہاتھوں کا بوسہ لینے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دوسرا بولا
: سنا ہے آج تپسوی جی کسی سے مصافہ نہیں کریں گے۔ دوسرا بولا : ہو بھی سکتا ہے ۔
رش ہی اتنا ہوتا ہے۔ آخر وہ کس کس سے ہاتھ ملائیں۔ اور پھر ابھی ان کے ہاتھوں کو
چھوا ہی نہیں کہ پیچھے سے ان کے جانشین آگے بڑھنے کا کہتے ہیں۔ دوسرا بولا: ہاں ۔
میں نے سنا ہے کہ و ہ کل مجلس لگائیں گے۔ جس جس نے ان سے ملنا ہو یا انہیں پرنا م
کرنا ہو وہ کل آئے گا۔ جیسے جیسے ان کی باتیں ہو رہی تھیں میری پریشانی میں اضافہ
ہو رہا تھا۔ مجھے اپنا منصوبہ ناکام ہوتا نظ ر آ رہا تھا۔ کیونکہ اگر مجھے کوڈ کا
پتا نا چل سکتا تو میں سیف کھول کر اپنا لاکٹ نہیں نکال سکتا تھا۔ میں نے جگو سے
مشورہ کرنے کا سوچا۔میں ہال سے باہر نکل آیا اور اسے تلاش کرنے لگ پڑا۔ اچانک مجھے
وہی گنجے سر والا تپسوی ایک جانب جاتا نظر آیا ۔ اس کے ساتھ اس کے کچھ خاص چیلے
اور گارڈز تھے۔ میں بھی فوراً ادھر لپکا۔ تپسوی جی ایک گیلری میں داخل ہوئے اور
پھر ایک کمرے میں چلے گئے۔ میں نے گیلری میں جانا چاہا تو کچھ لوگوں نے مجھے روک
لیا اور بولے ۔ اس طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ کوئی ترکیب
لگانی پڑے گی ورنہ کام نہیں بنے گا۔ میں نے فوراً مسکینی صورت بنا لی اور لجاجت سے
بولا: مہاراج میرا تپسوی جی سے ملنا بہت ضروری ہے۔ بہت دور سے آیا ہوں۔ بولے :
تپسوی جی سے تو ہر کوئی ملنا چاہتا ہے تو کیا سب کو ادھر بھیج دیں چل بھاگ یہاں
سے۔ میں نے کہا : پلیز کچھ کریں۔ میرا ملنا بہت ضروری ہے۔ میں کچھ بھی کرنے کیلئے
تیار ہوں۔ بولے اچھا چل پھر پہلے ہم تیری تلاشی لیں گے۔ تیرے پاس اگر کچھ ملا تو
ہم جانے دیں گے ورنہ نہیں۔ اتفاق سے میرے پاس 2 ہزار روپیہ تھا جو جگو نے مجھے دے
رکھا تھا۔ تلاشی کے دوران وہ انہیں ملا اور انہوں نے رکھ لیا۔ لاکٹ میں نے پہلے ہی
ایک خفیہ جیب میں ڈال لیا تھا۔ میں آگے بڑھا۔ دروازے پر ایک اور ہٹا کٹا بندہ کھڑا
تھا۔ اس نے پھر مجھے روک لیا۔ میں نے اسے بھی منت ترلا کیا پر وہ نہ مانا۔ اب تو
میرے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔ وہ بولا: تپسوی جی آرام کر رہے ہیں۔ تم ابھی اندر
نہیں جا سکتے۔ پر میں اس کے خیالات پڑھ کہ یہ جان چکا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
تپسوی اندر ویلا بیٹھا پیٹ پوجا کر رہا تھا۔ میں پریشانی کی حالت میں وہاں کھڑا
تھا۔ میری مایوسی بڑھتی جا رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ شاید آج میں اپنا منکا
حاصل نہ کر سکوں ۔ اچانک میں نے کسی کو دیکھا۔ میری آنکھوں میں امید کے چراغ جل
اٹھے۔ مجھے لگا جیسے میرا وطن مجھے بلا رہا ہے اور میں بس پہنچنے والا ہوں۔ مجھے
نطر آنے والا شخص کوئی اور نہیں وہی پنڈت تھا جس کے ساتھ مل کر میں ایک گرما گرم
چودائی کر چکا تھا اور وہ میرا کانا بن چکا تھا کیونکہ میں نے اسے مندر کی حدود
میں چودائی کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ جی ہاں وہ وہی پنڈت تھا۔ میں نے فوراً اسے
آواز دی۔ وہ آیا تو میں نے لجاجت سے کہا : پنڈت جی مجھے تپسوی جی سے بہت ضروری کام
ہے۔ پلیز انہیں کہیے نہ اندر جانے دیں۔ ساتھ ہی اسے تھوڑی آنکھیں بھی دکھائیں۔ وہ
فوراً سمجھ گیا۔ میں اندر داخل ہو گیا۔ تپسوی جی ایک خوبصور ت داسی سے پنے کندھے
اور کمر دبوا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے ہاتھ میں مرغے کی ران تھی جسے وہ
بھنبوڑ رہے تھے۔ایک طرف شراب کی ایک بوتل بھی پڑی تھی اور ایک طرف ان کا ایک خاص
جانشین بھی بیٹھا تھا۔ میں جاتے ہی تپسوی جی کے قدموں میں گر گیا اور ان کے قدموں
کو چھو کر خیالات ٹرانسفر کرنے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ بولتا رہا: تپسوی جی! میری مدد
کریں۔ میری زندگی برباد ہونے کے قریب ہے۔ تپسوی نے مجھے اٹھانا چاہا لیکن میں نہ
اٹھا۔ میں بڑی تیزی سے خیالات کو پڑھ رہا تھا ساتھ میں بولا: تپسوی جی ہمارے
خاندان میں کسی کو بچہ نہیں ہو رہا۔ میری بیوی چار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک بے
اولاد ہے۔ میری دو بہنیں بھی بے اولادی کے طعنے سن سن کر واپس میکے آ گئیں ہیں۔
میرے جیجوں نے بھی طلاق کی دھمکی دے دی ہے۔ ابھی ایک بہن کی شادی نہیں ہوئی۔ اس
کیلئے بھی کوئی رشتہ نہیں آتا۔ سب ہمیں منحوس سمجھتے ہیں۔ کچھ کریے مہاراج۔ مجھے
برباد ہونے سے بچا لیجئے۔ ہر جگہ علاج کروا چکے ہیں۔ اب تپسوی جی نے مجھے اٹھانا
چاہا تو میں اٹھ گیا۔ اس نے مجھے سامنے بٹھا لیا اور بولا: مجھے تمھاری بات پر بہت
افسوس ہوا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک ہاتھ سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ کو
ہوا میں لہرایا تو اچانک اس میں پرساد آ گیا۔ پر میری تیز نظروں سے اس کی یہ مکاری
بچ نہ سکی۔ اس نے ہاتھ ہوا میں بلند کر کے اپنے انگوٹھے کو اپنی ایک انگلی کی جڑ
میں دبایاا تھا جس سے شاید کوئی بٹن دبا ہو گا اور ایک لڈو تیز ی سے اس کے بازو کے
اندر سے نکل کر اس کے ہاتھ پر آ گیا۔ شاید کوئی خود کار سسٹم تھا۔ لیکن یہ سب اتنی
تیزی سے ہوا تھا کہ شاید میرے علاوہ کوئی اور اس کی حقیقت نہ سمجھ پاتا بہرحال
تپسوی نے وہ مجھے دیا اور بولے جاؤ یہ جا کر اپنے خاندان کو کھلا دینا اور پھر کچھ
دیر تک آنکھیں بند کر کے ہوا میں سر ہلاتے رہے اور ہوں ہاں کرتے رہے پھر بولے
پربھو نے فرمایا ہے کہ جو ہدیات دی جائیں عمل کرو۔ ہمالیہ کی پہاڑیوں کے پاس شو جی
کا ایک خاص مندر ہے۔ وہاں ایک چلہ لگا آؤ۔ وہاں جو بھی گیا ہے کبھی خالی ہاتھ نہیں
آیا۔ تمہارے گھر پر ایک خاص سایہ ہے۔ تم اپنی بہنوں کو ہمارے آشرم چھوڑ دینا ایک
ماہ کیلئے۔ اس دوران میں اس سایہ کو ہٹانے کی کوشش کروں گا۔ پربھو کی کرپا سے سب
دکھ درد دور ہوں گے۔ بم بم بولے ۔ پربھو کی جے ہو۔ اب جاؤ۔ میں پربھو کی جے ہو
پربھو کی جے ہو کے نعرے لگاتا باہر آ گیا۔ پنڈت کے خیالات پڑھ کر میرے تن بدن میں
آگ لگی ہوئی تھی۔ جب میں نے اپنی بہنوں کا ذکر کیا تھا تو سالے کا لن تن گیا تھا
یہ مجھے اس کے خیالات پڑھنے سے پتا چلا۔ اس کے پاس اگر کوئی مرد یا کوئی بوڑھی
عورت آتی تو وہ اسے دور کسی مندر میں لمبے چلے کا کہ دیتا اور اگر کسی خاتون کا
مسلہ ہوتا تو وہ اسے اپنے آشرم میں دس دن یا چلہ لگانے کا کہتا۔ چلا لگانے کے
دوران وہ کسی نہ کسی طرح اس عورت کو چود ہی لیتا تھا۔ آج تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ
کوئی عورت اس کے آشرم میں آئی ہو اور چدے بغیر چلی گئی ہو۔ اس کے پاس ایک خاص
مشروب بھی تھا جسے پینے کے بعد عورت اپنے آپ میں نہیں رہتی اور لن کی طلب میں بے
خود ہو جاتی ہے۔ جب میں نے ایک کنواری بہن کا ذکر کیا تو اس نے دل میں سوچا ۔ واہ
کتنے دن بعد ایک کنواری پھدی ملے گی۔ اس کے علاوہ آج رات کیلئے بھی اس کیلئے دو
خاص لڑکیوں کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس نے اسی کمرے میں ان کے ساتھ رات گزارنی
تھی۔ ان میں سے ایک کوئی ابھرتی ہوئی ماڈل بھی تھی۔ ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی پتا چلا
کہ تپسوی ااپنے آشرم میں امراء اور حکام کو بلاتا تھا۔ لڑکیوں کے ساتھ انہیں رات
گزارنے کا موقع دیتا اور ان کی ریکارڈنگ بنا کر بعد میں انہیں بلیک میل کرتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ ہر محکمے پر اس کا کنٹرول تھا۔ ٌ میں اب سوچ رہا تھا کہ کسی طرح اس
تپسوی کا بیڑا بھی غرق کیا جائے۔ بہرحال رات 9 بجے تپسوی جی آئے سٹیج پر اور میرا
وہ لاکٹ بھی سٹیج پر لایا گیا۔ تپسوی کوئی بھاشن وغیرہ دے رہا تھا ساتھ ساتھ یہ
بھی بتا رہا تھا کہ اس منکے کو حاصل کرنے کیلئے اس نے کتنے کٹھن چلے کیے اور جوکھم
اٹھائے ہیں۔ 10 بجے بھاشن ختم ہوا۔ دو لوگ اس لاکٹ کو اٹھا کر ایک طرف لے گئے۔
تپسوی جی بھی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے دیکھا کہ اب حال میں مشروب پلایا جا
رہا تھا۔ ساتھ کھانا وغیرہ بھی تقسیم کیا جا رہا تھا۔ مشروب میں جو دوائی ملائی
گئی تھی اس کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا تھا۔ تقریباً ساڑھے دس بجے لوگوں نے سونا شروع
کر دیا۔ میں نے اب حرکت میں آنے کا فیصلہ کیا۔ جگو بھی ایک طرف مجھے نظر آئی۔ میں
اس کی طرف بڑھا۔ اس کے قریب پہنچ کر میں نے کہا : ہاں ۔ کوئی مسلہ تو نہیں ۔ بولی
نہیں۔ کوئی مسلہ نہیں۔ ہم اس لاکٹ والے کمرے کی طر ف گئے۔ پہلے جگو آگے گئی۔ اس
کمرے کا دروازہ ایک گیلری میں تھا۔ جگو نے مجھے پیچھے ہی رکنے کا کہا۔ کچھ دیر بعد
میں نے دیکھا کہ جگو ایک آدمی کو لے کر ایک طرف جا رہی ہے۔ اس نے مجھے ابھی وہاں
رکنے کو ہی کہا ۔ کچھ دیر بعد وہ پھر آئی اور گیلری میں چلی گئی۔ اب وہ واپس آئی
تو اس کے ساتھ دوسرا آدمی تھا۔ اب کی بار اس نے مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ میں
آگے بڑھا۔ اس کمرے کا دروازہ بھی لاک تھا۔ میں نے اس کو بھی پاسورڈ سے کھولا۔ اگے
صرف یک بڑی ساری سیف تھی۔ میں نے اس کا پاسورڈ لگایا۔ مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ
کوئی آ نہ جائے۔ سیف کھل گئی۔ میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ میرے سامنے میرا لاکٹ پڑا
تھا۔میں نے جلدی سے اسے اٹھایا اور اس کی جگہ نقلی رکھ دیا۔ اچانک میری نظر نچلے
خانے میں پڑی۔ وہاں ہزار ہزار کے نوٹوں کی کئی گڈیاں پڑیں تھیں۔ ساتھ کافی سارا
سونا بھی پڑا تھا۔ میں نے دو گڈیاں اٹھا لیں اور ساتھ ایک بڑا سرا سیٹ سونے کا اور
اسے جیب میں ڈال لیا۔میں واپس آ گیا اور کمرے کو تالہ لگا دیا ویسے ہی جیسے وہ
پہلے تھا۔میں بہت خوش ہو رہا تھا۔ ابھی میں گیلری سے نکل ہی رہا تھا کہ اچانک ایک
آواز نے میرے قدم روک لیے۔۔ ٹھہرو! کون ہو تم ؟ یہاں کیا کر رہے ہو۔۔؟ میرے پسینے
چھوٹ گئے۔ میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی اور۔۔۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ ایک
ہٹا کٹا مسٹنڈا تھا جو شاید تپسوی کے پہرے داروں میں سے ایک تھا۔ حیرت و پریشانی
سے میری زبان بند تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا بولوں کہ اچانک ایک طرف سے رادھا
بھاگتی ہوئی آئی اور مجھے سے لپٹ کر کہنے لگی ۔۔ بھگوان کا شکر ہے آپ مل گئے ۔
میرے سرتاج۔ میں تو بہت پریشان تھی۔ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا آپ کو ۔ پھر وہ پہرے
دار سے بولی کہ ان کی ذہنی حالت کچھ خراب ہے۔ ہم یہاں پراتھنا کیلئے آئے تھے لیکن
یہ رش کی وجہ سے بچھڑ گئے۔ پہرے دار بھی سمجھ گیا اور آگے بڑھ گیا۔ ہم بھی ایک طرف
بڑھے۔ مندر کے گیٹ کے قریب جگو بھی ہم سے آ ملی ۔ مندر سے باہر نکلنے میں ہمیں
کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ کوئی خاص گارڈ موجود نہیں تھا۔ باہر آ کر جگو نہ ایک کار
کی طرف اشارہ کیا جو غالباً وہ کسی دوست سے مانگ کر لائی تھی۔اچانک مجھے کچھ یاد
آیا۔ میں نے اپنا لاکٹ اسے دیا اور کہا کہ اپنا کیمرہ مجھے دو۔ وہ ہر وقت ایک
چھوٹا سا ڈیجیٹل کیمرہ اپنے پاس رکھتی تھی تاکے کسی بھی خاص موقعے یا واقعے کو شوٹ
کر سکے۔ اس نے حیرانی سے مجھے دیکھا۔ میں نے کہا کہ تم لوگ جاؤ میں گھنٹے تک گھر پہنچ
جاؤں گا۔ جگو مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں تھی۔ وہ بار بار پوچھ رہی تھی کہ کیا کام
ہے۔ ہم ویٹ کر لیتے ہیں پر میرے اصرار کے آگے اس کی ایک نہ چلی اور ان کو جانا ہی
پڑا۔ میں پھر مندر میں داخل ہوا۔ اب مجھے کوئی ڈر نہیں تھا۔ ایک دو افراد نے پوچھا
بھی کہ واپس کہاں جا رہے ہو تو میں نے کہا کہ میں اپنا پرس واش روم میں بھول آیا
ہوں وہ لینے جا رہا ہوں۔ پھر میں اس طرف بڑھا جہاں تپسوی کا کمرہ تھا۔کمرے کے قریب
پہنچ کر میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اب بارہ بجنے والے
تھے۔ لگتا تھا کہ پہرے دار بھی کہیں آرام کر رہے ہوں گے۔ بہرحال میں نے اپنے کان
دروازے کے ساتھ لگا دیے اور اندر کی آوازیں سننے کی کوشش کرنے لگا۔ اندر سے ہلکی
ہلکی آہوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ مجھے فوراً سمجھ آ گئی کہ اندر چودائی چل رہی
ہے۔ میں کسی طرح سوچنے لگا کہ کہاں سے ریکارڈ کروں۔ آخر کار مجھے ایک روشن دان نظر
آیا۔ جو کافی بلند تھا اور اس میں لوہے کے سریے بھی لگے ہوئے تھے۔میں کوئی ایسی
چیز ڈھونڈنے لگا جس سے اوپر پہنچ سکوں۔ ساتھ والے کمروں کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔
کافی آگے جا کر مجھے ایک ایسا کمرہ نظر آیا جو شاید کاٹھ کباڑ رکھنے کیلئے استعمال
ہوتا تھا۔ میں نے ایک میز کا انتخاب کیا جو اوپر سے تھوڑی سی ٹوٹی ہوئی تھی لیکن
میرے لیے قابلِ استعمال تھی۔ اسے اٹھا کر میں تپسوی کے دروازے کے پاس لایا اور
روشن دان کے نیچے رکھ کے خود اوپر کھڑا ہو گیا ور روشن دان سے اندر کا منظر دیکھنے
لگا۔ واہ کیا نظارہ تھا۔ ایک خوبصورت لڑکی گھوڑی بنی ہوئی تھی اور تپسوی پیچھے سے
دھکے لگا لگاا کر اس کی چودائی کر رہا تھا جبکہ ایک لڑکی تپسوی کے لن کے عین نیچے
لیٹی اس کے ٹٹے چوس رہی تھی۔ میں نے فوراً کیمرہ نکالا ااور ریکارڈ کرنا شروع کر
دیا۔ ایک تو کمرے میں بھی کافی لایئٹ تھی اور دوسرا وہ کیمرہ بھی اسی طرز میں
بنایا گیا تھا کہ رات کے وقت بھی فلیش لائیٹ کے بغیر اچھی طرح سے ریکارڈنگ کر سکے۔
کیمرہ اندر کے مناظر ریکارڈ کرنے لگا۔ میں نے خاص طور پر تپسوی کے چہرے پر فوکس
رکھا۔ بہرحال آدھا گھنٹاا مزید چودائی چلی۔ تپسوی نے ہر طریقے سے سیکس کیا۔ خاص
طور پر سے ٹٹے چسوانے کا تو بہت شوق تھا۔ پھر اس نے ایک لڑکی کی گانڈ میں ہی اپنی
منی چھوڑ دی اور وہیں لیٹ گیا۔ میں نے کیمرہ بند کیا اور جلدی سے اتر کر میز کو
واپس اسی جگہ پر رکھا اور باہر چل دیا۔ کچھ دیر بعد میں جگو کے گھر کی بیل دے رہا
تھا۔ جگو نے دروازہ کھولا۔ رادھا جا چکی تھی۔ جگو نے فوراً مجھے گلے لگا لیا اور
بولی کہاں رہ گئے تھے تم۔ میں نے بھی اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے کہا کہیں نہیں
میری جان ۔ تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ ہم اندر آ گئے ۔ اس نے دروازہ لاک کیا۔
بولی: کیا سرپرائز ہے۔ میں نے کہا کہ منہ دوسری طرف کر اور آنکھیں بند کرو۔ اس نے
ایسا ہی کیا تو میں نے اس کی گردن کے پاس سے اس کے بال ہٹائے اور وہ سونے کا سیٹ
جو میں نے سیف سے اٹھایا تھا وہ س کے گلے میں باندھ دیا۔ پھر اسے آنکھیں کھولنے کا
کہا اور اسے شیشے کے سامنے لے آیا۔ وہ بڑی حیرت سے اپنے گلے میں موجود لاکٹ کو
دیکھ رہی تھی۔ پھر بولی : یہ کیا ہے؟ اور کہاں سے ملا؟ میں نے کہا : جہاں سے بھی
ملا ہو بس پلیز اسے میرا تحفہ سمجھ کہ رکھ لو۔ اس نے انکار کرنا چاہا لیکن میں نے
اس کو بولنے سے روک دیا ہاتھ سے نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اپنے ہونٹوں سے۔ وہ کچھ کہنا چاہتی
تھی لیکن کہ نا پائی۔ کچھ دیر بعد ہم الگ ہوئے تو بولی: شکریہ پر میں نے کبھی زیور
نہیں پہنے اور نہ مجھے شوق ہے ۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ تم بیچ کر اچھی سی
بائیک لے لینا۔ پھر اس نے کہا کہ کیمرہ کیوں لے گئے تھے۔ تو میں نے ساری بات
بتائی۔ وہ بڑی حیرانی سے تپسوی کے کارنامے سنتی رہی۔ باتوں باتوں میں 2 بج گئے۔ وہ
بولی : اب سو جاتے ہیں صبح بات کریں گے اس موضوع پر۔ اس نے تپسوی واالی ویڈیو ایک
دو جگہ سیو کی اور ہم سو گئے۔ صبح میں جلدی اٹھ گیا۔ میں نے فوراً جگو کا موبائل
اٹھایا اور اپنی ایک ریکارڈنگ بنانے لگا جس میں نے اس سے کہا کہ تم نے جو میرے لیے
کیا ہے میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ تمھارے احسانات کا بدلہ تو میں نہیں چکا سکتا
لیکن ایک چھوٹا سا تحفہ ضرور دینا چاہتا ہوں۔ یہ کہ کر میں نے وہ ہزر ہزار والی
گڈیاں نکالیں جو کم از کم 4، 5 لاکھ روپیا تو ضرور تھا وہ میں نے ایک الماری کے
اوپر والے خانے میں رکھ دیے اور اس کی بھی ویڈیو بن دی تاکے جگو آسانی سے دیکھ
سکے۔ پھر میں نے موبائل دوبارہ وہیں رکھ دیا اور جگو کو اٹھا دیا کیوں کہ 10 بج
چکے تھے۔
پی کے از رانا پردیسی
جگو نے میرے اٹھانے پر اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اس نے مجھے ایک پیار
بھرا کس دیا اور ناشتہ بنانے لگ گئی۔ ہم نے ناشتہ کیا اور پھر وہ بولی ہاں تو اب
تمہار ا کیا موڈ ہے۔ میں نے کہا : میں اب جانا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا : میری ایک
بات مانو گے پلیز ۔ میں نے کہا : تم جو کہو گی میں وہ کروں گا۔ تم ایک چھوڑ کہ سو
کہو۔ اس نے کہا : تم کم از کم چار دن یہاں رہو ۔ ویسے بھی تمھاری ویڈیوز ابھی ہو
رہیں ہیں۔ ایک آدھ دن تو ان میں ہی لگ جائے گا۔ میں نے کہا :ٹھیک ہے ۔ بات تو
تمھاری بھی صحیح ہے لیکن ایک شرط ہے میری۔ بولی: کیا؟ میں نے کہا : تمہیں بھی میری
ہر بات ماننی پڑے گی ان چار دنوں میں۔ بولی: ٹھیک ہے منظور ۔ میں نے کہا: وعدہ کرو
کے میرے جانے کے بعد تپسوی کے خلاف کام کرو گی اور اسے بے نقاب کرو گی۔ اس نے کہا:
ٹھیک ہے۔ یہ کام تو میں آج سے ہی شروع کر دیتی ہوں۔ اس نے کہا: آج میرا جانا ضروری
ہے۔ کچھ خیر خبر لے آؤں کہ کسی کو کچھ پتا تو نہیں چلا۔ اگلے تین دن صرف تمھارے
لیے۔ میں نے کہا :ٹھیک ہے۔ وہ مجھے لیپ ٹاپ چلا کر دے گئی اور بتا گئی کہ ایسے
ایسے ویڈیوز ڈاؤنلوڈ کرنیں ہیں۔ مجھے ایک ویب سائیٹ کھول کر دے گئی جس کا نام شاید
ایکس آرٹ تھا۔ مجھے یہ سب باتیں اسی نے بتائیں تھیں۔ ورنہ مجھے کیا پتا کہ ویب
سائیٹ کیا ہوتی ہے اور ڈاؤنلوڈ کیا ہوتا ہے۔ بہرحال مجھے جو ویڈیو اچھی لگتی میں
اس کو ڈاؤنلوڈ کر لیتا۔ اس طرح وقت گزرتا گیا کہ پتا ہی نہیں چلا۔ 3 بجے کے قریب
جگو واپس آ گئی۔ اب اس کے ہاتھ میں دو لیپ ٹاپ کے ڈبے تھے۔ وہ رکشہ پہ آئی تھی۔ اس
نے مجھے باقی سامان رکشے سے اٹھانے کا کہا۔ میں ایک بڑا شاپر اٹھا کر لایا تو
دیکھا کہ اس میں کئی 100 کے قریب بیٹریز تھیں جو لیپ ٹاپ میں لگتی تھیں۔ بولی: لو
بھئی تمھارا کام ہو گیا۔ اب بس ڈاؤنلوڈنگ کرنی ہے۔یہ کہہ کر اس نے دونوں لیپ ٹاپ
چلا دیے۔ اور پھر اس کے لیپ ٹاپ میں میں نے جو ویڈیوز کی تھیں وہ بھی ان نئے آنے
والے لیپ ٹاپس میں کرنے لگی۔ وہ ساتھ ساتھ مجھے سمجھا بھی رہی تھی کہ کیسے چلانا
ہے۔ اور باقی بھی موٹے موٹے فنکشنز۔ میرا دماغ چونکہ عام زمینی انسانوں سے زیادہ
تیز تھا اس لیے میں بخوبی سمجھ رہا تھا۔ پھر اس نے دونوں لیپ ٹاپس ڈاؤنلوڈنگ پر
لگا دیے اور میرے ساتھ گپ شپ کرنے لگی۔ بولی: میں نے اس ویڈیو کی کاپی ایک خاص
آدمی کو دے دی ہے۔ وہ بہت ایماندار ہے۔اس نے وعدہ کیا ہے کہ تپسوی کے آشرم پر ہونے
والے گھناؤنے کاموں کو وہ بے نقاب کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ تپسوی کا پتہ جلد ہی کٹ
جائے گا۔ پھر اسی طرح باتیں کرتے رہے وہ مجھ سے پوچھتی کہ تم مجھے بھول تو نہیں
جاؤ گے۔ خیر اسی طرح باتیں چلتی رہیں۔ پھر اس نے کہا کہ آؤ کہیں باہر چلتے ہیں۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔اس نے ایک دوست سے بائیک لی ۔ پھر ہم نکل کھڑے ہوئے۔اس نے مجھے
پورے ممبئی کی سیر کروائی۔ ہم ایک کیفے گئے پہلے۔اس کا نام تھا کیفے مونڈیگر۔ وہاں
ہم نے کھانا کھایا۔ پھر اس نے مجھے اوربھی کئی پارکوں کی سیر کرائی۔ ان میں سے ایک
پارک تو مجھے بہت اچھا لگا۔ اس کا نام تھا جوزف بیپٹسٹا پارک۔ وہاں بھی ہم کافی
گھومتے پھرتے رہے۔ جگو مجھے کچھ اداس اداس لگ دہی تھی۔ ہم ایک بینچ پر بیٹھ
گئے۔میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پوچھا جگو کیا بات ہے۔ تم بہت
اداس ہو۔ ابھی یہ پوچھا ہی تھا کہ اس کا ہاتھ تھامنے کی وجہ سے اس کے خیالات خود
بخود میرے ذہن میں آ گئے۔ وہ سرفراز کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کیونکہ اس نے سوچا
تھا کہ کبھی وہ سرفراز کے ساتھ ان جگہوں پر آیا کرے گی۔ لیکن سرفراز اسے چھوڑ گیا۔
بہرحال زبان سے تو صرف اس نے اتنا ہی کہا کہ نہیں کوئی بات نہیں ۔ ویسے ہی۔ پھر ہم
واپس آگئے۔ گھر آ کر جگو نے لیپ ٹاپس چیک کیے تو ساری ویڈیوز ہو چکیں تھیں جو وہ
لگا کر گئی تھی اس نے کچھ اور لگا دیں اور میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ کھانا تو ہم
باہر سے ہی کھا آئے تھے اس لیے اب ٹینشن کی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے کہا جگو: کیا
دوبارہ سرفراز نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ جگو: نہیں۔ میں : اور تم نے بھی نہیں کیا
کبھی؟ ۔ بولی: نہیں۔ اس نے خود ہی لکھا تھا کہ میں اس سے رابطہ نہ کروں۔ ۔میں نے
کہا : ہو سکتا ہے ایسا نہ ہوا ہو جیسے تم سوچ رہی ہو۔۔ وہ بولی: وہ کیسے؟ میں نے
کہا : ہو سکتا ہے اسے تھوڑی دیر ہو گئی ہو۔ ہو سکتا ہے کوئی مسلہ بن گیا۔ ہو سکتا
ہے اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہو۔ کیا تم نے اس کا پتا کیا۔ جگو میری باتیں سن کر
حیران ہو گئی۔ بولی: میں نے تو اس انداز سے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ میں نے کہا:
تم یہ بتاؤ کہ تمہیں کیسے یقین آ گیا کہ سرفراز نے دھوکا دیا ہے۔ بولی: بس میں نے
اس دن ایک لیٹر پڑھا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ کچھ گھریلو وجوہات پر وہ مجھے نہیں
اپنا سکتا۔ میں نے کہا: پھر اس کے بعد تم نے اس کو ایک بھی کال یا میسج کیا؟ بولی
: نہیں۔۔ میں نے کہا: پھر تم نے صرف ایک کاغذ کے ٹکرے سے کیسے مان لیا کہ سرفراز
نے دھوکا دیا ہے۔۔ وہ بولی: وہ تپسوی جی نے بھوشوانی کی تھی۔ کچھ وہ بھی ذہن میں
تھا۔ میں نے کہا: اس تپسوی کی ماں کی ایسی تیسی ۔ اس کمینے کے کرتوت تو تم دیکھ ہی
چکی ہو۔ کیا وہاں کوئی اور بھی لڑکی تھی۔ اس نے کہا : ہاں ایک تھی تو سہی۔ میں نے
کہا: ہو سکتا ہے وہ لیٹر اس کیلئے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بولی : لیکن۔۔۔۔،،،، میں نے کہا :
لیکن ویکن چھوڑو کسی طرح سرفراز سے صرف ایک بار بات کر لو۔ میری خاطر ۔ پلیز۔۔ وہ
بولی : میں کیسے کروں۔ میرے پاس تو اس کا بیلجیم والا نمبر ڈلیٹ ہو گیا۔ میں نے
کہا جیسے بھی ہو سکے۔ پلیز ابھی کسی طرح رابطہ کرو۔ اس نے یونیورسٹی کا نمبر
ملایا۔ لیکن انہوں نے کوئی بھی اطلاع دینے سے انکار کر دیا۔ پھر اسے یاد آیا کہ
سرفراز تو پاکستان ایمبیسڈی میں کام کرتا تھا۔ س نے وہاں کال کی۔ وہاں اس نے پوچھا
کہ یہاں سرفراز نامی ایک شخص کام کرتا تھا ۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ آگے سے
لڑکی نے کہا کہ: محترمہ آپ انڈیا سے جگو بول رہیں ہیں۔ اس کی حیرت کی تو انتہا نہ
رہی۔ اس نے کہا: ہاں لیکن آپ کو کیسے پتا۔ آگے سے وہ بولی: سرفراز روزانہ پاکستان
سے روزانہ کال کر پوچھتا ہے کہ انڈیا سے کسی جگو کا فون تو نہیں آیا۔ ٹھہریے میں
ابھی آپ کو اس کا نمبر دیتی ہوں۔ یہ کہ کر اس نے نمبر لکھوا دیا۔ جگو نے فون بند
کر دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میں نے اسے گلے سے لگا لیا اور دلاسا
دیا۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سرفراز کے نمبر پر کال ملائی۔ پھر ان کے درمیان
جو مکالمہ ہوا وہ درج ذیل ہے۔ جگو: ہیلو سرفراز: ہیلو ۔۔۔۔تم؟؟؟؟ جگو(سسکتے ہوئے):
سرفراز ۔۔۔ سرفراز: جگو!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے مجھے بھلا دیا۔ کچھ کہے سنے بغیر۔
جگو۔و۔و۔۔و۔۔۔۔وو جگو: میں تمہیں کیسے بھول سکتی تھی سرفراز ۔ ۔۔۔۔۔چھوڑا تو تم نے
مجھے تھا سرفراز۔۔۔۔ سرفراز: میں نے؟؟ ؟؟؟؟یہ کیا کہ رہی ہو۔۔۔۔۔ جگو: تو اور
کیا۔۔۔۔ تم اس دن آئے کیوں نہیں؟؟ اور پھر کوئی رابطہ نہیں کیا؟؟ سرفراز: میں آیا
تو تھا پر تم جا چکیں تھیں۔ وہاں تمھارا خط پڑا تھا جس میں تم نے لکھا تھا کہ
گھریلو وجوہات کی بنا پر تم نہیں آ سکتیں۔ اور یہ کہ میں بھی آئندہ تم سے رابطہ نہ
کروں۔ جگو: کیا؟؟؟؟؟؟ وہ خط تو تمہارا تھا۔۔ سرفراز : میرا؟؟؟ نہیں نہیں۔ تمھیں
ضرور غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ جگو نے رونا شروع کر دیا۔ دونوں بچھڑے پریمی آج مل رہے
تھے۔ میں جگو کو تنہا چھوڑ کر باہر چلا گیا۔ آدھے گھنٹے بعد مجھے اپنے پیچھے کسی
کا احساس ہوا۔ دیکھا تو وہ جگو تھی جسی نے اپنی بانہیں میرے گلے میں ڈال دیں تھیں
اور کہنے لگی: میں کس منہ سے تمھارا شکریہ ادا کروں۔ تم نے میرے لیا وہ کر دیا جو
کبھی کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ سرفراز ایک ہفتے کے اندر اندر انڈیا آ رہا ہے۔ میں
بولا: کوئی بات نہیں جگو۔ تم نے بھی تو میرے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ پھر ہم اندر آ
گئے۔ جگو بہت خوش تھی۔ اب ہمیں کوئی ٹینشن نہیں تھی۔ ہم اکٹھے اندر جا کر بیٹھ گئے
اور ٹی وی دیکھنے لگ گئے۔ ساتھ ساتھ میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلانا
شروع کر دیا۔ میں نے کہا : کچھ ہو جائے ۔ وہ بولی کیا۔ میں نے کہا وہی۔ وہ ہنس دی۔
پھر اس نے کہا ٹھیک ہے۔ میں آگے بڑھا اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ لگا دیے اور
اس کے رسیلے ہونت چوسنے لگا۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں داخل کر
دی جسے وہ بڑے مزے سے چوسنے لگی ساتھ ساتھ اُس نے نیچے سے میرے لن پر بھی اپنے
ہاتھ رکھ دیے۔ کچھ دیر ایسے ہی کسنگ کے بعد میں نے اسے لٹا دیا اور اس کی شرٹ اور
برا بھی اتار دی۔ اب اس کا اوپری بدن برہنہ ہو گیا تھا۔ میں نے پھر اسے چومنا شروع
کر دیا۔ اس کی گردن کو چوما ۔ اس کے کندھوں کو۔ اس کے پستانوں کو۔ اس کے تنے ہوئے
نپلز منہ میں لے کر بہت مزہ آیا۔ جگو کی لذت آمیز سسکاریاں گونجنے لگیں۔ میں نے
ایک ہاتھ نیچے لے جا کر اس کی پھدی کو ٹراؤزر کے اوپر اوپر سے ہی سہلانے لگا۔ پھر
اچھی طرح اس کے ممے چوسنے کے بعد اس کا ٹراؤزر بھی اتار دیا۔ اب وہ بالکل ننگی
تھی۔ آج وہ بالکل شرما نہیں رہی تھی بلکہ مزے سے سب انجوائے کر رہی تھی۔ آج ہم
دونوں بہت خوش تھے۔ اس نے کہا اب میری باری۔ پھر وہ آگے بڑھی اور اس نے میری شرٹ
اتاری۔ پھر پینٹ اور انڈر وئر بھی اتار دیا۔ پھر اس نے کہا : ایک منٹ ٹھہرو۔ میں
ابھی آئی ۔ اور وہ کچن چلی گئی۔ کچھ دیر بعد وہ آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک کول
ڈرنک تھی اور ساتھ ایک گلاس تھا۔ اس نے کول ڈرنک اس گلاس میں ڈالی۔ پھر میرے لن کو
اس میں ڈبویا۔ پھر لن گلاس سے باہر نکال کر بڑے مزے سے میرے لن کو چوسنے لگی۔ اب
تو وہ بڑے مزے سے میرے لن کو چوس رہی تھی اور ساتھ ساتھ لن پر لگی کول ڈرنک کو بھی
چاٹ رہی تھی۔ مجھے بھی اب بہت مزہ آ رہا تھا۔ میں بولا: جگو تم کتنی اچھی ہو۔ کتنا
مزہ دیتی ہو۔ اور ہاں تم نے یک وعدہ بھی کیا تھا۔ یاد ہے یا نہیں۔ بولی: ہاں بابا
یاد ہے۔ اس نے ایک بار پھر میرا لن کول ڈرنک والے گلاس میں ڈبو دیا اور پھر اسے
چوسنے لگی۔ میں تو اس کی گانڈ کا سوچ سوچ کر مزے سے بے اختیار ہو رہا تھا۔ اس نے
پچھلی چودائی میں یہی کہا تھا کہ گانڈ پھر کبھی لے لینا۔ اور آج میں اس کی گانڈ کی
سیل کھولنا چاہتا تھا۔ کچھ دیر لن چسوانے کے بعد میں نے اس کو لٹا کر اس کی پیاری
پیاری چوت کو چومنے لگا۔ میں نے تھوڑی سی کول ڈرنک گلاس میں لے کر اسے جگو کی چوت
کے سوراخ میں ڈالا اور مزے سے اسے پینے لگا۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ کول ڈرنک کا
ذائقہ کھٹا میٹھا ہو گیا تھا۔بہرحال میں نے کافی دیر اس کی چوت کا چاٹا ، چوسا۔
پھر میں اس کے بوبز کی طرف آیا۔ اب مموں پر اگر کول ڈرنک گراتا تو وہ نیچے بہہ
جاتی۔ مجھے ایک آئیڈیا آیا۔ میں کچن سے ایک بڑا پیالا لے آیا۔ اس میں کول ڈرنک ڈال
کر جگو کو اپنا مما اس میں ڈبونے کا کہا۔ جگو نے اپنا مما اس پیالے میں ڈبو
دیا۔پھر کچھ دیر بعد باہر نکالا تو میں مزے سے اس کے ممے کو چوسنے لگا اور اس پر
لگی کول ڈرنک صاف کرنے لگا۔ خیر اسی طرح ہم کافی دیر کھیلتے رہے اور مستیاں کرتے
رہے۔ پھر میں نے کہا کہ اب شروع کرنا چاہیئے۔ میں نے اسے بیڈ پر لٹا دیا۔ ویڈیوز
دیکھ دیکھ کر اور بذات خود کئی دفعہ پھدیاں مار مار کر میں بہت بڑا پھدکڑ بن چکا
تھا۔ میں نے اس کی گانڈ کے نیچے ایک بڑا تکیہ رکھا جس سے اس کی چوت اوپر کو اٹھ
گئی اور ایکسپوز ہو گئی۔ پھر میں نے اس کی چوت پر تھوڑی دیر زبان پھیری اپنے لن کو
اس کی چوت پر کچھ دیر رگڑا اور لن کو اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کر کے زور لگانے
لگا۔ جگو کو ہلکا ہلکا درد محسوس ہوا۔ لیکن وہ برداشت کر رہی تھی۔ میں نے ااس کی
ٹانگوں کی اپنی کمر کے گرد قینچی بنائی ۔، اپنے جسم کو تھوڑا آگے جھکایا اور ایک زور
دار جھٹکے سے میرا لن جگو کی چوت میں اترتا چلا گیا۔ اس نے ایک ہلکی سی آہ بھری
اور بولی : آرام سے پی کے۔ کیا ہو گیا۔ میں نے لن وہیں روک لیا ور اس کے مموں کو
مسلنے لگا۔ خاص طور پر اس کے نپلز کو انگوٹھے سے مسلنے لگا۔ کچھ دیر بعد جب اس نے
مزے سے سسکاریا ں لینی شروع کر دیں تو میں نے پھر دھکے لگانے شروع کر دیے۔ پہلے
آہستہ آہستہ لگائے اور پھر زور زور سے۔ اب میری رفتار بہت تیز ہو چکی تھی۔ میں نان
سٹاپ دھکے لگا رہا تھا۔ نیچے جگو چیخ رہی تھی۔ تڑپ رہی تھی لیکن میں اس کی آوازوں
سے بے پرواہ دھکے لگاتا رہا۔ فوم والا گدا مسلسل ہل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جب جگو
نے اور زور سے چیخنا شروع کیا تو مجھے ہوش آیا اور میں نے رفتار کم کی۔ میں 2 ، 3
منٹ اور ایسے لگا رہا اور اس دوران جگو کی چوت نے پانی بھی چھوڑ دیا۔ میر ا دل کر
رہا تھا کہ اب اس کی گانڈ پھاڑوں۔ میں نے کہا کہ اب تمھاری گانڈ کی باری ہے۔ جگو
ہانپتے ہوئے بولی: چوت کے ساتھ یہ حشر کیا ہے تو گانڈ کے ساتھ کیا کرو گے۔میں نے
کہا بےفکر رہو۔ بڑے پیار سے کروں گا۔ پھر میں اسے ڈوگی سٹائل میں لے آیا۔ میں نے
تیل کی شیشی اٹھائیااور کافی سارا تیل اس کے چوتڑوں پر ڈالا اور کچھ اس کی گانڈ کے
سوراخ میں بھی ڈال دیا۔ پھر میں نے ایک انگلی اس کی گانڈ میں داخل کی جس پر وہ درد
سے چلا اٹھی۔ میں نے اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال کر دھکے لگانے شروع کر دیے جس سے
وہ گانڈ کی تکلیف بھول گئی۔میں نے اب گانڈ میں بھی انگلی کو حرکت دینی شروع کر دی۔
کچھ دیر بعد میں نے پھر تھوڑا آئل لگایا اور دو انگلیاں اندر باہر کرنے لگا ساتھ
ساتھ اپنے لن کو اس کی پھدی کی سیر کرواتا رہا۔ ب جگو تھوڑا برداشت کر رہی تھی۔
میں کم از کم ایک منٹ تک 2 انگلیوں سے اس کی گانڈ تھوڑی کھلی کرنے کی کوشش کرتا
رہا۔ پھر میں نے تین انگلیاں ڈال دیں جس سے ایک دفعہ تو جگو کو درد ہوا لیکن پھر
وہ برداشت کر گئی۔ میں 2، 3 منٹ تک ایسے ہی کرتا رہا ۔ جب مجھے لگاکہ کچھ روانی آ
گئی ہے تو میں نے اب لن ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے لن پھدی سے باہر نکالا اور اسے
جگو کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا۔ میرا لن جگو کی چوت کے پانی سے پہلے ہی کافی گیلا
تھا ۔میں نے جگو کے چوتروں کو تھپ تھپایا اور پھر انہیں زور سےپکڑ لیا۔ میں نے ایک
زور دار دھکا مارا اور لن جگو کی گانڈ کو پھاڑتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔ جگو درد سے
چلا اٹھی۔ اس نے میرے سے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن میں نے نکلنے نہیں دیا۔ وہ
تڑپتی رہی لیکن میں نے اسے نہیں چھوڑا ۔ البتہ کچھ دیر کیلئے لن کو وہیں روک
دیا۔پھر میں نے اپنے آپ کو اس کے جسم پر جھکایا اور اس کے ممے پکڑ لیے۔ انہیں
مسلنے کے ساتھ ساتھ میں پیچھے سے اس کی کمر ور گردن چومنے لگا۔ کم ااز کم 3 ، 4
منٹ بعد جب مجھے لگا کہ اب وہ ریلیکس ہو گئی ہے تو میں نے آہستہ آہستہ لن کو حرکت
دینی شروع کر دی۔ اب اسے درد تو ہو رہی تھی لیکن قابل بردشت تھی۔ میں نے لن کو
حرکت دینے کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کے دانوں کو مسلنا شروع کر دیا۔
اور پھر کچھ دیر بعد دو انگلیوں کو س کی چوت کے اندر باہر بھی کرنا شروع کر دیا جس
سے اسے مزہ آنا لگا اور درد کا احساس کم ہونے لگا۔ اب میرا لن بڑی آسانی سے اس کی
گانڈ کے اندر باہر ہو رہا تھا۔ میں ابھی آہستہ آہستہ ہی لگا رہا۔ پھر میں نے دونوں
طرف سپیڈ تھوڑی سی بڑھا دی۔ لن کی بھی اور انگلیوں کی بھی۔ جگو کی درد اور مزے کی
ملی جلی آوازیں کمرے میں گونجنے لگیں۔ آہ۔ہہ۔۔اوہہ۔۔۔ایہہہ۔۔۔یاہپہ۔۔۔ہہ۔۔۔
ہائے۔۔۔آ۔۔ج۔۔۔تو مار ڈالا،،،پی کے،،،سالے۔کمینے،،، ۔۔۔ میرا جوش اور بڑھنے لگا۔
اب جگو کا درد اور کم ہو چکا تھا۔ 5 منٹ تک کی لگاتار چودائی کے بعد اب مجھے لگ
رہاتھا کہ میں بس چھوٹنے والا ہوں۔ میں نے رفتار اور بڑھا دی۔ میرےا لن ااس کی تنگ
گانڈ میں اب کافی حد تک رواں ہو چکا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد میرے لن ایک جھٹکا کھایا
اور میں نے ساری منی اس کی گانڈ میں گرا دی۔ میں نے جب لن باہر نکالا تو اس کی
گانڈ میں سے خون نکل رہا تھا۔ میں نے جگو کو ویسے ہی اٹھایا اور ہم واش روم میں آ
گئے۔ وہاں میں نے جگو کو پانی والے بڑے ٹب میں ڈالا اور خود بھی ااس میں بیٹھ گیا۔
میں نے جگو کہ مل مل کے نہلایا اور اس نے مجھے۔ اب وہ گانڈ کی تکلیف بھول چکی تھی۔
میں نے اس کی گانڈ کو اچھی طرح صاف کیا اور پھر ہم ننگے باہر آ گئے۔ جگو بولی: اب
تو خوش ہو۔ میں نے کہا بہت۔ پھر جگو کپڑے پہننے لگی۔ میں نے کہا کیا ضرورت ہے۔
یہاں کون سا کوئی اور ہے۔ بس ایسے ہی ٹھیک ہے۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے ۔ پھر ہم ننگے
ہی بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔ پھر س نے کہا اب سونا چاہیے۔ اس نے لیپ ٹاپ چیک کیے۔ کچھ
اور ویڈیوز لگائیں اور ہم سو گئے۔ اگلی صبح میں 9 بجے کے قریب اٹھا۔ جگو پہلے ہی
اٹھ چکی تھی۔ ہم نے ناشتہ کیا اور پھر ہم باہر گھومنے چلے گئے۔ آج ہم سب سے پہلے
ایک کھیلوں والی جگہ پر گئے۔ اس کا نام تھا اندھیری سپورٹس کمپلیکس۔ کیا شاندار
عمارت تھی۔ ہر قسم کی کھیلوں کیلئے وہاں انتظامات تھے۔میں ہر چیز کو بڑی حیرانی سے
دیکھ رہا تھا۔ کیا شاندار عمارت تھی۔ پھر اسی طرح ہم نے اور بھی کئی جگہوں کاوزٹ
کیا۔ پھر ہم ایک پارک گئے ۔ کوبلہ ووڈز پارک۔ وہ بھی بہت حسین تھا۔ آج جگو بہت خوش
تھی۔ آج اسے کوئی ٹینشن نہیں تھی۔ سرفراز کے ساتھ اس نے صبح پھر بات کر لی تھی۔ ہم
کوبلہ ووڈز پارک میں تھوڑی دیر بیٹھ کر گپ شپ لگاتے رہے۔ پھر ہم اقصی بیچ (ساحل)
پر گئے۔ وہاں جا کر خوب ہلا گلا کیا۔ ہم نہائے بھی۔ جگو نے بھی اپنی شرٹ پینٹ اتار
دی ۔ نیچے اس نے بلیک کلر کی بکنی ٹائپ برا پینٹی پہن رکھی تھی۔ ہم ذرا ایک الگ
تھلگ جگہ پر تھے ا س لیے کوئی خاص فکر نہیں تھی۔ جگو نہانے لگی اور میں اسے دیکھنے
لگا۔ اس نے مجھے بھی بلایا لیکن مجھے اس پانی سے ڈر لگ رہا تھا اس لیے میں نہ
گیا۔مجھے وہ نہاتی ہوئی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اس کے گورے گورے جسم پر پانی کے قطرے
بہت اچھے لگ رہے تھے اور موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔پھر میں نے کہا کہ آؤ تھوڑ اور
دور چلتے ہیں۔ ہم تھوڑا اور پرے ہو گئے۔ یہاں پر کوئی بھی نہیں تھا۔ میں نے اسے
پکڑ لیا اور چومنے لگا۔ وہ کسمانے لگی اور بولی: کیا کر رہے ہو کوئی دیکھ لے گا۔
پھر مجھے سے دور ہو گئی۔ میں بولا: جگو پلیز ایک بار یہ برا اتار دو۔ میں دیکھنا
چاہتا ہوں کہ تم کیسی لگتی ہو پانی میں۔ اس نے انکار کیا کہ کوئی دیکھ لے گا۔ پر
جب میں نے بار بار اصرار کیا اور کہا کہ : یہ تو بالکل الگ تھلگ جگہ ہے یہاں کون
آئے گا تو مان گئی۔ اس نے برا اتار دی اور پانی میں کھڑی ہو گئی ۔ واہ کیا نظارہ
تھا۔ میں نے فوراً کیمرہ نکالا اور تصویریں بنا لیں ۔ کچھ دیر بعد جگو آ گئی اور
اس نے شرٹ پہن لی اور ہم واپس جانے لگے۔ اب سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔ بہت ہی
پیارا نظارہ تھا۔ ہم جلد ہی گھر پہنچ گئے۔ راستے میں ہم نے کھانا ویسے ہی خرید لیا
تھا۔ گھر پہنچتے ہی میں نے جگو کو پکڑ لیا اور اس کے شیریں ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں
سے ڈھانپ لیا۔ کیونکہ اس کے پانی سے تر ننگے مموں کو دیکھ کر میری حالت بہت بری ہو
چکی تھی۔ میں ساتھ ساتھ اس کے ممے بھی دبا ہا تھا اور بھینچ رہا تھا۔ وہ کہتی رہی
کہ تھوڑی دیر صبر کر جاؤ۔ پر مجھ سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے ویسے ہی اپنی
پینٹ نیچے کی اور اپنا لن نکال کر جگو کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔اس نے اسے سہلانا شروع
کر دیا۔ میں مزے سے کسنگ کرتا رہا اور اس کے ممے دباتا رہا۔ پھر میں نے اسے اپنے
سامنے نیچے بٹھایا اور اپنا لن اس کے منہ میں دے دیا۔ جسے اس نے چوسنا شروع کر
دیا۔ پہلے اس نے اس کی کیپ پر زبان پھیری اور پھر اس نے اس کو قلفی کی طرح چاٹنا
شروع کر دیا۔ مجھے مزہ آنے لگا۔ میں نے اس کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر اس کا سر اپنے
لن پر آگے پیچھے کرنے لگا۔ ایک طرح سے میں نے اس کے منہ کی چودائی سٹارٹ کر دی
تھی۔ میں اسے 10 منٹ تک ایسے ہی چودتا رہا۔ یہاں تک اب مجھے لگ رہا تھا کہ میں
چھوٹنے والا ہوں۔ جگو کا بھی برا حال تھا۔ پھر اچانک میرے لن نے جھٹکے لیے اور میں
نے لن باہر نکال کر اس کے منہ کے سامنے کر دیا اور اسے سہلانے لگا۔ اس میں سے منی
کی پچکاریاں سی نکلیں جو سیدھی جگو کے منہ میں جا گریں۔ میں نے تب تک جگو کو ہلنے
نہیں دیا جب تک میری منی کا آخری قطرہ تک نہ نکل گیا۔ پھر جیسے ہی میں نے اسے
چھوڑا وہ فوراً واش روم میں بھاگی اور اپنا منہ صاف کر کے آ گئی۔ اور مجھے سے لڑنے
لگی کہ یہ کیا بیہودگی تھی۔ تھوڑا صبر نہیں کر سکتے تھے۔ میں اس کے انداز سے ہی
سمجھ گیا کہ یہ فرضی ناراضگی ہے۔ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر پنی طرف کھینچا اور وہ
میری گود میں آ گری۔ میں نے کہا: جگو۔ میری جان جب تم جیسی حسینہ بھیگے بدن کے
ساتھ اپنی چھاتیوں کے درشن کروا دے تو کس کمبخت سے صبر ہوتا ہے۔ وہ تھوڑا کسمائی
اور پھر اٹھ گئی۔ ہم نے کھانا کھایاا ور پھر ہم بیڈ روم میں آ گئے۔ وہ بولی: میں
نے سیکس کے حوالے سے ہر پوزیشن اور ہر حوالے سے ویڈیوز لیپ ٹاپس میں کر دیں ہیں۔
اب میں کچھ اور ویڈیوز کر رہیں ہوں جس سے تمھارے گولے کے لوگوں کو تھوڑی تہذیب کا
سبق ملے گا۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے جیسا تم منا سب سمجھو۔ وہ لیپ ٹاپ چلا کر بیٹھ
گئی۔ اس نے تہذیب و تمدن پر کچھ ڈاکومنٹری فلمیں ڈاؤنلوڈ کرنی شروع کیں ۔ میں نے
اپنے ہاتھ ا س کی رانوں پر رکھ دیے اور انہیں سہلانے لگا۔ پھر میں نے اس کی شرٹ
اوپر کی اور اپنا منہ اس کے ممے سے لگا دیا اور کسی بچے کی طرح چوسنے لگا۔ بے
اختیار اس کی ایک سسکاری سی نکل گئی۔۔۔آہہ۔۔آؤچ ،۔۔کیا کر رہے ہو۔ دیکھ نہیں رہے
میں کام کر رہی ہوں۔ میں نے کہا: کرتی رہو۔ میں کون سا روک رہا ہوں۔ مجھے بھی اپنا
کام کرنے دو۔ میں نے اس کے بازو اوپر کر کے اس کی شرٹ اتار دی۔ اس نے برا پہنی
نہیں تھی۔ میں اس کے دونوں مموں کو باری باری چوسنے لگا۔ وہ ساتھ لیپ ٹاپ پر کام
کرتی رہی ساتھ بار بار اس کی سسکاری نکل جاتی۔ میں ایک طرح سے اس کی گود میں لیٹا
ہوا تھا۔ میرا سر اس کی رانوں پر تھا اور میں بڑے مزے سے اس کے ممے چوس رہا تھا۔
جب کبھی میں اس کے نپلز کاٹتا اس کی آہ نکل جاتی اور وہ بڑے پیار سے میری طرف
دیکھتی۔ خیر کچھ دیر بعد اس نے لیپ ٹاپس پر کام ختم کر لیا۔ اور میری طرف متوگہ
ہوئی۔ میں نے کہا: اب تم میری ایک بات مانو گی۔ اس نے کہا : ہاں بالکل۔ میں نے کہا
: پرسوں میں چلا جاؤں گا۔ تو جب تک میں یہاں ہوں ۔ گھر کے اندر تم کپڑے نہیں پہنو
گی۔ اور میں بھی نہیں۔۔ جگو: کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ ۔۔ وہ بولی:
چلو اس معاملے میں سوچیں گے۔ ابھی تو میری گرمی کا کچھ کرو تم نے خود تو آتے ہی
اپنا پانی نکال لیا اور مجھے ادھورا چھوڑ دیا۔ میں اٹھا اور اسے بیڈ پر گرا کر اس
کی پینٹ بھی اتار دی اور اسے فل ننگا کر کے اسے چومنے لگا۔ اب میں بڑی شدت سے اسے
چوم رہا تھا۔ وہ بڑی بلند سسکاریاں بھر رہی تھی۔ میں نے جگہ جگہ اسے پیا ر سے کاٹا
اور اپنے پیار کے نشان اس کے جسم پر چھوڑتا گیا۔ پھر میں نے اپنے لب اس کی پھدی پر
رکھ دیے۔ اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے اس کے اوپر والے دانے کو مسلنے لگا۔ پھر میں نے
اپنی زبان کی نوک سے اس کی چوت کی کھدائی شروع کر دی۔ جگو اس دوہرے مزے کی تاب نہ
لا سکی اور بے اختیار سسکیاں بھرنے لگی ، تڑپنے لگی، اپنے ہاتھ زور زور سے بیڈ پر
مارنے لگی۔ میں نے اور شدت سے اس کی چوت کی چٹائی شروع کر دی۔ دوسری طرف ہاتھ کے
انگوٹھے اور انگلیوں کے پوروں سے اس کی پھدی کے چھولے کی اچھی ٹھکائی کر رہا تھا۔
جگو کی سسکاریاں اور آہیں خطرناک حد تک بلند ہو چکی تھیں۔ اور پھر اس نے چلانا
شروع کر دیا۔ اپنا ہاتھ میر ے سر پر رکھ کر اور نیچے دبانے لگی۔ حتی کہ میرا ناک
اس کی پھدی کے لبوں سے جا لگا اور میری زباں آخری حد تک اس کی پھدی کے اندر چلی
گئی۔ مجھے اس کی چوت کی بھینی بھینی خوشبو اپنے ناک میں محسوس ہو رہی تھی۔ اور اس
کے ساتھ ہی جگو کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔ لیکن س بار پہلے
کی نسبت بہت زیادہ پانی تھا۔ میں اٹھا اور اپنا چہرہ صاف کیا۔ جگو بھی تک آنکھیں
بند کیے لیٹی اپنی سانسیں درست کر رہی تھی۔ پھر کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور مجھ پر
بوسوں کی بارش کر دی۔ مجھے بیڈ پر گرا کر میرے اوپر چڑھ آئی۔میری شرٹ اتاری ۔ میری
پینٹ اتاری۔میرا انڈر وئیر اتار کے لن کو چوسنے لگی۔ مجھے یہ کھیل کود بہت چھی لگ
رہی تھی۔ پھر اس نے کہا آؤ سکسٹی نائن(69) ٹرائی کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ کیا ہوتا
ہے۔ بولی: میں بتاتی ہوں۔ پھر وہ الٹی ہو گئی۔
یعنی اس نے اپنی گانڈ میرے منہ کی طرف کر دی اور
اپنا منہ میرے قدموں کی طرف اور بولی اب تم میری پھدی چاٹو۔ میں تمھارے لن کو
چوسوں گی۔ میں بہت خوش ہوا۔ میں نے فوراً اس کے چوتڑوں پر ہاتھ رکھے اور اس کی
پھدی کو چوسنے لگا ، زبان سے چاٹنے لگا۔ اُ دھر اس نے بھی میرے لن کو منہ میں لے
کر چوسنا شروع کر دیا۔ اس پوزیشن میں ہم دونوں کو بہت مزہ آ رہا تھا۔ کچھ دیر اسی
طرح کرنے کے بعد وہ اٹھی اور میرے لن پر آ کر بیٹھ کر اوپر نیچے ہونے لگی۔ میں مزے
میں ڈوب گیا۔ اس کے اچھلتے ناچتے ممے میری آنکھوں کے سامنے تھے جنہیں میں نے ہاتھ
بڑھا کر پکڑ لیا اور دبانے لگا۔ اب میں نے کہا: اب میری باری۔ یہ کہ کر میں نے اسے
ویسے ہی گرا کر گھوڑی بنایا اور پیچھے سے اس کی پھدی میں لن ڈال کر ایک جھٹکے سے
گہرائی تک پہنچا دیا اور دھکوں کی نان سٹاپ مشین سٹارٹ کر دی۔ میں لن کو مکمل باہر
نکالتا اور پھر ایک جھٹکے سے اندر ڈال دیتا۔ ہر دھکے پر وہ بلبلا اٹھتی۔ میں نے
ایک ہاتھ سے اس کی گانڈ کو بھی سہلانا شروع کر دیا اور اس کے سوراخ کو انگلی سے
سہلانا شروع کر دیا۔ اب میں نے اس کی چوت میں لگاتار دھکے شروع کر دیے ، یعنی آدھا
لن باہر پھر اندر۔ ساتھ ساتھ میں نے اس کی گانڈ کو بھی انگلی سے چودنا شروع کر
دیا۔ بڑی آسانی سے میری انگلی اندر باہر ہو رہی تھی۔ پھر میں نے لن اس کی چوت سے
نکالا اور اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ایک زوردار جھٹکے سے اندر ڈال دیا۔ اب کی
بار ایک دفعہ تو وہ چلا اٹھی لیکن کچھ دیر بعد ریلیکس ہو گئی۔ آج اسے اتنی درد
نہیں ہو رہی تھی۔ آج وہ گانڈ مروانے کو نجوائے کر رہی تھی۔ جو اس کے چہرے سے بھی
عیاں تھا۔ خیر میں نے اس کی گانڈ کی خوب ٹھکائی کی اور جب مجھے لگا کہ میں اب
چھوٹنے والا ہوں تو میں نے اپنا لن اس کی چوت میں ڈال کر چودائی کرنے لگا۔ ابھی یک
دو جھٹکے ہی لگائے تھے کہ جگو جھڑ گئی اور اس کی چوت کے پانی نے میرے لن کو بھگو
دیا۔ میں نے اس کی چوت کی ٹھکائی جاری رکھی۔ جگو اب نڈھال ہو چکی تھی۔ پھر میرے لن
کو بھی اس کی چوت پر رحم آ گیا اور 2، 3 شدید دھکوں کے بعد میں نے بھی اپنا پانی
اس کی پھدی میں چھوڑ دیا۔ ہم وہیں ڈھیر ہو گئے ور پنی سانسیں درست کرتے رہے۔ کچھ
دیر بعد ہم اٹھے اور باتھ روم میں آ کر نہانے لگے۔ نہانے کے دوران میرا لن پھر تن
گیا اور میں نے وہیں ایک بار پھر جگو کی پھدی کی ٹھکائی کر دی۔ ہم نہا دھو کر باہر
آئے اور ننگے ہی سو گئے۔ اگلی صبح میں اٹھا تو دیکھا کہ جگو ننگی ہی کچن میں ناشتہ
بنا رہی تھی۔ میں ویسے ہی آگے بڑھا ور پیچھے سے جا کر اسے جپھی ڈال لی۔ " اوہ
تم ۔۔ مجھے تو ڈرا ہی دیا۔" میں بولا: مجھے خوشی ہے کہ تم نے میرا بات کا
خیال رکھا ۔ پھر اسی طرح ہم نے ناشتہ کیا۔ ساتھ ہلکی پھلکی شرارتیں بھی کر لیتے۔ پھر
ہم ٹی وی دیکھنے لگے۔ میں نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس کی ننگی گانڈ میرے
ننگے لن پر آ گئی۔ مجھے مزہ آنے لگا۔ کچھ دیر ہم اسی طرح ٹی وی دیکھتے رہے اور
ساتھ چھیڑ خانی کرتے رہے۔ وہ بولی: ویسے پی کے ایک بات ہے۔ میں بولا" کیا؟ اس
نے کہا: تم بہت بڑے ٹھرکی بن گئے ہو۔ ، میں ہنس دیا۔ میں نے کہا: ہاں بس تم نے بنا
دیا۔ اور میں نے اسے پکڑ لیا ور ہم نے پھر چودئی سٹارٹ کر دی۔ وہ سارا دن سی طرح
گزر گیا۔ ہم ہنستے مسکراتے رہے۔ مزے کرتے رہے۔ جب دل کرتا چودائی سٹارٹ کر لیتے۔
ساتھ ساتھ ویڈیوز کی ڈاؤنلوڈنگ بھی جاری تھی۔ٍ شام تک ہم کوئی چار دفعہ تو چودائی
کر چکے تھے۔ رات کو ہم نے ریسٹ کیا۔ ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر سو گئے۔ اگلی صبح ہم
جلدی اٹھے۔ جلدی سے یاری کی۔ جب جانے لگے تو میں نے پھر اس کو پکڑ لیا۔ وہ بولی:
کیا کر رہے ہو ہمیں دیر ہو جائے گی۔ ہمیں کافی دور جانا ہے۔ میں نے کہا : بس ایک
آخری بار ۔ وہ مان گئی اور ہم نے پھر ایک بھرپور چودائی کیا اور سٹیشن پہنچ گئے۔
ٹرین چل پڑی۔ سٹیشن بدلتے رہے۔ ہمارا سٹاپ بھی آ گیا۔ ہمارے ساتھ ایک بڑا سا بیگ
بھی تھا جس میں لیپ ٹاپس اور ان کی بیٹریاں تھیں۔ اپنا لاکٹ میں نے اپنے گلے میں
ڈال رکھا تھا۔ ہم نے وہاں سے ایک بس پکڑی اور ایک بڑے سارے میدان میں پہنچ گئے
جہاں ہر طرف ریت ہی ریت تھی۔ اب شام ہونے والی تھی۔ جب بس نظروں سے اوجھل ہو گئی
تو میں نے جگو کو الوداعی کس دی اور تھوڑا آگے جا کر اپنا لاکٹ نکال کر اپنے گولے
کے لوگوں کو سگنل دینے لگا۔ میرا بیگ میرے ہاتھ میں تھا۔ میں دور جگو کو ہاتھ
ہلاتے ہوئے آسنی سے دیکھ سکتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میرا دل
بھی بہت اداس تھا۔ خیر کچھ دیر بعد میرے گولے کا سپس شپ وہاں اترا۔ میں نے جگو کی
طرف دیکھ کر ہاتھ ہلائے اور سپیس شپ میں بیٹھ کر اپنے گولے کی طرف بیٹھ کر روانہ
ہوا۔ سپیس شپ میں میرے گولے کے دو لوگ تھے بس جو ننگے ہی تھے۔ دونوں نے مجھے گلے
لگا لیا۔ میرے جسم پر کپڑے دیکھ کر وہ بہت حیران ہو رہے۔ انہوں نے مجھے چھو کر
میرے خیالات ٹرنسفر کرنا چاہے پر میں نے منع کر دیا اور خود اُن کے بازو پکڑ کر
اردو ہندی ، اور انگلش زبان اُن کے اندر منتقل کر دی۔ ( انگریزی زبان بھی میں
پرتھوی پر سیکھ چکا تھا۔ جگو نے ایک انگریز سے میری ملاقات کروائی تھی جس سے ایک
لمبے مصافے کے دوران میں نے نگریزی زبان سیکھ لی۔) پھر میں نے کہا: کسی کے خیا لات
پڑھنا تہذیب کے خلاف ہے۔ اس خوبی کو ہم صرف خا ص اوقات میں استعمال کیا کریں گے۔ ۔
اور پھر میں نے انہیں کہا کہ اپنی کہانی میں انہیں اپنے گولے پر پہنچ کر ہی بتاؤں
گا۔ جلدہی ہم اپنے گولے پر پہنچ گئے۔ سپیس شپ ہمیں ایک بڑے میدان میں اتار کر فضا
میں بلند ہو گیا۔ لوگوں کو میرے آنے کی اطلاع مل چکی تھی اس لیے سب میدان کے ارد
گرد جمع تھے۔ چار بڑے گرو جو ہمارے گولے کے رکھوالے تھے وہ گے بڑھے اور مجھے گلے
سے لگا لیا۔ انہیں نے بھی میرے خیالات پڑھنے چاہے پر میں نے انہیں منع کر دیا۔ پھر
میں نے اُن کا بازو چھو کر انہیں سمجھایا تمام افراد کو ایک ایک کر کے میرے پاس
بھیجیں۔ میں اُنہیں کچھ خاص سکھانا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے میں نے گرووں کو زبانیں
سکھائیں۔ پھر ایک اایک کر کے لوگ آتے گئے میں انہیں زبانیں سکھاتا گیا۔ ساتھ ساتھ
بولنے کی تمیز،سننے کا طریقہ وغیرہ۔ میں جنہیں سکھا چکا تھا وہ آگے دوسروں کو سکھا
رہے تھے یہاں تک کہ جلد ہی سب کو سمجھ آ گئی۔ پھر میں سٹیج پر چڑھا جو کہ بڑے بڑے
پتھروں کو جوڑ کر بنایا گیا تھا۔ میں نے انہیں سارے واقعات بتائے۔ سیکس کے حوالے
سے بھی سب بتایا۔ وہ ہر چیز بڑی حیرانی سے سن رہے تھے پر ابھی انہیں مکمل سمجھ
نہیں آ رہی تھی۔ پر ابھی میں نے اپنی کہانی ختم ہی کی تھی کہ گورووں نے ہمارے پہرے
داروں کو اشارہ کیا کہ پکڑ لو اس کمینے کو۔ اور جیل میں ڈال دو۔ اس پر بھی اُس
گولے کا اثر ہو گیا ہے۔ سالا ہمیں سکھاتا ہے کہ عورت مرد کا رشتہ کیا ہے۔ اور پھر
اُنہوں نے مجھے جیل میں ڈال دیا۔ یہ شکر تھا کہ انہوں نے میرے سا مان کو بے ضرر
سمجھتے ہوئے اُسے بھی جیل میں میرے پاس رکھ دیا۔ میرا باپ مجھ سے ملنے آیا۔ میں نے
اُسے بھی ساری بات سمجھائی۔ پھر میں نے اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے سمجھایا کہ یہ
گرو ہمارے گولے کی بھلائی نہیں چاہتے۔ بالکل اسی طرح کہ لوگ میں نے پرتھوی پر بھی
دیکھے تھے جو وہاں منسٹر اور سیاستدان کہلاتے تھے۔ میں نے اُسے خیالات کے ذریعے
سمجھایا کہ میں اس ملک میں کتنا بڑا انقلاب لا سکتا ہوں ۔ میں نے اُسے کہا کہ کسی
طرح میرے خاص یار میان کو میرے پاس بھیج دے۔ اُس نے وعدہ کیا ور چلا گیا۔ میں جیل
میں دھیان لگا کر بیٹھ گیا اور گرووں کی آوازیں سننے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ
زبان کی مدد سے گفتگو کریں گے کیونکہ یہ اُن کیلئے نئی چیز تھی۔ اور وہی ہوا جیسے
ہی میں نے دھیان لگایا مجھے آوازیں سنائی دینے لگیں۔ بڑا گرو کہ رہا تھا : یہ سالا
تنبورا (میرے گولے پر میرا نام) تو وہاں سے بہت کچھ سیکھ آیا ہے۔ اسے جلدی مروانا
ہو گا ورنا ہماری بادشاہت تو ختم ہو جائے گی۔ بڑا گرو بولا: ااور یہ بھی ہے کہ ہم
نت نئی پھدیوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ میرے دماغ میں سنسناہٹ ہونے لگی۔۔۔ مجھے
اپنے کانوں میں یقین نہیں آیا۔ وہ لوگ پہلے سے ہی جانتے تھے کہ لن پھدی کا کیا
تعلق ہے او ر عورتوں سے مردوں کا کیا تعلق ہے۔ میں اور توجہ سے سننے لگا۔ چھوٹا
گرو بولا: عورتوں کو بھی شک ہو جائے گا۔ پہلے تو ہم اُن کو مشروبِ بے ہوشی پلا کر
نیم بے ہوشی میں کر لیا کرتے تھے۔ کئی عورتوں نے تو کہا بھی کہ اُنہیں یوں محسوس
ہوتا ہے جیسے اُن کی پیشاب والی جگہ پر کوئی چیز اندر باہر ہو رہی ہو۔ ہم اُنہیں
یہ کہ کر چپ کروا دیتے تھے کہ یہ خواب ہے۔ لیکن اب اگر اس تنبورے نے اُنہیں سب بتا
دیا تو پھر اُنہیں سب پتا چل جائے گا۔ میں جیسے جیسے سنتا جا رہا تھا میرا غصہ اور
حیرانگی بڑھتی جا رہی تھی۔ پھر میرے ذہن میں ایک منصوبہ آ گیا۔ میں اپنے دوست کا
انتظار کرنے لگا۔ یہ ایک تاریک غار تھا جس میں میں قید تھا۔ غار کے باہر دو آدمی
پہرے دیتے تھے۔ پھر میرا دوست آ گیا۔ میں اُس سے دکھاوے کیلئے باتیں کرتا رہا ور
پھر اُسے بھی خیالات کے ذریعے سمجھایا کہ اُسے کیا کرنا ہے۔ ہر سات دن بعد ایک
اجتماع ہوتا تھا۔ ہمارے گولے کی کل آبادی 10، سے 15 ہزار تک تھی۔ ہمارے گولے پر
ایک بابا تھا جسے سب مانتے تھے۔ اُس کا نام باتو بابا تھا۔ میں نے میان سے کہا کہ
اس اجتماع میں کسی طرح وہ آکاش بوٹی ک رس گرووں کے مشروب میں ملوا دے اور پھر باتو
بابا کو اُن کے خیالات پڑھوا دے۔ اس طرح باتو بابا جب لوگوں کے سامنے سب کچا چٹھا
کھولیں گے تو سب کو یقین آئے گا۔ پھر ایسے ہی ہوا۔ جب زمین پر میں اپنی فتح کے
جھنڈے گاڑ چکا تھا تو یہ تو پھر بھی میرا اپنا گولہ تھا۔ بہرحال 2 دن بعد اجتماع
ہوا۔ میرے دوست نے مشروب میں اکش بوٹی ملا کر گرووں کو پیش کی جسے وہ مزے سے پی کر
ہال میں ہی بے ہوش ہو گئے۔ باتو بابا علاج کی غرض سے اگے بڑھے۔ اُنہیں سب کچھ پہلے
سے ہی سمجھایا جا چکا تھا۔ انہوں نے بڑے گرو کا ہاتھ تھاما اور تھوڑا حیران ہوئے ۔
پھر بولے: لوگو! تمھارے گرو کے خیالا ت کچھ اور ہی کہ رہے ہیں۔ میری بات غور سے
سنو۔ تمھارے گرو شروع سے اس گولے پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس گولے
پر کوئی ترقی ہو۔ انہوں نے تنبورا (پی کے) کو بھی اسی لیے پرتھوی پر بھیجا تھا
کیونکہ اُس نے ایک دو جگہ اُن سے سوالات کیے تھے۔ جو بات پی کے کو پرتھوی سے جا کر
معلوم ہوئی یہ ان کو پہلے سے معلوم تھی۔ یہ جانتے تھے کہ مرد عورت کا کیا تعلق ہے۔
انہوں نے اب تک بے شمار خواتین کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کیا ہے۔ یہ ایک خاص مشروب
پلا کر اُنہیں اپنے وش میں کر لیتے تھے ور نیم بے ہوشی کی حالت میں لے آتے تھے۔
جگو نے میرے اٹھانے پر اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اس نے مجھے ایک پیار
بھرا کس دیا اور ناشتہ بنانے لگ گئی۔ ہم نے ناشتہ کیا اور پھر وہ بولی ہاں تو اب
تمہار ا کیا موڈ ہے۔ میں نے کہا : میں اب جانا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا : میری ایک
بات مانو گے پلیز ۔ میں نے کہا : تم جو کہو گی میں وہ کروں گا۔ تم ایک چھوڑ کہ سو
کہو۔ اس نے کہا : تم کم از کم چار دن یہاں رہو ۔ ویسے بھی تمھاری ویڈیوز ابھی ہو
رہیں ہیں۔ ایک آدھ دن تو ان میں ہی لگ جائے گا۔ میں نے کہا :ٹھیک ہے ۔ بات تو
تمھاری بھی صحیح ہے لیکن ایک شرط ہے میری۔ بولی: کیا؟ میں نے کہا : تمہیں بھی میری
ہر بات ماننی پڑے گی ان چار دنوں میں۔ بولی: ٹھیک ہے منظور ۔ میں نے کہا: وعدہ کرو
کے میرے جانے کے بعد تپسوی کے خلاف کام کرو گی اور اسے بے نقاب کرو گی۔ اس نے کہا:
ٹھیک ہے۔ یہ کام تو میں آج سے ہی شروع کر دیتی ہوں۔ اس نے کہا: آج میرا جانا ضروری
ہے۔ کچھ خیر خبر لے آؤں کہ کسی کو کچھ پتا تو نہیں چلا۔ اگلے تین دن صرف تمھارے
لیے۔ میں نے کہا :ٹھیک ہے۔ وہ مجھے لیپ ٹاپ چلا کر دے گئی اور بتا گئی کہ ایسے
ایسے ویڈیوز ڈاؤنلوڈ کرنیں ہیں۔ مجھے ایک ویب سائیٹ کھول کر دے گئی جس کا نام شاید
ایکس آرٹ تھا۔ مجھے یہ سب باتیں اسی نے بتائیں تھیں۔ ورنہ مجھے کیا پتا کہ ویب
سائیٹ کیا ہوتی ہے اور ڈاؤنلوڈ کیا ہوتا ہے۔ بہرحال مجھے جو ویڈیو اچھی لگتی میں
اس کو ڈاؤنلوڈ کر لیتا۔ اس طرح وقت گزرتا گیا کہ پتا ہی نہیں چلا۔ 3 بجے کے قریب
جگو واپس آ گئی۔ اب اس کے ہاتھ میں دو لیپ ٹاپ کے ڈبے تھے۔ وہ رکشہ پہ آئی تھی۔ اس
نے مجھے باقی سامان رکشے سے اٹھانے کا کہا۔ میں ایک بڑا شاپر اٹھا کر لایا تو
دیکھا کہ اس میں کئی 100 کے قریب بیٹریز تھیں جو لیپ ٹاپ میں لگتی تھیں۔ بولی: لو
بھئی تمھارا کام ہو گیا۔ اب بس ڈاؤنلوڈنگ کرنی ہے۔یہ کہہ کر اس نے دونوں لیپ ٹاپ
چلا دیے۔ اور پھر اس کے لیپ ٹاپ میں میں نے جو ویڈیوز کی تھیں وہ بھی ان نئے آنے
والے لیپ ٹاپس میں کرنے لگی۔ وہ ساتھ ساتھ مجھے سمجھا بھی رہی تھی کہ کیسے چلانا
ہے۔ اور باقی بھی موٹے موٹے فنکشنز۔ میرا دماغ چونکہ عام زمینی انسانوں سے زیادہ
تیز تھا اس لیے میں بخوبی سمجھ رہا تھا۔ پھر اس نے دونوں لیپ ٹاپس ڈاؤنلوڈنگ پر
لگا دیے اور میرے ساتھ گپ شپ کرنے لگی۔ بولی: میں نے اس ویڈیو کی کاپی ایک خاص
آدمی کو دے دی ہے۔ وہ بہت ایماندار ہے۔اس نے وعدہ کیا ہے کہ تپسوی کے آشرم پر ہونے
والے گھناؤنے کاموں کو وہ بے نقاب کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ تپسوی کا پتہ جلد ہی کٹ
جائے گا۔ پھر اسی طرح باتیں کرتے رہے وہ مجھ سے پوچھتی کہ تم مجھے بھول تو نہیں
جاؤ گے۔ خیر اسی طرح باتیں چلتی رہیں۔ پھر اس نے کہا کہ آؤ کہیں باہر چلتے ہیں۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔اس نے ایک دوست سے بائیک لی ۔ پھر ہم نکل کھڑے ہوئے۔اس نے مجھے
پورے ممبئی کی سیر کروائی۔ ہم ایک کیفے گئے پہلے۔اس کا نام تھا کیفے مونڈیگر۔ وہاں
ہم نے کھانا کھایا۔ پھر اس نے مجھے اوربھی کئی پارکوں کی سیر کرائی۔ ان میں سے ایک
پارک تو مجھے بہت اچھا لگا۔ اس کا نام تھا جوزف بیپٹسٹا پارک۔ وہاں بھی ہم کافی
گھومتے پھرتے رہے۔ جگو مجھے کچھ اداس اداس لگ دہی تھی۔ ہم ایک بینچ پر بیٹھ
گئے۔میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پوچھا جگو کیا بات ہے۔ تم بہت
اداس ہو۔ ابھی یہ پوچھا ہی تھا کہ اس کا ہاتھ تھامنے کی وجہ سے اس کے خیالات خود
بخود میرے ذہن میں آ گئے۔ وہ سرفراز کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کیونکہ اس نے سوچا
تھا کہ کبھی وہ سرفراز کے ساتھ ان جگہوں پر آیا کرے گی۔ لیکن سرفراز اسے چھوڑ گیا۔
بہرحال زبان سے تو صرف اس نے اتنا ہی کہا کہ نہیں کوئی بات نہیں ۔ ویسے ہی۔ پھر ہم
واپس آگئے۔ گھر آ کر جگو نے لیپ ٹاپس چیک کیے تو ساری ویڈیوز ہو چکیں تھیں جو وہ
لگا کر گئی تھی اس نے کچھ اور لگا دیں اور میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ کھانا تو ہم
باہر سے ہی کھا آئے تھے اس لیے اب ٹینشن کی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے کہا جگو: کیا
دوبارہ سرفراز نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ جگو: نہیں۔ میں : اور تم نے بھی نہیں کیا
کبھی؟ ۔ بولی: نہیں۔ اس نے خود ہی لکھا تھا کہ میں اس سے رابطہ نہ کروں۔ ۔میں نے
کہا : ہو سکتا ہے ایسا نہ ہوا ہو جیسے تم سوچ رہی ہو۔۔ وہ بولی: وہ کیسے؟ میں نے
کہا : ہو سکتا ہے اسے تھوڑی دیر ہو گئی ہو۔ ہو سکتا ہے کوئی مسلہ بن گیا۔ ہو سکتا
ہے اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہو۔ کیا تم نے اس کا پتا کیا۔ جگو میری باتیں سن کر
حیران ہو گئی۔ بولی: میں نے تو اس انداز سے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ میں نے کہا:
تم یہ بتاؤ کہ تمہیں کیسے یقین آ گیا کہ سرفراز نے دھوکا دیا ہے۔ بولی: بس میں نے
اس دن ایک لیٹر پڑھا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ کچھ گھریلو وجوہات پر وہ مجھے نہیں
اپنا سکتا۔ میں نے کہا: پھر اس کے بعد تم نے اس کو ایک بھی کال یا میسج کیا؟ بولی
: نہیں۔۔ میں نے کہا: پھر تم نے صرف ایک کاغذ کے ٹکرے سے کیسے مان لیا کہ سرفراز
نے دھوکا دیا ہے۔۔ وہ بولی: وہ تپسوی جی نے بھوشوانی کی تھی۔ کچھ وہ بھی ذہن میں
تھا۔ میں نے کہا: اس تپسوی کی ماں کی ایسی تیسی ۔ اس کمینے کے کرتوت تو تم دیکھ ہی
چکی ہو۔ کیا وہاں کوئی اور بھی لڑکی تھی۔ اس نے کہا : ہاں ایک تھی تو سہی۔ میں نے
کہا: ہو سکتا ہے وہ لیٹر اس کیلئے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بولی : لیکن۔۔۔۔،،،، میں نے کہا :
لیکن ویکن چھوڑو کسی طرح سرفراز سے صرف ایک بار بات کر لو۔ میری خاطر ۔ پلیز۔۔ وہ
بولی : میں کیسے کروں۔ میرے پاس تو اس کا بیلجیم والا نمبر ڈلیٹ ہو گیا۔ میں نے
کہا جیسے بھی ہو سکے۔ پلیز ابھی کسی طرح رابطہ کرو۔ اس نے یونیورسٹی کا نمبر
ملایا۔ لیکن انہوں نے کوئی بھی اطلاع دینے سے انکار کر دیا۔ پھر اسے یاد آیا کہ
سرفراز تو پاکستان ایمبیسڈی میں کام کرتا تھا۔ س نے وہاں کال کی۔ وہاں اس نے پوچھا
کہ یہاں سرفراز نامی ایک شخص کام کرتا تھا ۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ آگے سے
لڑکی نے کہا کہ: محترمہ آپ انڈیا سے جگو بول رہیں ہیں۔ اس کی حیرت کی تو انتہا نہ
رہی۔ اس نے کہا: ہاں لیکن آپ کو کیسے پتا۔ آگے سے وہ بولی: سرفراز روزانہ پاکستان
سے روزانہ کال کر پوچھتا ہے کہ انڈیا سے کسی جگو کا فون تو نہیں آیا۔ ٹھہریے میں
ابھی آپ کو اس کا نمبر دیتی ہوں۔ یہ کہ کر اس نے نمبر لکھوا دیا۔ جگو نے فون بند
کر دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میں نے اسے گلے سے لگا لیا اور دلاسا
دیا۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سرفراز کے نمبر پر کال ملائی۔ پھر ان کے درمیان
جو مکالمہ ہوا وہ درج ذیل ہے۔ جگو: ہیلو سرفراز: ہیلو ۔۔۔۔تم؟؟؟؟ جگو(سسکتے ہوئے):
سرفراز ۔۔۔ سرفراز: جگو!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے مجھے بھلا دیا۔ کچھ کہے سنے بغیر۔
جگو۔و۔و۔۔و۔۔۔۔وو جگو: میں تمہیں کیسے بھول سکتی تھی سرفراز ۔ ۔۔۔۔۔چھوڑا تو تم نے
مجھے تھا سرفراز۔۔۔۔ سرفراز: میں نے؟؟ ؟؟؟؟یہ کیا کہ رہی ہو۔۔۔۔۔ جگو: تو اور
کیا۔۔۔۔ تم اس دن آئے کیوں نہیں؟؟ اور پھر کوئی رابطہ نہیں کیا؟؟ سرفراز: میں آیا
تو تھا پر تم جا چکیں تھیں۔ وہاں تمھارا خط پڑا تھا جس میں تم نے لکھا تھا کہ
گھریلو وجوہات کی بنا پر تم نہیں آ سکتیں۔ اور یہ کہ میں بھی آئندہ تم سے رابطہ نہ
کروں۔ جگو: کیا؟؟؟؟؟؟ وہ خط تو تمہارا تھا۔۔ سرفراز : میرا؟؟؟ نہیں نہیں۔ تمھیں
ضرور غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ جگو نے رونا شروع کر دیا۔ دونوں بچھڑے پریمی آج مل رہے
تھے۔ میں جگو کو تنہا چھوڑ کر باہر چلا گیا۔ آدھے گھنٹے بعد مجھے اپنے پیچھے کسی
کا احساس ہوا۔ دیکھا تو وہ جگو تھی جسی نے اپنی بانہیں میرے گلے میں ڈال دیں تھیں
اور کہنے لگی: میں کس منہ سے تمھارا شکریہ ادا کروں۔ تم نے میرے لیا وہ کر دیا جو
کبھی کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ سرفراز ایک ہفتے کے اندر اندر انڈیا آ رہا ہے۔ میں
بولا: کوئی بات نہیں جگو۔ تم نے بھی تو میرے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ پھر ہم اندر آ
گئے۔ جگو بہت خوش تھی۔ اب ہمیں کوئی ٹینشن نہیں تھی۔ ہم اکٹھے اندر جا کر بیٹھ گئے
اور ٹی وی دیکھنے لگ گئے۔ ساتھ ساتھ میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلانا
شروع کر دیا۔ میں نے کہا : کچھ ہو جائے ۔ وہ بولی کیا۔ میں نے کہا وہی۔ وہ ہنس دی۔
پھر اس نے کہا ٹھیک ہے۔ میں آگے بڑھا اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ لگا دیے اور
اس کے رسیلے ہونت چوسنے لگا۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں داخل کر
دی جسے وہ بڑے مزے سے چوسنے لگی ساتھ ساتھ اُس نے نیچے سے میرے لن پر بھی اپنے
ہاتھ رکھ دیے۔ کچھ دیر ایسے ہی کسنگ کے بعد میں نے اسے لٹا دیا اور اس کی شرٹ اور
برا بھی اتار دی۔ اب اس کا اوپری بدن برہنہ ہو گیا تھا۔ میں نے پھر اسے چومنا شروع
کر دیا۔ اس کی گردن کو چوما ۔ اس کے کندھوں کو۔ اس کے پستانوں کو۔ اس کے تنے ہوئے
نپلز منہ میں لے کر بہت مزہ آیا۔ جگو کی لذت آمیز سسکاریاں گونجنے لگیں۔ میں نے
ایک ہاتھ نیچے لے جا کر اس کی پھدی کو ٹراؤزر کے اوپر اوپر سے ہی سہلانے لگا۔ پھر
اچھی طرح اس کے ممے چوسنے کے بعد اس کا ٹراؤزر بھی اتار دیا۔ اب وہ بالکل ننگی
تھی۔ آج وہ بالکل شرما نہیں رہی تھی بلکہ مزے سے سب انجوائے کر رہی تھی۔ آج ہم
دونوں بہت خوش تھے۔ اس نے کہا اب میری باری۔ پھر وہ آگے بڑھی اور اس نے میری شرٹ
اتاری۔ پھر پینٹ اور انڈر وئر بھی اتار دیا۔ پھر اس نے کہا : ایک منٹ ٹھہرو۔ میں
ابھی آئی ۔ اور وہ کچن چلی گئی۔ کچھ دیر بعد وہ آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک کول
ڈرنک تھی اور ساتھ ایک گلاس تھا۔ اس نے کول ڈرنک اس گلاس میں ڈالی۔ پھر میرے لن کو
اس میں ڈبویا۔ پھر لن گلاس سے باہر نکال کر بڑے مزے سے میرے لن کو چوسنے لگی۔ اب
تو وہ بڑے مزے سے میرے لن کو چوس رہی تھی اور ساتھ ساتھ لن پر لگی کول ڈرنک کو بھی
چاٹ رہی تھی۔ مجھے بھی اب بہت مزہ آ رہا تھا۔ میں بولا: جگو تم کتنی اچھی ہو۔ کتنا
مزہ دیتی ہو۔ اور ہاں تم نے یک وعدہ بھی کیا تھا۔ یاد ہے یا نہیں۔ بولی: ہاں بابا
یاد ہے۔ اس نے ایک بار پھر میرا لن کول ڈرنک والے گلاس میں ڈبو دیا اور پھر اسے
چوسنے لگی۔ میں تو اس کی گانڈ کا سوچ سوچ کر مزے سے بے اختیار ہو رہا تھا۔ اس نے
پچھلی چودائی میں یہی کہا تھا کہ گانڈ پھر کبھی لے لینا۔ اور آج میں اس کی گانڈ کی
سیل کھولنا چاہتا تھا۔ کچھ دیر لن چسوانے کے بعد میں نے اس کو لٹا کر اس کی پیاری
پیاری چوت کو چومنے لگا۔ میں نے تھوڑی سی کول ڈرنک گلاس میں لے کر اسے جگو کی چوت
کے سوراخ میں ڈالا اور مزے سے اسے پینے لگا۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ کول ڈرنک کا
ذائقہ کھٹا میٹھا ہو گیا تھا۔بہرحال میں نے کافی دیر اس کی چوت کا چاٹا ، چوسا۔
پھر میں اس کے بوبز کی طرف آیا۔ اب مموں پر اگر کول ڈرنک گراتا تو وہ نیچے بہہ
جاتی۔ مجھے ایک آئیڈیا آیا۔ میں کچن سے ایک بڑا پیالا لے آیا۔ اس میں کول ڈرنک ڈال
کر جگو کو اپنا مما اس میں ڈبونے کا کہا۔ جگو نے اپنا مما اس پیالے میں ڈبو
دیا۔پھر کچھ دیر بعد باہر نکالا تو میں مزے سے اس کے ممے کو چوسنے لگا اور اس پر
لگی کول ڈرنک صاف کرنے لگا۔ خیر اسی طرح ہم کافی دیر کھیلتے رہے اور مستیاں کرتے
رہے۔ پھر میں نے کہا کہ اب شروع کرنا چاہیئے۔ میں نے اسے بیڈ پر لٹا دیا۔ ویڈیوز
دیکھ دیکھ کر اور بذات خود کئی دفعہ پھدیاں مار مار کر میں بہت بڑا پھدکڑ بن چکا
تھا۔ میں نے اس کی گانڈ کے نیچے ایک بڑا تکیہ رکھا جس سے اس کی چوت اوپر کو اٹھ
گئی اور ایکسپوز ہو گئی۔ پھر میں نے اس کی چوت پر تھوڑی دیر زبان پھیری اپنے لن کو
اس کی چوت پر کچھ دیر رگڑا اور لن کو اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کر کے زور لگانے
لگا۔ جگو کو ہلکا ہلکا درد محسوس ہوا۔ لیکن وہ برداشت کر رہی تھی۔ میں نے ااس کی
ٹانگوں کی اپنی کمر کے گرد قینچی بنائی ۔، اپنے جسم کو تھوڑا آگے جھکایا اور ایک
زور دار جھٹکے سے میرا لن جگو کی چوت میں اترتا چلا گیا۔ اس نے ایک ہلکی سی آہ
بھری اور بولی : آرام سے پی کے۔ کیا ہو گیا۔ میں نے لن وہیں روک لیا ور اس کے مموں
کو مسلنے لگا۔ خاص طور پر اس کے نپلز کو انگوٹھے سے مسلنے لگا۔ کچھ دیر بعد جب اس
نے مزے سے سسکاریا ں لینی شروع کر دیں تو میں نے پھر دھکے لگانے شروع کر دیے۔ پہلے
آہستہ آہستہ لگائے اور پھر زور زور سے۔ اب میری رفتار بہت تیز ہو چکی تھی۔ میں نان
سٹاپ دھکے لگا رہا تھا۔ نیچے جگو چیخ رہی تھی۔ تڑپ رہی تھی لیکن میں اس کی آوازوں
سے بے پرواہ دھکے لگاتا رہا۔ فوم والا گدا مسلسل ہل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جب جگو
نے اور زور سے چیخنا شروع کیا تو مجھے ہوش آیا اور میں نے رفتار کم کی۔ میں 2 ، 3
منٹ اور ایسے لگا رہا اور اس دوران جگو کی چوت نے پانی بھی چھوڑ دیا۔ میر ا دل کر
رہا تھا کہ اب اس کی گانڈ پھاڑوں۔ میں نے کہا کہ اب تمھاری گانڈ کی باری ہے۔ جگو
ہانپتے ہوئے بولی: چوت کے ساتھ یہ حشر کیا ہے تو گانڈ کے ساتھ کیا کرو گے۔میں نے
کہا بےفکر رہو۔ بڑے پیار سے کروں گا۔ پھر میں اسے ڈوگی سٹائل میں لے آیا۔ میں نے
تیل کی شیشی اٹھائیااور کافی سارا تیل اس کے چوتڑوں پر ڈالا اور کچھ اس کی گانڈ کے
سوراخ میں بھی ڈال دیا۔ پھر میں نے ایک انگلی اس کی گانڈ میں داخل کی جس پر وہ درد
سے چلا اٹھی۔ میں نے اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال کر دھکے لگانے شروع کر دیے جس سے
وہ گانڈ کی تکلیف بھول گئی۔میں نے اب گانڈ میں بھی انگلی کو حرکت دینی شروع کر دی۔
کچھ دیر بعد میں نے پھر تھوڑا آئل لگایا اور دو انگلیاں اندر باہر کرنے لگا ساتھ
ساتھ اپنے لن کو اس کی پھدی کی سیر کرواتا رہا۔ ب جگو تھوڑا برداشت کر رہی تھی۔
میں کم از کم ایک منٹ تک 2 انگلیوں سے اس کی گانڈ تھوڑی کھلی کرنے کی کوشش کرتا
رہا۔ پھر میں نے تین انگلیاں ڈال دیں جس سے ایک دفعہ تو جگو کو درد ہوا لیکن پھر
وہ برداشت کر گئی۔ میں 2، 3 منٹ تک ایسے ہی کرتا رہا ۔ جب مجھے لگاکہ کچھ روانی آ
گئی ہے تو میں نے اب لن ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے لن پھدی سے باہر نکالا اور اسے
جگو کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا۔ میرا لن جگو کی چوت کے پانی سے پہلے ہی کافی گیلا
تھا ۔میں نے جگو کے چوتروں کو تھپ تھپایا اور پھر انہیں زور سےپکڑ لیا۔ میں نے ایک
زور دار دھکا مارا اور لن جگو کی گانڈ کو پھاڑتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔ جگو درد سے
چلا اٹھی۔ اس نے میرے سے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن میں نے نکلنے نہیں دیا۔ وہ
تڑپتی رہی لیکن میں نے اسے نہیں چھوڑا ۔ البتہ کچھ دیر کیلئے لن کو وہیں روک
دیا۔پھر میں نے اپنے آپ کو اس کے جسم پر جھکایا اور اس کے ممے پکڑ لیے۔ انہیں
مسلنے کے ساتھ ساتھ میں پیچھے سے اس کی کمر ور گردن چومنے لگا۔ کم ااز کم 3 ، 4
منٹ بعد جب مجھے لگا کہ اب وہ ریلیکس ہو گئی ہے تو میں نے آہستہ آہستہ لن کو حرکت
دینی شروع کر دی۔ اب اسے درد تو ہو رہی تھی لیکن قابل بردشت تھی۔ میں نے لن کو
حرکت دینے کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کے دانوں کو مسلنا شروع کر دیا۔
اور پھر کچھ دیر بعد دو انگلیوں کو س کی چوت کے اندر باہر بھی کرنا شروع کر دیا جس
سے اسے مزہ آنا لگا اور درد کا احساس کم ہونے لگا۔ اب میرا لن بڑی آسانی سے اس کی
گانڈ کے اندر باہر ہو رہا تھا۔ میں ابھی آہستہ آہستہ ہی لگا رہا۔ پھر میں نے دونوں
طرف سپیڈ تھوڑی سی بڑھا دی۔ لن کی بھی اور انگلیوں کی بھی۔ جگو کی درد اور مزے کی
ملی جلی آوازیں کمرے میں گونجنے لگیں۔ آہ۔ہہ۔۔اوہہ۔۔۔ایہہہ۔۔۔یاہپہ۔۔۔ہہ۔۔۔
ہائے۔۔۔آ۔۔ج۔۔۔تو مار ڈالا،،،پی کے،،،سالے۔کمینے،،، ۔۔۔ میرا جوش اور بڑھنے لگا۔
اب جگو کا درد اور کم ہو چکا تھا۔ 5 منٹ تک کی لگاتار چودائی کے بعد اب مجھے لگ
رہاتھا کہ میں بس چھوٹنے والا ہوں۔ میں نے رفتار اور بڑھا دی۔ میرےا لن ااس کی تنگ
گانڈ میں اب کافی حد تک رواں ہو چکا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد میرے لن ایک جھٹکا کھایا
اور میں نے ساری منی اس کی گانڈ میں گرا دی۔ میں نے جب لن باہر نکالا تو اس کی
گانڈ میں سے خون نکل رہا تھا۔ میں نے جگو کو ویسے ہی اٹھایا اور ہم واش روم میں آ
گئے۔ وہاں میں نے جگو کو پانی والے بڑے ٹب میں ڈالا اور خود بھی ااس میں بیٹھ گیا۔
میں نے جگو کہ مل مل کے نہلایا اور اس نے مجھے۔ اب وہ گانڈ کی تکلیف بھول چکی تھی۔
میں نے اس کی گانڈ کو اچھی طرح صاف کیا اور پھر ہم ننگے باہر آ گئے۔ جگو بولی: اب
تو خوش ہو۔ میں نے کہا بہت۔ پھر جگو کپڑے پہننے لگی۔ میں نے کہا کیا ضرورت ہے۔
یہاں کون سا کوئی اور ہے۔ بس ایسے ہی ٹھیک ہے۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے ۔ پھر ہم ننگے
ہی بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔ پھر س نے کہا اب سونا چاہیے۔ اس نے لیپ ٹاپ چیک کیے۔
کچھ اور ویڈیوز لگائیں اور ہم سو گئے۔ اگلی صبح میں 9 بجے کے قریب اٹھا۔ جگو پہلے
ہی اٹھ چکی تھی۔ ہم نے ناشتہ کیا اور پھر ہم باہر گھومنے چلے گئے۔ آج ہم سب سے
پہلے ایک کھیلوں والی جگہ پر گئے۔ اس کا نام تھا اندھیری سپورٹس کمپلیکس۔ کیا
شاندار عمارت تھی۔ ہر قسم کی کھیلوں کیلئے وہاں انتظامات تھے۔میں ہر چیز کو بڑی
حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ کیا شاندار عمارت تھی۔ پھر اسی طرح ہم نے اور بھی کئی
جگہوں کاوزٹ کیا۔ پھر ہم ایک پارک گئے ۔ کوبلہ ووڈز پارک۔ وہ بھی بہت حسین تھا۔ آج
جگو بہت خوش تھی۔ آج اسے کوئی ٹینشن نہیں تھی۔ سرفراز کے ساتھ اس نے صبح پھر بات
کر لی تھی۔ ہم کوبلہ ووڈز پارک میں تھوڑی دیر بیٹھ کر گپ شپ لگاتے رہے۔ پھر ہم
اقصی بیچ (ساحل) پر گئے۔ وہاں جا کر خوب ہلا گلا کیا۔ ہم نہائے بھی۔ جگو نے بھی
اپنی شرٹ پینٹ اتار دی ۔ نیچے اس نے بلیک کلر کی بکنی ٹائپ برا پینٹی پہن رکھی
تھی۔ ہم ذرا ایک الگ تھلگ جگہ پر تھے ا س لیے کوئی خاص فکر نہیں تھی۔ جگو نہانے
لگی اور میں اسے دیکھنے لگا۔ اس نے مجھے بھی بلایا لیکن مجھے اس پانی سے ڈر لگ رہا
تھا اس لیے میں نہ گیا۔مجھے وہ نہاتی ہوئی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اس کے گورے گورے
جسم پر پانی کے قطرے بہت اچھے لگ رہے تھے اور موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔پھر میں
نے کہا کہ آؤ تھوڑ اور دور چلتے ہیں۔ ہم تھوڑا اور پرے ہو گئے۔ یہاں پر کوئی بھی
نہیں تھا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور چومنے لگا۔ وہ کسمانے لگی اور بولی: کیا کر رہے
ہو کوئی دیکھ لے گا۔ پھر مجھے سے دور ہو گئی۔ میں بولا: جگو پلیز ایک بار یہ برا
اتار دو۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم کیسی لگتی ہو پانی میں۔ اس نے انکار کیا کہ
کوئی دیکھ لے گا۔ پر جب میں نے بار بار اصرار کیا اور کہا کہ : یہ تو بالکل الگ
تھلگ جگہ ہے یہاں کون آئے گا تو مان گئی۔ اس نے برا اتار دی اور پانی میں کھڑی ہو
گئی ۔ واہ کیا نظارہ تھا۔ میں نے فوراً کیمرہ نکالا اور تصویریں بنا لیں ۔ کچھ دیر
بعد جگو آ گئی اور اس نے شرٹ پہن لی اور ہم واپس جانے لگے۔ اب سورج غروب ہونے کے
قریب تھا۔ بہت ہی پیارا نظارہ تھا۔ ہم جلد ہی گھر پہنچ گئے۔ راستے میں ہم نے کھانا
ویسے ہی خرید لیا تھا۔ گھر پہنچتے ہی میں نے جگو کو پکڑ لیا اور اس کے شیریں
ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے ڈھانپ لیا۔ کیونکہ اس کے پانی سے تر ننگے مموں کو دیکھ
کر میری حالت بہت بری ہو چکی تھی۔ میں ساتھ ساتھ اس کے ممے بھی دبا ہا تھا اور
بھینچ رہا تھا۔ وہ کہتی رہی کہ تھوڑی دیر صبر کر جاؤ۔ پر مجھ سے صبر نہیں ہو رہا
تھا۔ میں نے ویسے ہی اپنی پینٹ نیچے کی اور اپنا لن نکال کر جگو کے ہاتھ میں پکڑا
دیا۔اس نے اسے سہلانا شروع کر دیا۔ میں مزے سے کسنگ کرتا رہا اور اس کے ممے دباتا
رہا۔ پھر میں نے اسے اپنے سامنے نیچے بٹھایا اور اپنا لن اس کے منہ میں دے دیا۔
جسے اس نے چوسنا شروع کر دیا۔ پہلے اس نے اس کی کیپ پر زبان پھیری اور پھر اس نے
اس کو قلفی کی طرح چاٹنا شروع کر دیا۔ مجھے مزہ آنے لگا۔ میں نے اس کے سر کو پیچھے
سے پکڑ کر اس کا سر اپنے لن پر آگے پیچھے کرنے لگا۔ ایک طرح سے میں نے اس کے منہ
کی چودائی سٹارٹ کر دی تھی۔ میں اسے 10 منٹ تک ایسے ہی چودتا رہا۔ یہاں تک اب مجھے
لگ رہا تھا کہ میں چھوٹنے والا ہوں۔ جگو کا بھی برا حال تھا۔ پھر اچانک میرے لن نے
جھٹکے لیے اور میں نے لن باہر نکال کر اس کے منہ کے سامنے کر دیا اور اسے سہلانے
لگا۔ اس میں سے منی کی پچکاریاں سی نکلیں جو سیدھی جگو کے منہ میں جا گریں۔ میں نے
تب تک جگو کو ہلنے نہیں دیا جب تک میری منی کا آخری قطرہ تک نہ نکل گیا۔ پھر جیسے
ہی میں نے اسے چھوڑا وہ فوراً واش روم میں بھاگی اور اپنا منہ صاف کر کے آ گئی۔
اور مجھے سے لڑنے لگی کہ یہ کیا بیہودگی تھی۔ تھوڑا صبر نہیں کر سکتے تھے۔ میں اس
کے انداز سے ہی سمجھ گیا کہ یہ فرضی ناراضگی ہے۔ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر پنی
طرف کھینچا اور وہ میری گود میں آ گری۔ میں نے کہا: جگو۔ میری جان جب تم جیسی حسینہ
بھیگے بدن کے ساتھ اپنی چھاتیوں کے درشن کروا دے تو کس کمبخت سے صبر ہوتا ہے۔ وہ
تھوڑا کسمائی اور پھر اٹھ گئی۔ ہم نے کھانا کھایاا ور پھر ہم بیڈ روم میں آ گئے۔
وہ بولی: میں نے سیکس کے حوالے سے ہر پوزیشن اور ہر حوالے سے ویڈیوز لیپ ٹاپس میں
کر دیں ہیں۔ اب میں کچھ اور ویڈیوز کر رہیں ہوں جس سے تمھارے گولے کے لوگوں کو
تھوڑی تہذیب کا سبق ملے گا۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے جیسا تم منا سب سمجھو۔ وہ لیپ ٹاپ
چلا کر بیٹھ گئی۔ اس نے تہذیب و تمدن پر کچھ ڈاکومنٹری فلمیں ڈاؤنلوڈ کرنی شروع
کیں ۔ میں نے اپنے ہاتھ ا س کی رانوں پر رکھ دیے اور انہیں سہلانے لگا۔ پھر میں نے
اس کی شرٹ اوپر کی اور اپنا منہ اس کے ممے سے لگا دیا اور کسی بچے کی طرح چوسنے
لگا۔ بے اختیار اس کی ایک سسکاری سی نکل گئی۔۔۔آہہ۔۔آؤچ ،۔۔کیا کر رہے ہو۔ دیکھ
نہیں رہے میں کام کر رہی ہوں۔ میں نے کہا: کرتی رہو۔ میں کون سا روک رہا ہوں۔ مجھے
بھی اپنا کام کرنے دو۔ میں نے اس کے بازو اوپر کر کے اس کی شرٹ اتار دی۔ اس نے برا
پہنی نہیں تھی۔ میں اس کے دونوں مموں کو باری باری چوسنے لگا۔ وہ ساتھ لیپ ٹاپ پر
کام کرتی رہی ساتھ بار بار اس کی سسکاری نکل جاتی۔ میں ایک طرح سے اس کی گود میں لیٹا
ہوا تھا۔ میرا سر اس کی رانوں پر تھا اور میں بڑے مزے سے اس کے ممے چوس رہا تھا۔
جب کبھی میں اس کے نپلز کاٹتا اس کی آہ نکل جاتی اور وہ بڑے پیار سے میری طرف
دیکھتی۔ خیر کچھ دیر بعد اس نے لیپ ٹاپس پر کام ختم کر لیا۔ اور میری طرف متوگہ
ہوئی۔ میں نے کہا: اب تم میری ایک بات مانو گی۔ اس نے کہا : ہاں بالکل۔ میں نے کہا
: پرسوں میں چلا جاؤں گا۔ تو جب تک میں یہاں ہوں ۔ گھر کے اندر تم کپڑے نہیں پہنو
گی۔ اور میں بھی نہیں۔۔ جگو: کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ ۔۔ وہ بولی:
چلو اس معاملے میں سوچیں گے۔ ابھی تو میری گرمی کا کچھ کرو تم نے خود تو آتے ہی
اپنا پانی نکال لیا اور مجھے ادھورا چھوڑ دیا۔ میں اٹھا اور اسے بیڈ پر گرا کر اس
کی پینٹ بھی اتار دی اور اسے فل ننگا کر کے اسے چومنے لگا۔ اب میں بڑی شدت سے اسے
چوم رہا تھا۔ وہ بڑی بلند سسکاریاں بھر رہی تھی۔ میں نے جگہ جگہ اسے پیا ر سے کاٹا
اور اپنے پیار کے نشان اس کے جسم پر چھوڑتا گیا۔ پھر میں نے اپنے لب اس کی پھدی پر
رکھ دیے۔ اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے اس کے اوپر والے دانے کو مسلنے لگا۔ پھر میں نے
اپنی زبان کی نوک سے اس کی چوت کی کھدائی شروع کر دی۔ جگو اس دوہرے مزے کی تاب نہ لا
سکی اور بے اختیار سسکیاں بھرنے لگی ، تڑپنے لگی، اپنے ہاتھ زور زور سے بیڈ پر
مارنے لگی۔ میں نے اور شدت سے اس کی چوت کی چٹائی شروع کر دی۔ دوسری طرف ہاتھ کے
انگوٹھے اور انگلیوں کے پوروں سے اس کی پھدی کے چھولے کی اچھی ٹھکائی کر رہا تھا۔
جگو کی سسکاریاں اور آہیں خطرناک حد تک بلند ہو چکی تھیں۔ اور پھر اس نے چلانا
شروع کر دیا۔ اپنا ہاتھ میر ے سر پر رکھ کر اور نیچے دبانے لگی۔ حتی کہ میرا ناک
اس کی پھدی کے لبوں سے جا لگا اور میری زباں آخری حد تک اس کی پھدی کے اندر چلی
گئی۔ مجھے اس کی چوت کی بھینی بھینی خوشبو اپنے ناک میں محسوس ہو رہی تھی۔ اور اس
کے ساتھ ہی جگو کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔ لیکن س بار پہلے
کی نسبت بہت زیادہ پانی تھا۔ میں اٹھا اور اپنا چہرہ صاف کیا۔ جگو بھی تک آنکھیں
بند کیے لیٹی اپنی سانسیں درست کر رہی تھی۔ پھر کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور مجھ پر
بوسوں کی بارش کر دی۔ مجھے بیڈ پر گرا کر میرے اوپر چڑھ آئی۔میری شرٹ اتاری ۔ میری
پینٹ اتاری۔میرا انڈر وئیر اتار کے لن کو چوسنے لگی۔ مجھے یہ کھیل کود بہت چھی لگ
رہی تھی۔ پھر اس نے کہا آؤ سکسٹی نائن(69) ٹرائی کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ کیا ہوتا
ہے۔ بولی: میں بتاتی ہوں۔ پھر وہ الٹی ہو گئی۔
یعنی اس نے اپنی گانڈ میرے منہ کی طرف کر دی اور
اپنا منہ میرے قدموں کی طرف اور بولی اب تم میری پھدی چاٹو۔ میں تمھارے لن کو
چوسوں گی۔ میں بہت خوش ہوا۔ میں نے فوراً اس کے چوتڑوں پر ہاتھ رکھے اور اس کی
پھدی کو چوسنے لگا ، زبان سے چاٹنے لگا۔ اُ دھر اس نے بھی میرے لن کو منہ میں لے
کر چوسنا شروع کر دیا۔ اس پوزیشن میں ہم دونوں کو بہت مزہ آ رہا تھا۔ کچھ دیر اسی
طرح کرنے کے بعد وہ اٹھی اور میرے لن پر آ کر بیٹھ کر اوپر نیچے ہونے لگی۔ میں مزے
میں ڈوب گیا۔ اس کے اچھلتے ناچتے ممے میری آنکھوں کے سامنے تھے جنہیں میں نے ہاتھ
بڑھا کر پکڑ لیا اور دبانے لگا۔ اب میں نے کہا: اب میری باری۔ یہ کہ کر میں نے اسے
ویسے ہی گرا کر گھوڑی بنایا اور پیچھے سے اس کی پھدی میں لن ڈال کر ایک جھٹکے سے
گہرائی تک پہنچا دیا اور دھکوں کی نان سٹاپ مشین سٹارٹ کر دی۔ میں لن کو مکمل باہر
نکالتا اور پھر ایک جھٹکے سے اندر ڈال دیتا۔ ہر دھکے پر وہ بلبلا اٹھتی۔ میں نے
ایک ہاتھ سے اس کی گانڈ کو بھی سہلانا شروع کر دیا اور اس کے سوراخ کو انگلی سے
سہلانا شروع کر دیا۔ اب میں نے اس کی چوت میں لگاتار دھکے شروع کر دیے ، یعنی آدھا
لن باہر پھر اندر۔ ساتھ ساتھ میں نے اس کی گانڈ کو بھی انگلی سے چودنا شروع کر
دیا۔ بڑی آسانی سے میری انگلی اندر باہر ہو رہی تھی۔ پھر میں نے لن اس کی چوت سے
نکالا اور اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ایک زوردار جھٹکے سے اندر ڈال دیا۔ اب کی
بار ایک دفعہ تو وہ چلا اٹھی لیکن کچھ دیر بعد ریلیکس ہو گئی۔ آج اسے اتنی درد
نہیں ہو رہی تھی۔ آج وہ گانڈ مروانے کو نجوائے کر رہی تھی۔ جو اس کے چہرے سے بھی
عیاں تھا۔ خیر میں نے اس کی گانڈ کی خوب ٹھکائی کی اور جب مجھے لگا کہ میں اب
چھوٹنے والا ہوں تو میں نے اپنا لن اس کی چوت میں ڈال کر چودائی کرنے لگا۔ ابھی یک
دو جھٹکے ہی لگائے تھے کہ جگو جھڑ گئی اور اس کی چوت کے پانی نے میرے لن کو بھگو
دیا۔ میں نے اس کی چوت کی ٹھکائی جاری رکھی۔ جگو اب نڈھال ہو چکی تھی۔ پھر میرے لن
کو بھی اس کی چوت پر رحم آ گیا اور 2، 3 شدید دھکوں کے بعد میں نے بھی اپنا پانی
اس کی پھدی میں چھوڑ دیا۔ ہم وہیں ڈھیر ہو گئے ور پنی سانسیں درست کرتے رہے۔ کچھ
دیر بعد ہم اٹھے اور باتھ روم میں آ کر نہانے لگے۔ نہانے کے دوران میرا لن پھر تن
گیا اور میں نے وہیں ایک بار پھر جگو کی پھدی کی ٹھکائی کر دی۔ ہم نہا دھو کر باہر
آئے اور ننگے ہی سو گئے۔ اگلی صبح میں اٹھا تو دیکھا کہ جگو ننگی ہی کچن میں ناشتہ
بنا رہی تھی۔ میں ویسے ہی آگے بڑھا ور پیچھے سے جا کر اسے جپھی ڈال لی۔ " اوہ
تم ۔۔ مجھے تو ڈرا ہی دیا۔" میں بولا: مجھے خوشی ہے کہ تم نے میرا بات کا
خیال رکھا ۔ پھر اسی طرح ہم نے ناشتہ کیا۔ ساتھ ہلکی پھلکی شرارتیں بھی کر لیتے۔
پھر ہم ٹی وی دیکھنے لگے۔ میں نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس کی ننگی گانڈ میرے
ننگے لن پر آ گئی۔ مجھے مزہ آنے لگا۔ کچھ دیر ہم اسی طرح ٹی وی دیکھتے رہے اور
ساتھ چھیڑ خانی کرتے رہے۔ وہ بولی: ویسے پی کے ایک بات ہے۔ میں بولا" کیا؟ اس
نے کہا: تم بہت بڑے ٹھرکی بن گئے ہو۔ ، میں ہنس دیا۔ میں نے کہا: ہاں بس تم نے بنا
دیا۔ اور میں نے اسے پکڑ لیا ور ہم نے پھر چودئی سٹارٹ کر دی۔ وہ سارا دن سی طرح
گزر گیا۔ ہم ہنستے مسکراتے رہے۔ مزے کرتے رہے۔ جب دل کرتا چودائی سٹارٹ کر لیتے۔
ساتھ ساتھ ویڈیوز کی ڈاؤنلوڈنگ بھی جاری تھی۔ٍ شام تک ہم کوئی چار دفعہ تو چودائی
کر چکے تھے۔ رات کو ہم نے ریسٹ کیا۔ ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر سو گئے۔ اگلی صبح ہم
جلدی اٹھے۔ جلدی سے یاری کی۔ جب جانے لگے تو میں نے پھر اس کو پکڑ لیا۔ وہ بولی:
کیا کر رہے ہو ہمیں دیر ہو جائے گی۔ ہمیں کافی دور جانا ہے۔ میں نے کہا : بس ایک
آخری بار ۔ وہ مان گئی اور ہم نے پھر ایک بھرپور چودائی کیا اور سٹیشن پہنچ گئے۔
ٹرین چل پڑی۔ سٹیشن بدلتے رہے۔ ہمارا سٹاپ بھی آ گیا۔ ہمارے ساتھ ایک بڑا سا بیگ
بھی تھا جس میں لیپ ٹاپس اور ان کی بیٹریاں تھیں۔ اپنا لاکٹ میں نے اپنے گلے میں
ڈال رکھا تھا۔ ہم نے وہاں سے ایک بس پکڑی اور ایک بڑے سارے میدان میں پہنچ گئے
جہاں ہر طرف ریت ہی ریت تھی۔ اب شام ہونے والی تھی۔ جب بس نظروں سے اوجھل ہو گئی
تو میں نے جگو کو الوداعی کس دی اور تھوڑا آگے جا کر اپنا لاکٹ نکال کر اپنے گولے
کے لوگوں کو سگنل دینے لگا۔ میرا بیگ میرے ہاتھ میں تھا۔ میں دور جگو کو ہاتھ
ہلاتے ہوئے آسنی سے دیکھ سکتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میرا دل
بھی بہت اداس تھا۔ خیر کچھ دیر بعد میرے گولے کا سپس شپ وہاں اترا۔ میں نے جگو کی
طرف دیکھ کر ہاتھ ہلائے اور سپیس شپ میں بیٹھ کر اپنے گولے کی طرف بیٹھ کر روانہ
ہوا۔ سپیس شپ میں میرے گولے کے دو لوگ تھے بس جو ننگے ہی تھے۔ دونوں نے مجھے گلے
لگا لیا۔ میرے جسم پر کپڑے دیکھ کر وہ بہت حیران ہو رہے۔ انہوں نے مجھے چھو کر
میرے خیالات ٹرنسفر کرنا چاہے پر میں نے منع کر دیا اور خود اُن کے بازو پکڑ کر
اردو ہندی ، اور انگلش زبان اُن کے اندر منتقل کر دی۔ ( انگریزی زبان بھی میں
پرتھوی پر سیکھ چکا تھا۔ جگو نے ایک انگریز سے میری ملاقات کروائی تھی جس سے ایک
لمبے مصافے کے دوران میں نے نگریزی زبان سیکھ لی۔) پھر میں نے کہا: کسی کے خیا لات
پڑھنا تہذیب کے خلاف ہے۔ اس خوبی کو ہم صرف خا ص اوقات میں استعمال کیا کریں گے۔ ۔
اور پھر میں نے انہیں کہا کہ اپنی کہانی میں انہیں اپنے گولے پر پہنچ کر ہی بتاؤں
گا۔ جلدہی ہم اپنے گولے پر پہنچ گئے۔ سپیس شپ ہمیں ایک بڑے میدان میں اتار کر فضا میں
بلند ہو گیا۔ لوگوں کو میرے آنے کی اطلاع مل چکی تھی اس لیے سب میدان کے ارد گرد
جمع تھے۔ چار بڑے گرو جو ہمارے گولے کے رکھوالے تھے وہ گے بڑھے اور مجھے گلے سے
لگا لیا۔ انہیں نے بھی میرے خیالات پڑھنے چاہے پر میں نے انہیں منع کر دیا۔ پھر
میں نے اُن کا بازو چھو کر انہیں سمجھایا تمام افراد کو ایک ایک کر کے میرے پاس
بھیجیں۔ میں اُنہیں کچھ خاص سکھانا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے میں نے گرووں کو زبانیں
سکھائیں۔ پھر ایک اایک کر کے لوگ آتے گئے میں انہیں زبانیں سکھاتا گیا۔ ساتھ ساتھ
بولنے کی تمیز،سننے کا طریقہ وغیرہ۔ میں جنہیں سکھا چکا تھا وہ آگے دوسروں کو سکھا
رہے تھے یہاں تک کہ جلد ہی سب کو سمجھ آ گئی۔ پھر میں سٹیج پر چڑھا جو کہ بڑے بڑے
پتھروں کو جوڑ کر بنایا گیا تھا۔ میں نے انہیں سارے واقعات بتائے۔ سیکس کے حوالے
سے بھی سب بتایا۔ وہ ہر چیز بڑی حیرانی سے سن رہے تھے پر ابھی انہیں مکمل سمجھ
نہیں آ رہی تھی۔ پر ابھی میں نے اپنی کہانی ختم ہی کی تھی کہ گورووں نے ہمارے پہرے
داروں کو اشارہ کیا کہ پکڑ لو اس کمینے کو۔ اور جیل میں ڈال دو۔ اس پر بھی اُس
گولے کا اثر ہو گیا ہے۔ سالا ہمیں سکھاتا ہے کہ عورت مرد کا رشتہ کیا ہے۔ اور پھر
اُنہوں نے مجھے جیل میں ڈال دیا۔ یہ شکر تھا کہ انہوں نے میرے سا مان کو بے ضرر
سمجھتے ہوئے اُسے بھی جیل میں میرے پاس رکھ دیا۔ میرا باپ مجھ سے ملنے آیا۔ میں نے
اُسے بھی ساری بات سمجھائی۔ پھر میں نے اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے سمجھایا کہ یہ
گرو ہمارے گولے کی بھلائی نہیں چاہتے۔ بالکل اسی طرح کہ لوگ میں نے پرتھوی پر بھی
دیکھے تھے جو وہاں منسٹر اور سیاستدان کہلاتے تھے۔ میں نے اُسے خیالات کے ذریعے
سمجھایا کہ میں اس ملک میں کتنا بڑا انقلاب لا سکتا ہوں ۔ میں نے اُسے کہا کہ کسی
طرح میرے خاص یار میان کو میرے پاس بھیج دے۔ اُس نے وعدہ کیا ور چلا گیا۔ میں جیل
میں دھیان لگا کر بیٹھ گیا اور گرووں کی آوازیں سننے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ
زبان کی مدد سے گفتگو کریں گے کیونکہ یہ اُن کیلئے نئی چیز تھی۔ اور وہی ہوا جیسے
ہی میں نے دھیان لگایا مجھے آوازیں سنائی دینے لگیں۔ بڑا گرو کہ رہا تھا : یہ سالا
تنبورا (میرے گولے پر میرا نام) تو وہاں سے بہت کچھ سیکھ آیا ہے۔ اسے جلدی مروانا
ہو گا ورنا ہماری بادشاہت تو ختم ہو جائے گی۔ بڑا گرو بولا: ااور یہ بھی ہے کہ ہم
نت نئی پھدیوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ میرے دماغ میں سنسناہٹ ہونے لگی۔۔۔ مجھے
اپنے کانوں میں یقین نہیں آیا۔ وہ لوگ پہلے سے ہی جانتے تھے کہ لن پھدی کا کیا
تعلق ہے او ر عورتوں سے مردوں کا کیا تعلق ہے۔ میں اور توجہ سے سننے لگا۔ چھوٹا
گرو بولا: عورتوں کو بھی شک ہو جائے گا۔ پہلے تو ہم اُن کو مشروبِ بے ہوشی پلا کر
نیم بے ہوشی میں کر لیا کرتے تھے۔ کئی عورتوں نے تو کہا بھی کہ اُنہیں یوں محسوس
ہوتا ہے جیسے اُن کی پیشاب والی جگہ پر کوئی چیز اندر باہر ہو رہی ہو۔ ہم اُنہیں
یہ کہ کر چپ کروا دیتے تھے کہ یہ خواب ہے۔ لیکن اب اگر اس تنبورے نے اُنہیں سب بتا
دیا تو پھر اُنہیں سب پتا چل جائے گا۔ میں جیسے جیسے سنتا جا رہا تھا میرا غصہ اور
حیرانگی بڑھتی جا رہی تھی۔ پھر میرے ذہن میں ایک منصوبہ آ گیا۔ میں اپنے دوست کا
انتظار کرنے لگا۔ یہ ایک تاریک غار تھا جس میں میں قید تھا۔ غار کے باہر دو آدمی
پہرے دیتے تھے۔ پھر میرا دوست آ گیا۔ میں اُس سے دکھاوے کیلئے باتیں کرتا رہا ور
پھر اُسے بھی خیالات کے ذریعے سمجھایا کہ اُسے کیا کرنا ہے۔ ہر سات دن بعد ایک
اجتماع ہوتا تھا۔ ہمارے گولے کی کل آبادی 10، سے 15 ہزار تک تھی۔ ہمارے گولے پر
ایک بابا تھا جسے سب مانتے تھے۔ اُس کا نام باتو بابا تھا۔ میں نے میان سے کہا کہ
اس اجتماع میں کسی طرح وہ آکاش بوٹی ک رس گرووں کے مشروب میں ملوا دے اور پھر باتو
بابا کو اُن کے خیالات پڑھوا دے۔ اس طرح باتو بابا جب لوگوں کے سامنے سب کچا چٹھا
کھولیں گے تو سب کو یقین آئے گا۔ پھر ایسے ہی ہوا۔ جب زمین پر میں اپنی فتح کے
جھنڈے گاڑ چکا تھا تو یہ تو پھر بھی میرا اپنا گولہ تھا۔ بہرحال 2 دن بعد اجتماع
ہوا۔ میرے دوست نے مشروب میں اکش بوٹی ملا کر گرووں کو پیش کی جسے وہ مزے سے پی کر
ہال میں ہی بے ہوش ہو گئے۔ باتو بابا علاج کی غرض سے اگے بڑھے۔ اُنہیں سب کچھ پہلے
سے ہی سمجھایا جا چکا تھا۔ انہوں نے بڑے گرو کا ہاتھ تھاما اور تھوڑا حیران ہوئے ۔
پھر بولے: لوگو! تمھارے گرو کے خیالا ت کچھ اور ہی کہ رہے ہیں۔ میری بات غور سے
سنو۔ تمھارے گرو شروع سے اس گولے پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس گولے
پر کوئی ترقی ہو۔ انہوں نے تنبورا (پی کے) کو بھی اسی لیے پرتھوی پر بھیجا تھا کیونکہ
اُس نے ایک دو جگہ اُن سے سوالات کیے تھے۔ جو بات پی کے کو پرتھوی سے جا کر معلوم
ہوئی یہ ان کو پہلے سے معلوم تھی۔ یہ جانتے تھے کہ مرد عورت کا کیا تعلق ہے۔ انہوں
نے اب تک بے شمار خواتین کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کیا ہے۔ یہ ایک خاص مشروب پلا
کر اُنہیں اپنے وش میں کر لیتے تھے ور نیم بے ہوشی کی حالت میں لے آتے تھے۔
تنبورے سے پہلے یہ ایک آدمی کو پرتھوی پر بھیج چکے
تھے جو وہاں مارا گیا لیکن مرنے سے پہلے اُس نے ان کو یہ ساری باتیں بتا دی تھیں
جو انہوں نے ہم سے چھپائیں۔ یہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ اگر کسی کو میری بات پر یقین
نہیں تو آ کر ان کے خیالات پڑ ھ سکتا ہے۔ اب بول اٹھے : ہمیں آپ پر وشواس ہے باتو
بابا۔ اور پھر مجھے جیل سے نکالا گیا۔ میں جیل میں سے ہی سب آوازیں سن رہا تھا۔
مجھے سٹیج پر لے جای گیا۔ سب سے پہلے باتو بابا نے میرا ہاتھ تھام اور کہا : آج سے
تنبورا ہمارے گولے کا گرواور نگہبان ہے۔ میں اپنی وفاداری کا اعلان کرتا ہوں۔ سب
بولے ہمیں منظور ہے۔ ہمیں منظور ہے۔۔ پھر میں نے سب کو خامش کروایا اور خود بولنے
لگا: دوستو! اور میرے گولے کے لوگو۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔
میرا ارادہ تو یہ نہ تھا لیکن اب وقت کی ضرورت ہے۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس
گولے کو بہتر سے بہترین بنا دوں گا۔ پھر میں نے کہا کہ کل سب لوگ صبح صبح بڑے
میدان میں پہنچ جائیں۔ پھر میں نے گرووں کو قید کرنے کا حکم دیا اور خود اپنے محل
کی طرف چل پڑا جو پہلے گرووں کے قبضے میں تھا پر اب میرا تھا۔ میرا دل تو کر رہا
تھا کہ کسی لڑکی کو پکڑ کر چود دوں پر میں نے خود پر کنٹرول کیا۔ اگلے دن میں نے
سٹیج پر لیپ ٹاپ لگائے۔ پہلے اُن میں تہذیب و تمدن پر مبنی ڈاکومنٹری فلمیں لگائی۔
ساتھ ساتھ میں بھی اُنہیں سمجھا رہا تھا کہ ماں بیٹے ، اور بہن بھائی کا رشتہ کیا
ہوتا ہے اور اُن کو بھی سمجھ آ رہی تھی۔ یہ دن اسی طرح گزرا۔ لوگوں میں ماں بیتے
اور بہن بھائی کی کشش اور پیار پیدا ہو چکا تھا۔ شام کو جب میں محل میں تھا تو
مجھے پہرے دار نے اطلاع دی کہ دو خواتین آئی ہیں۔ میں نے جب اندر بلایا تو اُن میں
سے ایک ادھیڑ عمر تھی جب کہ ایک مجھ سے تھوڑی چھوٹی تھی۔ وہ عورت مجھے دیکھ کر رو
پڑی۔ بولی: میرے بچے آج مجھے احساس ہوا کہ بیٹے کیا ہوتے ہیں۔ میں تمھاری ماں ہوں۔
میں فوراً اُن کے گلے لگ گیا۔ میری آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ
یہ بدنصیب تمھاری بہن ہے۔ میں نے اُسے بھی گلے لگا لیا اور اُس کی پیشانی چومی۔ وہ
بھی اپنی آنکھوں میں آنسو لیے مجھ سے ااپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی۔ خیر میرے
باپ تو پہلے ہی محل میں میرے ساتھ رہ رہے تھے اب یہ بھی آ گئے تو ہمارا خاندان
پورا ہو گیا۔ اب اگلے دن میں نے کہا: اب وقت آ گیا ہے کہ تمھیں اس تعلق کا بتایا
جائے جس کی وجہ سے نسلیں آگے بڑھتی ہیں۔ جو تعلق فطری ہے۔ پھر میں نے ایک ویڈیو
لگائی جس میں واضح طور پر سیکس کا نظارہ تھا۔ میں ساتھ ساتھ بولتا بھی جا رہا تھا:
اب لڑکیوں کو پنی پیشاب والی جگہ اور لڑکوں اور مردوں کو اپنی پیشاب والی جگہ پر کچھ
نہ کچھ ہو رہا ہو گا۔ ایسا ہے کہ نہیں۔ سب ویڈیو دیکھتے ہوئے بولے : ہاں ہاں ایسا
ہی ہے۔ میں نے کہا: آگے آگے دیکھتے جاؤ ۔ پھر جب میں نے ایک اور ویڈیو دکھائی تو
سب بے حال ہو گئے۔ میں نے کہا: ابھی کسی نے کچھ نہیں کرنا۔ کل تک سب کے پاس وقت
ہے۔ سب اپنی اپنی پسند کی عورتوں کو چن لیں اور کل محل کے سامنے آ جائیں۔ خبردار
اگر کسی نے کسی کے ساتھ کچھ کیا تو۔ سب مجھ سے بہت ڈرتے تھے اس لیے چپ چاپ چلے
گئے۔ عورتوں کی رہائش الگ جگہ تھی اور مردوں کی الگ جگہ۔ کل جب میں محل سے نکلا تو
دیکھا کہ محل کے سامنے لمبی قطاریں لگی ہیں۔ لوگ جوڑوں کی شکل میں تھے۔ میں نے ایک
آدمی کو لکھنے کا کام سونپا اور کہا جو جوڑا پورا ہے وہ یہاں آتا جائے اپنا نام
لکھوائے اور ایک طرف ہو جائے۔ اسی طرح چلتا رہا۔ دوپہر تک جا کر یہ سب کام مکمل
ہوا۔ لیکن آخر کار کچھ خواتین بچ گئیں۔ جن میں سے کچھ بوڑھی تھیں اور کچھ جوان بھی
تھیں۔ اس طرح کچھ بوڑھے مرد بھی بچتے تھے۔ جب میں نے ان سے وجہ پوچھی تو بوڑھے مرد
وں اور عورتوں نے کہا کہ انہیں کوئی پسند ہی نہیں کرتا۔ میں نے خود اُن کا ہاتھ
پکڑ کر ملاتا گیا ۔ میرے فیصلے کو سب نے مانا۔ اور اس طرح بوڑھوں کا مسلہ بھی حل
ہو گیا۔ اب 10، 12 نوجوان لڑکیاں بچتی تھیں۔ میں نے اُن
سے پوچھا کہ تمھارا کیا مسلہ ہے۔ وہ بولیں: کہ گرو جی ہمیں آپ پسند ہیں ۔ ہم آپ کے
ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ میں حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ میں نے مجمعے میں اعلان بھی
کیا کہ کسی کو اعتراض تو نہیں۔ سب بولے : ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ پھر میں نے
اُنہیں ایک اور فلم دکھائی جس میں میاں بیوی کا تعلق ، چدائی ، اور ایک دوسرے
کیلئے خلوص دکھایا گیا تھا۔ پھر میں نے کہا کہ اب یہ تمھاری بیویاں ہیں۔ ان کی ذمہ
داری تم پر ہے اور خبر دار مجھے کوئی شکایت نہ ملے۔ اب میں نے پھر سیکس کی ویڈیو
لگائی اور کہا کہ سب پوزیشنز بنا لیں اور اسے دیکھ کر یہیں ایک دفعہ کریں۔ سب شروع
ہو گئے۔ میں نے بھی ایک لڑکی کو پکڑ لیا اور اُس سے سیکس کیا۔ سب کو سمجھ تو آ ہی
گیا تھا۔ اب سب نے ٹرائی بھی کر لیا۔ سب مزے سے بے حال تھے۔ میں نے سیکس کے بعد
پوچھا : ہاں بھئی میرے گولو کے لوگو ! مزہ آیا۔ سب بولے۔ گرو جی تسی مہان ہو۔ بہت
مزہ آیا۔ پھر میں نے اُنہیں کہا کہ کل سے سب اپنے اعضائے مخصوصہ پتوں سے ڈھانپیں
گے وار صرف گھر کے اندر ہی سیکس کیا کریں گے۔ ہاں ہر ہفتہ اسی جگہ اجتماع ہوا کرے
گا جس میں ایک ویڈیو دکھائی جائے گی جب تک بیٹریاں چلتی رہیں۔ سب بولے: جو حکم گرو
جی۔ اور یوں میرے گولے کے لوگ سیکس جیسے مزے دار چیز سے آشنا ہوئے۔ پھر میں بھی
اپنی بیویوں کو لے کر کمرے میں آ گیا۔ میری ماں میرے باپ کے ساتھ ایک الگ کمرے میں
رہ رہی تھی۔ میری بہن میرے دوست کی بیوی بن کے اُس کے گھر جا چکی تھی۔ میں مطمئن
تھا۔ دس دس بیویاں میرا بہت خیال رکھتیں تھیں۔ میں خوش تھا۔ بس کبھی کبھار جگو کی
یاد آ جاتی تھی۔ سوچتا ہوں کہ ایک دفعہ پھر پرتھوی کا چکر لگا آؤں۔ میں چاہتا تھا
کہ وہاں سے کئی اور باتیں بھی سیکھ آؤں۔ جیسے کپڑے بنانا۔ گھر بنانا۔ ابھی تک ہم
پتھروں کے گھروں میں رہتے تھے ۔ صرف میرے پاس ہی کپڑے تھے۔ باقی سب لوگ پتوں ور
جانوروں کی کھالوں سے گزارہ کرتے تھے۔ میں اپنی بیویوں کا بہت خیال رکھتا تھا۔ میں
نے دو دو کے گروپ بنا دیے تھے۔ ہر رات دو کے ساتھ۔ ہفتے میں پانچ دن اسی طرح
گزارتا اور چھٹے دن میں کسی کے پاس نہیں جاتا تھا۔ اسی لیے سب خوش رہتی تھیں۔ گرو
ابھی تک قید میں تھے۔ اُنہوں نے توبہ کر لی تھی اور سدھر جانے کا وعدہ کیا تھا اس
لیے اُنہیں بھی چھوڑ دیا گیا۔ غرض ہر طرف امن سکون تھا۔ رکھتے ہیں جو اوروں کیلئے
پیار کا جذبہ وہ لوگ کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے دوسری طرف جگو پی کے کو جاتا ہوا
دیکھ رہی تھی۔ وہ بہت اداس تھی۔ وہ اجنبی پردیسی اچانک آیا اس کی زندگی میں خوشیاں
ہی خوشیاں بکھیرتا واپس چلا گیا۔پھر کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور وپس چل دی۔ طویل سفر
کے بعد وہ واپس گھر پہنچ گئی۔ اگلے دن وہ اپنے آفس گئی اور تپسوی کے حوالے سے جت
گئی۔ آخر کار اس نے دو دن کے اندر ہی تپسوی کو بے نقاب کر دیا۔ اس کو وہ ساری
ویڈیوز مل گئیں جن سے تپسوی امراء و حکم کو بلیک میل کیا کرتا تھا۔ اس میں سے ایک
ویڈیو میں تو ممبئی کے ایس پی صاحب بھی تھے۔ جگو نے اسی کو تپسوی کے خلاف قائل
کیا۔ تپسوی کے خلاف پہلے تو ویڈیوز چلائیں گئیں ٹی وی چینلز پر۔ پھر جب عوام کو اس
کے ننگے کارناموں کا علم ہوا تو سب اس کے خلاف سڑکوں سے نکل آئے۔ اور پھر اسی
دوران ایک ٹیپ بھی برامد ہو گیا جس میں تپسوی اپنے کسے چیلے کہ رہا تھا کہ آج فلاں
لڑکی کو لے آؤ اور فلاں سے مجھے مزہ نہیں آیا۔ اور پتا نہیں آج کل کوئی کنواری
لڑکی کیوں نہیں آشرم میں آتی۔ اور پھر یہی نہیں کچھ اور ثبوتوں ملے جن سے یہ بھی
پتا چلتا تھا کہ ہندو مسلم فسادات کا بانی بھی یہی شخص تھا۔ اس نے ہی چار معصوم
ہندو بچوں کا قتل کروا کر الزام مسلمانوں پر ڈال دیا جس سے بہت بڑے دنگے ہوئے وار
ہزاروں ہند مسلمان مارے گئے۔بس پھر کیا تھا اس نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایس
پی صاحب نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ریپ، فراڈ، لوگوں سے دھوکہ دہی، نقصِ
امن اور قتل کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ تنے واضح ثبوتوں کے باعث اُسے تا حیات قیدِ
با مشقت اور 50 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ جگو اُس دن بہت خوش تھی ۔ اُس سے
اگلے دن سرفراز نے آنا تھا۔ پھر وہ اپنا موبائل دیکھ رہی تھی کہ اُسے اچانک ایک
نئی ویڈیو نظر آئی جو اس نے نہیں بنائی۔ اُس نے وہ کھولی تو اُسے پی کے نظر آیا۔
اور پھر جیسے جیسے ویڈیو آگے بڑھتی گئی ُس کی حیرت بڑھتی گئی۔ آخر جیسے ہی ویڈیو
ختم ہوئی اُس نے جا کر وہ الماری چیک کی تو وہاں ہزار ہزار کے نوٹوں کی گڈیا موجود
تھیں۔ پی کے جانے کے بعد بھی اُسے بہت کچھ دے گیا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ
گئے۔ اُس نے وہ رقم گنی تو وہ پورے پانچ لاکھ تھی۔ اُس نے وہ اپنے بینک اکاؤنٹ میں
جمع کروا دی۔ اگلے دن سرفراز آ گیا۔ دونوں بڑی گرم جوشی سے ملے۔ جگو اگلے دن اُسے
لے کر اپنا پاپا کے پاس گئی۔ دونوں نے اُن سے معافی مانگی۔ تپسوی کے کالے کرتوتوں
کا سن کر اُس کے پاپا بھی بدل چکے تھے۔ پھر دونوں نے والدین کی نگرانی میں شادی
کی۔ سرفراز کے ماں باپ تو تھے نہیں۔ بس ایک بڑی بہن تھی جس کو اُس نے شادی پر بلوا
لیا تھا۔ شادی کے بعد سرفراز انڈیا ہی سیٹ ہو گیا اور اپنا اچھوٹا سا بزنس شروع کر
دیا۔ جگو کی پروموشن ہو گئی تھی اُسی تپسوی والے کام کی وجہ سے۔ دونوں ہنسی خوشی
زندگی گزارنے لگے لیکن پی کے کو اکثر یاد کرتے رہتے تھے۔ سرفرا ز کو جگو نے سب کچھ
بتا دیا تھا پی کے بارے ۔ سوائے اپنے اور اُس کے سیکس کے۔ بہرحال دونوں ہنسی خوشی
زندگی گزارنے لگے۔ بن کچھ کہے ،بن کچھ سنے ہاتھوں میں ہاتھ لیے چار قدم بس چار قدم
، چل دو نہ ساتھ میرے
ختم شُد
most romantic and bold urdu novels list
urdu bold novels and short stories
urdu bold novels after marriage
No comments:
Post a Comment